امام احمد رضا کے سائنسی نظریات

 امام احمد رضا کے سائنسی نظریات

’’ اگر میں یہ کہو کہ امام احمد رضا  ماضی قریب کے ایک  ایسے سائنسدان کا نام ہے جس کی سائنسی تحقیقات اور تحریریں ماضی اور حال کے تمام سائنس دانوں کے لئے ایک چیلنج ہے تو شاید لوگ مجھے غلط تصور کریں گے ، لیکن حقیقت کا انکار کسی کے بس کی بات نہیں ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی‘‘

مولانا فیضان المصطفیٰ مصباحی:

 رواں صدی کے اوائل میں ہندوستان  کی سر زمین پر علم  و حکمت کی ایسی عظیم شخصیت گزری جس کی حقیقی تصویر کشی تحریر و قلم کی پہنچ سے باہر ہے جسےامام احمد رضا فاضل بریلوی کے نام سے جانا جاتا ہے علم و فن کا وہ ایسا عبقری تھا کہ فقہ پریشان ہے اور عقل  حیران کہ کون سا وہ علم ہے جس پر آپ کا عبور نہیں ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد ایسے علم کی ہے جس میں امام احمد رضا فاضل بریلوی کو مہارت تھی اور آج روئے زمین پر اس کا مؤقف  مشکل ہی سے ملے گا ،  تاریخ کی یہ کتنی حیرت انگیز تصویر ہے کہ جسے زمانہ ایک مولوی سمجھ رہا تھا آج کے ماہرین اس کی علمی  تحریریں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس مقام پر ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔

              علم جفر  جو چند اصول و قواعد کے ذریعے  غیبی امور کے جاننے کا نام ہے جس کا مؤقف اس دور میں شاید ہی کوئی ہو، اس میں امام احمد رضا فاضل بریلوی کو خاصی دستر  تھی۔ خود  فرماتے ہیں :

’’ علم جفر نہ کسی استاد سے سیکھا ، نہ کسی سے تذکرہ ہوا ، بلکہ حضرت سید ابو الحسن نوری میاں مارہروی﷥ نے اس کا ایک قاعدہ تذکرہ تعلیم فرما دیا تھا، اس ایک قاعدے سے کئی اور قواعد معلوم کر لیے، پھر اس علم کی ایک اہم کتاب شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تصنیف ہاتھ لگی۔ اس میں محنت صرف کی، گویا کہ جفر سے ہی سیکھا ہو ، اور اس میں ایک رسالہ ’’سفر السفر عن الجفر  بالجفر‘‘ لکھا ،  زیارت حرمین شریفین کے لئے حاضر ہوا تو سوچا کہ  پوری دنیاکا مرکز ہے جہاں دنیا بھر کے اہل علم اکٹھا ہوتے ہیں ۔ شاید کوئی ایسا ملے جو  علم و جفر کا ماہر ہو تو اس سے اس کی تکمیل کرلیں ، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مولانا عبد الرحمٰن دھان مکی اس کے ماہر ہیں ۔ یہ سن کر خوشی ہوئی ملاقات   ہوئی اور کئی گھنٹے خلوت رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قواعد  مولانا عبد الرحمٰن دھان کے ناقص تھے ان کی قدرے تکمیل ہوگئی‘‘۔  مولانا سید حسین مدنی عرب سے بریلی تشریف لائے اور چودہ مہینے بریلی شریف میں قیام کر کے امام احمد رضا فاضل بریلوی سے علم جفر کا درس لیا۔ ان کے لئے اور دیگر عرب علماء کے لئے امام احمد رضا فاضل بریلوی نے علم جفر و تکسیر میں ایک مستقل رسالہ ’’ اطائب الاکسیر فی علم التکسیر ‘‘ بزبان عربی املا کرایا۔ جب انہوں نے علم جفر کے قواعد کی تکمیل کرلی تو امام احمد رضا فاضل بریلوی کے پاس جس قدر بھی مسودے  نسخے اور زائچے خود طبع زاد تھے سب رخصت ہوتے وقت انہیں کہ حوالے کر دیا اور ہمیشہ کے لئے اس علم سے دست بردار ہو گئے۔

