بشر اختر ہوجائے تو ہر گز مرتا نہیں
یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کسی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے، اس کا عقیدت مند ہوجاتا ہے اور اس کی یہ عقیدت اس وقت تک سلامت رہتی ہے جب تک وہ اس شخصیت سے دور رہتا ہے اور جب قریب ہوتا ہے تو بشری کمزوریاں نظر آتی ہیں تو اس کی عقیدت میں نسبتا کمی آنے لگتی ہے اسی طرح کوئی بھی با رعب و با وقار انسان اپنا رعب و وقار پہلی دوسری یا کبھی کبھی کی ملاقات میں تو سلامت رکھ پاتا ہے مگر مسلسل ساتھ رہنے والوں اور اکثر ملتے رہنے والوں پر اس کا وہ رعب نہیں رہتا جو پہلے تھا لیکن میں نے ساری دنیا میں صرف ایک ہی شخصیت، اپنے حضرت کی ایسی دیکھی کہ جو ان سے جتنا قریب ہوتا گیا، اتنا عقیدت مند بنتا گیا، اور جس نے جتنا اور جس زاویے سے دیکھا اتنا ہی متاثر و مرعوب ہوا۔ کسی بھی شخصیت کے ساتھ یہ عقیدت اسی صورت میں قائم رہ پاتی ہے جب انسان اس کے صبح و شام، رات و دن، خلوت و جلوت، سفر حضر کو دیکھنے کےبعد اس کا کوئی عمل شریعت مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثنا کے خلاف نہیں پاتا، اس شخصیت کو مختلف زاویے سے ملاحظہ کرنے اور اس کی حیات کے گوشوں کو گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد، اس کا کوئی قدم خلاف سنت اٹھتے ہوئے نہیں پاتا۔
ماضی قریب میں یہ بات حضور مفتی اعظم ہند کے بارے میں کہی جاتی تھی کہ جوان سے جتنا قریب ہوتا اتنا انکا معتقد ہوجاتا، دید مفتی اعظم تو فقیر کو میسر نہیں ہاں مگر ایک ایسی شخصیت کو قریب و بعید سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا جو اسی متقی اعظم مفتی اعظم کا محبوب نظر تھا، علم و عمل کا سمندر تھا، خلوص کا پیکر تھا، وفا کا مصدر تھا، گمرہوں کا رہبر تھا، ہادیوں کا سرور تھا، محبت کا خوگر تھا، شفقت کا جوہر تھا، اپنے عہد میں فائق و برتر تھا، صاحب ممتاز فکر و نظر تھا، مفسر اعظم ہند کا پسر تھا، اہل سنت کا تاجور تھا، برج ہدیٰ کا اختر تھا جسے کبھی اسماعیل رضا بن ابراھیم رضا کہا گیا، کبھی اختر میاں کہہ کر پکارا گیا، کبھی ازہری نسبت سے یاد کیا گیا، کبھی تاج الاسلام، تاج العلماء، قاضی القضاۃ فی الھند جیسے عظیم القاب سے ملقب کیا گیا اور پھر آخر میں لقب تاج الشریعہ زبان زد خواص و عوم ہوا جو علَم، کنیت اور القاب سب پر ایسا غالب ہوا کہ جیسے یہ لقب فی زماننا ہمارے حضرت کی ذات پر ہی جچتا ہو۔
راقم الحروف نے حضرت کے رات و دن دیکھے، صبح و شام دیکھے، خلوت و جلوت دیکھی، سفر و حضر دیکھے، مگر کوئی عمل شریعت مصطفےٰ علیہ التحیۃ الثنا کے خلاف نہ دیکھا، کوئی قدم خلاف سنت اٹھتے نہ پایا، اپنے مرشد کے رنگ میں ایسا رنگے کہ ؎
من توشدم تو من شدی من جاں شدم توتن شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
کی علمی تفسیر نظر آتی ہے۔
