مبلغِ اسلام شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی کا مختصر تذکرہ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo والصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَo

 خلیفۂ امام احمدرضا۔۔ مبلغِ اسلام شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما

ایک مختصر تعارف

تحریر: ندیم احمد نؔدیم نورانی

 مبلّغِ اسلام حضرت علامہ مولانا شاہ امام الدین احمد مختار صدّیقی قادری برکاتی رضوی اشرفی میرٹھی علیہ الرحمۃ کا شمار اللہ تبارک و تعالٰی کے خاص برگزیدہ بندوں میں ہوتا ہے۔ آپ اللہ ربّ العزت کے ایک ولیِ کامل اور حضورِ پُر نور نبیِ کریم رؤف و رحیمﷺ کے عاشقِ صادق تھے۔آپ اور آپ کےبزرگوں نے اپنی تمام عمر تبلیغِ اسلام اور خدمتِ قوم و ملت کے لیے وقف کر رکھی تھی اور یہ سلسلہ آپ کے اَصاغر نے بھی تاحال جاری کیے رکھا ہے۔ حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی کے والدِ ماجد حضرت شاہ عبد الحکیم صدّیقی علیہ الرحمۃ میرٹھ(انڈیا) کی شاہی مسجد کے خطیب تھے اور معروف شاعر و ادیب مولانا محمد اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمۃ حضرت شاہ عبد الحکیم کے چھوٹے بھائی تھے۔قائدِملّتِ اسلامیہ مبلغِ اسلام سیّدی و مرشدی حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدّیقی علیہ الرحمۃ(سابق صدر جمعیت علمائے پاکستان؛ سابق چیئرمین، ورلڈ اسلامک مشن؛ سابق سینیٹر آف پاکستان) کے والدِ ماجد مبلغِ اعظم سفیرِ پاکستان حضرت علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی میرٹھی مدنی علیہ الرحمۃحضرت شاہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ کے چھوٹے بھائی تھے۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مجدّدِ دین و ملّت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل و محدّث بریلوی علیہ الرحمۃ اور حضرت قطب المشائخ سیّد شاہ علی حسین اشرفی عرف اشرفی میاں قُدِّسَ سِرُّہٗ جیسی عظیم ہستیوں نےآپ اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی کو خلافت و اجازت سے نوازا۔ آپ دونوں بھائیوں کو اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے شرفِ تلمّذ(شاگردی کا شرف) بھی حاصل تھا۔

 مبلغِ اسلام شاہ احمد مختار میرٹھی کا حسب و نسب:

حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی حضرت سیّدنا ابو بکر صدّیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے تھے اورنجیب الطرفین صدّیقی تھے۔[1] نجیب الطرفین صدّیقی کا مطلب یہ ہے کہ حسب (ماں کی طرف سے) اور نسب (باپ کی طرف سے) دونوں ہی اعتبار سے صدّیقی تھے۔

شجرۂ نسب:

مولانا محمد اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمۃ(متوفّٰی۱۳۳۶؁ھ/ ۱۹۱۷؁ع) کے فرزند محمد اسلم سیفی کی تصنیف ’’حیاتِ اسماعیل‘‘ میں درج شدہ معلومات کی روشنی میں، حضرت مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی علیہ الرحمۃ تک، مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی کا شجرۂ نسب یہ ہے:

’’احمد مختار صدّیقی بن شاہ عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن مولانا محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)۔‘‘[2]

داداحضور:

حضرت شاہ احمد مختار کے دادا حضور شیخ پیر بخش(متوفّٰی ۷؍ دسمبر ۱۸۷۶ء)، جن کا تاریخی نام ’’مظہر اللہ‘‘ (۱۲۱۱ھ) تھا، ۱۴؍ جولائی ۱۸۳۸ء کو مستقل طور پر میرٹھ میں مقیم ہوگئے تھے۔[3]

دادی صاحبہ:

حضرت احمد مختار کی دادی صاحبہ (متوفّاۃ: ۱۹۰۱ء) نے سو برس کی عمر پائی۔ آپ حضرت سیّد غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کی مرید اور حضرت مخدوم شیخ فخر الدین اصفہانی چشتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کی اولاد سے تھیں۔ شیخ فخر الدین چشتی علیہ الرحمۃ اکبر بادشاہ کے دورِ حکومت میں ہندوستان تشریف لائے تھے؛ آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ شہاب الدین اصفہانی چشتی کو شہنشاہ جہاں گیر کے شاہی فرمان کے مطابق جاگیر عطا ہوئی تھی۔ آپ کی درگاہ شریف سے متّصل جنوبی جانب ایک مسجد’’مخدوم صاحب کی مسجد‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔[4]

سکونت میرٹھ:

۱۲۵۶؁ھ   کو حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی﷫ کے دادا حضور حضرت مظہر اللہ صاحب المعروف شیخ پیر بخش ﷫ نے شہرِ میرٹھ کو، جو لاوڑ سے صرف آٹھ میل کے فاصلے پر ہے، اپنا مسکن قرار دیا۔[5]

شاہ عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ   صدّیقی اور مولانا اسماعیل میرٹھی:

حضرت شیخ پیر بخش کے تین صاحبزادے شیخ غلام نبی صدّیقی(ولادت: ۱۸۲۲ء)، علامہ شاہ محمد عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ صدّیقی میرٹھی (ولادت: ۱۸۳۰ء)، مولانا اسماعیل صدّیقی میرٹھی (ولادت:۱۸۴۴ء) اور ایک صاحبزادی (ولادت: ۱۸۲۸ء) تھیں،[6] جن میں سے حضرت احمد مختار صدّیقی کے والدِ ماجدحضرت نجیبِ مصطفیٰ شاہ محمد عبد الحکیم صدّیقی (متوفّٰی ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) اور عمِّ صغیر(چچا) حضرت مولانا محمد اسماعیل صدّیقی میرٹھی (متوفّٰی:۱۹۱۷ء)رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم نے بڑی شہرت پائی۔ حضرت احمد مختار صدّیقی کے والدِ ماجد میرٹھ کی شاہی مسجد ’’التمش‘‘کے خطیب ہونے کے علاوہ ایک بہترین مدرّس اور ایک اچھے نعت گو شاعر بھی تھے، ’’جوش‘‘ اور ’’حکیم‘‘ تخلّص کرتے تھے۔

معروف شاعر و ادیب حضرت مولانا محمد اِسماعیل میرٹھی، جن کی کتب یوپی اردو بورڈ کے نصاب میں شامل تھیں[7] اور جن کی نظمیں آج بھی پاکستان کی درسی کتب میں شامل ہیں، شاہ عبد الحکیم صدّیقی کے چھوٹے بھائی تھے۔

ولادت:

حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ کی ولادت، بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمۃ کی پیدایش[8] کے اٹھائیس دن بعد، بروز پیر، ۷؍محرّم الحرام ۱۲۹۴؁ھ[9] مطابق ۲۲؍جنوری ۱۸۷۷ءکو صوبۂ اُتر پردیش کے مردم خیز شہر میرٹھ(انڈیا) کے محلّۂ مشائخاں، اندر کوٹ میں ہوئی۔ والدِ ماجدنے ’’احمد مختار‘‘ اور دادی صاحبہ نے ’’امام الدین‘‘ نام رکھا۔[10]

تعلیم و تربیت:

حضرت احمد مختار صدّیقی پانچ سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوئے اور قرآنِ مجید وہیں ختم کیا؛ اردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد سے حاصل کی اور درسِ نظامی کی تکمیل مدرسۂ اسلامی ، اندر کوٹ، میرٹھ میں علامہ ناظر حسن صاحب سے ۱۳۱۰ھ میں کی؛ مگر اِسی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ مزید علم کی پیاس بجھانے کے لیے۱۳۱۱ھ میں مولانا راغب اللہ پانی پتی کی خدمت میں پانی پت؛ ۱۳۱۴ھ میں مولانا محمد یوسف صاحب نبیرۂ مولانا شاہ محمداسحاق محدّث دہلوی کی خدمت میں بھوپال؛ ۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ء میں علمِ حدیث کے لیے شیخ الدلائل حضرت مولانا شاہ عبد الحق صدّیقی الٰہ آبادی مہاجر مکی(متوفّٰی ۱۳۳۳ھ / ۱۹۱۵ء) کی خدمت میں مکۂ مکرمہ اور ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں شیخ سیّد محمد امین رضوان کی خدمت میں مدینۂ منوّرہ حاضر ہو کر ۱۳۲۳ھ میں علمِ حدیث کی تکمیل کی۔ بریلی میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے اور گنج مرادآباد میں مولانا احمد میاں صاحب خلفِ اکبر حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی (۱۲۰۸ھ تا ۱۳۱۳ھ) سے بھی فیوضِ علمی حاصل کیے۔آپ علومِ جدیدہ سے بھی بہرہ ور ہوئے، آپ کو انگریزی میں بھی دست رس حاصل تھی۔[11]

حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی ذوقِ شعر و سخن بھی رکھتے تھے اور ایک اچھے مُناظر و خطیب بھی تھے۔

بیعت و خلافت:

علومِ ظاہری کے بعد علومِ باطنی کی طرف راغب ہوئے؛ آپ کے والد ماجد کو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (۱۲۳۳؁ھ تا ۱۳۱۷؁ھ) سے سلسلۂ چشتیہ میں بیعت و خلافت کا شرف حاصل تھا اور سلسلہ ہائے قادریہ غوثیہ و نقشبندیہ غوثیہ میں آپ حضرت سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی(۱۲۱۹ھ/۱۸۰۴ء تا ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء) کے خلیفۂ مُجاز تھے۔ حضرت احمد مختار نے اپنے والدِ ماجد سے بیعت ہو کر، مذکورہ تینوں سلاسل میں خلافت حاصل کی۔ بعد ازاں، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے سلسلۂ قادریہ برکاتیہ رضویّہ میں تاجِ خلافت پہنا[12] اور قطب المشائخ حضرت مولاناابو احمد سید شاہ علی حسین الاشرفی الجیلانی کچھوچھوی عرف اشرفی میاں(۱۲۶۶ھ تا ۱۳۵۵ھ) سے سلسلۂ اشرفیہ میں شرفِ خلافت سے مشرف ہوئے۔ حضرت حاجی سیّد وارث علی شاہ سرکارِ دیوہ شریف(۱۲۳۲ھ تا ۱۳۲۳ھ/۹۰۵اء) اور حضرت شیخ سیّد محمد امین رضوان مدنی وغیرہم اکابر صوفیا سے بھی فیوضِ روحانی حاصل کیے۔[13]

عملی زندگی / تعلیمی و صحافتی اور سیاسی و ملی خدمات:

حضرت احمد مختار صدّیقی نے اپنی عملی زندگی کا آغازسولہ برس کی عمرمیں درس وتدریس کے شعبے سے منسلک ہو کرکیا؛ میرٹھ کے قومی مدرسے میں فارسی کے مدرّس ہوئے،اٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں کچھ روز کے لیے ’’ہیڈ مولوی‘‘ مقرر ہوئے۔ امراؤ جہاں بیگم کے اسلامی مدرسہ بھوپال میں مدرّسِ اوّل کے علاوہ، سامرود اور دَمّن میں بھی مدرّس رہے۔[14] آپ نے خود کو قرآنی تعلیم کے لیے بھی وقف کیا؛ علاوہ ازیں،نوجوانی کی عمر ہی میں اپربرما میں ایک پرائمری اسکول قائم کیااور اردوکو فروغ دیا۔ مانڈے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی اور ڈربن میں تعلیم کا چرچا عام کیا، خصوصاًخواتین کو تعلیم کی طرف مائل کیا۔ افریقا میں مسلمانوں کو ترقی کی طرف گام زن کرنے کے لیے ۱۹۰۸ء میں ایک گجراتی اخبار ’’الاسلام‘‘جاری کیا۔[15]

تحریکِ خلافت:

حضرت احمد مختار صدّیقی اور آپ کے چھوٹے بھائیوں (مولانا نذیر احمد صدّیقی خجندی اور مبلّغِ اسلام مولانا شاہ عبد العلیم صدّیقی) کو ’’خجندی برادران‘‘ سے بھی یاد کیاجاتا تھا۔ملکی اور قومی معاملات سے خُجندی برادران کوبڑا گہرا لگاؤ تھا۔ ۱۹۲۰ء میں خجندی برادران نے تحریکِ خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ۱۹۲۱ء میں تحریکِ خلافت کے مرکزی فنڈمیں اُس وقت کے تین لاکھ روپے کا چندہ جمع کیا اور ۱۹۲۲ء میں آپ کو گرفتار ہو کر جیل بھی جانا پڑا۔[16]

۴؍مئی ۲۰۱۲ء کی ملاقات کے دوران محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ نے اس فقیر سے ارشاد فرمایا:

’’تحریکِ خلافت میں میرے ایک اور تایا مولانا محمد بشیر صدّیقی (علامہ احمد مختار صدّیقی کے بھائی) نےبھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تھا۔‘‘

تجاویز (آل اِنڈیا سنّی کانفرس کا تاسیسی اجلاس):

مفسرِ قرآن حضرت علامہ محمد جلال الدین قادری (گجرات، پاکستان) لکھتے ہیں:

’’الجمعیۃ العالیۃالمرکز یۃ یعنی آل انڈیا سنّی کانفرنس کا تاسیسی اجلاس ۲۰ تا ۲۳ شعبان المعظم۱۳۴۳ھ/۱۶ تا ۱۹ مارچ ۱۹۲۵ء کو مراد آباد میں منعقد ہوا۔[17]

آل انڈیا سنّی کانفرنس کے داعیان میں سرِ فہرست صدر الافاضل مولانا سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی تھے اور اس کے مذکورۂ بالا اجلاس کی صدارت اشرف المشایخ حضرت علامہ شاہ علی حسین الاشرفی الجیلانی عرف اشرفی میاں نے کی، جب کہ صدرِ مجلسِ استقبالیہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں قادری بریلوی (خلفِ اکبرِ اعلیٰ حضرت) تھے۔ شرکا کی فہرست میں حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ محدّث علی پوری، مبلّغِ اسلام حضرت علامہ مولانا احمد مختار صدّیقی میرٹھی، مولانا عبد الاحد پیلی بھیتی، مولانا سیّد احمد اشرف اشرفی جیلانی، شیخ المحدّثین حضرت مولانا سیّد محمد دیدار علی شاہ الوری، مولانا سیّد محمد سلیمان اشرف بہاری (پروفیسر علی گڑھ یونیورسٹی)، تاج العلما مولانا محمد عمر نعیمی وغیرہم جلیل القدر علما و مشایخ شامل ہیں(رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم)۔[18]

