امام احمد رضا خاں ایک موسوعاتی سائنسداں
امام احمد رضا خاں
ایک موسوعاتی سائنسداں
پروفیسر جمیل قلندر
قرآن حکیم نے انسانی ذات، خارجی کائنات اور خالقِ کائنات سے متعلق ایک نئے اسلوب بیان اور اندازِ فکر کی داغ بیل ڈالی، جسے آج کل کی اصطلاح میں Holisticیا inter disciplinary approach کہتے ہیں ۔ اس کی رو سے بزم ہستی کی مختلف اور متنوع اشیاء کو علحیدہ علحیدہ دیکھنے کے بجائے ان کو ایک دوسرے کے مشترکہ تناظر میں دیکھتے ہیں قرآن حکیم کے بعد دو شخصیتیں قابلِ ذکر اور لائق توجہ ہیں۔ جہنوں نے خالص دینی پلیٹ فارم سے اس قسم کے بین المو ضو عاتی اور کلیاتی موقف اپنا کر اس کی تعلیم دی۔ایک شخصیت مبارک تو حضرت امام علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی قدر ہے، جن کا کم و بیش بیس مجلدات پر مشتمل کلام النفس و آفاق کے ہر گوشے پر محیط ہے،اور علم و معرفت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے،اور دوسری شخصیت برگزیدہ حضور سالتمآب علیہ والسلام کی ذرّیت میں سے امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔جہنوں نے اس قسم کے اندازِ فکر کو نہ صرف آگے بڑھایا، بلکہ اسی کے مطابق سائنسدانوں ، فلسفیوں ،علماءاور فقہاءکی ایل پوری نسل تیار کی۔جس میں آپ کے ایک ہونہار شاگرد امام ابو حنیفہ بھی ہیں ،جن کا اپنے استاد کی شان میں یہ قول ضرب والمثل بن چکا ہے:
لوَلاَ سَنَتانِ لَھَلَکَ النُعْمَانُ
’’اگر میری عمر کے وہ آخری دو سال نہ ہوتے جو میں نے اپنے استاد امام جعفر صادق کے تلمذ میں گذارے ہیں ،تو یہ نعمان کبھی کا ہلاک ہو چکا ہوتا‘‘
خالص دینی پلیٹ فارم سے ہٹ کر خالص علمی، سائنسی، اور فلسفیانہ میدان میں یہ اندازِ فکر مسلمان سائنسدانوں ، فلسفیوں، متکلمین، مؤرخین، علماء، اور فقہاءکا طرّہ امتیاز رہا،جن میں سے ہر ایک فرد نے ایک حیرت انگیز انسائیکلوپیڈیائی(encyclopedia) ورثہ نوعِ انسانی کے لئے چھوڑا ہے۔
دنیائے مشرق کے زوال و انحطاط کے بعد سستی، کاہلی، کام چوری اور سہل انگاری عام ہو گئی اور اس کے ساتھ وہ انسائیکلوپیڈیائی روح جاتی رہی اور پھر وہ وقت آیا کہ اہل ِ مغرب کی تقلید میں یہاں کسی ایک شعبہ علم و فن میں تخصیص (specialization) کے رجحان نے لے لی اب صورتحال یہ ہے کہ ایک شخص کسی ایک شعبہ علم و فن میں ماہر تو ہوگا مگر دوسرے متعلقہ یا غیر متعلقہ ( مگر بے حد مفید اور اہم ) شعبہ ہائے علم و فن سے بالکل کورا ور بے خبر ہوگا۔
انسائیکلوپیڈیائی دور کی طرف از سرِ نوع مراجعت:
حال ہی میں ارباب تحقیق پر جب نرے تخصصّ (specialization)کی خامیا ں اور نا کامیاں کھل گئیں تو انھوں نے کوششیں شروع کیں کہ عہد رفتہ کی اس انسائیکلوپیڈیائی اسپرٹ کو پھر سے ذندہ کیا جائے ، جسے عصرِ حاضر کی اصطلاح میں holistic approach یا inter disciplinary کہتے ہیں
تقسیم پاک و ہند سے پہلے ہندوستان میں علامہ امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ دینی پلیٹ فارم پر غالباً وہ واحد شخصیت نمودار ہوئے ، جہنوں نے نرے اسپلائزین کی روح سے ہٹ کر علوم و فنون کے بارے میں وہی انسائیکلوپیڈیائی، موسوعاتی، انٹر ڈسپلیزی اور ھولسٹک رویہ اپنایا، جو مشرق کے قدیم سا ئنسدانوں ، فلسفیوں ، علماء، فقہاء، اور مؤرخین کا وطیرہ اور معمول رہا ہے۔
