شب براءَت کی اہمیت و فضیلت

شبِ بَراءَت کی اہمیت و فضیلت

ماہِ شعبان کی پندرھویں رات کوشبِ بَراءَت کہاجاتا ہے، شب کے معنیٰ ہیں رات اوربراءَت کے معنیٰ بَری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں چوں کہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلّق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنّم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشبِ براءَت کہا جاتا ہے؛ نیز، اس رات کولَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ یعنی برکتوں والی رات، لَیْلَۃُ الصَّکّ یعنی تقسیمِ اُمور کی رات اور لَیْلَۃُ الرَّحْمَۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔

جلیل القدر تابعی حضرت عطا بن یَسار رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:

لیلۃ القدر (شبِ قدر) کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں۔

(لطائف المعارف، صفحہ145)

جس طرح مسلمانوں کے لئے زمین میں دوعیدیں عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ ہیں اسی طرح فرشتوں کے لئے آسمان میں دوعیدیں ہیں:

ایک شبِ براءَت اوردوسری شبِ قدر

فرشتوں کی عیدیں رات کواس لئے ہیں کہ وہ رات کوسوتے نہیں، جب کہ آدمی سوتے ہیں اس لئے ان کی عیدیں دن کوہیں۔

(غُنیۃ الطّالبین، صفحہ449)

تقسیمِ اُمور کی رات:

ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:

قسم اس روشن کتاب کی! بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتاراہے؛

بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں؛ اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہرحکمت والا کام۔

(اَلدُّخَان: 2تا4)

اس رات سے مُرادشبِ قدر ہے یا شبِ براءَت۔

(خزائن العرفان)

اِن آیات کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اوربعض دیگر مفسّرین نے بیان کیا ہے کہ لَیْلَۃٌ مُّبَارَکَۃ سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔ اس رات میں زندہ رہنے والے، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کوابنِ جریر، ابنِ منذر اورابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے، اگرچہ اس کی ابتدا پندرھویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔

(مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ194)

مفسرِکبیر علّامہ قرطبی مالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:

ایک قول یہ ہے کہ ان اُمور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شبِ براءَت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلۃ القدر میں ہوتاہے۔

(تفسیر الجامع لاحکام القرآن، جلد 16، صفحہ128)

یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اُمورتوپہلے ہی سے لوحِ محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوحِ محفوظ میں تحریر ہیں، لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوحِ محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے، جن کے ذمّے یہ امورہیں۔

حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسولِ کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرھویں شب میں کیا ہوتا ہے؟

میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم! آپ فرمائیے۔

ارشادہوا:

آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقرّرہ رزق اتاراجاتاہے۔

(مشکوٰۃ، جلد 1، صفحہ277)

حضرت عطا بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:

شعبان کی پندرھویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کوایک فہرست دے کرحکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کوآئندہ سال مقررہ وقتوں پرقبض کرنا، تواس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے، کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے، کوئی کوٹھی بنگلہ بنوارہا ہوتاہے؛ حالاں کہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جا چکے ہوتے ہیں۔

(مصنَّفِ عبدالرزّاق،جلد4 ، صفحہ317؛ مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ193)

حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سرکارِمدینہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھاجاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالاں کہ اس کانام مُردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔

(تفسیر الجامع لاحکام القرآن، جلد16، صفحہ126؛ شعب الایمان، للبیہقی، جلد3، صفحہ386)

چوں کہ یہ رات گزشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الٰہی میں پیش ہونے اورآئندہ سال ملنے والی زندگی اوررزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لئے اس رات میں عبادتِ الہٰی میں مشغول رہنا ربِّ کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کاباعث ہے اورسرکارِ دوعالم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کی یہی تعلیم ہے۔

مغفرت کی رات:

شبِ براءَت کی ایک بڑی خصوصیّت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بے شمارلوگوں کی بخشش فرمادیتا ہے، اسی حوالے سے چند احادیثِ مبارکہ:

-1 حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضورِ اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی؛ میں نے دیکھاکہ آپ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم جنّت البقیع میں تشریف فرما ہیں۔ آپ نے فرمایا:

کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسول صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟

میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم! مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔

آقا ومولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب آسمانِ دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔

(ترمذی،جلد1، صفحہ156، ابنِ ماجہ، صفحہ100؛ مسندِ احمد،جلد 6، صفحہ238؛مشکوٰۃ، جلد1، صفحہ277؛

مصنَّفِ ابنِ ابی شیبہ، جلد 1، صفحہ237؛ شعب الایمان، للبیہقی، جلد3، صفحہ379)

شارحینِ احادیث فرماتے ہیں کہ یہ حدیثِ پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔

-2 حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

شعبان کی پندرھویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے۔

(شعب الایمان، للبیہقی،جلد3، صفحہ380)

-3 حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کاارشاد ہے:

اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں شب میں اپنے رحم وکرم سے تمام مخلوق کوبخش دیتا ہے سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے۔

(ابنِ ماجہ، صفحہ101؛ شعب الایمان، جلد3، صفحہ382؛ مشکوٰۃ، جلد1، صفحہ277)

-4 حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوثعلبہ اورحضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھی ایساہی مضمون مروی ہے۔

(مجمع الزّوآئد، جلد8، صفحہ65)

-5 حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ آقاومولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

شعبان کی پندرھویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو اشخاص کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے:

ایک کینہ پرور اوردوسرا کسی کوناحق قتل کرنے والا۔

(مسنداحمد، جلد2، صفحہ176؛ مشکوۃ، جلد1، صفحہ278)

-6 امام بیہقی نے شعب الایمان (جلد نمبر3، صفحہ 384) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں اِن لوگوں کابھی ذکر ہے:

رشتے ناتے توڑنے والا، بطورِتکبّراِزارٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کانافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔

-7 غُنْیَۃُ الطَّالِبِیْن، صفحہ449 پرحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی طویل حدیث میں اِن لوگوں کابھی ذکر ہے:

جادوگر، کاہن، سودخور اوربدلہ کار

یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی، پس ایسے لوگوں کوچاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد ازجلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شبِ براءَت کی رحمتوں اوربخشش ومغفرت کے حق دارہوجائیں۔

ارشادِباری تعالیٰ ہوا:

اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کروجوآگے کونصیحت ہوجائے۔

(اَلتَّحْرِیْم:8)

یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کااثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اوراس کی زندگی گناہوں سے پاک اورعبادتوں سے معمورہوجائے۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم! تَوْبَۃُ النَّصُوْح کسے کہتے ہیں؟

ارشاد ہوا:

بندہ اپنے گناہ پرسخت نادم اورشرمسارہو، پھربارگاہِ الٰہی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے اورگناہوں سے بچنے کاپختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا، اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔

رحمت کی رات:

شبِ براءَت فرشتوں کوبعض اُموردیے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے، اس کی ایک اورخصوصیّت یہ بھی ہے کہ یہ ربِّ کریم کی رحمتوں کے نزول کی اوردعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔

-1 حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کاارشاد ہے:

جب شعبان کی پندرھویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں؟ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں؟ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہےسوائے بدکارعورت اورمشرک کے۔

(شعب الایمان، للبیہقی، جلد 3، صفحہ383)

-2 حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیوں کہ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمانِ دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں؟

ہے کوئی رزق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں؟

ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں؟

یہ اعلان طلوعِ فجر تک ہوتارہتاہے۔

(ابنِ ماجہ، صفحہ100، شعب الایمان، للبیہقی، جلد3، صفحہ378؛ مشکوٰۃ، جلد1، صفحہ278)