                                       موجودہ ترقی یافتہ دور میں  علوم کے جتنے شعبے اب تک دریافت کئے ہیں  ان تمام میں نہ صرف یہ کہ آپ کی دسترس کے شواہد موجود ہیں بلکہ مآپ کی تصنیفات میں ان کی اعلیٰ تحقیقات بھی پائی جاتی ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ جس شعبہ میں آپ  کی علمی خدمات سے لوگوں کو واسطہ پڑا اس شعبہ میں آپ کی شخصیت نکھر کر سامنے آئی اور جس سے واسطہ نہ پڑا وہ اب تک پردہ خفا میں ہے ، انہیں میں ایک سائنس بھی ہے ۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی کو سائنس میں کس قدر دسترس تھی؟ان کے سائنسی تخیلات کی حد کیا تھی؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے بجائے اگر میں یہ کہو کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی ماضی قریب کے ایک ایسے سائنسدان کا نام ہے جس کی سائنسی تحقیقات  اور تحریریں ماضی اور حال کے تمام سائنسدانوں کے لئے ایک چیلنج ہیں تو شاید لوگ مجھے غلط تصور کریں گے ، لیکن  اس کے باوجود حقیقت کا انکار کسی کے بس کی  بات  نہیں  ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی۔

                    دراصل اشیائے کے حقائق دریافت کرنے  اور انہیں پرکھنے  کا نام  سائنس ہے۔ مگر امام احمد رضا فاضل بریلوی کے سائنسی نظریات  کا محور اسلامی نظریات ہیں ،کیونکہ موجودہ سائنس آزاد اور بےلگام ہے، اس کے لئے کوئی دائرہ نہیں ۔ جبکہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کی سائنس اسلامی دائرہ میں  گردش کرتی ہے  اور شریعت و حقیقت  سے تجاوز  نہیں  ہوتی۔  یہ اس ایمان و یقین کی بنا  پر ہے جو اسلامی نظریات کی حقانیت  کے  سلسلے میں آپ کو تھا ۔ اس کا ایک واضح اشارہ آپ  کے کلام میں ملتا ہے کہ جب آپ کے سامنے تجویز پیش کی گئی کہ اسلامی لٹریچر کو سائنسی طرز فکر کے  مطابق کر دیا جائے تو آپ نے فرمایا ؛ سائنس اس طرح  مسلمان نہ ہو گی ، ایسے تو اسلام  نے سائنس کو قبول کیا، نہ کہ  سائنس نے اسلام ، بلکہ اس کا طریقہ یہ کہ وہ اسلامی نظریات جن سے سائنس متصادم ہے انہیں  ثابت کیا جائے اور سائنسی طرز فکر سے ہی ان کی حقانیت واضح  کی جائے ۔

         ایسا آپ نے عملی طور پر کر کے بھی دکھایاکہ بعض وہ سائنسی نظریات جن سے سائنسدان اختلاف کرتے ہیں انہیں ثابت کرنے کے لئے آپ نے بھرپور کوشش کی چنانچہ موجودہ سائنس دان نظام کائنات کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ سورج اس کا مرتز ہے جو ساکن ہے زمین اس کے  گرد  ایک سیارے کی حیشیت سے گھوم رہی ہے جس سے دن رات  اور موسم کا اختلاف ہے۔ اس کے بر خلاف اسلامی نظریہ  یہ ہے کہ زمین ساکن ہے ، سورج گردش کر رہا ہے اور سورج کی گردش سے ہی دن رات اور موسم کا اختلاف ہے۔ قرآن میں ہے کہ :

    ’’بیشک اللہ روکے ہوئے ہے  آسمان اور زمین کو تاکہ جنبش نہ کریں ، اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اللہ کے سوا، بیشک وہ حلم والا بخشنے والا ہے ‘‘ (سورہ فاطر ۴۰ -۲۳، رکوع ۲)