علامہ امام احمد رضا بریلوی نے ایک ہزار تصانیف، حاشیوں اور شرحوں کا ذخیرہ چھوڑا ہے، جو ایک اندازے کے مطابق ستر علوم و فنون پر مشتمل ہے ، اور دوسرے اندازے کی رو سے موضوعات کی یہ تعداد سو سے بھی ذیادہ ہے، جن میں ایک ریاضیات بھی ہے ، جس پر علامہ امام بریلوی کے ۷۲ تصنیفات کتابوں مقالوں اور حاشیوں کی شکل میں موجود ہی ہیں۔
تحقیق و اجتھاد میں استقراء اور ریاضیات و ھندسی طریقہ استدلال کا استعمال:
علامہ امام بریلوی نے اپپنی تحقیقات اور اجتہادات کی بنیاد خالصہ استقراء یعنی ذاتی تجربے اور مشاہدے پر رکھی اور اس میں استدلال کا طریقہ قطعی طور پر وہی اپنایا جسے ریاضیاتی و ہندسی طریقہ استدلال mathematical & geometrical method of argumentation کہتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ علامہ امام بریلی ایک سائنسداں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ ریاضی داں بھی تھے۔
ریاضیات کے میدان میں:
پانچویں صدی کے برصغیر سندھ و ہند میں البیرونی کی تحقیقات ہی سے ریاضیات میں اقلیدس کی جیومیٹری اور فلکیات میں زیجات(metrical tables) کے مطالعہ کا آغاز ہوا اور جو فاضل محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی فاضلانہ رائے ’’علامہ بریلی کی باقیات صالحات پر ختم ہوا‘‘، جن کی ادنی سے جھلک ان کی ’’ تحریر اقلیدس‘‘ میں دکھائی سیتی ہے۔ بلکہ زیجات کے مسائل سے متعلق ان کے مطالعے اور فہم و ادراک کا یہ عالم تھاکہ انہوں نے شیخ الطائفہ نصیر الدین طوسی کی تیار کردہ ’’زیج ایلخانی‘‘ اور برصغیر سندھ و ہند کے ماہر فلکیات غلام حسین جونپوری کی ’’زیج بہادر خانی‘‘ پر فاضلانہ اور محققانہ حاشیے تحریر کئے۔ریاضیات کے موضوع پر علامہ امام بریلوی نے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ۷۲ تصنیفات چھوڑی ہیں۔
طبعیات کے میدان میں :
طبعیات کے موضوع پر علامہ امام احمد رضا بریلویکی تحقیقات اس سے بھی ذیادہ چونکا دینے والی ہیں۔ مثلاً آواز کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ آواز جب ہوا میں سفر کر رہی ہوتی ہے ، تو بے آواز ہوتی ہے، پھر(ان کے الفاز میں) ’’اس کی کاپیاں چھپتی ہوئی ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں ، اس کو آواز کا سننا ہی کہا جاتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر صاحب اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ علامہ امام احمد رضا بریلوی کی اس نفیس تحقیق کی رو سے انسان جب کلام کرتا ہے تو اس کے منہ میں ایک خاص قسم کی شکل اور ایک کیفیت مخصوصہ پیدا ہوتی ہےجسے آواز کہتے ہیں۔اس طرح آواز کی کاپیاں ہوتی چلی جاتی ہیں،اور ہوا کی موجوں میں تیرتی ہوئی سینکڑوں لوگوں تک پہنچتی ہیں ۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہزاروں آوازیں تھیں، بلکہ ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ایک آواز تھی جس کو سب لوگوں نے سنا ، کیونکہ وہ اسی آواز کی امثال اور اس کے مشابہ شکلیں ہوتی ہیں جو ہزاروں کانوں تک پہنچتی ہیں اور وہ تمام شکلیں اور کاپیاں ایک ہی آواز کہلاتی ہیں، حتی کہ صدائے بازگشت بھی اس کی اصل آواز ہے اور جو ٹیپ ریکارڈ اور فوٹوں گرام میں ٹیپ ہے وہ بھی اصل آواز ہے‘‘