حضرت علامہ محمد جلال الدین قادری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے آل انڈیا سنّی کانفرنس کے اجلاس کی مفصّل روداد بیان کرتے ہوئے آل انڈیا سنّی کانفرنس کی اُن تجاویز کا بھی ذکر فرمایا ہے، جو حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ نے پیش فرمائیں۔

چناں چہ حضرت علامہ جلال الدین قادری رقم طراز ہیں:

’’حالاتِ حاضرہ سے متعلق آل انڈیا سنی کانفرنس کی تجاویز، جنھیں مولانا احمد مختار میرٹھی نے ایک طویل تقریر کے بعد پیش کیا اور مجمع عظیم نے اتفاقِ رائے سے پاس کیا، حسبِ ذیل ہیں:

(۱) یہ جلسہ مناسب سمجھتا ہے کہ ملک کے ہر صوبے، ہر شہر اور ہر گاؤں میں اہلِ سنّت وجماعت کی انجمنیں اور تبلیغی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔

(۲) اس جلسے کی رائے میں جا بہ جا تعلیم وتبلیغ کے مدارس جاری کیے جائیں۔

(۳) اس جلسے کے خیال میں سرِدست مراد آباد میں مرکزی کمیٹی کا قائم رہنا ضروری ہے۔

(۴) یہ جلسۂ عام اس قانون پر، جو اسمبلی نے حج کے متعلق پاس کیا ہے، ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے حاجیوں سے دونوں طرف کا کرایہ پہلے ہی وصول کرلینے کو حج کے لیے سنگِ راہ خیال کرتا ہے۔

(۵) یہ اجلاسِ عام باد شاہِ دولتِ خدا داد افغانستان حضرت امیر امان اللہ خان (خَلَّدَ اللہُ مُلْکَہٗ) کے قتلِ مرتدین کو عینِ مطابقِ شرعِ مبین پاتا ہے اور خدمتِ والا میں اجرائے حدودِ شرعیہ پر ہدیۂ مبارک باد پیش کرتا ہے۔ جن اخباروں نے اس کے خلاف آواز بلند کی وہ بالیقین دینِ متین سے جاہل وبے خبر ہیں۔ ان کی اس خلافِ شرع آواز پر سخت نفرت وحقارت کا اظہار کرتا ہے۔

(۶) یہ اجلاسِ عام، جو سات کروڑ مسلمانانِ ہند کا قائم مقام اور ہر حصّۂ ملک کے علمائے اہلِ سنّت وجماعت پر مشتمل ہے، مرزائیوں کی صدائے احتجاج کی بنا پر لیگ آف نیشنز اور گورنمنٹ آف انڈیا کو توجّہ دلاتا ہے کہ حکومتِ افغانستان کا اہلاکِ قادیانیاں مذہبی مسئلہ ہے۔ اس میں کسی حکومت کی مخالفانہ آواز صریح مذہبی مداخلت ہوگی، جس کو مسلمان کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے؛ لہٰذا لیگ اور گورنمنٹ کو اس مسئلے میں ہر گز دخل نہ دینا چاہیے۔(ماہ نامہ اشرفی، مئی ۱۹۲۵ء، ص۱۹، ۲۰)‘‘[19]

وفدِ حجازِ مقدّس کی قیادت:

حجازِ مقدّس میں شریفِ مکہ کی حکومت ختم کر کے جب سعودی خاندان نے اقتدار سنبھالا تو سعودی حکومت نے بر سرِ اقتدار آتے ہی مکۂ معظمہ میں جنّت المعلیٰ اور مدینۂ منوّرہ میں جنّت البقیع کے اہلِ بیت اور اولعزم صحابۂ کرام کی قبروں کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تو عالمِ اسلام میں ایک ہل چل سی مچ گئی، جس کی وجہ سے بمبئی (موجودہ ممبئی) کے غیور مسلمانوں نے۱۹۲۴ء میں سلطان سعودِ اوّل کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے حضرت مولانا احمدمختار صدّیقی کی قیادت میں ایک وفدحجازِ مقدّس بھیجا؛ حضرت مولانا سیّد حبیب مدیر’’سیاست لاہور‘‘اورمولوی فضل اللہ خاں صاحب مالکِ علمیہ بک ڈپوبمبئی آپ کے رفقائے وفدتھے۔[20]

 

معاشرتی فلاح و بہبود اور مسلم اتّحاد:

حضرت علامہ احمد مختار نے معاشرتی فلاح و بہود کے لیے بھی بڑا کام کیا۔ یتیموں اورمسکینوں کی حالتِ زار آپ سے دیکھی نہیں جاتی تھی؛ چناں چہ آپ نے اپنے درمانِ درد کے لیے،۱۹۱۸ء میں میرٹھ میں اور۱۹۳۵ء میں ڈربن میں دار الیتامیٰ والمساکین (یتیم خانے) قائم کیے۔[21]

مسلم اتّحاد و اُخوّت کے فروغ کے لیے ڈربن، جنوبی افریقہ میں ۱۹۳۴ء میں ایک تنظیم ’’بزمِ اِخوان الصفا‘‘ کے نام سے تشکیل دی۔[22]

تبلیغی خدمات:

حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی نے دینِ اسلام کا بھی خوب پرچار کیا؛ متعدد عیسائیوں اور ہندوؤں کو مسلمان کیا۔ آپ کی تبلیغی مساعیِ جمیلہ کے حوالے سے مفتی اختر حسین قادری (دارالعلوم علیمیہ، جمدا شاہی بستی، انڈیا) لکھتے ہیں:

’’حضرت مولانا مفتی اعجاز ولی خاں فرماتے ہیں:

’’حضرت مولانا احمد مختارمیرٹھی سرکار اعلیٰ حضرت کے اجلّہ خلفا میں سے تھے۔ مدت العمر تبلیغ و ارشاد میں گزاری۔ برّصغیر کے علاوہ، افریقہ، جزائر، انڈونیشیا میں تبلیغی مراکز قائم کیے اور لاکھوں غیر مسلموں کو داخلِ اسلام فرمایا‘۔(مقالاتِ یومِ رضا، ۳/ ۲۳)۔ ‘‘[23]

اندازِ خطابت:

حضرت احمد مختار ایک زبر دست خطیب بھی تھے۔ آپ کی تقاریر سامعین کے دلوں پر بڑے گہرے اثرات مرتّب کرتی تھیں۔آپ کے اثر آفریں خطبات ومواعظِ حسنہ سن کر، جہاں غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے، وہاں بہت سے مَے نوش و شراب فروش بھی تائب ہوئے۔[24]

محترمی و مکرمی سیّدی جمیل الملّۃ و الدین استاذ العلماحضرت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی کرامتی[25] دامت برکاتہم العالیۃ نے ۱۶؍ اپریل ۲۰۱۲ء کی ملاقات کے دوران اِس فقیر سے فرمایا:

’’میں نے اپنے اُستاذ تاج العلما مفتی محمد عمر نعیمی علیہ الرحمۃاور چنددیگر حضرات سے سُنا ہے کہ حضرت علّامہ شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی جب شبِ معراج سے متعلّق خطاب فرماتے، تو ایسا سماں باندھتے کہ دورانِ خطاب جس طرف بھی ہاتھ کا اِشارہ فرماتے، حاضرین و سامعین کو ایسا محسوس ہوتا کہ اُس طرف سے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری جا رہی ہے۔‘‘