               سائنس اپنے نظریہ کی تائید میں بیشمار دلائل پیش کرتی ہے مگر   امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اس سلسلہ میں  ایک مستقل کتاب ’’فوز مبین دررد حرکت زمین ‘‘ تصنیف فرمائی    جس میں پچاس دلائل سے سائنس کے نظریات  اور دلائل کی بین تردید فرمائی  کہ مجالِ دمِ زدن نہیں ، پھر اس کے بعد چوّن (۵۴) دلائل قاہرہ سے زمین کا سکوت ثابت کیا  ،  اور اسلامی نظریہ کا اثبات کیا ،  یعنی پورے ۱۰۴  دلائلِ عقلیہ سے سائنسی نظریہ کو رد کیا اور  اسلامی نظریہ کا اثبات کیا ۔ پوری کتاب علم ہیئت ، ہندسہ، لوگارثم، ریاضی اور فلکیات کی شاہکار ہے۔ اس میں زمین کی حرکت ماننے  پے بیشمار  استحالے ثابت کئیے ہیں ۔

              آپ کی پانچ سو سے زائد تصنیفات  مختلف مقامات پر سائنسی تحقیقات سے لبریز ہیں ، خصوصاً فتوٰی رضویہ میں جگہ جگہ نادر سائنسی تحقیقات ملتی ہیں ، چنانچہ پانی کا رنگ کیا ہے اس سلسلے میں آپ کی تحقیقات بنیادی حیشیت رکھتی ہیں ۔ پانی کے بےرنگ ہونے پر آپ نے اعتراض کیا ہے ، ہوں ہی پانی کا رنگ نیلا اور سفید ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے ، پھر آپ نے تجربات اور شواہدات  سے ثابت کیا ہے کہ پانی کا رنگ خفیف سیاہ مائل ہے۔

           ’’ ھدایتہ المتعال  فی حد  الا ستقبال ‘‘ میں جہت قبلہ کے سلسلہ میں آپ نے انفرادی تحقیقات فرمائی ہیں ، اور  ثابت کیا کہ قطب ستارہ کو  داہنی طرف مان کر سمت مواجہہ میں قبلہ ہونے کا اصول  درست نہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں  کہ بریلی کی مسجدیں قبلہ دور درجہ  شمال  اور ممبئی  کی بیشتر مساجد قبلہ سے دس درجہ  جنوب کو ہٹی ہوئی ہیں ، اس سلسلے میں قبلہ کی تعین کے لئے ایسے اصول ایجاد کئے کہ خود فرماتے ہیں :

 ’’ان پر عمل کرتے ہوئے اگر سارے حجابات ہٹا دئے جائیں تو قبلہ عین نگاہ کے سامنے ہوگا ‘‘

 اس سلسلہ میں آپ کا رسالہ  ’’ کشف العلتہ عن سمتہ القبلتہ‘‘مستقل تصنیف اور لائق  مطالعہ ہے  اپنی ’’ الکشف شافیاً  الاحکام فو نوجرافیا‘‘ میں آواز کے سلسلہ میں آپ نے بڑی نادر سائنسی تحقیقات فرمائی ہیں جو آپ کا حصہ ہے ۔ جس میں آپ نے آواز کی حقیقت اور صوتی تموج کی کامل تحقیق فرمائی ہے ۔ علم ہندسہ( جیومیٹری) کا تفصیلی تذکرہ آپ کی تصنیفات مثلاً شمائم العنبر ، فتاوٰی رضویہ ، فوزیہ مبین ، کشف العلہ وغیرہ میں جابجا ہے۔ علم الارض سے متعلق آپ کی تحقیقات اجتہادی درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں ۔ ان کا تفصیلی ذکر رسالہ ’’ حسن التعمم لبیان  حد التیمم ‘‘ میں ہے ، جس میں جنس ارض سے ہونے کے لئے پانچ صفات ،جلنا ، پگھلنا، راکھ ہونا، نرم پڑنا، آگ سے نرم ہو کر مائع صنعت ہو جانا  ،بیان کر کے بتایا کہ اصل میں یہ سب تین یا دو کی طرف  راجع ہیں ۔ ان کی تحقیقات میں   آپ نے ایسے ایسے پتھروں کا بیان کیا ہے جو پوری دنیا میں ایک دو ہی خطہ میں پائے جاتے ہیں ۔  جن جن پتھروں سے تیمم جائز ہے فقہائے کرام نے اس کی جتنی قسمیں بتائیں ہیں آپ نے  اس پر ایک سے سات اقسام کا اضافہ کیا ہے ، جس میں پوری تشریح تفصیل ہے ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں : 