روشنی کے بارے میں علامہ امام احمد رضا بریلوی کے مشاہدات قابل توجہ ہیں ۔ علم بصریات (optics) میں انعطاف نور (refraction of light) اور انعکاسِ نور (reflection of light) دو اہم تصورات ہیں ۔ انکسارِ نور /انعطاف نور کی توجیہہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ معمول سے ذیادہ ہوا میں رطوبت یا کثافت اگرچہ انکسار میں کمی بیشی لاتی ہے، جس کا ادراک تھرما میٹر سے ممکن ہے اور وہ قابل از وقوع نہیں ہو سکتا، مگر یہ تفاوت غیر اہم ہے۔ ۔ ۔ کوکب جب تک ٹھیک سمت الرائس نہ ہو، انکسار کے نیچے سے نہیں چھوٹ سکتا، مگر مشاہدے نے انکسار افقی کلی بتایا، اور تناسب سے انکساراتِ جزئیہ تدرک ہوئے ، جن کے جدول فقیر نے اپنی تحریراتِ ھندسیہ میں دی ہے۔ اس کے ملاحظہ سے پھر انہی قوانین نے راہ پائی اور ہر دن کے لئے وقتِ عصر پیش از وقوع ہمیں بتانا آسان ہوا‘‘
علاوہ ازیں ،’’فوز مبین در ردّ حرکتِ زمین ‘‘ کے عنوان سے علامہ امام احمد رضا بریلوی نے ایک کتابچہ لکھا ہے ، جس میں زمین کی حرکت کے رَد پر کل ایکسٹھ (۶۱) دلائل دئے ہیں* ۔ مقالہ نگار موصوف کی نظر سے پوری کتاب نظر سے نہیں گزریں ، علامہ امام احمد رضا بریلوی نے ۱۰۵ دلائل دئیے ہیں (ادارہ)ان میں سے ایک دلیل جو زمانہ قدیم سے چلی آئی ہے، یہ بھی ہے کہ کسی خاص جگہ سے کوئی وزنی شئے سیدھی عموداً اوپر پھینکی جائے ، تو وہ دوبارہ ٹھیک اسی جگہ پر آگرتی ہے، جبکہ زمین کی حرکت کی صورت میں وہ اس جگہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ گرتی ہے، گیارویں صدی عیسوین کے آغاز میں البیرونی کے ایک ہم عصر سائنسداں ابو سعید احمد بن محمد بن عبد الجلیل نے اس مفروزے کو اپنے مشاہدے اور تجر بہ کی بنیاد پر آزما کر دیکھا کہ پھینکی ہوئی وزین شے فی الواقع نشان زدہ جگہ سے ہٹ کر آگرتی ہے اور یوں اس نے زمین کی حرکت کو ثابت کیا۔
اقتصادیات کے میدان میں:
اقتصادیات کے موضوع پر ’’کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم‘‘ اور’’ تدبیر فلاح و نجات و اصلاح‘‘ کے عنوان سے علامہ امام احمد رضا بریلوی کے دو کتابچے منظر عام پر آچکے ہیں جو رہنما معاشی تصورات (key economics concept) پر مشتمل ہیں۔
علاوہ ازیں ناپ تول کے پیمانوں اور کرنسی نوٹوں کی قیمت صرف سے متعلق، دقیق و لطیف ریاضیاتی تجزیئے کی بنیاد پر، آپ کی تحقیقات و مباحث بڑی محیرالعقول ہیں۔
فلسفے کے میدان میں :
علامہ امام احمد رضا بریلوی نے، فلفسے کے موضو ع پر ،’’ الکلمةالملھمة‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں کل اکتیس (۳۱) مسائل زیرِ بحث آئے ہیں جبکہ اس سے پہلے غزالی کی کتاب ’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں صرف بیس مسائل سے بحث کی گئی ہے، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اس ضمن میں شبیر احمد غوری کے ایک محققانہ مقالہ کا حوالہ دیا ہے جس کی روح سے علامہ امام احمد رضا بریلوی کی کتاب ’’الکلمةالملھمة‘‘ عصر حاضر کی ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ ہے۔