مُناظرانہ صلاحیت و اعلیٰ حضرت کی تربیت و دادِ تحسین:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے اپنے تلامِذہ (شاگردوں) اور خلفا کی جہاں اور معاملات میں تعلیم و تربیت کی، وہاں فنِ مُناظرہ سے متعلّق بھی تربیت و رہ نمائی فرمائی۔ حضرت علّامہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ نے بھی اعلیٰ حضرت کے زیرِ تربیت رہ کر اپنی مناظرانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرکے چار چاند لگوائے۔

خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں نے حضرت احمد مختار کو اُن کی مناظرانہ فتح و نصرت و صلاحیت پراپنے اِس شعر میں یوں دادِ تحسین سے نوازا:

’’مجبور احمد مختار اِن کو
کرتا     ہے       مر     جاتے       یہ     ہیں‘‘

 

مفتیِ اعظم حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں قادری نوری بریلوی (خلفِ اصغرِ اعلیٰ حضرت علیہما الرحمۃ) مذکورۂ بالا شعرپر حاشیہ دے کر’’احمد مختار‘‘کی شرح یوں فرماتے ہیں:

’’جناب حامیِ سنّت مولانا مولوی احمد مختار صاحب صدّیقی میرٹھی قادری برکاتی رضوی، خلیفۂ اعلیٰ حضرت مدّ ظلّہ۔‘‘[26]

’’حُسَامُ الْحَرَمَیْنْ‘‘ پرتصدیق:

اعلیٰ حضرت کی مشہورِ زمانہ تصنیف مسمّٰی بہ اسمِ تاریخی ’’حُسَامُ الْحَرَمَیْنْ عَلٰی مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَ الْمَیْنْ(۱۳۲۴ھ)‘‘ پر حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی کی تصدیق اِن الفاظ میں ہے:

مَآ اَجَابَ بِہِ الْمُجِیْبُ اللَّبِیْبُ فَھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ الصَّرِیْحُ۔[27]

احمد مختار الصدیقی، صدر جمعیت علمائے صوبہ بمبئی۔‘‘[28]

ذوقِ شعر و سخن/منظوم کلام:

ذوقِ شعر و سخن حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ کو اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملا تھا؛یہی وجہ تھی کہ آپ ایک اچھے نعت گو شاعر بھی تھے اور ’’مختار‘‘ تخلّص کرتے تھے۔ آپ کا تمام منظوم کلام کتابی شکل میں یک جا موجود نہیں ہے۔ یہاں آپ کی ایک نعت شریف ہدیۂ قارئین کی جاتی ہے۔

اللہ اللہ! وہ جمالِ شہِ بطحا دیکھو
نورِ حق جلوہ نما ہے رُخِ زیبا دیکھو
اسمِ ’’اللہ‘‘ کا مظہر ہے جمالِ احمد
قابلِ دید ہوں آنکھیں تو یہ جلوا دیکھو
حق نما آئنہ ہے شانِ محمد لَا رَیْب
ہے اگر دیدۂ بینا، دلِ دانا دیکھو
کنزِ مخفی کا ہے وہ نور و ظہورِ اوّل
چشمِ حق بیں سے جمالِ شہِ بطحا دیکھو
اللہ اللہ! زہے شانِ رسولِ عربی
نہیں مخلوقِ خدا کوئی ایسا دیکھو
رخِ روشن سے اٹھا دیجیے برقع، شاہا!
کتنے مشتاقِ زیارت ہیں خدا را دیکھو
ایک مدّت سے تڑپتا ہوں زیارت کے لیے
نَظَرِ مہر سے اِس ذرّے کو، شاہا! دیکھو
سرمۂ چشم اگر خاکِ درِ احمد ہو
نورِ توحید کا ہر رنگ میں جلوا دیکھو
جن کو فردوسِ بریں کی ہو تمنّا مختارؔ
اُن   سے   کہہ   دو   کہ   چلو   پہلے   مدینہ دیکھو[29]

حضرت احمد مختارکی خدمات اُن کے بھائی کے قلم سے:

مولانا محمد بشیر صدّیقی ﷫ نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا نذیر احمد خجندؔی کو اپنے برادرِ اکبر حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی کی وفات کے بعد ایک خط لکھا تھا، جس کا ذکر کرتے ہوئے جناب اِمداد صابری صاحب فرماتے ہیں:

’’آپ(مولانا محمد بشیرصدّیقی) نے اپنے بھائی مولانا خجندؔی صاحب کو مولانا احمد مختار صدّیقی کی وفات کے بعد ۹؍ شوّال     ۱۳؁ھ[30] مطابق ۱۹۴۶ء کو حسبِ ذیل خط لکھا تھا، جس کو مولانا خجندؔی صاحب نے اپنی تالیف ’مخدومِ خجندؔی‘ میں شائع کیا۔ اس خط میں مولانا احمد مختار صدّیقی صاحب کی اُن خدمات کا ذکر کیا ہے جو انھوں نے جنوبی افریقہ وغیرہ میں انجام دی تھیں۔‘‘[31]

اب ہم ’’جنوبی افریقہ کے اُردو شاعر‘‘ سے مذکورۂِ بالا مکتوبِ گرامی نقل کر کے   نذرِ قارئین کرتے ہیں، جو امداد صابری صاحب نے حضرت مولانا نذیر احمد خجندؔی ﷫ کی تالیف ’’مخدومِ خجندؔی‘‘ سے نقل فرمایا تھا:

مولانا محمد بشیر صدّیقی کا ایک مکتوبِ گرامی

اپنے بھائی مولانا نذیر احمد خجندؔی کے نام:

’’۱۹۰۶ء؁ میں جب چہ چئی لارنسومارکس(پرتگیز) میں حاجی صاحب قبلہ[32] ﷫ تشریف لے گئے اس وقت مسلم کانفرنس قائم کی، جس میں گورنر بھی آیا تھا۔ اسی زمانے میں ایک تقریر فرمائی اور دورانِ تقریر میں شراب فروشی[33] اور مَے نوشی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے حکمِ شریعت سنایا تو بارش کے پانی کی طرح راستوں میں شراب بہتی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ مسلمان تاجر عام طور پر شراب فروشی کے خوگر تھے۔ ایک سو سے زائد شراب بیچنے والوں نے مولانا کے دستِ مبارک پر توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ شراب فروشی اور مَے نوشی سے محفوظ رہیں گے۔

۸-۱۹۰۷ء میں جب کہ حکومت ساؤتھ افریقہ نے ٹرانسول والوں کے لیے (انڈین) حکم دیا کہ ان کے پرمٹوں پر انگوٹھوں کا نشان لیا جائے ، بلکہ بیسیوں اُنگلیوں کے نشان لیے جائیں، انڈین کے بچے جو انڈیا میں پیدا ہوئے ہیں وہ آٹھ سال کی عمر کے اندر یہاں آ سکتے ہیں۔ مولانا نے اس کی مخالفت فرمائی اور حکومت نے اس کو قبول کیا، لیکن گاندھی نے قبول نہیں کیا، جو اس زمانے میں انھیں حالات کی مخالفت کرتا ہوا ستیہ گرہ کر کے جیل میں موجود تھا۔ اس نے اپنی کم زوری کے ما تحت سب انگلیوں کا نشان دیا اور حکومت کے فرمان کو قبول کیا اور جیل سے چھوٹ گیا؛ پھر بھی حضرت مولانا کی تحریک سے یہ معاملہ پریوی کونسل لندن سے طے ہوا اور ۱۶؍ برس کی عمر والے ہندوستانی بچوں کو آنے کی اجازت ملی اور بے پڑھے لوگوں کو صرف انگوٹھے کا نشان دینے کے لیے حکم ہوا۔