’’ یوں ہی جس در و دیوار یا چھت پر صندلہ یا سمٹ پھرا ہو، جس در دیوار  پر بالوتر ہو ، جس پر بادامی ، لاکھی سرخ ، سبز، زرد ، دھانی ، آسمانی کتھئی ، زنگاری ، خاکی ، فاختی ، پیازی،  فیروزی ، رنگتیں ہوں کہ اگرچہ سرخ میں شنجرف ، سبز میں  منصوع تو یا ، آم  کی چھال ، بکائیں کے پتے، زرد میں  کبھی ملتانی کے سوا ٹیسو کے پھول، دھانی  میں کبھی سبز گل کے سواوہی توتیا چھال ، زنگزری میں سبز توتیا ، خاکی میں کولا ، فاختئی میں لاجودر، پیازی میں پیوڑی، فیروزی میں  توتیا وغیرہ وغیرہ ایشیاء غیر کی آمیزش ہے ۔ مگر بہر صورت اصل گئی ہے ، اس کا حصہ کثیر و غالب اور ان کا خط اس میں رنگت لانے کے لئے ہوتا ہے ، پکی قبر کے وہاں ظن نجاست نہیں، سنگ مرمر ، سنگ موسیٰ، سنگ سپید، سنگ سرخ، چوکا گہرا سبز، سنگ ستارہ سرخی مائل بہت چمکدار ذرے ذرے   نمایاں ، گئودنتی سپید نیلگو جھلکداراس کے نگینے بھی بنتے ہیں ، حجرا لیہود ، مقناطیس، سنگ سماق جس کے کھرل مشہور ہیں ، سان، سلی، کرند، کسوٹی، چقماق ، ریل کا کولا کہ پتھر ہے، سلیٹ، ترکستان کا وہ  پتھر کہ لکڑی سا جلتا ہے، شام شریف کا وہ پتھر کہ آگ میں ڈالے سے لپٹ دیتا ہے ، صقلبہ کا وہ پتھر کہ  گرم پانی میں مشتعل ہوتا ہے اور تیل  سے بجھتا ہے حجر الفتیلہ جس کی بنتی بنا کر جلاتے ہیں ، ان  چاروں پتھروں کا بیان اوپر گزرا، بلور معدنی پتھر ہے،‘‘ ( فتاویٰ ر ضویہ اول ، ص : ۶۹۷)

                  آپ نے یہ تحقیق بھی پیش کی کہ سورج  افق  پر نمودار ہونے سے پہلے ، یوں ہی ڈوب جانے کے بعد بھی کیوں دکھائی دیتا ہے ؟  جس میں یہ بتایا کہ  شعاعیں سفر کرتی ہوئی ملاء کثیف سے ملاء لطیف میں جب داخل ہوتی ہیں تو کس طرح منعطف ہو جاتی ہیں ، جیسے پانی میں کوئی ڈنڈا یا چھڑی اس طرح ڈالی جائے کہ کچھ حصہ پانی میں ہو اور کچھ باہر، تو پانی والا حصہ کج معلوم ہوگا۔ آپ نے زمین اور دیگر سیاروں میں  کشش  ِ ثقل ماننے سے انکار کیا ہے  اور اشیاء کے اوپر سے نیچے آنے کا سبب خود اس ثقیل شئے کا اقتضا بیان کیا  ہے ۔ سمندر میں مدو جذر کا سبب چاند قرار دینے پر آپ نے زبردست اعتراضات کئے ہیں ، ان میں ایک اعتراض  یہ بھی ہے  کہ اگر چاند ہی سبب مدوجذر ہے  تو پھر دریائوں اور بڑے تالابوں میں مدوجذر کیوں نہیں ، کیا یہا ں چاند بے اثر ہوگیا؟  پھر آپ نے سمندر کے مدوجذر کی وجہ  کی طرف اشارہ اس حدیث سے کیا ہے جس میں فرمایا گیا کہ ’’ ان تحت البحر ناراً   ‘‘ مگر چونکہ طبعیات کے اسباب و علل کی تحقیق کو آپ نے اپنا منصب نہیں بنایا ورنہ تھوڑی توجہ فرما دیتے تو مسلمانوں  کو مغربی سائنسدانوں سے بے نیاز کر دیتے ۔