فقہ کے میدان میں:
فقہ کے موضوع پر علامہ امام احمد رضا بریلوی کی کتاب’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ جو ۱۲ ضخیم جلدو ں پر مشتمل ہے*، ۱۲ جلدوں کی ہر جلد جیازی سائز کے ہزار صفحات پر مشتمل تھیں اور ان میں تخریج و تحشی کا کام نہ تھا، رضا فا ئونڈیشن لاہور اب تک فتاویٰ رضویہ کی ۲۲ جلدیں مع تخریجات ، ترجمہ عبارات (عربی، فارسی) اور حاشیہ شائع کر چکا ہے۔ ہر جلد تقریباً ۸۰۰/۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ تقریباً۵/۶ جلدیں اشاعت کی منتظر ہیں ۔ اور جو ریاضیا تی ، ھندسی، فلسفیانہ، سائنسی، علمی اور فقہی طریقہ استدلال پر مبنی معلومات کا ایک شاہکار انساکلوپیڈیا ہے۔ اس کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد صادق ضیاء اپنے ایک فاضلانہ اور محققانہ مقالے میں لکھتے ہیں’’ فقہ حنفی کے تحیرخیز خزانہ‘‘ ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ کے مصنف علامہ امام احمد رضا بریلوی ایسے عظیم حنفی فقہاء سے تعلق رکھتے ہیں جہنوں نے مسائل فقہ میں ریاضی کے استعمال میں خصوصی مہارت کا اظہار کیا ، اور فقہی فکر میں سائنسی بنیاد فراہم کی ‘‘ ۔۔۔ اور اب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی یہ رائے سنئے:
’’ ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا۔ میں نے ان کے فتاویٰ کے مطالعے سے یہ رائے قائم کی ہے۔ اور ان کے فتاویٰ ان کی ذہانت ، فطانت، جودتطبع، کمال ثقاہت اور علوم دینیہ میں تجرّ علمی کے شاہد عادل ہیں۔۔۔ مولانا جو ایک دفعہ رائے قائم کر لیتے ہیں اس پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں یقیناًوہ اپنی رائے کا اظہار بہت غور وفکر کے بعد کرتے ہیں لہذا انہیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاویٰ میں کبھی کسی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ بایں ہمہ ان کی طبیعت میں شدت ذیادہ تھی۔ اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہوتی تو علامہ امام احمد رضا بریلوی گویا اپنے دور کے امام ابو حنیفہ ہوتے‘‘
ماوراء الطبیعیات (metaphysics) کے میدان میں :
سترھویں صدی کے اختتام پر ، اور اٹھارویں صدی کے آغاز میں مغرب میں چند سطحی اور ظاہر بیں اسالیب فکر نے جنم لیا، جہنوں نے بعد میں جا کر ایک مستقل فلسفے کی شکل اختیار کی۔ یہ فلسفہ ظاہریت (Phenomenologist)کے نام سے مشہور ہے۔اس فلسفے کی ساری تحقیق کا نچوڑ یہ ہے، کہ انسان علم و تحقیق میں چاہے جتنا آگے بڑھتا جائے ، اوپر چڑھ جائے، اور نیچے گہرائیوں میں اتر جائے، وہ اپنے محسوسات کے دائرے سے نہیں نکل سکے گا ، بلکہ اس کے اندر محصور رہے گا۔ انگلستان میں لوک، ھوبز اور ھیوم جیسے فلسفیوں نے اس کی ڈاغ بیل ڈالی اور جرمنی میں عمانویل کانٹ نے اس کو اپنی منطقی انتہاء تک پہنچا دیا۔ کانٹکی رائے میں انسان صرف اشیاء کے ظواہر کو جان سکتا ہے، مگر ان کی حقیقت اور کنہ ، ماہیت کا ادراک نہیں کر سکتا۔