سیرت مفتی اعظم کا عملی زندگی میں مشاہدہ کرنا ہو تو حضور تاج الشریعہ کی زندگی کو ملاحظہ کریں، یقیناً ہمارے حضرت، اپنے حضرت مفتی اعظم ہند کی خَلقا و خُلقا صورتاً و سیرتاً سچی تصویر تھے، وہ کون سی ایسی صفت تھی جس میں ہمارے حضرت، اپنے حضرت کے سچے عکس و مظہر نہ ہوں؟ تقویٰ و طہارت، زہد و قناعت، شرافت و کرامت، مجاہدہ و ریاضیت، اصابت و استقامت، ذکاوت و فراست، صورت و سیرت کی کون سی ایسی شاہراہ ہے جہاں ہمارے حضرت اپنے حضرت کے نقش قدم پر نہ چلے ہوں؟ الولد سرلابیہ کی ایسی بے داغ تفسیر آسانی سے دیکھنے کو نہیں ملتی، فقہ و افتا میں مفتی اعظم کے راز سربستہ، رشد و ہدایت میں مفتی اعظم کے سرمکنون، صورت و سیرت میں مفتی اعظم کے عکس و مظہر الغرض مفتی اعظم کے ہر اطوار و اعتبار سےسچے جانشین و قائم مقام ہیں۔
منقبت مفتی اعظم میں جد کریم حضور ریحان ملت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ادائے مصطفےٰ تم ہو رضائے مصطفےٰ تم ہو
ہر اک اطوار سے اے مقتدا، احمد رضا تم ہو
ہر اطوار سے مصطفےٰ رضا اگر احمد رضا ہے تو ہر اعتبار سے اختر رضا مصطفےٰ رضا ہے تو اب ہم اپنے حضرت کی شان میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے:
ادائے مصطفےٰ تم ہو رضائے مصطفےٰ تم ہو
ہر اک اطوار سے اے مقتدا، مصطفےٰ تم ہو
اور صغریٰ کبریٰ فٹ کر کے شکل اول بدیہی الانتاج سے اگر نتیجہ نکالا جائے تو اس طرح نکلے گا:
تمہاری ذات میں جلوے رضا نوری میاں کے ہیں۔
میرے نوری میاں تم ہو میرے احمد رضا تم ہو
شبیہ احمد و حامد رضا نوری پیا تم ہو
رضا و حامد و نوری شہا تم ہو
ابھی تو ہمارے حضرت کو اس دنیائے فانی سے کوچ کئے چالیس دن بھی نہ ہوئے ہیں مگر یہ بات یقین کی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ان کی یادوں کا چراغ گل نہ ہوگا، امتداد زمانہ کے باوجود ان کی یادوں کی شمع دلوں کی محراب اور تصورات کے منبر پر روشن رہے گی کیوں کہ ’’بشر اگر اختر ہوجائے تو ہر گز مرتا نہیں‘‘۔
جن لوگوں نے انکا جلوۂ زیبا دیکھا ہے، کوئی حسین سے حسین تر جلوہ ان کی آنکھوں کو نہیں بھاسکتا، اس جلوے کو خوب دیکھنے کے بعد اب اپنی آنکھوں کا خیال بھی یہی ہے کہ
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے حضرت ہیں ایسا نہیں کوئی
میں نے جب سے ہوش کی آنکھیں کھولیں ہیں تب سے حضرت تاج الشریعہ کو اختر برج ہدیٰ کی حیثیت سے دیکھا، دل کے نہاں خانے میں نہ جانے کتنے واقعات محفوظ ہیں، سمجھ نہیں آرہا کہاں سے آغاز کلام کروں، حضرت سے ایام طفولیت میں ہماری ملاقات روزانہ رضا مسجد میں ہوتی تھی، حضرت جب بریلی شریف میں تشریف فرما ہوتے پنج وقتہ نماز با جماعت ادا کرانے کے لیے مسجد تشریف لاتے اور نماز کے بعد جب سب لوگ حضرت سے مصافحہ و دست بوسی کر رہے ہوتے، ہم بھی سب کی طرح صف میں لگ کر حضرت کی دست بوسی کرتے اور حضرت بکمال شفقت سر پر ہاتھ پھیرتے، محبت فرماتے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت با صحت و توانا اور اور حاسۂ بصر سے با وجود کمزوری کے، مشاہدہ فرماتے تھے مگر جب حضڑت کی بظاہر نگاہوں کی روشنی تقریبا معدوم ہوگئی تو حضرت پنج وقتہ حاضری سے معذور ہوگئے مگر حد درجہ ضعف نقاہت اور عدم بصارت کے باوجود حضرت نماز جمعہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے اور امامت فرماتے حالاں کہ اس حالت میں بھی حضرت پر جمعہ فرض نہ تھا اور رخصت تھی مگر عزیمت پر عمل کا یہ عالم کہ آخر وقت تک فرض نمازیں کھڑے ہوکر ادا فرماتے اور حالت یہ ہوتی تھی کہ سجدے سے حالت قیام میں آنے کے لیے ضعف و نقاہت کی وجہ سے پیروں میں لرزش طاری ہوجاتی۔ مسجد سے مزار اعلیٰ حضرت پر حاضر ہوتے چار ہاتھ دور کھڑے ہوکر تلاوت قرآن پاک کر کے ایصال ثواب فرماتے، کبھی مزار کو جھک کر بوسہ نہ دیتے بایں ہمہ اکثر دیکھا جاتا کہ اعلیٰ حضرت و مفتی اعظم کے مزار کی پائیتی کو خادم کے سہارے ہاتھ لگاتے اور پھر واپس لوٹ جاتے، آٹھ دس سال پہلے تک تو یہ معمول تھا کہ بلاناغہ روزانہ مزار اعلیٰ حضرت پر حاضر ہوتے مگر جب عذر لاحق ہوا تو یہ حاضری ہفتے میں ایک دن یعنی روز جمعہ کو متعین ہوگئی، فقیر راقم الحروف بھی اکثر حضرت کے پیچھے پیچھے نماز جمعہ کے بعد حاضر ہوتا اور اس کے علاوہ جب بھی حضرت کو مزار پر آتے دیکھتا تو ساتھ ہولیتا کہ فیوض و برکات کی اس موسلادھار بارش کے کچھ چھینٹے مجھ پر بھی پڑ جائیں، اور آج فقیر مزار اعلیٰ حضرت پہ بالکل انہیں آداب کو ملحوظ رکھتا ہے جیسا حضرت کو کرتے دیکھا۔ مزار پر حاضری کے جو آداب اعلیٰ حضرت نے تحریر فرمائے ہیں ہماے حضرت اس پر پورے طور پر عمل فرماتے۔
حضرت اپنے روزانہ کے معمولات کے بہت پابند تھے، مولانا یونس رضا مونس اویسی، حضرت کے رات و دن کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے راقم طراز ہیں:
’’بعد نماز فجر تلاوتِ قرآن۔ وظائف، ناشتہ سے فراغت کے بعد کتابیں سنتے ہیں یا فتاوی تحریر کرواتے ہیں یا فتاوی سن کر تصدیق فرماتے ہیں، دوپہر ایک بجے تک ڈرائنگ روم میں تشریف رکھتے ہیں، تخصص فی الفقہ کے طلبہ کو ۱۱ یا ۱۲؍ بجے کے بعد درس دیتے ہیں، کھانہ تناول فرما کر قیلولہ فرماتے ہیں، بعد نماز ظہر پھر کتابیں سنتے یا کتابیں لکھواتے ہیں، بعد نماز عصر دلائل الخیرات شریف پڑھتے ہیں۔ بعد نماز مغرب وظائف سے فارغ ہوکر پھر کتابیں سننا یا لکھوانا پھر بعد نماز عشاء کھانا تناول فرماتے ہیں بعدہ تھوڑی دیر ٹہلتے ہیں پھر کتابیں سنتے ہیں یا لکھواتے ہیں، ۱۱، ۱۲؍ بجے رات تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اسی دوران ملاقاتی ملاقات بھی کرتے ہیں، مرید ہونے والے سلسلہ ہوتے ہیں، پھر حضرت فجر میں اگر فجر سے پیشتر جاگتے ہیں تو تہجد پڑھتے ہیں ورنہ نماز فجر ادا فرمانے کے بعد معمولات حسب سطور بالا انجام دیتے ہیں‘‘۔ [1]
فقیر راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اپنے معمولات اور وقت کا جتنا پابند حضرت کو دیکھا کسی کو نہ دیکھا، ویسے تو ہر کامیاب آدمی کی ظفریابی اور سرفرازی کا راز وقت کی قدر و قیمت میں پوشیدہ ہوتا ہے، مگر ضعف و نقاہت و پیرانہ سالی میں معمولات اور اوقات کی پابندی کرنا مشکل امر ہے لیکن اس سلسلے میں بھی ایک حضرت کی ذات منفرد و ممتاز دیکھی کہ بایں ہمہ پیرانہ سالی، ضعف و نقاہت روزانہ کے کاموں کو اتنا وقت کی پابندی کے ساتھ ادا فرماتے کہ جیسے کوئی آگاہ کر رہا ہو، ایک ایک منٹ کا خیال فرماتے اور بار بار خادم سے وقت دریافت فرماتے، اقامت صلاۃ، تلاوت قرآن، اورادو وظائف، اشغال و اعمال، مطالعہ کتب، تصنیف و تالیف، فتوی نویسی، درس و تدریس، تعلیم و تعلم، بیعت و ارادت، رشد و ہدایت، دعوت و تبلیغ، سوال و جواب۔ اتنے سارے کام ایک ذات (وہ بھی جس کی بظاہر آنکھوں کی روشنی متاثر ہے) روزانہ بلاناغہ کیسے ادا کرتی ہوگی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یقیناً اگر ہم خواجہ تاشان در اختر رضا صرف ان کی زندگی سے وقت کی قدر و قیمت کرنے کا ہی سبق حاصل کر لیں تو کامیابی نصیب ہو۔
