مجّدد ملّت امام احمد رضا بحیشیت سا ٔنسداں حکیم اور فلسفی
سید ریاست علی قادری بریلوی
مجّدد ملّت امام احمد رضا
بحیشیت
سا ٔنسداں حکیم اور فلسفی
علم و سأنس پر مسلمانوں نے جو احسانات کئے ہیں اور جس طرح شمع علم کو روشن رکھنے کی کوشش کی ہے اس کا اندازہ علم اور سأنس کی ان بے شمار کتابوں سے لگایا جا سکتا ہےجو انھوں نے ورثے میں چھوڑی ہیں علوم و فنون کا کویٔ ایسا شعبہ نہیں جس میں مسلمان سأنسدانوں اور عالموں نے کویٔ نہ کویٔ یادگار تصنیف نہ چھوری ہو۔ سائنسی علوم پر تو مسلمان عالموں اور سائنسدانوں کی شہرۂ آفاق تصانیف خصوصیت کے ساتھ آج بھی مغرب ممالک اور یورپ میں کلیدیاہمیت کے حامل ہیں اور بنیادی حیشیت رکھتی ہیں ریاضی ہو یا ہیٔت ، طب ہو یا قانون، طبقاتُ الارض ہو یا طبعیات، منطق ہو یا فلفسہ، کیمیا ہو نجوم ، فلکیات ہو یا ارضیات، غرض وہ کونسا علم فن ہے جس میں مسلمان سأنسدانوں نے تحقیق نہ کی ہواور ریسرچ کی نیٔ راہیں نہ کھول دی ہوں۔موجودہ دور کی سأنسی ترقی اور ایجادات مسلمان سأنسدانوں اور موجدوں کی علمی و تحقیقی کی کاوشوں کی مرہونِ مّنت ہیں۔ابن الہیشم نے بصارت اور علم المناظر کے میدان مین اپنے پیش رو اور ہمسر سأنسدانوں کے نظریات کو باطل قرار دے کر بصارت اور روشنی کے ٹھوس اور مثبت دلالٔپیش کر کے نہ صرف دنیا میں تہلکہ مچادیا بلکہ وہ کچھ دیا جس سے آج پوری عالمی برادری فیضیاب ہورہی ہے ابن الہیشم کا ان عالموںمیں شمار ہوتا ہے جو فلسفہ کےساتھ ساتھ ہیٔت، ریاضی اور طب کے بھی ماہر تھے۔ابن الہیشم کی تحقیقات کا دارٔہ زیادہ تر روشنی اور شعاعوں پر محیط ہے۔حیرت ہےکہ اس نے روشنی کی ہیٔت،انعکاسِ نور، اور انعطافِ نور کے متعلق دسویں گیارویں صدی میں جو تصورات پیش کئے تھےاور جو کلیات وضع کئے تھے وہ آج بھی درست ہیں ، جابر بن حیان وہ پہلا کیمیاداں تھا جس نے مادہ کو ارسطو کے عناصر اربعہ، آگ ہوا پانی اور مٹی کے طلسم سے نکالا ،اور اسے گرمی ،سردی ، خشکی اور نمی کی صفات سے متّصف کرکے جو ہری نظریہ کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔
سولہویں صدی عیسوی کے یورپی کیمیاں داں جا بر بن حیان کی تعلیمات سے اتنا متاثر ہوۓ کہ برسٹل کا نامور انگریز کیمیاداں وان ٹامس مارٹن اپنے آپ کو جابر کا باورچی کہلانے میں فخر محسوس کرتا تھا۔الخوازمی صرف اسلامی دنیا کا ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی تسلیم شدہ ریاضی داں تھا۔ہیٔت اور حساب میں اپنے وقت کا امام تسلیم کیا جاتا تھا۔کیلپر اور کاپرنیکس نےالخوازمی کی ہی معلومات پر اپنی تحقیق اور تجربوں کو آگے بڑھایا۔طب کے میدان میں الطبری نے وہ کارہاۓ نمایاں انجام دیۓکہ دنیا طب ہمیشہ اس کی احسان مند رہیے گی۔