اسی زمانے میں حمیدیہ سوسائٹی جوہانسبرگ ٹرانسول میں قائم کی۔ ۱۹۰۹ء کو کیپ ٹاؤن میں تعزیہ بنانے والوں، جلوس نکالنے والوں اور پٹھانوں کے درمیان فساد ہوا؛ تعزیے والوں کا ایک شخص مارا گیا؛ حضرت مولانا کی کوششوں سے پٹھان رہا کر دیا گیا اور ہمیشہ کے لیے کیپ ٹاؤن میں جلوس نکالنے کی ممانعت ہوئی۔

۱۹۱۰ء میں ڈربن تشریف لائے اور ’الاسلام‘ گجراتی زبان میں جاری کیا، جس میں گاندھی کے خلاف مضامین لکھ کر مسلمانوں کو گاندھی کی چال بازیوں سے آگاہ کیا۔ اتفاقاً ایک سال بعد یہ اخبار بند فرما کر آپ اپنے وطن شہر میرٹھ تشریف لے گئے۔

۱۹۱۰ء میں مدرسۂِ انجمنِ اسلام ڈربن سے جاری کیا، جس میں تعلیمِ قرآن کے ساتھ ساتھ اُردو، گجراتی اور اِنگریزی کا سلسلہ بھی تھا، جو آج تک ایک شان دار عمارت میں جاری ہے۔ ۱۹۳۲ء؁، ۱۹۳۴ء؁، ۱۹۳۸ء؁ تک زمانۂِ قیامِ ڈربن میں حضرت مولانا نے کثیر التعداد غیر مسلموں کو داخلِ اسلام فرمایا، جس میں زیادہ تعداد یورپین حضرات کی تھی۔۔۔۔ دو مرتبہ وعظ میں قرآن شریف کی پوری تفسیر بیان فرمائی۔ مرضِ دمہ کی وجہ سے ہمیشہ علیل رہے؛ تاہم، وعظ بیان کرنے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ بسا اوقات دو دو آدمی پکڑ کر ممبر پر بٹھاتے تھے۔ تھک جانے کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ سننا چاہو تو میری دوا کرو یعنی بلند آواز سے درود شریف پڑھو؛ حاضرین، جن کی تعداد سینکڑوں ہوتی تھی، تین تین بار بلند آواز سے درود شریف پڑھتے، پھر آپ سلسلۂِ کلام جاری فرماتے۔ مولانا نو جوانوں کی طرح بلند آہنگی سے بیان فرمایا کرتے تھے؛ اطبّا آپ کی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ جایا کرتے تھے، جو حقیقتاً آپ کی قوّت یا طاقت نہیں تھی؛ بلکہ قدرت کی طرف سے آپ کی کرامت تھی۔آج کل جوان و تن درست علما بھی ذرا سے زکام و بخار کے سبب بیان کرنے کے بعد تکان کے بہانے دو دو وقت کی نماز چٹ کر جاتے ہیں۔ آپ کے صحبت یافتہ آج نہایت خوبی کے ساتھ تبلیغِ اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہ نو جوان جن سے والدین دست بردار ہو چکے تھے بِحَمْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی مولانا کی تربیت سے والدین کے مطیع و فرماں بردار اور خادمِ اسلام ہیں، اور والدین اور قوم اُن پر فخر کرتی ہے۔

۱۹۳۲ء ؁ سے بصارت جواب دے چکی تھی؛ لیکن، مولانا تعویذ اور خطوط ہمیشہ اپنے ہی دستِ مبارک سے تحریر فرمایا کرتے تھے۔ تحریر کا روزانہ اوسط دس بارہ صفحہ سے کم نہ تھا؛ دیکھنے والے حیران تھے۔ آج بھی اُن کی وہ تحریریں موجود و محفوظ ہیں۔

۱۹۳۴ء؁ میں مدرسۂِ بَنات المسلمین ڈربن ناٹال آپ کی نگرانی میں نہایت شان وشوکت سے جاری کیا گیا۔ اس مدرسے کا سیّد رضا علی صاحب نے اپنے قیام کے دوران معائنہ فرمایا، بچیوں کا امتحان لیا، تو معلوم ہوا کہ وہ چھوٹی چھوٹی بچیاں اس سے بخوبی واقف ہیں کہ پہلے زمانے میں مسلمان خواتین کس ناموَری اور شان و شوکت سے اپنی زندگی بسر کرتی تھیں اور کیسی عظمت والی تھیں۔ نیو ٹاؤن میں ’حمیدیہ مسجد‘ کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد بھی مولانا نے مسلمانوں کو توجّہ دلا کر تعمیر کرائی۔‘‘[34]

تلامذہ /خلفا/مریدین:

حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی کے لاتعداد تلامذہ (شاگرد) تھے؛ لیکن افسوس! ہمیں تین ناموں کے علاوہ اور نام معلوم نہ ہو سکے اور وہ تین نام آپ کے بھائیوں کے ہیں:

(۱)مولانا محمد بشیر صدّیقی    (۲)مولانا نذیر احمد صدّیقی خجندؔی

(۳) مبلغِ اعظم علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی مدنی۔

اسی طرح آپ کے مریدین اور خلفا میں سے ہمیں صرف ایک ہی نام معلوم ہے اور وہ ہے آپ کے بھائی ’’مبلغِ اعظم شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی‘‘ کا(رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم)۔

شادی خانہ آبادی:

حضرت علامہ محمود احمد قادری[35] علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

’’آپ(حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی) کی شادی مشہور بزرگ حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی کے خاندان میں ہوئی۔‘‘[36]

رمضان المبارک ۱۴۳۵؁ھ کی ایک افطار پارٹی میں عزیزم جناب عدیل قاسمی صاحب زِیْدَ مَجْدُہٗ نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ قائدِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدّیقی قُدِّسَ سِرُّہٗ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی نَوَّرَ اللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہُ الشَّرِیْف کی شادی حضرت فضلِ رحمان گنج مرادآبادی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک نواسی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیھا) سے ہوئی تھی۔

محترمہ ڈاكٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہانے، ۴؍ مئی ۲۰۱۲ء كی ملاقات كے دوران، ہمیں بتایا كہ حضرت علّامہ احمد مختار میرٹھی علیہ الرحمۃ كی ایك شادی اور بھی ہوئی تھی؛ آپ اور آپ كے بھائی مولانا محمد بشیر صدّیقی آپس میں ہم زلف(ساڑھو) بھی تھے۔

اولادِ اَمجاد:

ہمیں حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ کی ایك صاحبزادی اور تین فرزندانِ گرامی کے نام معلوم ہو سکے ہیں:

۱۔       ظہور الحق رحمانی صدّیقی عرف رحمانی میاں

۲۔      ظہیر الحق عرفانی صدّیقی۔

ان دونوں حضرات نے جامعہ نعیمیہ، مراد آباد میں کچھ عرصے تعلیم حاصل کی۔[37]

جناب رحمانی میاں علیہ الرحمۃ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پانچ سال بڑے تھے اور ان دونوں بزرگوں کے مابین خط و کتابت بھی تھی۔[38]

