ہر دل عزیز شخصیت
ہر دل عزیز شخصیت
حضرت علامہ عبد الرب اعظمی نوری
ٹیکساس امریکہ
______________________________________________________
شریعت اور طریقت کی ضیاء حضرت تراب الحق
مسلمانوں کے دینی پیشوا حضرت تراب الحق
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ساتھ ہی ہدایت انسانی کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کا نورانی سلسلہ جاری فرمایا اور سب سے آخر میں ہم سب کے آقا خاتم پیغمبراں ﷺ کو مبعوث فرمایا۔
نبی کریم ﷺ نے ہدایت انسانی کے فریضے کو اپنی امت کے علماء کے حوالے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’’علماء امتی کأ نبیاء بنی اسرائیل‘‘مری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں کہ جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء کو ایک علاقہ اور ایک زمانہ کے لئے مبعوث کیا گیا تھا ۔ اسی طرح ہمارے علماء کا حال ہے وہ بھی ایک علاقہ اور ایک زمانہ کیلئے داعی و مبلغ ہوتے ہیں البتہ انکی تحریریں دیرپا ہوتی ہیں جن سے آنے والی نسلیں بھی فیضیاب ہو تی ہیں ۔
داعی حق پیر طریقت رہبر شریعت ، پیکر شفقت مقتداء اہلسنت حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ اللہ علیہ الباری ۴ محرم الحرام ۱۴۳۸ ھ بمطابق ۶ اکتوبر ۲۰۱۶ بروز پنج شنبہ بوقت صبح دس بجکر ۲۵ منٹ پر اس دارِ فانی سےدارِ جاویدانی کیطرف رحلت فر ماگئے ۔ ( انا للہ وانا الیہ راجعون)
گذاری حق کی ترویج و اشاعت میں حیات اپنی
مقدس دین کے تھے رہنما حضرت تراب الحق
نہ آیا حرف ِ شکوہ لب پہ وقت آزمائش بھی
سراپا پیکر صبرو رضا حضرت تراب الحق
وصال پر ملال کی خبر بجلی کیطرح ملک و بیرونِ ملک پھیل گئی ملک کے گوشے گوشے سے اہل عقیدت کے قافلے کراچی کیطرف رواں رواں ہو گئے ۔ تقریباً ۵لاکھ کا جم غفیر جنازہ میں تھا جو موجودہ تاریخ کا سب سے بڑا مجمع تھا ۔ (فللہ الحمد)
ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اہل علم میں انکی شخصیت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ عالمی سطح اور ملکی سطح پر بھی ہر خاص و عام اُن کے علم و تقویٰ اور کردار و اخلاق میں رطب اللسان نظر آتا تھا اس لئے کہ آپ سادگی بےریائی، خوش روئی ، خوش مزاجی ، خوش کلامی خوش اخلاقی ، عاجزی ، انکساری لطافت وحلاوت، دینی حمیت و حرارت اور عالمانہ وقارکے پیکر جمیل تھے آپ فرد نہیں تنہا انجمن تھے جیسا کہ حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ شاہ صاحب کی مصروفیات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک آدمی اتنے کام سر انجام دیتا ہے ‘‘ وہ مبلغ تھے ، مصلح تھے ، مفکر تھے ،مدبر تھے اور پیکر اخلاص تھے۔ انکے انِ اوصاف کی ترجمانی کرتے ہوئے شاعر اسلام حضرت علامہ سید قدسی مصباحی صاحب یوں رقمطراز ہیں ۔
زمانہ اب بھی ہے مداح اُن کے طرز اُلفت کا عجب مخلص تھے آلِ مصطفیٰ حضرت تراب الحق
حضرت شاہ صاحب کی ایک ایسی عبقری اور نادر روز گار شخصیت تھی جنہوں نے ملک و بیرون ملک ( سعودیہ ، امریکہ ، یورپ ، اور ینیا وغیرہ ) مختلف ممالک میں رشد و ہدایت ، دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ امت کا فریضہ کچھ اس طرح انجام دیا کہ جس سے مردان ِ حق اور مصلحین عظام کی یاد تازہ ہو جاتی جن کا لمحہ لمحہ اخلاص و للٰہیت کے ساتھ ’’ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کی انجام دہی میں گذرتا ۔
آپکی تقریر قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاحی ، تمثیلی اور عام فہم ہوتی آپکی تقریر و گفتگو کا انداز نرالا ہوتا مشکل سے مشکل مسائل کو بآسانی سا معین کے ذہن میں اتار دیتے ، عوام و خواص میں ہر دلعزیز تھے جو آپکے پیرو مرشد سیدی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی دعا ء کی تاثیر کا ثمرہ تھا ۔
