فاضل بریلوی کےکردارونظریات کامختصرجائزہ
فاضل بریلوی کےکردارونظریات کامختصرجائزہ“کا تنقیدی مطالعہ
مولاناصاحبزادہ ابوالحسن واحدرضوی
پروفیسرابوعبیددہلوی اپنےرسالہ“فاضل بریلوی کےکردارونظریات کامختصرجائزہ “میں کنزالایمان پراعتراض کرتےہوئےرقم طرازہیں:
“احمدرضاخان صاحب نےیہ ترجمہ بلاسوچ اورکتب تفسیرولغت کی طرف مراجعت کیئےبغیر طبعی کسلمندی کےاوقات میں املاکرایا۔اسی وجہ سےان کےترجمہ میں بہت سی غلطیاں رہ گئی ہیں۔اس بات کی وضاحت اگلےبیان میں آرہی ہے۔ان اغلاط کی تعدادتواگرچہ بہت زیادہ ہےلیکن ہم چندمثالوں پراکتفاکرتےہیں“۔ (ص: ۲۱)
چنانچہ سورۂ البروج کی آیت نمبر۱۵کےترجمہ پراعتراض کرتےہوئےلکھتےہیں:
ذوالعرش المجید (سورۂ البروج آیت نمبر۱۵)
احمدرضاخان صاحب نےاس کاترجمہ کیا ہے: “عزت والےعرش کامالک“یعنی احمدرضاخان صاحب نےالمجیدکوالعرش کی صفت بنایا حالانکہ المجیدکی دال پرپیش کےساتھ یہ العرش کی صفت بن ہی نہیں سکتی بلکہ ذوالعرش اورالمجید یہ دہ اللہ تعالیٰ کی علیحدہ علیحدہ صفات ہیں۔لہذاصحیح ترجمہ یہ ہے:
عرش کامالک،بڑی شان والا۔ (ص: ۲۱)
پروفیسرصاحب نےاعلیٰ حضرت کےترجمہ کوغلط قراردےکرنہایت جرأت کامظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ آیت کاترجمہ بالک درست ہے۔آئندہ سطورمیں ہم دلائل وبراہین سےواضح کریں گےکہ یہ ترجمہ درست ہونےکےساتھ ساتھ منفردبھی ہے۔
قارئین گرامی!حوالہ جات سےپہلےہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتےہیں کہ قرآن حکیم کی مختلف آیات کی مختلف قرأتیں ہیں۔جن کی تفصیل کتب تجوید وقرأت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔مذکورہ آیت میں جہاں لفظ المجید ،ذو کی صفت ہوسکتاہےوہیں دوسری قرأت کےمطابقالعرش کی صفت بھی بن سکتاہے۔مفسرین نےدونوں قرأتوں کالحاظ رکھاہے۔کسی نے المجید کومرفوع [دال پرپیش ]پڑھ کرذوکی صفت تسلیم کیاہے اور کسی نے المجید کومکسور(دال کےنیچےزیر) العرشکی صفت اختیارکیاہے۔پہلی صورت میں ترجمہ یوں ہوگا۔عرش کامالک،بزرگی والااوردوسری صورت میں ترجمہ یوں ہوگا:عزت والےعرش کامالک۔امام احمدرضانےدوسری قرأت کواختیارکرتےہوئےترجمہ کیاہے۔ چنانچہ اس حوالےسےان کاترجمہ بالکل درست ہے۔پروفیسرصاحب کااعتراض دراصل اُن کےمحدودعلم کانتیجہ ہے۔اگرانھوں نےکتب تفسیراورکتب تجویدوقرأت کی طرف مراجعت کی ہوتی تووہ یہ اعتراض نہ کرتےبلکہ وہ اس بات کااعتراف کرتےکہ امام احمدرضا کو دیگرعلوم وفنون کی طرح علم قرأت پربھی کس طرح زبردست دسترس حاصل تھی اور ترجمۂ قرآن کےاندرانھوں نےکیسی کیسی علمی بحثیں محض لفظوں میں سموکررکھ دی ہیں۔ فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ سےقبل امام فخرالدین رازی علیہ الرحمتہ جیسےعظیم مفسرنےبھی اسی قرأت کواختیارکیابلکہ انھوں نےمتن قرآن میں المجیدکی دال پرزیرکی حرکت لگائی ہے۔(دیکھئےتفسیرکبیر)اب ہم ذیل میں مفسرین کی توضیحات نقل کرتےہیں جس میں انھوں نے المجیدکوبطورصفت العرشدرست قراردیاہے۔
