بریلوی ترجمہ قرآن کا علمی تجزیہ’ پر ایک تنقیدی نظر
‘ بریلوی ترجمہ قرآن کا علمی تجزیہ’ پر ایک تنقیدی نظر
تاج الشریعہ حضرت علامہ شاہ محمد اختررضاخان قادری ازہری
‘‘نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم واٰلہ وصحبہ اجمعین’’سیدنااعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے ترجمہ قرآن مسمی بہ ‘‘کنزالایمان’’پر مولوی اخلاق حسین قاسمی کا مضمون‘‘بریلوی ترجمہ قرآن کا علمی تجزیہ’’اخبار‘‘الجمیعہ’’میں قسط وار چھپ رہا ہے، اس مضمون کی یہ تیسری قسط ہے، جس میں معترض صاحب نے حسب دستور اپنے مبلغ علم کے مطابق سیدنااعلیٰ حضرت پر اعتراض کامنہ کھولاہے۔ سیدنااعلیٰ حضرت نے آیت کریمہ‘‘وللمطلقٰت متاع بالمعروف الآیہ’’کا ترجمہ یوں کیا ہے‘‘اور طلاق والیوں کے لئے بھی مناسب نان و نفقہ ہے، یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر’’اس ترجمہ سے مضمون نگارصاحب کو شکایت یہ ہے کہ یہ ترجمہ اس عورت کا(جسے خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق دے دی گئی اور اس کا مہر مقرر نہ تھا) کا حکم انہیں بتارہاہے کہ بقول ان کے‘‘آیت کے عموم کوایک صورت میں خاص کرکے آیت کی حقیقی روح کو بے اثرکردیاہے’’مضمون نگارصاحب نے اس آیت کے تحت غالباً تفسیرمدارک کاارشاد نہ دیکھا،
اب ہم سے سنیں۔وہ اسی آیت کے تحت فرماتے ہیں(متاع کی تفسیر میں) ‘‘ای نفقۃ العدۃ’’یعنی عدت کا نفقہ۔ اب مضمون نگارصاحب بتائیں کہ یہ فقرہ سیدنااعلیٰ حضرت ہی کے لئے خاص رکھیں گے یا صاحب مدارک کے اوپر بھی یہی فقرہ جڑیں گے ‘‘آیت کےعموم کو ایک صورت میں خاص کرکے آیت کی حقیقی روح کو بے اثر کردیاہے’’ اگر ان پربھی یہی اعتراض فرمادیں تو یہ جناب کا بڑاعلمی کمال ہوگا، جس کی بڑی داددنیائے علم میں جناب کو ملےگی۔ اور جناب نادرروزگارہوں گے بلکہ اگلوں میں بھی جناب بے مثال ٹھہریں گے کہ ایساکارنامہ انجام دیا جس کی جناب کے اکابرین کو ،نہ کسی جید عالم متقدم کو ہمت ہوئی۔ اور وہ یہ کہ جناب نے صاحب مدارک علیہ الرحمہ کی خامی ظاہر کردی جو کسی کو نظر نہ آئی۔ اور اگرانہیں معاف کردیں تو کیوں؟جب کہ اس جرم میں وہ سیدنا اعلیٰ حضرت کے سلف و پیش رو ہیں، بلکہ آپ کے طورپر ان کا جرم زائد ہے کہ انہوں نے نفقہ العدہ کہہ کر خصوص کی تصریح کردی اور صاف بتادیا کہ آیت کریمہ خاص عدت والیوں کے لئے ہے کہ متاع سے مرادعورت کا نان و نفقہ ہے۔ نیز اسی مدارک میں انہوں نے اسی محل پر تصریح فرمائی کہ اگر متاع سے متعہ مراد ہو تو بھی مطلقات سے مرادوہ عورت نہ ہوگی جسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی۔ اور اس کا مہرکچھ نہ بندھاتھا بلکہ وہی عدت والیاں مرادہوں گی اور ان کے لئے متعہ کا حکم استحبابی ہے۔‘‘وھذا نصہ وان ارید بہا لمتعہ فالمراد غیر المطلقہ المذکورہ و ھی علیٰ سبیل الند ب’’دیکھئےمتاع سے نفقہ عدت یا متعہ مراد بتا کر کیسی صاف تصریح کردی کہ آیت عدت والیوں کے حق میں ہے، اس مطلقہ عورت کے حق میں نہیں جو ‘‘متعد ھن’’الآیہ میں مذکور ہوئی۔ اس کے برعکس سیدنااعلیٰ حضرت نے نہ تو عدت کی قید لگائی نہ مطلقہ مذکورہ کے مستثنیٰ ہونے کی تصریح فرمائی، اب تو آپ کے طور پر آیت کے عموم کو خاص کرنے کا جرم صرف اور صرف صاحب مدارک علیہ الرحمہ نے کیا۔ پھر سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر ہی غصہ کیوں؟ کہئے اس کی وجہ بے جاتعصب کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ولاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم’’۔