بالفاظ دیگر ، وہ بزم ہستی کے ظواہر(Phenomena) کے پیچھے ’’غیب کی دنیا‘‘ کا علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اس طرزِ فکر نے آگے چل کر اس سے ذیادہ خشک، بے جان اور بانجھ فلسفیوں کو جنم دیا۔مثلاً ، مادّیت(Materialism) واقعیت (Realism)، تجربیت( Empiricism)، الحادی وجودیت(Existentialism) اور منطقی ایجادات(Logical positivism) وغیرہپ۔ان سب کا متفقہ مؤقف کم و بیش یہ رہا ہے کہ اول تو غیب کی دنیا کا سرے سے وجود نہیں ہے ، اور اگر بالفرض ہے بھی انسان کو اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ مؤقف ہے جس کے قائل لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے:
بَلِ ادّاَرکَ عِلْمُھُمْ فِیْ الاَخِرَ ةِ بَلْ ھُمْ فِیْ شَکّ مِنْھَا بَلْ ھُمْ عَنْھَا عَمُوْن
’’نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غیب کی دنیا کے بارے میں ان کے علم کی پونجی ختم ہو گئی ، بلکہ یہ تو اس کے متعلق شک میں ہیں، نہیں بلکہ یہ تو اس سے کورے اور اوندھے ہیں‘‘
مشرق ان فلسفیوں کی یلغار سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا تھا، یہاں تو پہلے ہی اس قسم کی ظواہریت کا طوفان گزر چکا تھا ۔ جس سے ابنِ تیمیہ جیسے دماغ شعوری اور لا شعوری طور پر اس قدر متاثر اور مسحور ہو گئے، کہ انہوں نے بھی عما نویل کانٹ کی طرح ظواہریت پر مبنی لاَاَدرِیَّتْ(Agnosticism) کا رویہ اپنا کر یہ کہنا شروع کیا کہ غیب کی دنیا انسان کی حیطئہ علم و ادراک سے باہر ہے۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآنِ حکیم نے اپنی دوسری سورت کے آغاز ہی میں متقین کی ایک صفت یہ بھی بتائی ہے کہ’’ الذین یومنون بالغیب‘‘ یعنی’’ جو غیب میں ایمان رکھتے ہیں ‘‘۔ اور جہاں تک ’’ایمان کی حقیقت‘‘ کا تعلق ہے تو حضور رسالتمآبﷺ نے ’’ حقیقتِ ایمان‘‘ اور امام علی کرم اللہ وجہہ نے ’’ حقائق ایمان‘‘ کے مفہوم کے حوالے سے اپنے مفرودات میں ایمان کی تعریف میں غیب اور مغیبات کےعلم و ادراک کو سر فہرست قرار دیا ہے اور علامہ سلیمان درانی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ غیب کی دنیا کا مشاہدہ ایمان کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔
دنیائے فکرِ اسلامی میں شیخ سید عبد القادر جیلانی، محی الدین ابن عربی، مولانا جلا ل الدین رومی، شیخ شاہ شرف الدین بو علی قلندر، اخوان الصفاء، غزالی، شیخ شہاب الدین یحییٰ سہروردی، عراقی، جلال الدین دوانی، شیخ الطائفہ نصیر الدرین طوسی، محمود شبستری، سنائی ، عطار، شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ دہلوی، ور علامہ محمد اقبال،(رحمہم اللہ تعالیٰ) جیسے نابغئہ روزگار صاحبانِ دل ودماغ یکے بعد دیگرے بے فکر و وجدان کے اسٹیج پر نمودار ہوئے اور انہوں نے عقل و نقل، روایت و درایت، اور تجربہ و مشاہدہ کی بنیاد پر اسی قسم کی ظواہریت کے منطقی، علمی، اور نفسیاتی مغالطوں کو بے نقاب کیا۔