محترمہ ڈاكٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ اور اُن كے شوہر جناب پروفیسر محمد احمد صدّیقی صاحب نے، ۴؍ مئی ۲۰۱۲ء كی ملاقات كے دوران، حضرت مولانا احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ كے مذكورۂ بالا دو صاحبزدگان كے علاوہ

ایك اور فرزند ’’صمدانی میاں‘‘ اور ایك صاحبزادی ’’اَمینہ خاتون‘‘

كے نام بتائے اور فرمایا كہ یہ صاحبزادی كراچی ہی میں مدفون ہیں۔علاوہ ازیں، ایك اور صاحبزادے كا ذكر كرتے ہوئےفرمایا كہ وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی، میں كوئی پروگرام كرتے تھے، لیكن اُن صاحبزادے كا نام ڈاكٹر صاحبہ اور پروفیسر صاحب دونوں كو یاد نہیں آ رہا تھا۔

تاریخِ­وصالِ مبارک:

حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی علم و عمل سے بھر پور زندگی گزار کر، بروز پیر، بعدِ مغرب، ۱۲(بارہ) جمادی الاولیٰ ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۰(دس) جولائی ۱۹۳۸ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔[39]

جائے وصال:

          حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ كا انتقال دَمَّن (پرتگیز)، انڈیا میں ہوا تھا۔

مزارِ مبارک:

دمّن ہی میں ایک مسجد سے متّصل اِحاطے میں حضرت شاہ احمد مختار علیہ الرحمۃ كی قبرِ مبارك ہے، جہاں جمیلِ ملّت علامہ جمیل احمد نعیمی ضیائی مدّ ظلّہ العالی نے ۱۹۶۱ء میں حاضری دی اور اُس مسجد میں خطاب بھی فرمایا۔

شاہ احمد مختار صدّیقی پر کتاب:

          اس فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) نے حضرت شاہ احمد مختار صدّیقی نَوَّرَ اللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہٗ پر 80 صفحات پر مشتمل ایک کتاب تصنیف کرنے کی سعادت حاصل کی تھی، جو الحمد للہ تعالٰی ۲۰۱۳ء میں شائع بھی ہو چکی ہے (یہ مضمون اُسی کا اختصار ہے)؛ اور اب اس میں مزید اضافے کا کام جاری ہے، ان شاء اللہ تعالٰی اسے عنقریب زیورِ طباعت سے آراستہ کیا جائےگا۔

بہن بھائی:

حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی علیہ الرحمۃ کی سات بہنیں اور چھے بھائی تھے۔[40]

جناب امداد صابری صاحب (مرحوم) نے ’’تذکرۂ شعراءِ حجاز‘‘ (ص۳۸۴ تا ۳۸۵) میں آپ سات بھائیوں کے نام اس طرح لکھے ہیں:

’’محمد صدّیق، خلیل الرحمٰن، حمید الدین، احمد مختار، محمد بشیر، نذیر احمد اور عبد العلیم۔‘‘

محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ عَلَیْھَا الرَّحْمَۃ اور اُن کے شوہر جناب پروفیسر محمد احمد صدّیقی صاحب نے، ۴؍ مئی ۲۰۱۲ء کی ملاقات کے دوران، راقم الحروف کو بتایا کہ حضرت مولانا احمد مختار صدّیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ کی ایک منجھلی بہن محترمہ بسم اللہ خاتون صاحبہ عَلَیْھَا الرَّحْمَۃ سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرّف کی نانی تھیں۔

حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی کے بھائیوں (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم) سے متعلّق مختصر معلومات یہاں درج کی جا رہی ہیں:

(۱)مولانا نذیر احمد صدّیقی خجندی علیہ الرحمۃ:

خطیب العلما حضرت مولانا نذیر احمد خجندؔی ۱۳؍ ربیع الآخر ۱۳۰۵ھ مطابق ۲۸؍ دسمبر ۱۸۸۸ء بدھ کے دن صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔ آپ قطب المشائخ اعلیٰ حضرت علامہ سیّد شاہ علی حسین اشرفی جیلانی معروف بہ ’’اشرفی میاں‘‘ کے خلیفۂ اجلّ تھے۔ مولانا امین نورانی زِیْدَ مَجْدُہٗ کے مطابق مولانا نذیر احمد خجندؔی علیہ الرحمۃ کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی خلافت حاصل تھی۔[41] آپ نے ۱۸؍اپریل ۱۹۱۸ء کو بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا دوسرا نکاح رتن بائی عرف رتّی بائی جو بعد میں ’’رتّی جناح‘‘ کے نام سے جانی پہچانی گئیں کے ساتھ پڑھایا تھااور دلھن کو مسلمان کیا تھا۔ آپ مسجد ’’خیرالدین لال باغ کے امام و خطیب اور ناظم تھے۔ یہ مسجد ابوالکلام آزاد صاحب کے والدِ ماجد مولانا خیرالدین صاحب نے بمبئی میں تعمیر کروائی تھی۔[42]

مولانا نذیر احمد خجندی نہ صرف ایک قادرالکلام شاعر تھے، بلکہ آپ زینتِ بزمِ شعر و سخن بھی تھے۔ آپ کا ایک شعر ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے:

آنکھیں روشن، دل منوّر سبز گنبد دیکھ کر
ناز   کرتا   ہے     مقدّر   سبز     گنبد    دیکھ   کر[43]

وصالِ مبارک:

مولانا نذیر احمد خجندی انتقال سے ڈیڑھ دو برس پہلے مدینۂ منوّرہ چلے گئے۔[44]

ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ نے، ۴؍ مئی ۲۰۱۲ء کی ملاقات کے دوران، راقم السّطور سے فرمایا:

’’میرے تایا مولانا نذیر احمد خجندؔی علیہ الرحمۃ مدینۂ منوّرہ ۱۹۴۷ء میں حج کے سیزن میں گئے تھےاور آپ کی روانگی کا خصوصی انتظام بہ ذریعہ بحری جہاز(Ship) خود قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کروایا تھا؛ پھر تقریباً ڈیڑھ سال قیام کے بعد مدینۂ منوّرہ ہی میں آپ کا وصال ہوا اور جنّت البقیع میں آپ کی تدفین ہوئی ۔‘‘

مولانا نذیر احمد خجندی علیہ الرحمۃ کا وصال ۱۳۶۸؁ھ / ۱۹۴۷؁ء میں ہوا۔ آپ سے متعلق تمام ہی کتب میں آپ کا سالِ وصال ۱۳۵۵؁ھ لکھا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی پوری تحقیق ہماری کتاب:

’’جب جب تذکرۂ خجندؔی ہُوا‘‘ (2014ء) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

(۲) مولانا محمد بشیر صدّیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ:

آپ کے متعلّق جناب نور احمد میرٹھی رقم طراز ہیں:

’’مولانا عبد الحکیم کا خاندان علم و ادب کے ذوق سے مالا مال تھا۔ اُنھیں کے گھر ۱۳؍جمادی الثانی ۱۳۰۰؁ھ میں ایک بچے نے آنکھ کھولی، جس کا نام محمد بشیر رکھا گیا۔ محبوب و مقبول شاعر مولانا اسماعیل میرٹھی سے بشیر صدّیقی صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جو اُن کے چچا بھی تھے۔ تعلیم مکمّل کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے میں آ گئے اور کئی سال قومی مدرسے میں معلّم رہے۔ ۱۹۱۰ء میں اُن کے بھائی مولانا احمد مختار صدّیقی جنوبی افریقہ اپنے ساتھ لے گئے، جہاں وہ قیام پزیر تھے۔ یہاں بشیر صدّیقی صاحب نے علمی، ادبی و مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا؛ کئی دینی درس گاہیں قائم کیں، جہاں ہندوستانی زبانوں کی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔شاعری کا ذوق انھیں فطری طور پر ودیعت ہوا تھا۔ ان کے خاندان کے بیش تر افراد شاعر تھے اور مقبول و مشہور بھی۔ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے شاعری کو وسیلہ بنانے کا فیصلہ کر کے اپنے بھائی مختار صدّیقی سے اصلاح لینے لگے۔ جنوبی افریقہ کے مختلف شہروں کے مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ آپ نے تبلیغِ اسلام ، ادبی، علمی، ملّی اور سماجی خدمات میں عمرِ عزیز کا بیش تر حصّہ گزار کر ڈربن (افریقہ) میں ۱۹۶۷ء میں انتقال فرمایا۔‘‘[45]

(۳) مولانا محمد صدّیق صدّیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ:

آپ ایک اچھے شاعر تھے ؛ ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ سے فون پر حاصل شدہ معلومات کے مطابق پانی پت میں آپ کا انتقال ہوا اور پانی پت ہی میں آپ کی تدفین بھی ہوئی۔

(۴)مولانا خلیل الرحمٰن صدّیقی میرٹھی:

آپ بھی ایک اچھے نعت گو شاعر تھے؛ ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ سے فون پر حاصل شدہ معلومات کے مطابق میرٹھ میں آپ کا انتقال ہوااور میرٹھ ہی میں آپ کی قبرِ مبارک ہے۔ معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب جناب پروفیسر حبیب الرحمٰن صدّیقی آپ كے صاحبزادےتھےاور حبیب الرحمٰن صاحب كےفرزند جناب ذكاء الرحمٰن صدّیقی معروف شاعر ۔

(۵) جناب حمید الدین صدّیقی میرٹھی:

آپ بھی ایک اچھے نعت گو شاعر تھے؛ ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی صاحبہ سے فون پر حاصل شدہ معلومات کے مطابق میرٹھ میں آپ کا انتقال ہوا اور میرٹھ ہی میں آپ کا مدفن بھی ہے۔

(۶) مبلغِ اعظم شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی:

         سفیرِ پاکستان مبلغِ اعظم حضرت علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی میرٹھی مدنی ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ مطابق ۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے شاگرد و خلیفہ اور حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی کے والدِ ماجد و پیر و مرشِد تھے؛ آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی سے بیعت ہو کر اُن تینوں سلسلوں میں خلافت و اجازت پائی، جن کی اجازت و خلافت حضرت احمد مختار کو اپنے والدِ ماجد سے تھی اور پھر اپنے فرزندِ ارجمند امام شاہ احمد نورانی صدّیقی کو بھی حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی نے شرفِ بیعت عطا کر کے انھی تین سلاسل میں اجازت و خلافت سے نوازا۔شاہ عبد العلیم صدّیقی کو قائد اعظم نے سفیرِ پاکستان بنا کر عرب ممالک بھیجا تھا۔ آپ ایك بلند پایہ مبلّغِ اسلام اور مبلّغِ اعظم كی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ قائدِ ملّتِ اسلامیہ سیّدی علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی علیہ الرحمۃ نے ’’مولانا شاہ عبد العلیم صدّیقی كانفرنس‘‘(بمقام: مِل والا اپارٹمنٹ، كراچی، ۲۱؍ مئی ۱۹۹۹ء) سے خطاب كرتے ہوئے فرمایا كہ اُن كے والدِ ماجدحضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی علیہ الرحمۃ نے ایک لاکھ سے زائد غیر مسلموں کو داخلِ اسلام کیا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے مبلغِ اعظم حضرت علامہ شاہ عبد العلیم میرٹھی مدنی علیہما الرحمۃ کو اُن کی مناظرانہ استعداد اور علم پر یوں دادِ تحسین سے نوازا:

عبدِ علیم کے عِلم کو سن کر
جہل       کی       بہل       بھگاتے       یہ       ہیں

مفتیِ اعظم حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں قادری نوری بریلوی (خلفِ اصغرِ اعلیٰ حضرت علیہما الرحمۃ) اِس شعرپر حاشیہ دے کر’’عبدِ علیم‘‘کی شرح یوں فرماتے ہیں:

’’جناب حامیِ سنّت فاضلِ نوجوان مولانا مولوی حاجی محمد عبد العلیم صاحب صدّیقی میرٹھی قادری برکاتی رضوی، خلیفۂ اعلیٰ حضرت مدّ ظلّہ۔‘‘[46]

اعلیٰ حضرت کی شان میں منقبت:

حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی ایک بڑے عمدہ نعت گو شاعر بھی تھے؛ ’’علیم‘‘ تخلّص كرتے تھے۔ حمد اور نعتوں كے علاوہ، مَناقب نگاری میں بھی آپ كے شہ پارے موجود ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃکی شان میں آپ نے ایک منقبت لکھی اور اعلیٰ حضرت کو پڑھ کر سنائی، جو بہت مشہور ہوئی۔اس کا مطلع ہدیۂ قارئین ہے:

تمھاری شان میں جو کچھ کہوں اُس سے سوا تم ہو
قسیم جامِ   عرفاں   اے   شہِ   احمد   رضا   تم   ہو[47]
        

’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ کا آغازمبلغِ اعظم حضرت علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی ہی کے سوال سے ہوتا ہے اور ’’فتاوٰی رضویّہ‘‘ میں بھی آپ کے چند استفتا موجود ہیں۔ ’’حُسَامُ الْحَرَمَیْنْ عَلٰی مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَ الْمَیْنْ(۱۳۲۴ھ)‘‘ پر آپ نےایك تصدیق بھی رقم فرمائی ہے، جو ’’اَلصَّوَارِمُ الْہِنْدِیَّۃ‘‘ میں شامل ہے۔

علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی علیہ الرحمۃ کا وصال مدینۂ منوّرہ میں ۲۲ (۲۳ ویں شب) ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ مطابق ۲۲؍ اگست ۱۹۵۴ء کو ہوا۔آپ كی تدفین آپ كےبڑے بھائی مولانا نذیراحمد خجندی کے قریب اور امّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے قدموں میں جنّت البقیع میں كی گئی۔

اولادِ امجاد:

مبلغِ اعظم حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی مدنی﷫ كے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں كے نام پیدائشی ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں:

۱۔        اَمَت السبّوح عرف سُبحیہ بیگم(متوفّاۃ: ۳؍جمادی الآخرۃ ۱۴۲۱ھ/ ۲؍ستمبر ۲۰۰۰ء)

۲۔      نذرِ غوث علامہ مولانا محمد جیلانی صدّیقی (متوفّٰی:۵ذیقعد۱۴۱۵ھ /۶؍اپریل۱۹۹۵ء)

۳۔      قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدّیقی(متوفّٰی: جمعرات، ۱۶؍شوّال ۱۴۲۴ھ/ ۱۱؍دسمبر۲۰۰۳ء، دوپہر بارہ بج کر بیس منٹ)

۴۔      نذرِ فرید جناب حامد ربّانی صدّیقی مدظلّہٗ (ولادت: اوائلِ شعبان ۱۳۴۹؁ھ مطابق ۲۶؍دسمبر ۱۹۳۰؁ء)