(۱) امام علامہ علاءالدین علی خازن علیہ الرحمتہ اپنی مشہورتفسیر“لباب التأویل فی معانی التنزیل “میں المجیدکی تفسیرمیں لکھتےہیں:
“وقرئی المجید بالکسر علی انہ صفۃ العرش أی السریرالعظیم اذلایعلم صفۃ العرش وعظمتہ الااللہ تعالیٰ وقیل أرادحسنہ فوصفہ بالمجید فقد قیل ان العرش احسن الأجسام“[تفسیرالخازن،ص:۳۶۸]
ترجمہ:المجیدکسرہ (زیر)کےساتھ بھی پڑھاگیاہےاس بناپریہ العرش کی صفت ہوگایعنی تختِ عظیم کیونکہ عرش کی صفت وعظمت بھی توسوائےاللہ تعالیٰ کےکوئی نہیں جانتااورکہا گیا ہےکہ اللہ تعالیٰ نےالمجیدفرماکرعرش کاحسن مرادلیاہےچنانچہ کہاگیاہےکہ عرش کاقالب تمام اجسام سےبہترہے۔
(۲) اسی طرح علامہ نسفی تحریرفرماتےہیں:
“(المجید) وبالجبر حمزۃ وعلی،علی انہ صفۃ للعرش ومجد اللہ عظمتہ ومجد العرش علوہ وعظمہ“[تفسیرمدارک،ص:۳۶۷]
ترجمہ:المجید،جرکےساتھ(بھی)ہےحمزہ اورعلی(کےنزدیک)اس بناپرعرش کی صفت ہوگا چنانچہ اللہ کی مجدوبزرگی سےمراداس کی عظمت جبکہ عرش کی مجدوبزرگی سےمراداُس کا
اونچااوربڑاہوناہے۔
(۳) صاحب تفسیرقرطبیالمجید بالکسرکی وضاحت کرتےہوئےلکھتےہیں: “(ذوالعرش المجید)قرأالکوفیون الاعاصما “المجید “بالخفض نعتاللعرش ۔۔۔ الیاقون با لرفیع نعتالذو وھو اللہ تعالیٰ واختارہ أابوعبیدوأبوحاتم ،الأن
المجید ھوالنھایۃ فی الکرم والفضل،واللہ سبحانہ المنعوت بذ لک،وان کان قد و
صف عرشہ بالکریم فی آخر “المؤمنون “۔۔۔“[تفسیرقرطبی،ص:۲۹۶،۲۹۷]
ترجمہ:(ذوالعرش المجید)قُرّاءِ کوفہ نےسوائےجناب عاصم کے“المجید“دال کےزیرکے ساتھ پڑھاہے،عرش کی صفت کےطورپر۔باقی قُرّاءنےرفع(دال پرپیش)کےساتھ پڑھا ہے،ذوکی صفت کےطورپر،اوروہ اللہ تعالیٰ ہے۔اس(قراءت)کوابوعبیدہ اورابوحاتم نے اختیارکیاہےکیونکہ مجدکامعنی ہےانتہائی کرم وفضل اوراللہ تعالیٰ اس صفت سےمتصف ہے اگرچہ اُس نےاپنےعرش کوکریم بھی فرمایاہے۔سورۂ مومنون کےآخرمیں۔
(۴) امام رازی نےاپنی“تفسیرکبیر“ میں نہ صرف قرأت بالکسرکی توضیح کی ہےبلکہ اسی کواختیارفرمایاہے۔وہ دونوں قرأتوں کی صراحت کرتےہوئےلکھتےہیں:
“(المجید)وفیہ قراءتان(احداھما)الرفع فیکون ذلک صفتہ اللہ سبحانہ،وھو اختیاراکثرالقراء والمفسرین لأن المجدمن صفات التعالیٰ والجلال،وذلک لایلیق الاباللہ سبحانہ،والفصل والاعتراض بین الصفتہ والموصوف فی ھذاالنحوغیرممتنع۔(والقراءۃالثانیتہ)بالخفض وھی قراءۃ حمزۃ،والکسائی فیکون ذلک صفتہ للعرش،وھؤلاءقالواالقرآن دل علیٰ انہ یجوز وصف غیر اللہ بالمجیدحیث قال(بل ھوقرآن مجید)اورأیناأن اللہ تعالیٰ قصف العرش بأنہ کریم فلایعبد أیضاأن یصفہ بأنہ مجید،ثم قالواان مجداللہ عظمتہ بحسب الوجوب الذاتی وکمال القدرۃ والحکمتہ والعلم وعظمتہ العرش علوہ فی الجھتہ وعظمتہ مقدارہ وحسن صورتہ وترکیبہ،فانہ قیل العرش أحسن الأجسام ترکیباًوصورۃ۔[تفسیرکبیر،ص:۱۲۳،جلد:۳۱]
ترجمہ:المجیدمیں دوقراءتیں ہیں ایک رفع کےساتھ تواس صورت میں یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہوگااوراکثرقُرّاءاورمفسرین نےیہی اختیارکیاہےکیونکہ مجد،علواورجلال اللہ تعالیٰ کی صفات میں سےہیں اوریہ اللہ تعالیٰ ہی کوسزاوارہیں اورصفت وموصف کےدرمیان فصل ایسے مواقع میں ممنوع نہیں ہےاوردوسری قراءت زیرکےساتھ ہےاوریہ جناب حمزہ اور جنابِ کسائی کی قراءت ہےتواس صورت میں المجیدعرش کی صفت ہوگا۔ان علماءوقراء کا کہنا ہےکہ قرآن میں خود اس پردلیل موجودہےکہ مجیداللہ تعالیٰ کےعلاوہ کسی اورکی بھی صفت واقع ہوسکتی ہےجیساکہ ارشادہےبل ھوقرآن مجید(یہاں مجیدقرآن کی صفت ہے)۔نیز ہم دیکھتےہیں کہ اللہ تعالیٰ نےاپنےعرش کوکریم فرمدیاہےتویہ بھی بعیدنہیں کہ یہاں اُس نے اپنےعرش کومجیدفرمایاہو۔پھرمفسرین کاکہناہےکہ اللہ کی بزرگی سےمراداس کی عظمت ہے جواس کی ذاتی ہے۔نیزکمال قدرت،حکمت اورعلم مرادہے،جبکہ عرش کی عظمت سےمراد اُس کی جہت کےاعتبارسےبلندہونا،مقدارِعظمت،حسن صورت اورحسن ترکیب(بناوٹ) ہے۔چنانچہ کہاگیاہےکہ عرش اپنی صورت وبناوٹ کےحوالےسےتمام چیزوں سے خوبصورت ہے۔
(۶) علامہ ابن کثیرنےبھی آیت کی تفسیرمیں اس بات کی صراحت فرمائی ہےاور دونوں صورتوں کودرست قراردیاہے،چنانچہ تفسیرابن کثیراردومیں ہے:
“مجیدکی دوقراءتیں ہیں۔دال کاپیش بھی اوردال کازیربھی۔پیش کےساتھ وہ خداکی صفت بن جائےگااورزیرکےساتھ عرش کی صفت ہے۔معنی دونوں کےبالکل صحیح اوردرست بیٹھتے ہیں“۔ [تفسیرابن کثیر،جلد۵،ص:۴۴]
(۷) فاضل بریلوی قدس سرہ کےترجمہ کےبعدبھی بعض مترجمین ومفسرین نے المجید کی دوسری قراءت کوپیش نظررکھاہےاوراسی طرح ترجمہ کیاہے۔چنانچہ راقم الحروف کے والدگرامی حضورریاض الملت قدس سرہ نےاپنےترجمہ ریاض الایمان میں بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ (تفسیرریاض القرآن،جلدچہارم)
(۸) علاوہ ازیں ہمارےمعاصرمفسرومحدث جناب علامہ غلام رسول سعیدی مدظلہ نے بھی اپنےترجمۂ قرآن میں المجیدکوالعرش کی صفت قراردےکرترجمہ کیاہے: “عظمت والےعرش کامالک“۔ (تفسیرتبیان القرآن ص۶۴۸جلد۱۲)