بو علی سینا سے کون واقف نہیں جس نے ’القانون فی الطب‘لکھ کر دنیا طب پر عظیم احسان کیااس کی یہ تصنیف دنیاۓ طب یعنی میڈیکل سأنس میں بنیادی حیشیت رکھتی ہے۔العرعانی جیسا مایا ناز انجینٔیر اور ماہر فلکیات جس نے زمین کا قطر معلوم کرنے کے لئےرصد گاہ تعمیر کرائی اور آنے والے محققین کے لئے نئی راہیں کھول دیں۔امام رازی ایک زبردست ماہر طب تہےجو بابائےطب (باباۓ میڈیسن )کھلاۓ وہ مشرق کی نسبت مغرب میں زیادہ مشہور ہوۓ۔
الفارابی نے موسیقی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کر کے موسیقی اور سازوں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا الزہراوی اسلامی دنیا کا عظیم ترین سرجن تھاجس کی کتابیں سترویں صدیں عیسوی تک سرجری کے نصاب میں پڑھایٔ جاتی تھیں، طبقات الارض کا عظیم اور نامی گرامی ماہر البیرونی وہ پہلا سائنسداں تھاجس نے یہ کہا کہ دریاۓ سندھ کی وادی کسی قدیم سمندر کا ایسا طاس ہے جو رفتہ رفتہ مٹی سے بھر گیا۔
آج بیشتر طبقات الارض کے ماہرین جدید آلات اور سہولتوں کے حصول کے بعد البیرونی کے اس نظریہ کی تا ئید میں ثابت کرتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ریگستان کسی زمانے میں سمندر کے طاس تھے ۔عمر خیام کی کتاب ’الجبر و مقابلہ‘ساری دنیا میں قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس عظیم سائنسداں کو صرف ایک شاعر کی حیشیت سے جانتے ہیں۔ امام غزالی کے آگے ارسطو اور افلاطون طفل مکتب نظر آتے ہیں۔امام غزالی نے یونانی فلفسہ کی ڈھجیاں اڑا کر اسلامی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ابنِ رشد کو دیکھئے کےوہ نہ صرف مشرقی دنیا بلکہ مغربی دنیا کا بھی حکیم کہلایا۔ فلفسہ کا جو تعلق مذھب سے ہے اس کی جھلک ابنِ رشد کے ان فتو وں میں بخوبی نظر آتی ہے جو اس نے قرطبہ کی قاضی کی حیشیت سے صادر کۓ تھے۔
چودہویں صدیں کے نصف میں ہندوستان میں بھی ایک ایسا عظیم الشان سائنسداں پیدا ہواہےجس کو لوگ فقہیہ اعظم امامِ وقت، چودھویں صدی کا مجدّد اور مختلف القاب سے یاد کرتے ہیں۔وہ علوم و فنون کا ہمالہ تھے۔ وہ علم کا ایسا بحر بیکراں تھےجس میں علوم و فنون کے لاتعداد دریاگرتے ہوں۔ جس کو علوم و جدید و قدیم پر اس طرح مہارت تھی گویا وہ سب ان کے سامنے کھلونوں کی طرح بکھرے ہوۓ ہوں۔ وہ بیشتر علوم پر اس طرح حاوی تھےجیسے وہ ان سب کے خود ہی مجدّد ہوں۔میرا اشارہ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ کی طرف ہے۔ بلاشبہ علم و فن میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنسداں گم تھے۔