۵۔      ڈاكٹر عزیزہ اقبال(متوفّٰی: بدھ، ۸؍ ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ/یکم فروری ۲۰۱۲ء)

۶۔      ڈاكٹر فریدہ احمد صدّیقی(متوفّٰی: بدھ، ۲۸؍ ویں شب، رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ/۷؍ اگست ۲۰۱۳ء، تقریباً ڈیڑھ بجے)

۷۔      نذرِ خواجہ جناب حمّاد سبحانی صدّیقی مدظلّہ العالی

ان میں سے جناب حامد ربّانی اور جناب حمّاد سبحانی صاحبان الحمد للہ ابھی بہ قیدِ حیات ہیں۔

         آخر میں، اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت علّامہ شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی نَوَّرَ اللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہٗ کی خدماتِ جلیلہ کو قبول کرتے ہوئے آپ کو بہترین صلہ عطا فرمائے؛آپ سمیت میرے سلسلۂ طریقت کے تمام بزرگوں کی قبورِ پُر انوار پر تا قیامِ قیامت رحمتوں کی بارش برسائے؛ اعلیٰ علّیین و جنّت الفردوس میں بلندیِ درجات سے نوازے؛ آپ سمیت تمام بزرگوں کے روحانی فُیوض سے ہمیں خوب مستفیض و فیض یاب کرے؛ اپنی رضا كے ساتھ، اس فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی) کی تحریر کو شرفِ قبول عطا فرماتے ہوئے، اسے میری اور میرے والدین، اہل و عیال، بہن بھائیوں، اعزّا و اقربا اور احباب کی مغفرت کا ذریعہ بنائے اور اس تحریر کو مقبولِ عام بناتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے استفادے کی توفیقِ رفیق بخشے!

آمین بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ و بارک وسلم و الحمد للّٰہ رب العالمین۔

دعا گو و دعا جو

ندیم احمد نؔدیم نورانی

۞~۞~۞~۞~۞

 

[1]               ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی، مجلہ ’’عظیم مبلّغِ اسلام‘‘، ص۵۵۔

[2]               ’’حیاتِ اسماعیل‘‘، ص۳۰۔

[3]               ’’حیاتِ اسماعیل‘‘، ص۳۲۔

[4]               ’’حیاتِ اسماعیل(مع کلیاتِ اسماعیل)‘‘، ص ۳۲۔

[5] ماہ نامہ ’’شاہ راہ‘‘، بمبئی، ربیع الآخر ۱۳۵۶؁ھ، اداریہ، صفحہ ۱۔

[6]               ’’حیاتِ اسماعیل‘‘، ص۳۲۔

[7]               ڈاکٹر فریدہ احمد:مجلہ ’’عظیم مبلّغِ اسلام‘‘، ص۵۵۔

[8]           قائداعظم محمد علی جناح علیہ الرحمۃ کی تاریخِ پیدائش ۸؍ ذی الحجہ ۱۲۹۳؁ھ

مطابق ۲۵ ؍دسمبر ۱۸۷۶؁ء ہے، جو قائدِ اعظم کی قبر کے کتبے پر مرقوم ہے۔

[9]               ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘،ص۳۸۵۔

[10]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز، ص۳۸۵۔‘‘

[11]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۵۔

[12]             ’’کشفِ ضلالِ دیوبند‘‘ شرح ’’الاستمداد‘‘، نسخۂ قدیمہ، ص۶۸؛ نسخۂ جدیدہ، ص۳۴۔

[13]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص ۳۸۶۔

[14]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۵۔

[15]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۶۔

[16]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۶۔

[17]             ’’تاریخِ آل انڈیا سنّی کانفرنس، ص۲۴۔

[18]             ’’تاریخِ آل انڈیا سنّی کانفرنس، ص۲۴۔

[19]             ’’تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘، صفحہ۳۷ تا ۳۸۔

[20]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۶ تا ۳۸۷۔

[21]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز، ص۳۸۷۔

[22]             ’’علامہ سیّد عظمت علی شاہ ہمدانی :ماہ نامہ ’’کاروانِ قمر‘‘ کراچی، مارچ ۲۰۰۴ء، ص۵۵۔

[23]             سال نامہ ’’تجلّیاتِ رضا‘‘ ، بریلی، شمارہ ۸، ص ۱۴۹۔

[24]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۶۔

[25]             شیخ الحدیث و ناظمِ تعلیمات، دارالعلوم نعیمیہ، کراچی۔

[26]             ’’اَلْاِسْتِمْدَاد عَلٰٓی اَجْیَالِ الْاَرْتِدْاد‘‘مع شرح ’’کشفِ ضلالِ دیوبند‘‘، نسخۂ

قدیمہ، ص ۳۴؛ نسخۂ جدیدہ، ص ۶۸۔

[27]             ترجمہ: ’’مجیبِ لبیب (جواب دینے والے صاحبِ دانش یعنی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا)

نے جو جواب دیا ہے، وہی واضح حق ہے۔‘‘(ندیم)

[28]             ’’اَلصَّوَارِمُ الْہِنْدِیِّۃ‘‘، ص۵۷۔

[29]             ’’ذکرِحبیبﷺ‘‘، حصّۂ دوم، ورلڈ اسلامک مشن، صفحہ۲۵تا۲۶۔

[30] ۱۳۶۵ھ۔ (ندیم)

[31] ’’جنوبی افریقہ کے اُردو شاعر‘‘، ص۲۳۵تا۲۳۶۔

[32] حضرت مولانا شاہ احمد مختار صدّیقی میرٹھی﷫۔ (ندیم)

[33] ’’جنوبی افریقہ کے اُردو شاعر‘‘ میں اِس جگہ ’’فروشی‘‘ کی بجائے ’’نوشی‘‘ مرقوم تھا؛ لیکن آنے والی عبارت سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اصل مکتوب میں یہاں لفظِ ’’فروشی‘‘ ہو گا۔(ندیم)

[34] ’’جنوبی افریقہ کے اُردو شاعر‘‘، ص ۲۳۶تا۲۳۸۔

[35]             استاد مدرسۂ احسن المدارس، قدیم، کانپور۔

[36]             ’’تذکرہ علماءِ اہلِ سنّت‘‘، ص۳۴۔

[37]             مفتی اطہر نعیمی: مجلہ عظیم مبلغِ اسلام، ص۱۴۳۔

[38]             مولانا نورانی سے ایک انٹرویوں،۲۱؍ اکتوبر ۱۹۹۶ء۔

[39]             ’’تذکرۂ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۷۔

[40]             مجلہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۵۵۔

[41]             ’’عہدِ رواں کی ایک عبقری شخصیّت‘‘، ص۱۳ تا ۱۴۔

[42]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘ ، ص۳۸۹۔

[43]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۹۰۔

[44]             ’’تذکرہ شعراءِ حجاز‘‘، ص۳۸۹۔

[45]             ’’تذکرہ شعرائے میرٹھ‘‘، ص ۳۰۵ تا ۳۰۶۔

[46]             ’’ اَلْاِسْتِمْدَادْ عَلٰٓی اَجْیَالِ الْاِرْتِدَادْ‘‘ مع ’’کشفِ ضلالِ دیو بند‘‘، نسخۂ قدیمہ، ص

۳۴؛ نسخۂ جدیدہ، ص ۶۸۔

[47]             ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘، جلدِ اوّل، رضا اکیڈمی، بمبئی، ص ۱۷۶۔


متعلقہ

تجویزوآراء