 پانی میں مسام ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

’’ نہیں ، کہ پانی میں بالطبع خلا بھرنے کی قوت رکھی گئی ہے ، ضرور ہے کہ جو مسائم فرض کئے جائیں وہ پانی کہ ان سے اوپر ہے ان کی طرف اترے گا اور انہیں نہ  بھرے گا  اور مسائم ہونے پر فلسفہ جدیدہ  کی یہ دلیل کہ شکر ڈالنے سے پانی میں حل ہو جاتی ہیں اور اس کا ضجم نہیں بڑھتا  مقبول نہیں ، جب زیادت قدر احساس کو پہنچے گی  ضرور حجم بڑھنا محسوس ہوگا ۔ مگر ایک  استدلال اس پر یہ خیال میں آتا ہے کہ حوض کے کنارے ایک شخص کھڑا ہے دوسرا غوطہ لگائے اور باہر والا شخص بآواز پکارے اگر مسام ہیں تو ضرور سنے گا اور سنتا ہے ، تو معلوم ہوا کہ مسام ہیں ، بخلاف اس کے ایک کمرہ صرف آئینوں سے فرض کیجئے جس میں کہیں وزن نہ ہو، اس کے اندر کی آواز باہر نہ آئے گی اور باہر کی اندر نہ جائے گی، اگرچہ اندر باہر دو شخص متصل کھڑے ہو کر ایک  دوسرے کو بآواز  بلند پکارے۔ مگر یہ استدلال بھی کافی نہیں ۔ آواز پہنچنے کے لئے خلاف فاضل میں تموج چاہئے ، مسام کی کیا حاجت ۔  ہا ں جہاں تموج نہ ہو بذریعہ مسام پہنچے گی، آئینہ میں نہ تموج نہ مسام ، لہذا نہ پہنچے گی،پختہ و خام عمارت میں تموج نہیں  منافز و مسام ہیں  ان  سے پہنچتی ہے آب و ہوا خود اپنے تموج  سے پہنچتی ہیں اور یہی اصل ذریعہ صوت ہے ۔ ہوا میں تموج ذائد ہے کہ پانی سے الطف ہے  وہ زیادہ پہنچاتی ہے  اور پانی ، تالاب میں دو شخص  دونوں کناروں پر غوطہ لگائیں  اور ان میں سے ایک اینٹ پر اینٹ مارے دوسرے کو آواز  پہنچے گی  مگر نہ  اتنی جتنی کہ ہوا میں ۔ ( الملفوظ اول ،ص : ۱۴۸)

                   فتاویٰ رضویہ اول میں یہ تحقیقات موجود ہیں کہ آئینہ میں دراڑ پڑ جائے تو وہا ں سفیدی کیو نکہ معلوم ہوتی ہے  ؟ پانی جم کر برف بن کر سفید کیوں نظر آنے لگتا ہے؟ بلور اور شیشہ وغیرہے  پسنے سے سفید  کیوں نظر آتے ہیں؟ کان کی ہر چیز گندھک اور پارے کی اولاد ہے ؛ وغیرہ۔ ہوں ہی آج کل میڈیکل سائنس کا یہ نظریہ کہ بہت سے امراض متعدی ہوتے ہیں، اسے بھی آپ نے تسلیم نہیں کیا ، اس سلسلے میں آپ کا مستقل رسالہ ہے ، آپ کا نظریہ ہے کہ دراصل کوئے مرض متعدی نہیں ہوتا ، لیکن اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں  تو اس کے لئے اللہ  ان امراض کو ان کے حق میں  متعدی بنا دے گا، کہ ارشاد ہے! انا عند ظن عبدی بی  

    وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ آپ کے سائنسی تحقیقات پر بھی کام ہو رہا ہے  اور ریسرچ اسکالر اس سلسلے میں مصروف ہیں ، خصوصاً آپ کی مذکورہ تصنیف ’’ فوز مبین در حرکت زمین ‘‘کی طرف محققین کی وجہ کی شدید ضرورت ہے جس کی طرف اب محققین بڑھ رہے ہیں ۔ ۔ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں آپ کی شخصیت اور کارناموں پر تحقیقات جاری ہے۔

                

 


متعلقہ

تجویزوآراء