ایک طرف ان میں ابو الھیشم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیاّن جیسی صلاحیت ، الخوارزمی اور یعقوب کندی جیسی کہنہ مشقی تھی،تو دوسری طرف الطبری ، الفارابی، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی فارابی ، البیرونی، عمر بن خیام ، امام غزالی اور ابنِ رشد جیسی خداداد ذہانت تھی تو دوسری طرف امام ابو حنیفہؒ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث العظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒسے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف امام احمد رضا ؒ کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا ان کی ذات میں کتنے ہی علم وعالم گم تھے، وہ ایک ہمہ گیر و ہمہ صفت انسان تھے ینھوں نے تقریباً ایک ہزار تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جن میں فتاوٰی رضویہ جو بارہ ہزار صفحات پر محیط ہے یہ مجموعہ آپ کی جودت طبع اور تجر علمی کا منہ بولتا شاہکار اور ایسا انمول خزانہ ہے جس کی نظر نہیں ملتی ۔ کوئی علم و فن ایسا نہیں جس کی نظر نہیں ملتی۔ کوئی علم و فن ایسا نہیں جس کی جھلک آپ کو اس عجوبۂ روزگار تصنیف میں نہ ملے علم قرآن، علم حدیث، اصول حدیث، فقہ واصول فقہ جملہ مذاہب ،جدل، تفسیر،علم العقائد،علمالکلام، نحو، صرف، معانی، بیان، بدیع، مناظرہ، تجوید، تصوف، سلوک،اخلاق،اسمأالرجال،سیر،تاریخ،نعت و ادب وغیرہ کے علاوہ امام احمد رضا ؒ کو سائنسی علوم پر بھی پوری مہارت حاصل تھی،ارثماطیقی،جبر و مقابلہ، حساب، ستنی، لوغارثمات، توقیت، زیجات، مثلث کردی،مثلث مسطح،حیات جدید،مربعات،جفرٔزانچہ،حسابِ،ہیئت، ہندسہ،کسیر،نجوم جیسے علوم میں آپ یدِ طولٰی رکھتے تھے،صرف یہی نہیں آپ اس قدر علوم و فنون پر مہارت رکھتے تھے یاان سے آشناتھے بلکہ ہر فن میں آپ نے کوئی نہ کوئی تصنیف یادگار چھوڑی ہےاس کے علاوہ بے شمار مشہورومعروف کتب پر حواشی تحریر فرمائے۔آپ کی مختصر سے مختصر تحریر بھی گنجینۂ علم و عرفان ہے۔آپ کا ہر فتویٰ ایک تحقیق کا حکم رکھتا ہے۔مثال کے طور پر صرف ایک فتویٰ جو ۵۷ صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔اس میں ۱۳۰ کتب سے استفادہ کیا گیا ہے اس دور میں جبکہ تحقیق کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم ہو چکے ہیں اس مضمون میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ۔
اس طرح کتاب النکاح میں جو مقدمہ آپ نے لکھا ہےاس میں ۹۰ کتب کے نام حوالے کے طور پر پیش کئے ہےموصوف نے خطبئہ افتتاحیہ میں علوم کے ایسے دریا بہائے ہیں گذشتہ صدی گذر جانے کے بعد سے آج تک کوئی ایسی نظیر نہیں ملتی،اس خطبہ میں ۹۰ کتب کے نام نثر میں اس طرح پڑوئے ہیں کہ جو عربی ادب کا شاہکار ہیں اس میں خوبی یہ ہے کہ جب عبارت کا ترجمہ کیا جائے تو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ خطبہ عربی