مضمون نگارصاحب!سیدنااعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا ترجمہ تو جناب نے تعصب کی عینک چڑھا کر دیکھا مگراس مضمون میں جناب نے جو شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ تحریر کیا ہے، جو یہ ہے ‘‘خرچ دینا موافق دستورکے’’اس میں بھی کچھ غورکیاکہ نہیں،قطعاًغور نہ کیا، ورنہ یہ ترجمہ یہاں نقل نہ کرتے، یاسرے سے سیدنااعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے ترجمہ پر اعتراض نہ کرتے، اور یہ اس لئے کہ شاہ عبدالقادر نے ‘‘خرچ دینا’’فرمایااور اعلیٰ حضرت نے ‘‘مناسب نان و نفقہ’’کیوں مضمون نگار صاحب! نان و نفقہ، خرچ ہی کا دوسرانام اور اس کا مصداق ہے یا کچھ اور۔ اور جب خرچ نان و نفقہ دوجداگانہ چیزیں نہیں۔ تو پھر جواعتراض اعلیٰ حضرت پر کیا وہی شاہ عبدالقادر علیہ الرحمہ پر کیوں نہیں؟ اور اعلیٰ حضرت پر اعتراض کے محل میں ان کا ترجمہ کیوں پیش کررہے ہیں، آخردونوں ترجموں میں کیا فرق ہے؟ مگر یہ ک تعصب نے بصروبصیرت کو ایساڈھک لیا ہےکہ اپنا لکھادیکھ رہے ہیں اور نہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ والعیاذ باللہ لعظیم’’۔
مضمون نگارصاح! آپ نے ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ کچھ سمجھ کر ہی نقل کیا یایہاں بھی وہی مثل ہے کہ ‘‘نقل راچہ عقل’’ اگر آپ نے بے سوچے سمجھے نقل کیا ہے تو پھر سے ترجمہ دیکھ لیجئے جسےآپ نے ہی نقل کیا ہے جو یہ ہے‘‘کپڑے کے جوڑے وغیرہ سے کچھ سلوک کرنا’’ اب خوب دیکھ کر بغور سمجھ کر بولئے کہ یہ کپڑے کے جوڑے وغیرہ سے کیامراد ہے؟ یہی نان و نفقہ یابعبارت شاہ عبدالقادر علیہ الرحمہ ‘‘خرچ دینا’’ یا کچھ اور یا متعہ، یا نان و نفقہ دونوں۔ اور بہر تقدیر آیت کریمہ عدت والیوں کے ساتھ خاص ہوئی کہ نہیں۔ اور اگر نان نفقہ مراد نہیں ہے توڈپٹی صاحب کے ترجمہ میں ‘‘وغیرہ’’ کس بلاکانام ہےکہئے‘‘وغیرہ’’ کپڑے کے جوڑے سے مل کر بے شک نان و نفقہ کا معنی دے رہاہے۔ اب اس ترجمہ کا بھی حاصل وہی ہوا جوترجمہ امام احمد رضاعلیہ الرحمہ کا ہے۔ تو بول چلئے کہ جو الزام جناب نے اعلیٰ حضرت کو دیا ڈپٹی نذیراحمدکے نام وہی الزام آیا کہ نہیں۔ آیا اور ضرور آیا پھر شاہ عبدالقادر صاحب اور نذیراحمد کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم’’۔