حضرت کے روزانہ کے معمولات کی ایک جھلک اور دکھاتا چلوں:
حضرت کا پہلے یہ معمول تھا کہ عوام کی رشد دو ہدایت کے لیے ازہری گیسٹ ہاؤس میں جلوہ افروز ہوا کرتے تھے مگر جب ضعف و کمزوری میں اضافہ ہوا تو دولت کدے کے بیرونی حصے میں تشریف فرما ہوتے عوام سے ملاقات کا وقت متعین ہوتا، صبح ۱۰ سے ۱؍ بجے اور شام مغرب سے عشاء کے بعد تک عام ملاقات فرماتے، طالبین صادق کو سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل فرماتے، عصر کے بعد مسلسل پابندی کے ساتھ دلائل الخیرات شریف کا ورد فرماتے اثنائے معمولات ااور ان اوقات کے علاوہ دینی کتابوں کو سماعت فرماتے، کسی مضمون کو احاطۂ تحریر میں لانے کا طریقہ یہ ہوتا کہ کسی موجودہ عالم کو املاء کراتے، فقہی سوالات کے جوابات زبانی دیتے، آٹھ دس سال پہلے کا معمول یہ تھا کہ جمعرات کو فقہی سوالات و جوابات کی ایک محفل ازہری گیسٹ ہاؤس (عقب مزار اعلیٰ حضرت، جہاں اب حضرت کی قبر انور ہے) میں منعقد ہوتی حضرت اس فقہی مجلس میں رونق افروز ہوتے اور شہر بریلی کی عوام کے دینی سوالات کے جواب عنایت فرماتے، اسی طرح ایک دوسری محفل شہر کو کہنہ کی حبیبیہ مسجد میں منعقد ہوتی وہاں بھی حضرت برجستہ لوگوں کے سوالات کا جواب عنایت فرماتے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں ایک دن پوری دنیا سے آئے ہوئے آن لائن سوالات کے جواب انٹرنیٹ کے ذریعہ عطا فرماتے، انہی ایام میں انٹرنیٹ پر حضرت کا درس حدیث بھی بہت معروف تھا جس کی آواز آج بھی محفوظ ہے ایک دفعہ جب میں اپنی تعلیل کو مکمل کرنے کے بعد مادر علمی دار لعلوم فیض الرسول براؤں شریف واپس لوٹ رہا تھا تو حضرت سے اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا، حضرت نے مجھے اس درس حدیث میں شامل ہونے کی تلقین فرمائی تھی۔ جامعۃ الرضا کے طلبہ بھی ہفتہ میں ایک دن حصول برکت کے لیے حضرت سے درس حدیث لینے آتے، یہ تو تھی حضرت کے معمولات کی ایک ہلکی سی جھلک جو میری آنکھوں نے مشاہدہ کی ہے اس کے علاوہ حضور تاج الشریعہ کی حیات مبارکہ کے مختلف گوشوں اور آپ کے سفر و حضرت کے معمولات کے متعلق متعدد کتابیں ضخیم جلدوں میں چھپ کر شائع ہوچکی ہیں جس کے مطالعے سے آپ اپنے قلب و روح میں بالیدگی پیدا کر سکتے ہیں۔
اصاغر پر شفقت:
بچپن میں جب فقیر نے یاد کر کے عرس رضوی کے موقعہ پر پہلی تقریر کی، اور اس تقریر کی ریکارڈنگ، مولانا جمیل رضوی صاحب نے حضرت کو سنائی تو حضرت نے فقیر راقم الحروف کو اپنے خادم (یوسف رضوی) کے ذریعہ بارگاہ میں طلب فرمایا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت ازہری گیسٹ ہاؤس میں تشریف فرما ہوتے تھے، پیغام سنتے ہی نہایت نیاز مندی کے ساتھ دوڑا دوڑا حاضر ہوا، حضرت ایک عالیشان کرسی پر تشریف فرما تھے، مریدین و معتقدین با ادب سامنے بیٹھے اپنے پیر و مرشد کی زیارت میں محو تھے، خادم نے عرض کیا حضور! یہ آگئے ارسلان بھیا، میں نے سلام و دست بوسی کی، حضرت نے فرمایا تمہاری تقریر میں نے سنی، اللہ تمہیں کامیاب فرمائے اور مبلغ سو روپئے کا نوٹ بڑھاتے ہوئے فرمایا یہ لو تمہارا انعام، یہ تھی حضرت کی شفقت و عنایت اور کرم نوازی کی ایک جھلک، اس کے علاوہ حضرت کی فقیر پر سینکڑوں عنایات ہیں جو آج تک نہاں خانۂ دل میں امتداد زمانہ کے باوجود موجود ہیں۔
اس واقعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ چھوٹوں پر کیسی شفقت و رحمت فرماتے اور حضرت کی عظمت و بڑائی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے کہ حضرت اپنے لوگوں کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک رکھنے کے روادار تھے، اس میں چھوٹے، بڑے جوان بوڑھے کا کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا، اس طرح کے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں کہ حضرت اپنے اصاغر پر کس درجہ شفقتیں اور عنایتیں فرماتے ہیں۔ جن دنوں میں مادر علمی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف میں مصروف تعلیم تھا، ان ایام میں میرا مدرسے سے آمد و رفت کا معمول یہ تھا کہ جب مدرسے کو جانے کے لیے روانہ ہوتا تو حضرت سے اجازت لے جاتا اور تعطیل میں گھر آتا تو سب سے پہلے حضرت کی بارگاہ میں سلام و دست بوسی کےلیے حاضر ہوکر عرض کرتا، حضرت میں ارسلان، آج مدرسے سے آیا ہوں، حضرت دست کرم سر پر پھیرتے اور دعاؤں سے نوازتے، یہاں پر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں براؤں شریف حصول علم کی غرض سے حضرت کے ہی حکم سے حاضر ہوا تھا، ہوا یوں کہ براؤں شریف حصول علم دین کی غرض سے ایک سال قیام کرنے کے بعد جب میں مصر جامعہ ازہر روانہ ہوا اور وہاں ملک کے حالات خراب ہوجانے کی وجہ سے مجھے لوٹنا پڑا تو میں حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا حضرت میں اپنی تعلیم کہاں مکمل کروں؟ حضرت کی زبان سے جو کلمات اس وقت نکلے، وہ یہ تھے کہ براؤں چلے جاؤ اور محنت سے پڑھو! حضرت کا حکم پاتے ہی میں گلشن براؤں شریف میں خوشہ چینی کے لیے حاضر ہوگیا اور خانقاہ کے سجادہ نشین حضرت غلام عبد القادر علوی صاحب قبلہ نے میرے قیام و طعام کا جو معقول انتظام ہوسکا، کیا۔ میں کئی سال اس گلشن علم میں خوشہ چینی کرتا رہا اور ادھر بریلی شریف میں یاد گار اعلیٰ حضرت منظر اسلام کا نظم و نسق درست ہونے لگا اور حضرت مولانا عاقل صاحب کے آنے سے تعلیمی معیار خوب سے خوب تر ہوگیا، ایک موقعہ پر مدرسے سے بریلی شریف آیا حضرت سے شرف ملاقات و دست بوسی ہوئی تو فرمایا اب تم یہیں پڑھو (منظر اسلام میں) میں نے عرض کیا حضرت وہاں ذمہ داران خانقاہ نے میری تعلم و تعلیم کے لیے بہتر انتظام کر دیا ہے اور مخصوص اساتذہ کے پاس درس متعین کر دیا ہے اب وہاں سے آنا مناسب نہیں، یہ بات سن کر حضرت نے سکوت فرمایا اور میں سکوت کو رضا جان کر واپس براؤں شریف حاضر ہوگیا۔ مادر علمی دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف پر حضرت کی نظر شفقت کا یہ عالم تھا کہ دار العلوم کے چار اساتذہ کو حضرت نے اپنی اجازت و خلافت سے نوازا، جن میں سے ایک خود خانقاہ کے ولی عہد حضرت مولانا آصف علوی ازہری ہیں دوسرے حضرت مفتی نظام الدین احمد نوری، تیسرے شہزادہ خلیفہ مفتی اعظم حضرت مولانا رابع نورانی صدیقی بدری اور چوتھے حضرت مفتی شہاب الدین نوری صاحب قبلہ ہیں۔ یہی وہ ادارہ جس میں حضور مفتی اعظم بغیر کسی دعوت کے اپنا محبوب ادارہ سمجھ کر اور اس ادارے کی علمی کار کردگی، اس کے طلبہ و اساتذہ کی محنت و جاں فشانی دیکھ کر تشریف لائے اور اپنی مخصوص دعاؤں سے نوازا اور اپنے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے اس کو شرف عطا کیا، حضرت ریحان ملت نے اپنے تین صاحب زادوں کویہاں حصول تعلیم کی غرض سے بھیجا اور برادر زادہ اعلیٰ حضرت حضور حسنین میاں اور حضور مفسر اعظم جیلانی میاں نے دار العلوم کی کار کردگی سے متاثر ہوکر اپنے تاثرات سے نوازا۔ جب حضور مفتی اعظم ہند، حضور حسنین میاں، حضور مفسر اعظم جیلانی میاں، حضور ریحان ملت رحمانی میاں اس ادارے کو اپنا محبوب ادارہ سمجھتے ہوں تو بھلا حضور تاج الشریعہ اسے اپنا محبوب و پسندیدہ ادارہ کیوں نہ مانتے؟
براؤں شریف کے سجادہ نشین حضرت غلام عبد القادر علوی صاحب قبلہ جب حضرت سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے، تو حضرت نے خوب شفقت و محبت پیش فرمائی، ضعف و نقاہت کے باوجود حضرت علوی صاحب کی فرمائش پر ان کے خلف اصغر کا ہاتھ میں ہاتھ لے کر داخل سلسلہ فرمایا۔ حضرت نے ان کے خلف اصغر کو داخل سلسلہ فرما کر اور خلف اکبر کو اجازت و خلافت عطا فرما کر اہل براؤں شریف کو اپنی محبت و شفقت اور اپنے وثوق و اعتماد کی سند عطا فرما دی۔
اسلاف اور سادات مارہرہ مطہنرہ کا احترام:
مارہرہ مطہرہ کے دست کرم میں ہاتھ دینے کی اپنی خاندانی رسم کے مطابق مجھے بھی تاجدار مسند برکاتیت حضور احسن العلماء مارہروی علیہ الرحمۃ و الرضوان کی وساطت سے یہ شرف دو ڈھائی سال کی عمر میں حاصل ہوا، بیعت ہونے کے کچھ ہی مہینوں بعد پیر و مرشد کا وصال ہوگیا، ہوش کے نا خن لیے تو دل میں یہ تمنا جوش مارنے لگی کہ کسی ایسی شخصیت سے طلب بیعت کر لی جائے جو بیک وقت حضرت پیر و مرشد کا بھی اجازت یافتہ ہو اور حضور مفتی اعظم کا بھی، گویا مجھے ایسی مبارک ذات کی تلاش تھی جس کا سینہ رضوی برکاتی نہروں سے مجمع البحرین ہوگیا ہو، یہ خواہش لے کر ایک دن حضور تاج الشریعہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، دل میں پوشیدہ آرزو کو ان الفاظ سے تعبیر کیا کہ حضرت میں آپ سے طالب ہونا چاہتا ہوں، حضرت نے معاً دریافت فرمایا کس سے مرید ہو؟ کیا: حضور احسن العلماء کا، اس وقت کمرے میں حضرت اور حضرت کے خادم اور میرے سوا کوئی چوتھا نہ تھا، حضرت نے یہ سنتے ہی کہ میں حضور احسن العلماء کا مرید ہوں فرمایا: تب پھر کیا ضرورت ہے؟ ہم سب تو وہاں کے غلام ہیں ہی، اور بہت دیر تک مارہرہ مطہرہ کے مشائخ کا ذکر جمیل فرماتے رہے۔ بہر حال حضرت نے بیعت تو نہ فرمایا مگر فیضان سلسلہ مفتی اعظم سے محروم بھی نہ ہونے دیا اور زمانہ طالب علمی ہی میں فراغت سے تین سال پہلے ۹۶؍ ویں عرس رضوی کے موقع پر ۲۲؍ صفر المظفر ۱۴۳۴ھ کو علماء و عمائدین شہر اور روزانہ کے حاضر باشوں کی موجودگی میں اپنی اجازت و خلافت سے سر فراز فرمایا۔