کتابوں کے ناموں سے ترتیب دیا گیا ہےاور ایک خصوصیت اور التزام یہ بھی ہےکہصرف ان ہی کتب کے نام درج کئے ہیں جو فتویٰ کے جواب اور حوالہ جات کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے امام احمد رضا ؒ کو نہایت اعلیٰ حافظہ عطا فرمایا تھا جس کا ثبوت ان کی تحریروں میں جابجا ملتا ہے فتاویٰ رضویہ کی جلد چہارم میں جنازے سے متعلق ایک فتویٰ تحریر ہے جس میں آ پ نے ۲۰۷ کتب کے حوالے پیش کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ نما ز ِ جنازہ کی تقرار ناجائز ہے۔(ملاحظہ ہو ’النہی الحاجزعن تکرار صلات الجنائز‘۔
حقیقت میں امام احمد رضا ؒان تمام علوم و فنون سے پوری طرح واقف تھے جو ایک فقہیہ کے لئے لازمی اور ضروری ہیں آپ کے پاس دنیا بھر سے سینکڑوں سوالات آتے تھے جن کا جواب آپ اس انداز سے دیتی تھےکہ حیرت ہوتی، فارسی میں سوال ہوتا تو جواب بھی فارسی میں دیتے۔سوال اگر عربی میں آتا تو جواب بھی عربی میں دیا جاتا۔سوال منظوم شکل میں ہوتے تو جواب بھی منظوم ہی ہوتا جیسا کہ میں نے ما سبق سطور میں کہا ہے کہ امام احمد رضا کو اصنا ف علم میں ہر صنف پر کامل عبور تھا اور سائنسی علوم پر تو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ میتھ میٹکس کی بیشتر شاخوں مثلاً الجبرا ،جیومیٹری،ٹرگنومیٹریاور لوگارثمووغیرہ کی مدد سے بڑے سے بڑا مسئلہ حل فرما دیا کرتے تھے اوراپنے نظریئے اور جواب کی وضاحت میں سفحات پیش کرتے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کو ریاضی اور سائنسی علوم پر پورا پورا عبور اور مہارت حاصل ہو۔جوابات دیتے وقت آپ نہ صرف اپنے دلائل پر اکتفافرماتے بلکہ مخالفین پر بھی بخوبی مطلع ہوتے اور ان کے ممکنہ اعتراضات کے شافی جواب شامل کر لیتے تھے ۔ حق یہ ہےکہ جب تک جواب دینے والا مخالف کے دلائل پر عبور نہ رکھتا ہو یہ ممکن نہیں کہ وہ حتمی فیصلہ کر سکے۔ علی گڑھ سے کسی صاحب نے ۱۹۲۴میں ایک فتویٰ بھیجا جس میں تحریر تھا ’’ کچھ نئی روشنی والوں نے اپنے قیاسات اور انگریزی آلات کی مدد سے یہ تحقیق کیا کہ وہاں کی مسجد سمت قبلہ سے منحرف ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اس کے جواب میں امام احمد رضا نے پورا ایک رسالہ ہدایت المستعال فی حد الاستقبال‘‘ تحریر فرمایا (فتاویٰ ر ضویہ ضلد سوم صفحہ۱۵ تا۴۱ ) امام احمد رضانے قرآن کریم اور احادیث کے سوالوں سے اس کا رد فرمایا نیز ریاضی کے مختلف علوم کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ سوال غلط ہے ( تفصیل کے لئے مندرجہ بالا رسالہ ملاحظہ کیجئیے )
اثبات جزولا یتجزیٰ کے متعلق امام احمد رضا ؒ نے قرآن کریم سے اثبات جزو کی دلیل مستنبط کی ۔فرماتے ہیں کہ ’’میں نے جزلا یتجزیٰ کا قرآن عظیم سے اثبات کیا ہے اور یہ آیت پیش کی۔