علامہ موصوف لفظ المجید کی توضیح میں ارقام فرماتےہیں:
“اس آیت میں مجیدکالفظ ہے۔ظاہریہ ہےکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہےکیونکہ تعالیٰ ،مجد اورجلال اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اوراکثرمفسرین کایہی مختارہےاوریہ بھی ہوسکتاہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کےعرش کی صفت ہوجس طرح قرآن مجید (البروج: ۲۱) میں مجید،قرآن کی صفت ہے“۔ (ایضاً ص: ۶۶)
(۹) کچھ عرصہ قبل شائع ہونےوالی ایک اورتفسیر،تفسیررفاعی جوکہ جناب سیدمحمد رفاعی عرب کی علمی کاوش ہے،اس میں بھی آیت کاجوترجمہ دیاگیاہےوہ المجیدکی دوسری قراءت کےحوالےسےہے،ملاحظہ ہو: “عزت والےعرش کامالک“۔(تفسیررفاعی،ص۷۱۴)
(۱۰) انڈیاکےدیوبندی مصنف جناب نسیم احمدغازی مظاہری نےاپنی“درسی تفسیر پارہ عم“میں بھی المجیدکی دوسری قراءت جرکی ہے۔اس صورت میں یہ العرش کی صفت ہوگا“۔[درسی تفسیر،ص:۱۴۷)
(۱۱) ایک اورمعاصرمفسرمولاناعبداللطیف اپنی تفسیرکاشف البیان میں[المجید]کی تفسیرمیں لکھتےہیں:
“المجید۔۔۔اس کو مرفوع [المجید] مجرور [المجید] دونوں طرح پڑھاجاسکتاہے۔مرفوع
ہونے کی حالت میں یہ ودودیاذوکی صفت ہےاورمجرورہونےکی صورت میں عرش کی صفت ہے یعنی وہ بڑےعرش کامالک ہے“۔[تفسیرکاشف البیان،جلدششم،ص:۵۱۵]
قارئین گرامی!مفسرین کی درج بالاوضاحت وصراحت سےیہ بات اظھرمن الشّمس ہوگئی کہ المجید کی دوقراءتیں ہیں اوریہ دونوں درست ہیں۔لہذاآیت کاترجمہ بھی دونوں طرح درست ٹھہرا۔ان دلائل وبراہین کےملاحظہ کےبعدیہ بات عیاں ہوتی ہےکہ امام احمدرضا رحمتہ اللہ علیہ کوعلم قراءت پربھی مکمل عبورحاصل تھااورانھوں نےبوقت ترجمہ مختلف قراءتوں پرغوروخوض کرکےترجمہ کاکام سرانجام دیاہے۔عربی زبان کےماہرین اور فلسفۂ اِعراب سےآگاہ اہل علم وفن پریہ بات مخفی نہیں کہ المجیدمرفوع کےبجائےمکسورپڑھنےمیں سلاست وروانی زیادہ نمایاں دکھائی دیتی ہے۔
حوالہ جات
۱۔فاضل بریلوی کےکردارونظریات کامختصرجائزہ،مطبوعہ لاہور۔
۲۔تفسیرالخازن،جلدچہارم مطبوعہ پشاور۔
۳۔تفسیرنسفی برحاشیہ خازن،مطبوعہ پشاور۔
۴۔تفسیرقرطبی جلد۱۰،مطبوعہ تہران،ایران۔
۵۔تفسیررفاعی،مطبوعہ لاہور۔
۶۔تفسیرکبیرجزء۳۱،مطبوعہ قم،ایران۔
۷۔تفسیرروح المعانی،جزء۳۰مطبوعہ لاہور۔
۸۔تفسیرکاشف البیان مطبوعہ ہوتی،مردان۔
۹۔تفسیرریاض القرآن،ناشرجامعہ ریاض الاسلام،اٹک۔
۱۰۔تفسیرتبیان القرآن،فریدبکسٹال،لاہور۔
۱۱۔تفسیرابن کثیر،مطبوعہ کراچی۔
۱۲۔درسی تفسیرپارہ عم،مطبوعہ اکوڑہ خٹک،سرحد،پاکستان