مختصر حالات حضرت علّامہ قاری محبوب رضا خاں قادری
مختصر حالات حضرت علّامہ قاری محبوب رضا خاں قادری علیہ الرحمۃ
بیعت و خلافت:
آپ حضور مفتی ِاعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خاں علیہ الرحمۃ سے بیعت تھے۔ 1968ء میں آپ کو حضرت سے خلافت بھی حاصل ہوئی۔
حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب کے صاحبزادے حضرت مولانا فضل الرحمٰن سے آپ کے گہرے مراسم تھے۔ جب حضرت کو خط لکھتے، تو آخر میں لکھتے:
’’آپ کا محبوب ، محبوبِ رضا‘‘
حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کراچی تشریف لائے تو وقت کی کمی کے باعث ناشتے کی دعوت پر قاری صاحب کے یہاں تشریف لے گئے، مگر اِس قدر پُر تکلّف ناشتہ تھا کہ آج تک ایسا ناشتہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
حضرت علّامہ عبد المصطفیٰ ازہری سے آپ نہایت بے تکلّف تھے۔ ازہری صاحب بھی آپ کو بہت چاہتے تھے۔
حق گوئی بے باکی:
حضرت قاری صاحب حق گوئی اور بے باکی میں یادگارِ سلف تھے۔ حق کے معاملے میں کسی کی رعایت نہ فرماتے۔ اپنی عزّتِ نفس اور خودداری پہ کبھی آنچ نہ آنے دی۔ کیسی ہی ضرورت ہو، کبھی کسی کے سامنے نہ جھکے۔
ایک اچھے دوست اور مہمان نواز:
یاروں کے ساتھ دوستی نبھانے والے؛ کیسی ہی مشکل ہو ساتھ دیتے تھے۔
فرماتے:
’’یار زندہ، صحبت باقی‘‘
لوگوں کی مدارت اور خاطر تواضع کے لئے قرض بھی لینا پرتا تو لے لیتے۔
وضع دار شخصیّت:
نہایت وضع دار طبعیت کے مالک تھے، حُقّے میں اپنے ہاتھ سے کشیدہ تمباکو کو استعمال کرتے، خود حقّہ گرم کرتے، اس کی آواز سنتے اور فرماتے: ’’ہاں اب تیار ہے؛ لو کش لگاؤ!‘‘ پان لگانے اور پیش کرنے میں وضع کا خیال کرتے۔ چونا کس طرف لگایا جائے۔ کتھا کہاں ہو، پان پیش کرنے میں ہاتھ کس طرح رکھا جائے۔ حُقّے کا کش لگانے کے بعد نلکی کس طرح پیش کی جائے۔ حضرت کی صحبت میں باقاعدہ تربیت ہو جاتی۔
عربی ادب و اِنشاء میں مہارت:
عربی انشاء اور ادب میں مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور اس معاملے میں اسلاف کی آخری یادگار تھے۔
شادی:
1950-1958ء کے دوران آپ فیڈرل بی ایریا بلاک 6 میں اپنے عزیزوں کے گھر رہے اور وہیں اس خاندان میں ازدواجی رشتے میں منسلک ہوئے۔
امامت و خطابت:
1960ء میں آپ نے میمن مسجد کھوڑی گارڈن (حالیہ مصلح الدین گارڈن) کراچی میں بطورِ امام و خطیب فرائض انجام دیے۔ بعد میں یہ مسجد حضرت قاری مصلح الدین صدّیقی کے وُرودِ مسعود کے باعث کراچی کے سب سے بڑے روحانی مرکز میں تبدیل ہو گئی۔ جہاں اب حضرت قاری مصلح الدین رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کا مزار شریف بھی ہے۔
کچھ عرصہ وہاں گزار کر آپ کولمبو تشریف لے گئے۔ کولمبو میں آپ کے یہاں صاحبزادہ کی ولادت ہوئی مگر ۵ سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ کولمبو ہی میں آپ کا گردےکی پتھری کا آپریشن ہوا۔
جمعیت علمائےپاکستان میں شمولیت:
1958ء میں آپ JUP کی مجلسِ شوریٰ کے رکن بنے، مگر بعد میں آپ نے JUP چھوڑ دی۔
پہلا حج اور قطبِ مدینہ سے ملاقات:
1965ء میں آپ نے پہلا حج کیا اور قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین علیہ الرحمۃ سے پہلی ملاقات ہوئی۔
مطب اور تعمیرِ مکان:
کراچی میں کچھ عرصے کے لئے آپ نے لیاقت آباد میں مطب کیا۔ اس کے بعد آپ عارف والا واپس چلے گئے۔ اور وہیں مطب کر لیا۔ اسی دوران آپ اپنے محدود وسائل کے باوجود کوششوں سے رفتہ رفتہ کراچی میں ایک مکان کی تعمیر میں کامیاب ہوئے، جو تاریخی نام ’’گلشنِ رضا‘‘ (1401) سے منسوب ہے۔ اب بھی وہاں آپ کے بھائی کا خاندان آباد ہے۔
ٹنڈو آدم کا سفر:
کچھ دنوں کے لئے درمیان میں ٹنڈو آدم بھی جمعہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے، مگر لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے واپس آگئے۔
مختلف امراض لاحق ہونا:
حضرت کو شوگر کا مرض ایک عرصے سے تھا۔ گردے کی تکلیف بھی رہتی تھی۔ فرماتے صرف ہاضمہ سہی کام کر رہا ہے، باقی سب کچھ گڑبڑ ہو گیا ہے۔ اختلاجِ قلب اور بلڈ پریشر بھی رہنے لگا تھا۔ بات کرتے تو سانس پھولنے لگتی۔ دل کا پہلا دورہ غالباً ۱۹۹۱ء کے آغاز میں ہوا۔ اس کے بعد موتیے کا آپریشن ہوا۔ وصال سے ایک ہفتہ پہلے سانس میں بہت زیادہ تکلیف تھی۔
ایک رات حنیف اللہ والا نے بڑی مضحکہ خیز بات کہی، تو فرمایا ؎
کل ہم خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہوں گے
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
وصالِ مبارک:
حضرت کواچانک دل کا شدید دورہ پڑا، جس کے باعث آپ کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔ آخری رات کو نیم بے ہوشی طاری ہوگئی اور اسی بے ہوشی میں ہاتھوں سے مسح فرمایا، اشارے سے ایسا لگ رہا تھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں۔ ۹؍ دسمبر ۱۹۹۱ء صبح سوا سات بجے آپ نے آخری سانس لیا اور وصال ہو گیا۔
جناح اسپتال سے گھر لے جایا گیا، ۹ بجے کے قریب حضرت مولانا وقار الدین صاحب تشریف لے آئے اور فرمایا ارے یہ تو مسکرا رہے ہیں۔ حضرت مولانا وقار الدین صاحب کے ان دنوں پٹی لگی ہوئی تھی، اس لئے نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی، بلکہ حضرت عبد العزیز حنفی صاحب نے پڑھائی۔
مزارِ مبارک:
وصال سے دو ہفتے پہلے حضرت قاری صاحب نے فرمایا کہ قبرستان میں کوئی ایک جگہ لے لیں؛ تمام دوست وہیں قریب قریب ہوں تو اچھا ہو۔ میوہ شاہ میں حضرت کی تدفین ایک احاطہ، جو حاجی فیروز نے لے رکھا تھا، میں ہوئی۔ اس پر ایک عالی شان گنبد تعمیر کرایا گیا۔
حضرت مفتی محبوب رضا خاں کی شاعری
علمِ عروض اور زبان پر عبور:
علمِ عروض پر عبور حاصل تھا۔ کوئی نعت پڑھتا تو بتادیتے کس لے میں پڑھ رہا ہے۔ گفتگو کے دوران محاورات و ضرب الامثال اس کثرت سے استعمال کرتے کہ جی چاہتا باتیں سنتے رہیں اور نوٹ کرتے رہیں۔
نمونۂ کلام:
روشِ حضرتِ حسّان کہاں سے لاؤں
شعر اس شان کے شایان کہاں سے لاؤں
نعت کو چاہیے قرآں کی زباں، اے قدؔسی!
میں کہ انسان ہوں قرآن کہاں سے لاؤں
شانِ کرم گنہ کی خریدار بن گئی
مژدہ کہ تیری بات گنہ گار بن گئی
رحمت جو مجرموں کی طرف دار بن گئی
صد رشک زہد وضع گنہ گار بن گئی
قدؔسی کو شہر میں کوئی پہچانتا نہ تھا
شہرت کی وجہ مدحتِ سرکار بن گئی
بے کار ہے وہ ذکر جو ذکرِ نبی نہیں
اس کے بغیر بات کسی کی بنی نہیں
قدؔسی! خدا کا ذکر بھی بے ذکرِ مصطفیٰ
ہرگز قبولِ بارگہِ ایزدی نہیں
جس سر کا تاج آپ کی پیزار ہو گئی
اس کی جبین مطلعِ انوار ہو گئی
ہر بگڑی بات بن گئی لیتے ہی ان کا نام
آسان راہ منزلِ دشوار ہو گئی
چومیں سنہری جالیاں نظروں نے بار بار
آنکھوں سے دور بندشِ اغیار ہو گئی
شرطے ہونّقوں کی طرح دیکھتے رہے
روضے کی جالیوں سے نظر پار ہو گئی
وہ خوش نصیب بخشا گیا جنّت اس کی ہے
ان کی زبان جس کی طرف دار ہو گئی
قدؔسی پہ ہو نگاہِ کرم اب کے بار بھی
گو حاضری تو اس کی کئی بار ہو گئی
یا مصطفیٰ کہا تھا کہ سب غم غلط ہوئے
قسمت ہماری نیند سے بیدار ہو گئی
اللہ رے ناخدائیِ نامِ حضورِ پاک
کشتی بھنور میں آئی مگر پار ہو گئی
طوفاں میں ان کے نام نے یہ ناخدائی کی
کشتی بھنور کی موج کی پتوار ہو گئی
دنیا میں جس نے محفلِ میلاد کی بپا
عقبیٰ میں جنّت اس کی طلب گار ہو گئی
عنبر فشاں جو زلف شہِ بحر و بر کی ہے
ہر موج مہکی مہکی نسیمِ سحر کی ہے
جز نور کون جلوہ سرِ عرش کر سکے
یہ تاب یہ مجال وہاں کس بشر کی ہے
پر دار باغِ طیبہ میں اڑ کر پہنچتے ہیں
مشکل مگر عنادلِ بے بال و پر کی ہے
رحمت نے ان کی اشکِ ندامت کیے قبول
کیا بات واہ واہ مِری چشمِ تر کی ہے
حیراں ہے آئینہ میں کہ نرگس ہو نجم ہو
حالت یہ ان کی بزم میں ہر دیدہ ور کی ہے
رحمت کی آس، جرم کا خوگر، عمل سے دور
عادت یہی حضور مِری عمر بھر کی ہے
شاہوں کا شاہ تاجوَروں کا ہے تاج دار
کیا بات میرے شاہ کے دریوزہ گر کی ہے
مجرم تو ہوں پر جائیں سقر میں مِرے عدو
میں آپ کا وہ خلدِ بریں تیرے گھر کی ہے
قدؔسی کو اپنے دامنِ رحمت میں لو چھپا
دن حشر کا ہے دھوپ کڑی دوپہر کی ہ