حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضورنبی کریم ﷺ کو جن حضرات نے حالت ایمان میں دیکھا اور ان کا انتقال بھی حالت ایمان میں ہوا، ان خوش نصیب حضرات کو صحابہ کرام کہا جاتا ہے۔ تمام صحابہ خیرِ امت تھے ، تمام صحابہ تقویٰ وطہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ، تمام صحابہ عادل اور اخلاق کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے ، مگر جس طرح ایک گلدستہ کے مختلف پھولوں میں ہر پھول کی خوشبو دوسرے سے جدا اور منفرد ہوتی ہے اسی طرح صحابہ کرام میں ہر صحابی کی شان، عظمت،مزاج اور اخلاق وعادات دوسرے سے مختلف ہیں، صحابہ میں سب سے افضلیت کا شرف اْسے حاصل ہو ا جسے نبی محترم نے زبانِ نبوت سے انبیاء کرام کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل قرار دیا ، جسے سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف ملا ، جسے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا لقب عطا ہوا ، جسے یار غار ومزار کا تمغہ ملا ، جس نے بغیر کسی پس وپیش کے نبی کریم ﷺکی نبوت کا اقرار کیا ، جس نے ایمان لانے کے بعد نبی کریم ﷺ کی صحبت اور دیدار کو دنیا کی قیمتی ترین متاع قرار دیا ، جو نبی کریمﷺ کے سفر وحضر کا رفیق بنا۔ اسی افضل البشر بعد الانبیاء کی زندگی کے تعلق سے کچھ تذکرہ اس مضمون میں کیا جارہا ہے۔

اسم گرامی: عبداللہ

کنیت: ابو بکر

لقب : صدیق اور عتیق

والدماجد :عثمان بن عامر

والدہ ماجدہ: سلمیٰ

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تمام صحابۂ کرام میں سب سے زیادہ راہ خدا میں خرچ کرنے والے تھے ، آپ نے ہر موڑ پر اسلام کا بھرپور تعاون کیا یہی وجہ ہے کہ آپ کی سخاوت کو تمام صحابۂ کرام کی سخاوت میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ جب آپ نے راہ خدا میں چالیس ہزار دینار اس طرح خرچ کئے کہ دس ہزار رات میں ، دس ہزار دن میں ، دس ہزار دکھا کر اور دس ہزار چھپا کر تو اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ جبرئیل امین قرآن کی یہ آیت لے کر نازل ہو گئے ’’الَّذِینَ یُنْفِقُوْنَ اموالھم بالیل والنھار سرا وعلانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیہھم ولا ہم یحزنون۔‘‘

ترجمہ:وہ جواپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں ، چھپے اورظاہر ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ کچھ غم۔ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی احسان ہم پر ایسا نہیں جس کا ہم نے بدلہ نہ ادا کیا ہو سوائے ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ، کہ ان کا احسان ہم پر ہے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ان کوقیامت میں دے گا اور اتنا فائدہ مجھ کو کسی کے مال نے نہ دیا جتنا فائدہ مجھے ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے ملا۔ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ جان لو کہ تمہارا صاحب ( حضور ﷺ)اللہ کا خلیل ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جوش ایمانی:قبیلہ عوس ، ذیبان ، غتفان ، اور فجار جو مدینہ کے آس پاس ہی میں آباد تھے انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ، اس نازک وقت میں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بڑے بڑے صحابۂ کرام کی ایک میٹنگ بلائی اور اس مسئلہ میں ان سے مشورہ طلب کیا۔ اس میں اکثر کی رائے یہ تھی کہ ہم ان سے جنگ نہیں کریگے جو کے قائل ہیں۔ مگرصدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جوش ایمانی نے تڑپ کر فیصلہ کیاکہ:’’ خدا کی قسم اگر یہ لوگ اونٹ کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جو حضور ﷺ کے زمانے میں دیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا ، زکوۃ مال کا حق ہے جو لوگ نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘ اس فتنے کی کمر توڑنے میں زبردست گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں زکوۃ کا انکار کرنے والوں کو شکست اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ، نتیجہ یہ ہوا کہ تمام قبیلوں کے سردار اپنی اپنی زکوٰۃ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہو گئے۔

اب نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کا معاملہ تھا جو ہر طرف ارتدادکا زہرگھول رہے تھے ۔ آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے 11 لشکر منتخب کئے اور ہر ایک کے لئے الگ الگ امیر مقرر کئے۔ 11 ہجری سے 12 ہجری تک زکوۃ کا انکار کرنے والے اور نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں:’’ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے کہ اگر اللہ ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ ہماری مدد نہ فرماتا تو ہماری ہلاکت یقینی تھی۔‘‘

وفات : 7 جمادی الآخر 13 ہجری کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بخار آ گیا تقریبا 15 دن تک بخار میں مبتلا رہے ۔ 22 جمادی الآخر 13 ہجری بروز منگل کو آپ کی وفات ہوئی اور حضورﷺ کے پہلو میں دفن ہوئے ۔


متعلقہ

تجویزوآراء