دعائے مفتی اعظم کی ، کچھ ایسی ہوئی تاثیر بنے ہر دلعزیز اور باصفا حضرت تراب الحق
آپ دنیائے سنیت کی ایک معروف شخصیت تھے جو پیر طریقت کے ساتھ حکیم بھی ، خیرخواہی و خیر اندیشی اور حسین اخلاق کے پیکر تھے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے ۔ خدمت دین اور خدمتِ خلق انکی زندگی کا خاصہ تھا ۔ خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں یا اسمبلی میں ۔
جب آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے تب آپ نے قانون’’ تحفظ ناموسِ رسالت ﷺ کو قومی اسمبلی سے منظور کروانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا آپ نے قومی اسمبلی میں قرآن و حدیث اور اجماع امت سے یہ ثابت کیا کہ گستاخ ِ رسول کی سزا موت ہے ۔ جبکہ اُس سے قبل پاکستان کے قانون میں گستاخ رسول کی سزا فقط عمر قید تھی۔ حضرت قبلہ پیر نقیب الرحمٰن فرماتے ہیں کہ اسمبلی اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی شا ہ صاحب کی راست بازی اور حق گوئی کا ہمیشہ چرچا رہا ۔‘‘
آپ کی حق گوئی اور مسلک حق کی ترجمانی کے تعلق سے حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں فرماتے ہیں ‘‘ شاہ صاحب مسلک حق کے سچے ترجمان اور پاکستان میں مسلک اعلیٰ حضرت کی پہچان ہیں الحمد اللہ ! آپ ہر سطح پر مسلک ِحق کے پُر جوش داعی نظر آتے ہیں ‘‘ جس کو حضرت علامہ سید قدسی مصباحی نے اپنے شعر میں یوں نظم کیا ۔
رہے پر جوش داعی مسلک احمدرضا کے وہ تھے حق گو، حق نگر ، حق آشنا حضرت تراب الحق
حضرت امیر اہلسنت ذہانت و فطانت اور حاضر جوابی میں یگانۂ روز گار تھے ۔ بڑے سے بڑا پیچیدہ مسئلہ ہو ۔ سوال سنتے ہی جواب حاضر۔ کسی بھی طرح کے علمی و عملی اشکالات انکے سامنے پیش کئے جاتے فوراً حل فرماتے ۔ اور اپنے افادات و ہدایات سے نواز کر سب کو مطمئن کر دیتے ۔ ہر ایک کی مخلصانہ اصلاح فرماتے خواہ اپنا ہو یا غیر ، ہم عقیدہ ہو یا بد عقیدہ۔
آپ اپنی سیفِ زبان سے کسی پرواہ نہ کرتے بلکہ ہمیشہ آپکی آواز کا نشیب و فراز برادرانِ ملت اسلامیہ پر ابرِ نیسا بن کر برستا ہاں مگر وہ لوگ جو توہینِ رسالت ﷺ کے مرتکب ہوتے اُن پر برق خافق بن کر گرتے ۔ آپ نباض تھے احقاق ِ حق ابطال باطل آپ کا شیوہ تھا ۔ سب سے اہم یہ کہ آپ ناشر مسلک اعلیٰ حضرت تھے ۔
عبادت و ریاضت میں آپکا نمایاں مقام ہے ۔ سفر ہو یا حضر ا للہ اللہ ! حضرت شاہ صاحب کا کیا ذوقِ عبادت و ریاضت تھا ۔ اس شان کے عابد وزاہد اس عہد بلا خیزمیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں ۔ حضرت کے اطاعت الہیٰ کا جذبہ بیکراں صرف خانۂ خدا تک ہی نہ تھا بلکہ معمولات حیات حتیٰ کہ حالتِ علالت میں آپ انتہائی مرتاض اور پابند شریعت تھے۔
انہیں وجو ہ کی بناء پر آپ آج کروڑوں دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ وابستہ ہیں ہزاروں محفلوں میں آپ کے سوز تنفس سے اجالا ہے ۔
کبھی یہ اہلسنت بھول پائیں غیر ممکن ہے تھے ایسے حامل خلق و وفا حضرت ترا ب الحق
راقم الحروف ! سب سے پہلے انکے جانشین حضرت علامہ سید شاہ عبد الحق صاحب قبلہ اور خانوادہ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا اور حضرت شاہ صاحب کیلے دعا ء مغفرت کرتاہے۔
اللھم اغفرلہ و رحمۃ وادخلہ جنت النعیم ۔ اللھم یاحنان یا منان یا واسع الغفران وسع مد خلہ واغسلہ بالما ءِ والثلج و البردنقہ من الذنوب والخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس۔ اللھم انزلہ منازل الصدیقین والشہداء والصالحین و حسن اولئک ر فیقا۔ اللھم اجعل قبرہ من ریاض الجنۃ۔ مولا قدیر ان کے فیضان علمی و روحانی کو ہم سب پر جاری و ساری رکھے ۔
آمین اللھم آمین بجاہ النبی الامین ۔ ﷺ
وقف تھی زندگی جس کی حق کے لیے اُس مجاہد کی عظمت پہ لاکھوں سلام
(طالب دعا ء عبد الرب اعظمی)