(ترجمہ)اور ہم نے ان کو پارہ پارہ کر دیا۔
امام اخمد رضا ؒ نے ایک مرتبہ ایک امریکی ہیئت داں پروفیسر البرٹ کی پیشگوئی کے رد میں ۱۷ دلائل پیش کئے اور اس کے باطل پیشگوئی کے پڑخچے اڑا دیے(دیکھیئے معین مبین بہر دور شمسی و سکون زمین)لکھا جو سائنسدانوں کےلئے ایک چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ نزول آیات قرآن بسکون زمین و آسمان‘‘۔ تحریر فر مایا۔
کتاب ُالطہارت فتاویٰ رضویہ میں ایک مسئلہ پوچھا گیا۔کنوئیں کا گھرائو کتنے ہاتھ ہونا چاہیے کہ وہ دہ دردہ ہواور نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہ ہو سکے‘‘۔امام احمد رضا ؒ نے لوگارثم کی مدد سے اس مسئلے کا اتنا مدلل جواب دیاکہ حیرت ہوتی ہے آپ نے علمِ ریاضی کے اعلیٰ نصاب کی طرف توجہ فرمائی اور اس کی مدد سے جدول تیار کیا جو دائرے کے قطر،محیط و مساحت کے درمیانی رشتہ کو بتانے کے لئے اپنی مثال آپ ہے اس مسئلہ میں امام احمد اضا ؒ نے ثار اقوال پیش کئے ہیں۔
قول نمبر۱ـ ۴۸ہاتھ قول نمبر۲ـ۴۶ ہاتھ قول نمبر۳ـ۴۴ ہاتھ قول نمبر۴ـ۳۶ ہاتھ
قول نمبر۴ کو آپ نے نہ صرف درست بتایا جہاں اصل میں۳۵۰۴۹۹ہاتھ ہیں اور جس میںآدھے ہاتھ سے ذیادہ فرق ہے۔بلکہ کنواں مذکورہ کے صحیح دور کی دریافت یعنی۳۵۰۴۴۹ کے لئے آپ نے علم الحساب کی کسی باریکی کا مصرف لیا ہےاس کا انداذزہ آپ کے لئے کیلکولیشن سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔جو آپ نے پیش کئے ہیں اور جن کو ایک ماہر علم ِ ریاضی اور ہندسہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
کتاب تیمم کے باب میں آپ نے جنس ارضی اور آگ کا تذکرہ کیا ہے، جس میں ۱۸۰ ایسی چیزوں کے نام گنوائے ہیں جن میں تیمم کیا جا سکتا ہےاور پھر ۱۲۰ چیزوں کے نام جن پر تیمم جائز نہیں یسی جگہ آپ نے ۱۸۰ ایسے پھتروں کی اقسام بتائی ہیں جن سے تیمم ہو سکتا ہے پھتروں کی جائے پیدائش، وقوع اور ماہیت پر بھی سیر حاصل تبصرہ کیا ہےعلم کیمیا اور ماہر ارضیات، اور معدنیات اگر اس روشنی میں تحقیق کریں تو یہ ایک عظیم کام ہوگا جس پر آنے والی نسلیں فخر کرسکے گی۔
گندھک اور پارہ کے متعلق بھی امام احمد رضا ؒ نے لکھا ہے کہ گندھک نر ہے اور پارہ مادہ اور ان کی جگہ ان دونوں کے میل و نکاح سے اولاد ہے۔یہ چیز کیمیا کے محققین کو دعوتِ فکر ہے۔
علم فلکیات کے متعلق امام احمد رضا ؒ کا فتویٰ جس میں ایک صاحب نے دریافت کیا تھا۔’’رمضان شریف کی رات کے ساتویں حصےّ کے باقی رہنے پر کھانا پینا چاہئیے کہ نہیں؟’’ تو اس کے جواب میں امام احمدرضاؒنے اپنے تجربات اور مشاہدات اور فلکیاتی مطالعوں کی بنیاد پر فرمایاکہ مذکورہ عام طریقہ غلت ہے اور بے بنیاد ہے۔کبھی رات کا ہنوز چھٹا حصہ باقی رہتا ہے کہ صبح ہو جاتی ہےاور کبھی ساتھواں، آٹھواں ،نواں یہاں تک کہ کبھی دسواں باقی رہتا ہے کہ صبح ہو جاتی ہےآپ نے بریلی اور اس کے موافق العرض شہروں کے لئے رؤس اور بروج کا ایک نشہ مرتب کیا۔ جو تا ابدانِ مضافات کے رات اور صبح کی نسبت نشاندہی کرتا رہے گا۔