مجھ توقع ہے کہ اس جگہ مضمون نگار صاحب ضروریہ کہیں گے کہ ڈپٹی نذیر احمد کے بقول ‘‘کپڑے کے جوڑے’’سے متعہ ثابت ہوتاہے اور ‘‘وغیرہ’’سے مراد نفقہ ثابت ہوتا ہے۔ تو آپ کے ترجمہ میں، بہ نسبت ترجمہ رضویہ کے وہ ایک معنی زائد بتارہاہے اور اس صورت میں نذیر احمد کا ترجمہ آیت کے عموم کو خاص نہیں کررہاہے بلکہ ترجمہ میں عموم کو باقی رکھا ہے اور آیت کا حکم اُ س صورت میں عدت والی اور غیر معتدہ دونوں کو شامل ہے۔ شوق سے مضمون نگارصاحب یہ کہیں، مگراعلی حضرت علیہ الرحمہ پراپنا یہ اعتراض نہ بھولیں، جس کی عبارت یہ ہے‘‘خان صاحب کے ترجمہ کے مطابق مذکور چوتھی صورت بھی آیت کے حکم نان و نفقہ میں شامل ہے، کیوں کہ وہ بھی طلاق والیوں میں شامل ہے حالاں کہ یہ وہ طلاق والی ہے، جس پر عدت واجب نہیں اور جب عدت واجب نہیں تو شرعی نان و نفقہ کیا، بطور حسن سلوک کے کپڑے کا ایک جوڑا دینا کافی ہے’’ اور بول چلیں کہ انہیں کے لفظوں میں‘‘نذیر احمد کے ترجمہ کے مطابق چوتھی صورت بھی آیت کے حکم میں شامل ہے ، کیوں کہ یہ طلاق والیوں میں شامل ہےِ، حالاں کہ یہ وہ طلاق والی جس پر عدت واجب نہیں، تو شرعی نان و نفقہ کیابطورحسن سلوک کے کپڑے کا ایک جوڑادیناکافی ہے’’ پھر بھی نذیراحمد نے اس چوتھی کا عام طلاق والیوں میں رکھ کر اس کے لئے نفقہ کیسے واجب کردیااور ان کے نزدیک اس کے لئے نان و نفقہ نہیں تو اسے مستثنیٰ کیوں نہ کیا۔
بلکہ اس تقدیر پر جس طرح یہ لازم آتا ہے کہ نان و نفقہ اس مطلقہ کے لئے بھی واجب ٹھہرتا ہے جس پر عدت نہیں اسی طرح متعہ اور نان و نفقہ کو معاًمراد لینے سے یہ بھی لازم آتاہے کہ متعہ عدت والیوں کے لئے بھی لازم ٹھہرے حالاں کہ شاہ عبدالقادر کے حاشیہ کو خود ہی نقل کر چکے ہیں کہ ‘‘پہلے خرچ فرمایاتھایعنی جوڑا اس طلاق پر کہ مہر نہ ٹھہراہواور ہاتھ نہ لگایاہو یہاں سب پر حکم فرمایاسب طلاق والیوں کو جوڑادینا بہترہے اور اس پہلی کو ضرور ہے’’۔ اب کہئے کہ اس مفسدہ سے مفر کدہر ہے۔
اب تو جناب سمجھ گئے ہوں گے یہ دونوں مطلقہ عورتیں (عدت والی اور جس پر عدت نہیں اور مہر نہ ٹھہراتھا)دو جداحکم رکھتی ہیں، پہلی کےلئے نفقہ واجب ہے اور متعہ مستحب اور دوسری کے لئے متعہ واجب ہے اور اس کے لئے نفقہ نہیں،دیکھئے اسی لئے شاہ صاحب نے بھی اپنے حاشیہ میں جہاں یہ فرمایاکہ‘‘یہاں سب پر حکم فرمایا سب کو جوڑادینابہترہے’’ وہیں اس کے متصل اس کا حکم جداگانہ بتایاجس پر عدت نہیں اور مہر نہ ٹھہرایاتھا بالفاظ دیگر اسے عوام مطلقات سے مستثنیٰ فرمادیا، چنانچہ آپ ہی ان کے یہ لفظ نقل کئے ہیں‘‘اور پہلی کو ضرورہے’’ اور قرآن کریم نے بھی اس عورت کا جسے بے ہاتھ لگائے شوہر نے طلاق دی ہو اور مہر نہ ٹھہرا ہوجداگانہ پہلے ہی بتادیا۔ قال اللہ تعالیٰ‘‘ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن اوتفرضو الھن فریضۃ و متعوا ھن علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ’’، الآیہ یعنی تم پر کوئی مطالبہ نہیں اگر تم عورتو ںکو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایاہویا کوئی مہر مقرر نہ کرایاہو اور ان کو کچھ برتنے کو دو مقدوروالے پر اس کے لائق اور تنگ دست پر اس کے لائق، الخ(ترجمہ رضویہ)۔ اب رہیں وہ عورتیں جنہیں بعد صحبت طلاق دی جائے، ان کا حکم ‘‘وللمطلقٰت متاع بالمعروف’’فرماکران کا حکم یہ ہے کہ انہیں عدت میں نفقہ دینا واجب ہے اور یہ سمجھانے کے لئے کہ اس مقام پر مطلقات سے مراد عدت والیاں ہیں اور متعہ سے مراد نان و نفقہ ہے۔ اس آیت سے اوپر کی آیت میں بیوہ عورتوں کا بیان فرمایا کہ ان کے مرنے والے شوہروں پر لازم ہے کہ ان کے لئے سال بھر تک نان و نفقہ اور عدم اخراج کی وصیت کرجائیں(اس آیت کا حکم منسوخ ہے) قال تعالیٰ‘‘ والذ ین یتوفون منکم ویذ رون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعاالی الحول غیر اخراج’’ یعنی اور جو تم میں مریں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ اپنی عورتوں کے لئے وصیت کرجائیں سال بھر تک نان و نفقہ دینے کی بے نکالے(ترجمہ رضویہ)پھر اسی مسئلہ کے بیان میں فرمایا ‘‘وللمطلقٰت متاع’’جس سے ظاہر کہ اس آیت میں بھی متاع سے مراد نفقہ ہے جس طرح گذشتہ آیت میں ‘‘متاعا’’سے مراد نفقہ ہے اور نفقہ عدت والی کے لئے واجب ہے تو ‘‘مطلقٰت’’یہاں عدت والیاں ہیں اسی لئے صاحب مدارک نے فرمایاتھا ‘‘ای نفقۃ العدہ’’ مضمون نگار صاحب اب بولئے کہ جب ‘‘وللمطلقٰت’’میں ‘‘مطلقٰت’’سے مراد عدت والیاں ہیں تو بقول آپ کے آیت کے عموم کو خدانے خاص کردیا۔ تو جو کچھ سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو کہاتھاوہ معاذاللہ خدا تک پہنچا کہ نہیں پہنچااور ضرور پہنچا۔ یہ جلوہ ہے ‘‘من عادیٰ لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب ’’کا۔‘‘ وللہ الحجۃ السامیہ لہ الحمد اوالآخر’’۔
آپ مدعی ہیں کہ متاع ایک لفظ عام ہے جو قرآن کریم نے آپ کی تمام مذکورہ صورتوں کے لئے استعمال فرمایاہے چنانچہ آپ رقم طراز ہیں کہ یہ ‘‘ان تمام صورتوں میں عورت کو فائد پہنچانا صادق ہے کہیں پورے مہر کی صورت میں اورکہیں مہرمثل کی صورت میں اور کہیں آدھے مہر کی صورت میں۔ اور آخری مسئلہ میں صرف ایک جوڑا کپڑے کی صورت میں۔ اس آیت مذکورہ میں عام صورتیں شامل ہیں’’قرآن کریم نے ان کے لئے ایک لفظ ‘‘متاع بالمعروف’’استعمال کیا ہے۔کیا جناب مستندتفاسیر سے اس کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ متاع کا اطلاق مہر مسمی اور مثل پر آتاہے۔ ثبوت ہے توضرورلائیے اور اگر ثبوت نہ دے سکیں تو جناب نے تفسیر بالرائے کاارتکاب کیا ہے کہ نہیں کیا اور ضرور کیا اور تفسیر بالرائے پر جو وعید ہے اس کے مستحق ہوئے۔‘‘ والعیاذ باللہ’’
چلئے متاع آپ کے طور پر سب صورتوں کے لئے استعمال ہواکہ وہ عام لفظ ہے اسی طرح ‘‘مطلقٰت’’بھی سب مطلقہ عورتوں کو شامل ہے کہ وہ بھی عام ہے تو متاع کی صورتیں جو آپ نے ذکرکیں، وہ سب عورتوں کے لئے ہوئیں لہٰذا لازم ہے کہ ہر مطلقہ مہرو نصف مہر مثل نفقہ اور جوڑاپائے مگر یہ جناب کو بھی قبول نہیں آپ ہی نےابھی کہاہے‘‘ان تمام صورتوں میں عورت کو فائدہ پہنچاناصادق ہے کہیں پورے مہر کی صورت میں اور کہیں مہرمثل۔۔۔۔۔’’اب کہئےکہ ہر مطلقہ عورت کا حکم یکساں نہیں بلکہ ہر ایک کا جداگانہ حکم ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے۔ تو یہ خصوص مان کر خود جناب نے بھی عموم کوخاص کردیا کہ نہیں اور اسی جرم (جس کی تہمت سیدنااعلیٰ حضرت پر رکھی تھی) کے مرتکب ہوئے یا نہیں؟
الجھاہے پاؤں یار کا زلف درازمیں |
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا |
اور اگر اس جرم سے اپنی برأت ہی (چاہیں)اور آیت کریمہ کو عام مخصوص نہ مانیں تو ہر مطلقہ کے احکام خاصہ کو سب کے لئے عام کریں یا ایک ہی جہت سے عموم و خصوص کو اجتماع ضدین کریں تو آپ جانیں۔
اب ذرااشرف علی تھانوی صاحب کا ترجمہ دیکھیں جسے آپ نے سب سے پہلے لکھا جس کے لفظ یہ ہیں‘‘کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانابھی’’تو بتاتے چلئے کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاناتوایک مٹھی جو، ایک لقمہ روٹی پر بھی صادق ہے بلکہ مطلقہ کا کوئی کام انجام دیدے جب بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانا صادق ہے تو آپ کی مذکورہ صورتیں کب معین ہیں۔ اچھاترجمہ کیاکہ ہمارے طور پر نفقہ کی تعیین ہی نہ رہی اور جناب کے طور پر ساری مذکورہ صورتیں غیرمعین ٹھہریں۔ دوسرے ترجمےجوآپ نے لکھے ہیں، اسی پر قیاس کرلیجئے۔
اورجناب نے یہ کیا کہا‘‘اور پہلی صورت میں (یعنی جب کہ عورت کو بے ہاتھ لگائے طلاق دی ہو اور مہر نہ ٹھہراہو)یہ جوڑادینااور کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانا ضروری ہے‘‘کیاجناب کے نزدیک اس مطلقہ کو متعہ (جوڑے) کے علاوہ کچھ اور دینابھی ضروری ہے اگرایساہے تو قرآن میں تو اس کا وجوب نہ بتایاتو جناب نے قرآن پر زیادتی اور شرع پر افتراکیا کہ نہیں کیا؟ کیا اور ضرور کیا’’۔اور اگرایسانہیں تو‘‘ کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاناضروری ہے’’کیوں لکھا۔
ذرایہ بھی سنتے چلئے کہ آپ نے جتنےتراجم پیش کئے ان کا جائزہ فقہی طور پر لیا گیااور ان پر بحث گذری۔ اب بیان کی رو سے بتائیے کہ جناب منقولہ تراجم میں کسی میں ہے‘‘فائدہ پہنچانا’’ کسی میں ‘‘خرچ دینا’’کسی میں ‘‘سلوک کرنا’’۔الغرض سب نے مصدر کا ترجمہ کیا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے نان و نفقہ فرمایاتوآپ کے مذکورہ تراجم میں جو مصدر کیا گیاہے اس میں کون سی خوبی بیان زائد ہے جو اعلیٰ حضرت کے ترجمہ میں نہیں ہے۔ اور اگرکوئی خوبی یہاں زاید نہیں تو پہنچادینا، سلوک کرنا کہنے سے کیافائدہ؟ خرچ وغیرہ کہناکافی تھا۔
تفسیرمدارک سے گزرا کہ متاع سے مراد نفقہ عدت ہے یا متعہ ہے۔ خازن میں متاع سے مراد متعہ بتایا۔‘‘ فالیراجع ثمہ’’بلکہ لغتِ قرآن امام راغب نے مفردات میں فرمایا ‘‘فالمتاع والمتعۃ مایعطی المطلقۃ تستفتح بہ مدتہ عد تھا’’تو یہاں مصدر کا ترجمہ کرنا لغت قرآن سے، ترجمہ قرآن میں بے خبری اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا نان و نفقہ فرمانالغت کا استحفار اور ایک لفظ مختلف موارد استعمال میں امتیاز کو قائم رکھنا ہے جو ان کا طرہ امتیاز ہے۔بلکہ متاع کا استعمال بطور مصدر بھی تمتع وانتفاع کے معنی میں مستعمل ہوتاہے جس سے ظاہر (لغت کثیرہ شہرہ میں وہ مصدر لازم ہے)کہ وہ لازم ہے متعدی نہیں۔ مفردات راغب میں فرمایا، ‘‘والمتاع انتفاع نمد الوقت’’۔المعجم الوسیط میں ہے(المتاع)‘‘تمتع’’ صراح میں فرمایا‘‘منفعت’’ اور آپ اپنے ہم عقیدہ عبدالحفیظ صاحب کی مصباح اللغات اٹھاکر دیکھیں کہ انہوں نے بھی متاع کو متعدی نہ بتایا۔ اب مضمون نگارصاحب بولیں کہ پہنچانا، دینا وغیرہ متعدی کا ترجمہ کرنے اور لغت کثرہ شہرہ کو چھوڑنے میں کون سی حکمت ہے۔