حضور تاج الشریعہ کے محاسن و کمالات

نبیرۂ امام اہل سنت، وارث علوم اعلیٰ حضرت، فخر ازہر، مرشد گرامی، سیدی الکریم، تاج الشریعہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے علم و فضل، تقویٰ و طہارت، جزم احتیاط، جملہ علوم میں کمال مہارت کی وجہ سے یگانۂ روزگار شہرۂ آفاق شخصیت کے حامل تھے۔ اپنے بیگانے سب ان کی علمی برتری کے قائل اور معترف تھے۔ پیچیدہ، لاینحل مسائل میں اکابر علماء آپ سے رجوع کرتے۔ اس طرح آپ کی مبارک ذات عوام و خواص سبھی کے لیے مرکز عقیدت تھی۔

اہل سنت کو حضرت سے ایسی والہانہ عقیدت و محبت تھی کہ پروانہ وار ثنار ہونے کے پاکیزہ جذبۂ بیکراں سے ہمیشہ سر شار رہتے۔ حضرت جس علاقہ میں جلوہ افروز ہوتے سارا علاقہ سمٹ آتا اور حضرت کی زیارت، زبان حق ترجمان کے مبارک کلمات سے عقیدہ و ایمان کا تحفظ ہوجاتا، لوگوں کے دلوں میں عشق رسالت کی ضیاء بار کرنوں میں مزید چمک آجاتی، کتنے بد عقیدہ بد مذہبیت سے توبہ کر کے داخل سلسلہ ہوجاتے، حضرت کے دست حق پرست پر بیعت ہونے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر میں مذہب اہل سنت، مسلک اعلیٰ حضرت کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت اور سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی ترویج و اشاعت میں پوری زندگی وقف کردی۔ عوام و خواص میں قبول عام بارگاہ ایزدی سے وافر حصہ ملا یہی وجہ ہے کہ آپ کے دامن کرم سے وابستہ افراد بے شمار ہیں۔

ملک و بیرون ملک میں تبلیغی اسفار کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود فتویٰ نویسی اور درجنوں علمی کتابوں کے مصنف و مترجم ہونے کی حیثیت سے بھی آپ کی ذات انفرادی خصوصیت کی حامل نظر آتی ہے۔ ہر تصنیف سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ علم کثیر، وسعت مطالعہ اور قلم سیال کے مالک ہیں۔

سب سے پہلے حضرت کی زیارت اور خطاب سننے کا موقع ۱۹۸۶؁ ء میں اس وقت میسر آیا جب آپ افتتاح بخاری شریف کے لیے جامعہ فاروقیہ عزیز العلوم قصبہ بھوج پور ضلع مراد آباد میں جلوہ فرما ہوئے۔ اسی موقع پر راقم الحروف کو شرف بیعت حاصل ہوا۔ حضرت نے حدیث مبارک ’’انما الاعمال بالنیات الخ‘‘ کی تشریح و توضیح فرماتے ہوئے ایسے علمی نکان بیان فرمائے کہ سارے مجمع سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

حضور تاج الشریعہ دیگر علوم کی طرح علم حدیث میں بھی اپنے وقت کے امام اور عظیم و جلیل محدث تھے۔ حضرت کا حاشیۂ بخاری شریف اس پر شاہد عدل ہے جو علم حدیث میں گراں قدر قابل افتخار علمی سرمایہ ہے۔ حاشیہ بخاری شریف سے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں جس سے حضرت کی قوت استحضار، ندرت استدلال اور شان علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حدیث مبارک ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ’’فائدہ‘‘ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کسی سے منقول نہیں کہ انہوں نے زبان سے نماز کی نیت کی ہو۔ البتہ صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے زبان سے نیت کرنے کو مستحب قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ زبان سے نیت کرنا بدعت حسنہ ہے۔ بدعت صرف سیئہ نہیں ہوتی ہے بلکہ حسنہ بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہابیوں کا یہ گمان کہ ہر بدعت سیئہ ہے مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہے۔ بلکہ ان کا یہ گمان خود بدعت ہے اور وہ بدعتی ہیں۔ پھر اس تعلق سے احادیث مبارکہ، علامہ علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ’’مرقاۃ شرح مشکوٰۃ‘‘ کی تفصیلی عبارت نقل فرمائی۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں ایک باب قائم فرمایا: ’’باب قول اللہ وما اوتیتم من العلم الاقلیلا‘‘

پوری آیت یہ ہے ’’ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا‘‘

اس کے اس حاشیہ میں مولوی احمد علی سہارنپوری نے یہ تحریر فرمایا:

اراد بایراد ھٰذا الباب المترجم بھٰذہ الآیۃ التنبیہ علی ان من العلم شیئالم یطاع اللہ تعالیٰ علیہ نبیا ولا غیرہ۔