علم نجوم یا علم توقیت سے تعلق رکھنے والے قارئین ہی اب بتائیں کہ شہر مذکورہ کے لئے اتنا واضح چارٹ مرتب کرنے والے شخص کو ہم ماہر علمِ نجوم یا علم توقیت کہ سکتے ہیں یا نہیں۔
ان کے علاوہ امام احمد رضا ؒنے مختلف فتویٰ میں جن مسائل پر تحقیق کی ہےان میں چند یہ ہیں۔
۱۔پانی میں رنگ ہے یا نہیں؟
۲۔پانی کا رنگ سپید ہے یا سیاہ؟
۳۔موتی، شیشہ، بلور ، پسینے سے خوب سپید کیوں ہو جاتے ہیں؟
۴۔آئینہ میں دار پر جائے تو وہا ں سپیدی کیوں معلوم ہوتی ہے؟
۵۔پانی مین مسام ہے یا نہیں؟
۶۔آئینہ میں اپنی صورت کے علاوہ شیزیں جو پیٹھ کے پیچھے ہیں کس طرح نظر آتی ہیں؟
۷۔شعاع کی جنس؟
۸۔رنگتیں تاریکی میں موجود رہتی ہیں؟
۹۔کان کی ہر چیز گندھک اور پارے سے متولد ہے؟
۱۰۔گندھک نر ہے اور پارہ مادہ؟
۱۱۔شعائیں جتنے ذاویوں پر جاتی ہیں اتنی پر ہی پلٹتی ہیں؟
امام احمد رضا ؒ کے یہاں ہمیں عجوبا و نادر چیز ملتی ہے۔وہ یہ ہےکہ آپ مسئلہ کو انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔مسئلہ خواہ کسی موضوع کا ہو۔ روحانی ہو یا مادی ہو، نفسیاتی ہو یاسائنسی، علمی ہو یا مذہبی، ہر جگہ مکمل وضاحت نظر آتی ہے اور تحریر میں وضاحت اسی وقت ہوگی جب کہ تحریر کرنے والا موضوع پر پورا پورا عبور رکھتا ہو۔اور مو ضوع اس کی مکمل گرفت میں ہو۔
اللہ تعالیٰ نے امام احمد رضا ؒ کو جس طرح نوازا۔ ہمارے ہی لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئےآپ کی شخصیت اور علمی استعداد قابل فخر ہے۔
نمونہ کلام عربی
اَلْمَوْتُ حَقٌّ یاَ لُھُ مِنْ جائٖ مُتَیَقَّنٍ وَالنَّاسُ فِی اِنسَائٖ
أنْسَاھُمُ إِلاَّ فِیْ اٰ جَالِھِمْ مَعْ مَا یَرَوْنَ مِنْ اٰ يِھٖ بِوِلاَ ءِ
اَلنَّقْضُ مِنْ اَمْوَالِھِمْ وَ ثِمَارِھِمْ وَالْاَ خْذُ بِالبَاسَا ءِ وَالضَّرَّاءٖ
مَحْجَباً لِخَفِیَةٍ غَدَتْ مَخْفِیَّةً وَبَدَتْ مِنَ الْخَضْرَاءِ وَ الْغَبْرَءِ
اَلّطِفْلُ شَبٌّ وَ شَابَ وَھُوَکما بَدَا يَلْھُوْ وَ يَلَعَبُ نَاسِیاً لِقَضَاءٖ
عَبْدَالْغَنِیْ مَضَیْتَ حِیْنَ قَضَیْتَ اَلْخَبْکَ مِنْ الْکايةِ فِتْنَةِ الخُبَثَاءٖ
بِنَدَ ارَسُوْل اللّٰھ فُزْ بِشَفَاعَةِ وَجَزَاءُ رَبِّالعَرْشِ خَیْرُ جَزَاءٖ
يَا مَالِکَ النَّاسِ النَّبیِّ المُصْطَفیٰ اشْفَعْ لِعَبْدِکَ دَافِعاً لِّبَلاَءٖ
رَقَمَ الرَّضاَ تَارِيْخهَ مُتَفَاءِلاً
عَبْدُالغَنِیْ بِجَنَّةِعَلیَاءٖ