دين کی سمجھ
دين کی سمجھ
حضرتِ سیِّدُنا مُعَاوِیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نور مجسم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: «مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ». یعنی: ”اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے“۔ [صحیح البخاري، کتاب العلم باب من یرد الله به خیراً... إلخ، الحدیث: 71، ج1، ص25].
علامہ شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: فِقْہ کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اَحکامِ شَرْعِیَّہ فَرْعِیَّہ کو انکے تفصیلی دلائل سے جاننا۔(اس حدیث کے)معنی یہ ہوئے کہ اللہ جسے تمام دنیا کی بھلا ئی عطافرمانا چاہتا ہے اسے فقیہ بناتا ہے ۔ [ماخوذ از نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج1، ص424]۔
حکیم الامت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”یعنی اسے علم ،دینی سمجھ اور دانائی بخشتا ہے ۔خیال رہے کہ فقہ ظاہری ،شریعت ہے اور فقہ باطنی،طریقت اور حقیقت ،یہ حدیث دونوں کو شامل ہے۔ اس (حدیث)سے دو مسئلے ثابت ہوئے ایک یہ کہ قران و حدیث کے ترجمے اور الفاظ رٹ لینا علمِ دین نہیں بلکہ انکا سمجھنا علم دین ہے۔ یہی مشکل ہے۔ اسی کے لئے فقہاء کی تقلید کی جاتی ہے ۔اسی وجہ سے تمام مُفَسِّرِین و مُحَدِّثِیْن آئِمَّہ مُجْتَہِدِین کے مُقَلِّد ہوئے اپنی حدیث دانی پر نازاں نہ ہوئے۔ دوسرے یہ کہ حدیث وقرآن کا علم کمال نہیں ،بلکہ انکا سمجھنا کمال ہے۔ عالمِ دین وہ ہے جسکی زبان پر اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہو اور دل میں انکا فیضان“۔ [مرآة المناجیح،ج1، ص187]۔