یعنی اس آیت کے ساتھ باب مقرر کرنے میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ کچھ علوم ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے نبی اور غیر نبی کسی کو مطلع نہیں فرمایا۔

حضور تاج الشریعہ اس حاشیہ کا ردّ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

میں کہتا ہوں کہ اس تنبیہ پر کوئی دلالت نہیں۔ آیت اُس پر دلالت نہیں کرتی جو تم گمان کرتے ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حق میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وعلمک مالم تکن تعلم‘‘ اور فرمایا ’’الرحمٰن علم القرآن خلق الانسان علمہ البیان‘‘ یعنی بیان ما کان وما یکون۔ اور کہا گیا ہے کہ ’’الانسان‘‘ سے مراد نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ اور قرآن منزل کی صفت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ’’ولا رطب ولا یابس الافی کتٰب مبین‘‘ اور فرمایا ’’تبیانا لکل شئی‘‘ اور لفظ ’’کل‘‘ صیغۂ عموم ہے جو ہر شئی کو شامل، مفید استغراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عموم علم سے علم روح بھی مستثنیٰ نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ تعاالیٰ علیہ وسلم کو روح کا علم بھی عطا فرمایا گیا۔ سیاق آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قریش نے یہ سوال کیا کہ روح قدیم ہے یا حادث؟ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا جس کا حاصل یہ ہے کہ روح موجود اور حادث ہے۔ کلمہ ’’کن‘‘ سے پیدا کی گئی۔ فرمایا ’’قل الروح من امر ربی‘‘ سائلین کے لیے جواب کو مبہم رکھا گیا یہ اشارہ کرنے کے لیے اے سائلین! تمہیں اس کے علم کی کوئی راہ نہیں۔ اسی لیے فرمایا ’’وما اوتیتم من العلم الا قلیلا‘‘ یہ خطاب یہود و سائلین سے ہے۔

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے یہ تشریح تفقہاً فرمائی پھر یہ تشریح تفسیر کبیر میں دیکھی۔ خود فرماتے ہیں۔

ھٰکذا کنت اظن ثم راجعت التفسیر الکبیر فوجدتہ صرح بنحو ما فھمتہ فالحمد للہ علی التوقیف۔

تشریح بالا سے حضور تاج الشریعہ کا رسوخ فی العلم اور علمی کمال، ندرت استحضار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حدیث مبارک ہے:

عن عبد اللہ بن عمر ان رجلا قام فی المسجد فقال یا رسول اللہ من این تامر نا ان نھال؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یھل اھل المدینۃ من ذی الحلیفہ ویھل اھل الشام من الجحفہ ویھل اھل نجد من قرن۔

یعنی عبد اللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے مسجد میں کھڑے ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! احرام کس جگہ سے باندھا جائے؟ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور اہل شام مقام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے۔

اس حدیث کے تحت حضور تاج الشریعہ تحریر فرماتے ہیں:

فیہ معجزۃ عظیمۃ للنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حیث اخبر بأن الناس یسلمون ویحجون البیت من کل مکان فعین لکل مھلا یھل منہ۔یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اہل شام، اہل نجد کے لیے میقات مقرر کرنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عظیم معجزہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دے دی کہ لوگ اسلام قبول کریں گے اور ہر طرف سے حج کے لیے آئیں گے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سب کے لیے الگ الگ میقات مقرر فرمائی۔

اسی طرح پورا حاشیہ علمی نکات پر مشتمل اہم علمی ذخیرہ ہے۔ یہ حاشیہ بخاری شریف کے ساتھ مجلس برکات مبارکپور سے شائع ہوچکا ہے۔

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیائے سنیت میں کہرام برپا ہوگیا۔ میر کارواں کا رخصت ہونا یقیناً کارواں کے لیے نا قابل تلافی نقصان ہے۔ حضور تاج الشریعہ کے وصال سے ہمارے اکابر علماء و مشائخ کی دینی و ملی و مسلکی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ مذہب اہل سنت مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت اور بریلی شریف کی مرکزیت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام علمائے اہل سنت متحد ہوکر جماعت کی شیرازہ بندی فرمائیں تاکہ ہماری جماعت بد مذہبوں کی عیاری و مکاری سے محفوظ رہے اور گلشن سنیت کی پُر بہار رونق میں مزید اضافہ ہو۔

اللہ رب العزت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے مزار پُر انوار پر خصوصی فضل و کرم کی بارش نازل فرمائے اور جنت الفردوس میں بلند مقام سے سرفراز فرمائے اور ہم سب کو حضور تاج الشریعہ کے علمی فیضان سے ہمیشہ مالا مال رکھے۔


متعلقہ

تجویزوآراء