تقسیم پاک و ہند سے پہلے ہندوستان میں اور خود سر زمین حجاز میں اسی ظواہریت اور اس سے پیدا شدہ دوسرے خشک، بے مغز و بے جان ، بانجھ فلسفیوں نے بڑے بڑے نابغہ روزگار دماغو ں کو متاثر کیا، جن میں سر سید احمد خان اور شیخ عبد الوھاب نجدی سر فہرست ہیں۔ اول الذکر کی طرف قرآن حکیم کی تفسیر میں نیچریت(naturalism) کا متشددانہ رویہ، اور ثانی الذکر کی طرف سے توحید یت کے بلبوتے پر غیب کی دنیا کے بارے میں وہی لاَ اَدْرِیَتْ(Agnosticism) کا مسلک، دونوں اس قدیم وجدیدظواہریت کی صدائے بازگشت اور فوٹو کاپی ہیں۔
روس میں مارکس اور لیلن کا نہایت منظّم جدلی فلسفہ اور اس پر مبنی اشتراکی نظام کا عظیم الشان منصوبہ اس لئے ناکام ہوا، کہ اس کی بنیاد ہی اس ظواہریت اور مادّیت پر رکھی گئے تھی، جو عقل و فکر، تصور و تخیل، توہم و تجسس، وجدان و الہام اور تحقیق و تخلیق کی وسعتوں، بلندیوں اور گہرائیوں سے قطعاً نا آشنا تھی۔
اس سے پہلے کہ ہم یہاں اس بحث میں داخل ہوجائیں کہ ہندوستان میں علامہ امام احمد رضا خان غالباً وہ پہلا نابغئہ روزگار ذہن ہے جس نے اس قسم کی ظواہریت ، مادّیت اور حسسیت پر مبنی لاَاَدرِیَّتْ(Agnosticism)کے ضمرات (implications) کو نہ صرف بھانپ لیا، بلکہ اس کی علمی اور منطقی مغالطوں کی نشاندہی کرنے کو اپنا مشن اور اوڑھنا بچھونا بنایا، یہ مناسب ہوگا کہ اس گفتگو کے لئے ایک ضروری اور مختصر سا تمہیدی پس منظر مہیا کیا جائے۔
اگرچہ کرہ زمین پر علامہ محققین کے نزدیک کئی عظیم الشان سائنسی ادوار آئے اور گذرے ہیں ، جو عروج(climax) اور زوال(anticlimax) کے قدرتی عمل سے گذر چکے ہےں ، عصر حاضر ہمارے لئے اس لئے اہم اور توجہ طلب ہے کہ ہم خود اس میں سائنس لے رہے ہیں ۔ اس عصر میں جہاں سائنس اور ریاضیات کم و بیش فلسفہبن چکی ہیں ، وہاں نفسیات نے باطنی علوم (occults science) کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ اس سے انسانی دماغ اور ذہن کے کئے ایسے فوشے سامنے آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف تجرباتی طریقہ کار(empirical methodology) کے خوگر اور دلدادہ سا ئنسدانوں کو چونکا دیا ، بلکہ صحافت اور فوجی امور کا ماہر Larry Collins بھی ہے جو اپنے مشہور ناول maze کے ایک روسی کردار کی زبان سے ہمیں یہ سناتا ہےکہ:
’’ انسانی دماغ اس کرہ زمین پر سب سے زیادہ پیچیدہ مشینری ہے پہلے تو یہ ملاحظہ کیجئیے کہ اس کا اندرونی مواد ۱۵ بلین عصبی خلیوں پر مشتمل ہے ۔ جتنے لوگ اس کرہ زمین پر رہتے ہیں ان سے کئی زیادہ خلیے انسانی دماغ میں ہوتے ہیں ہر خلیہ ایک ننھی سی لیبارٹی minilabہوتی ہے جو ہمہ وقت مسلسل کام کر رہا ہوتا ہے ۔ اکثر لوگ کمپیوٹر اور انسانی دماغ کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں جو بلکل غلط ہے ۔ دماغ کے اندر کوئی بھی حادثہ ایک سیکند کے ہزارویں حصہ میں رونما نہیں ہوتا۔ اس کا موازنہ اس رفتار کے ساتھ جس میں موجودہ کمپیوٹر معلومات process کرتے ہیں ، یہ اسی طرح ہے کہ ایک پیدل چلتے ہوئے آدمی کو ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کے ساتھ کیا جائے ۔ بہر حال دماغ کا ہر نیورن (neuron) کا موازنہ شاید ایک کمپیوٹر کے مرکزی کنٹرول یونٹ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ۔ بیشتر کمپیوٹر میں اس قسم کا صرف ایک یونٹ ہوتا ہے ۔ بہت تھوڑے ایسے ہیں جن میں پانچ یا چھ یونٹ ہوتے ہے جبکہ انسانی دماغ میں اس قسم کے ۱۵ بلین یونٹ ہوتے ہیں یہ صورتحال انسانی دماغ کو ایک ایسی متوازی پروسسنگ صلاحیت دیتی ہے، جو کسی بھی ایسے کمپیوٹر سے ، جو انسانی کو وہم و گمان می ں آسکتا ہے اتنی زیادہ ہے کہ اس پر قادر نہیں کہ اس کو سمجھنے لگ جائیں۔
مطلب یہ کہ انسانی دماغ کی استعداد و صلاحیت کمپیوٹر کی قوت سے نا قابل بیان و ادراک حد تک ۔ لا متناہی طور پر ۔ زیادہ ہے۔ اور وہ بھی اس کمپیوٹر سے جس کے ایک ننھے سے قرض MINIDISC میں ، جو انسانی ناخن پر آسکتا ہے دنیا کی سب بڑی لائبریری ۔ امریکن کانگرنس لائب ریری میں سمو دی گئی ہیں اور اب یہ کوشش ہو رہی ہے کہ اس کو مزید گھٹا اور سمٹا کر ایک ایسے ہندی نقطہ پر لایا جائے ، جس کی قوت ہضم مزکورہ کمپیوٹر منی ڈسک سے کئی گنا زیادہ ہو ۔ اس سے آپ انسانی دماغ کی قوت و صلاحیت کا اندازہ لگائیے جس کے اندر ۱۵ بلین پروسسنگ یونٹ ہوتے ہیں
انسانی دماغ کی یہی وہ حیرت انگیز قوت و صلاحیت ہے ، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام علی کرم اللہ وجہہ یون فرماتے ہیں:
وَتَحْسِبُ اَنَّکَ جَرَمُ صَغِیْرُ
وَفِیْکَ انْطَوَیْ الْعاَلِمُ الاْکْبَرُ
وَاَنْتَ الْکِتاَبُ الْمُبِیْنَالَّذِيْ
بِاَحْرُفِة یُظْھَرُ المُضْمَرُ
یعنی ’’ تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوڑا سا ذرہ ہے ، جبکہ جبکہ تیرے اندر پوری کائنات سمودی گئی ہے اور تو ہی وہ کتاب مبین ہے جس کے حروف میں پوشیدہ حوائو آشکار کئے جاتے ہیں ۔‘‘
یہی وہ راز ہے جس کی طرف قرآن حکیم نے آیات میں اشارہ کیا ہے:
۱ـ وَکُلَّ شَيءٍ اَحْصَیْنَھٗ فِیْ اِماَمٍ مُبِیْن
(ہم نے ہر شئے کا احصاء ایک امام مبین کے اندر رکھا ہے)
۲ـ وَکُلَّ شَيءٍ اَحْصَیْنَھٗ کِتَابًا
(ہم نے ہر شئے کا احصاء ایک کتاب، ایک کمپیوٹر ایک رجسٹر کے اندر رکھا ہے)
۳ـ وَ عَلَّمَ آدَمَ الاَسْمَا ء
(اس نے آدم کو سب کے سب اسماء سکھا دئے اور اس کی روح کے اندر سارے کے سارے ’’اسماء‘‘ کا علم feedکیا)
گویا ’’ آدم‘‘حریم ربویت کا ایسا سپر کمپیوٹر ہے، جس میں علم الاسماء کی اتنی لا متناہی مقدار feed کر دی گئی جس کی بدولت وہ ملائکہ کا مسجود بن گیا۔
یہ تو آدم علیہ الاسلام کا مقام تھا، اور وہ جن کی خاطر آدم علیہ الاسلام کو ہر اول دستہ کے طور پر بھیجا گیا جس کے نور کو انبیاءو رسل کی اصلاب میں سے تقلب و تحّول کے کئی مراحل سے گذار کر ، جوہر لطیف کی طرح کشید کیا گیا ، اس ذات ِ عالی مرتبت علیہالصلاۃ و الاسلام کے علم و معرفت کی وسعتو ں ، گہرائیوں اور بلندیوں کا کیا حال ہوگا اور اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟
یہی وہ نکتہ ہے جسے علامہ امام بریلوی نے اپنی مشہور تصنیف الدولہ المکیہ بالمادہ الغیبیہ میں اس حسن و خوبی کے ساتھ سجھایا اور سمجھایا ہے ، جس کو پڑھ کر عرب و عجم کے مشاہیر علماء اور فضلاء نےاس پر تقاریظ لکھ کر اس کے مصنف کو خراج تحسین پیش کیا۔