مذکورہ بالا واقعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت اپنی مشائخ کرام، سادات کرام اور خصوصا مارہرہ مطہرہ کے سادات کرام کا کس درجہ احترام فرماتے ہیں کہ ان کے مرید کو انہی کے سلسلے میں طالب کرنا بھی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ اور حریص پیروں کے برعکس ہمارے حضرت کا دامن، حرص و طمع سے کتنا پاک ہے، کہتے ہیں کہ پیر وہ جس کو مریدوں کی تلاش وجستجو نہ ہو بلکہ مریدوں کو اس کی جستجو ہو، ہمارے حضرت ہمیشہ اس سے اعراض فرماتے مگر معتقدین و مریدین کا میلہ لگا رہتا، بیعت ہونے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگی رہتیں، ایک جھلک پانے کولوگوں کے دل بے قرار رہتے، مرید ہونے والا اپنی قسمت کومعراج تصور کرتا۔ یا اللہ! ایسی مقبولیت ایسی ہر دل عزیز شخصیت جس کو دیکھنے کے بعد بس یہی زبان پہ آتا ہے کہ یہ قبولیت عامہ کسبی نہیں ہوسکتی، بلکہ عطائے ربانی سے ہی اسے تعبیر کرنے میں دل کو اطمینان ہوگا، یقیناً جو اللہ و رسول کا ہو جاتا ہے ساری مخلوق پھر اس کی ہوجاتی ہے، فرشتہ آسمانوں میں ندا کرتا ہے کہ فلاں بندے سے اللہ محبت فرماتا ہے، اے اہل آسمان تم بھی اس سے محبت کرو اور پھر زمین میں بھی اس کی مقبولیت ہوجاتی ہے، اس مضمون کی حدیث پاک بخاری شریف میں موجود ہے۔ نیز اللہ تبارک وتعالیٰ، قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ان الذین آمنوا وعملوا الصٰلحات سیجعل لھم الرحمٰن ودا۔ [2]
اسی فلسفے کی طرف ڈاکٹر قبال بھی یوں اشارہ کرتے ہیں:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہیں مرد خلیق
جلال و جمال کا سنگم:
حضرت کو جلال فرماتے بھی دیکھا اور جمال فرماتے بھی، مگر ایک موقع پر حضرت کے جلال فرمانے کا منظر جب بھی یاد آجاتا ہے، مجھ پہ جلال مومن کی ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے، کئی دفعہ خواب میں بھی حضرت کو کسی چیز پر جلال فرماتے دیکھا اور جمال فرماتے بھی، حضرت جلال و جمال کا سنگم تھے لیکن ایسا بہت کم ہوتا تھا جب جمال پر جلال غالب آیا ہو، اور اگر ایسا ہوتا بھی تو وہ لمحہ آنی فانی ہوتا، پھر اس کے بعد وہی نرمی وہی رحمت و شفقت، وہی ملائمت۔ کچھ امور ایسے تھے جس کے کرنے پر حضرت اکثر جلال فرماتے مثلاً اگر کوئی پیر چوم لیتا، یا ہجوم حد سے زیادہ پریشان کرنے لگتا، یا جم غفیر حضرت سے ملنے کے لیے دھکا مکی کرتا۔
حضرت کے جلال فرمانے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، ایک دفعہ جامعہ ازہر کے قدیم فاضل مولانا تاج محمد ازہری صاحب بریلی شریف حاضر ہوئے، حضرت مولانا نعیم اللہ صاحب اور مولانا فضل حق صاحب کے ساتھ انہوں نے فقیر سے ملاقات کی، بعد میں حضرت سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، معلوم کروایا تو پتہ چلا کہ حضرت رات کا کھانا تناول فرما کر اور غالبا فقہی مجلس سے فارغ ہوکر گلی میں چہل قدمی فرما رہے ہیں اور جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کے داماد مولانا شعیب رضا نعیمی صاحب مرحوم، حضرت کو پکڑ کر ٹہلا رہے ہیں، اور کچھ علمی نکات پر چلتے چلتے گفتگو بھی چل رہی ہے، کثیر تعداد میں معتقدین ہاتھ باندھے گلی کے حاشیہ پر کھڑے ہیں، مگر کسی کو ملنے کی جسارت نہیں ہو رہی (وہ حضرت کے عام ملاقات کا وقت نہ تھا)، اسی اثنا میں، میں حضرت سے ملنے کے لیے آگے بڑھا، سلام و دست و بوسی کر کے عرض کیا، حضرت میں ارسلان، حضرت کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے مگر ضبط فرما گئے، مگر پھر میرے بعد جب مولانا مذکور ملاقات کے لیے آگے بڑھے، حضرت نے جلال فرمانا شروع کر دیا: کیا ہے یہ سب، پریشان کر کے رکھ دیا، کسی موضوع پر بات کر رہا ہوں اور آپ کو ملنے کی پڑی ہے (اسی طرح کے کچھ کلمات کہے)، کافی دیر تک جلال فرماتے رہے، مگر جب جلال پر جمال غالب آیا تو مفتی شعیب صاحب سے فون کر وا کر انہیں بلوایا اور معذرت خواہانہ انداز میں فرمایا کہ میں کسی علمی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا، اس دوران، ملاقات سے وہ مسئلہ میرے ذہن سے نکل جاتا، آپ پر ناراض ہوا معذرت خواہ ہوں، اسی طرح کے کئی شفقت و رحمت کے کلمات کہے، تاج صاحب جن کے دل میں بیعت ہونے کا پہلے سے کوئی ارادہ نہ تھا، اسی وقت دامن سے منسلک ہوگئے۔
اسی طرح حضرت جب جمال فرماتے تو بذرگوں، خصوصا مفتی اعظم کے واقعات انتہائی دل چسپی سے سناتے۔
میں کیا کیا لکھوں، نہال خانۂ دل سے کون کون سے واقعات نکال کر لاؤں، کہاں تک کئی سال پہلے کی بکھری کڑیوں کو سمیٹوں، حاصل و خلاصہ یہ کہ ان کا سایہ ایک تجلی تھا، ان کا نقش پااک سراغ تھا وہ جدھر چل دیتے روشنی ہی روشنی ہوجاتی تھی۔ ماضی قریب کے بذرگوں میں میں نے حضور مفتی اعظم اور تاج الشریعہ کے علاوہ کسی کے بارے میں ایسا سنا پڑھا نہیں کہ وہ جہاں چلے گئے میلالگ گیا ہو، عقیدت مندوں کا سیلاب امنڈ آیا ہو، ایک جھلک پانے کو لوگ بیقرار ہوں۔ حضور مفتی اعظم کے بارے میں تو صرف سنا اور پڑھا، حضرت کی یہ مقبولیت آنکھوں دیکھی، جدھر چلے جاتے، دیوانوں کی بارات اتر پڑتی، جہاں قدم رکھ دیتے جلووں کی برسات ہوجاتی، جو دیکھ لیتا اس کی عید ہوجاتی۔
ان کے وجود مسعود کی طراوٹ سے ماحول کی پلکیں ایسی بھیگ جاتی تھیں کہ دیر تک ان سے شریعت کی لطافت کا خمار ٹپکتا تھا اور اس کی نکہت ریزی پکار اٹھتی کہ روح چمن کہ روح چمن یہاں ہے، مخزن علم و فن یہاں ہے، تاجدار اہل سنن یہاں ہے، سنییت کا رخ روشن یہاں ہے، شریعت کا درعدن یہاں ہے، طریقت کا لعل یمن یہاں ہے، حقیقت و معرفت کا مشک ختن یہاں ہے، بس پھر کیا ہوتا لوگ دیوانہ وار مچلنے لگتے، پروانہ وار نثار ہونے لگتے، بلبلیں چہچہانے لگتیں، بہاریں نغمہ گانے لگتیں۔
دنیا انہیں عقیدت میں حضور ازہری میاں کہتی ہے مگر حقیقت انہیں تاج الشریعہ کہہ کر بھی اہتمام ذوق کی تشنگی محسوس کرتی ہے، فقیران سے نسبت ارادت کو اپنی دنیوی و اخروی سعادت کی ضمانت سمجھتا ہے۔ ان کی بارگاہ میں یہ عریضہ پیش کر کے گفتگو ختم کرتا ہوں کہ:
میری دنیائے دیں کا ماحصل الفت تمہاری ہے
قیامت میں میرے ماوا و ملجا آسرا تم ہو