یہ ندا ہررات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصّے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شب بیداری کی فضیلت کے عنوان کے تحت حدیثِ پاک تحریرکی گئی۔ شبِ براءَت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروبِ آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے۔ گویا صالحین اورشب بیدار مومنوں کے لئے توہررات شبِ براءَت ہے مگریہ رات خطاکاروں کے لئے رحمت و عطااوربخشش ومغفرت کی رات ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پرندامت کے آنسو بہائیں اور ربِّ کریم سے دنیا وآخرت کی بھلائی مانگیں۔ اس شب رحمتِ خداوند ہرپیا سے کوسیراب کردیناچاہتی ہے اورہرمنگتے کی جھولی گوہر مراد سے بھردینے پرمائل ہوتی ہے، بقولِ اقبال،رحمتِ الٰہی یہ ندا کرتی ہے: ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسی راہروِ منزل ہی نہیں

 

 

شب بیداری کااہتمام:

شبِ براءَت میں سرکارِ دوعالم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے خود بھی شب بیداری کی اوردوسروں کوبھی شب بیداری کی تلقین فرمائی۔ آپ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کافرمانِ عالی شان اوپرمذکورہوا کہ جب شعبان کی پندرھویں رات ہوتوشب بیداری کرو اوردن کوروزہ رکھ۔ اس فرمانِ جلیل کی تعمیل میں اکابرِ علمائے اہلِ سنّت اورعوامِ اہلِ سنّت کاہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ اس رات میں شب بیداری کااہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:

تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحاق بن راہویہ رضی اللہ تعالٰی عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرھویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے۔

(مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ202؛ لطائف المعارف، صفحہ144)

علامہ ابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ شبِ براءَت کے متعلّق رقمطرازہیں:

اورکوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے، ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالٰی عنہم اس کی بہت تعظیم کرتے اوراس کے آنے سے قبل اس کے لئے تیاری کرتے تھے ۔پھرجب یہ رات آتی تووہ خوشی وجذبہ سے اس کااستقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیوں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کابہت احترام کیاکرتے تھے۔

(المدخل، جلد1، صفحہ392)

یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقدّس رات میں مسجد میں جمع ہوکرعبادات میں مشغول رہنا اوراس رات شب بیداری کااہتمام کرنا تابعینِ کرام کاطریقہ رہا ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ فرماتے ہیں: اب جوشخص شعبان کی پندرھویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسولِ کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ براءَت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔

(مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ205)

آقاومولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے زیارتِ قبورکی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے موت یاد آتی ہے اورآخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔

شبِ براءَت میں زیارتِ قبور کاواضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کویاد رکھیں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو یہی شب بیداری کااصل مقصد ہے۔

اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ کاایمان افروز واقعہ بھی ملاحظہ ہو:

منقول ہے کہ جب آپ شبِ براءَت میں گھر سے باہرتشریف لائے توآپ کاچہرہ یوں دکھائی دیتا تھاجس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالاگیا ہو۔آپ سے اس کاسبب پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:

خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمندر میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اوربچنے کی کوئی امید نہ ہو۔

پوچھاگیا آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟

فرمایا:

میرے گناہ یقینی ہیں، لیکن اپنی نیکیوں کے متعلّق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھرردکردی جائیں گی۔

(غُنْیَۃُ الطَّالِبِیْن، صفحہ250)

اللہ اکبر! نیک ومتقی لوگوں کایہ حال ہے جوہررات شب بیداری کرتے ہیں اورتمام دن اطاعتِ الٰہی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جواس مقدّس رات میں فکرِ آخرت اورعبادت ودعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلاہوجاتے ہیں؛ آتش بازی، پٹاخے اوردیگرناجائز اُمورمیں مبتلاہوکر وہ اس مبارک رات کاتقدّس پامال کرتے ہیں، حالاں کہ آتش بازی اورپٹاخے نہ صرف ان لوگوں اوران کے بچوں کی جان کے لئے خطرہ ہیں بلکہ اردگرد کے لوگوں کی جان کے لئے بھی خطرے کاباعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگمال برباد اورگناہ لازم کامصداق ہیں۔

 

ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اوردوسروں کوبھی بچائیں اوربچوں کوسمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اورا س کے پیارے حبیب صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ناراض ہوتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:

آتش بازی جس طرح شبِ براءَت میں رائج ہے بے شک حرام اورپورا جرم ہے کہ اس میں مال کاضیاع ہے قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کوشیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشا ہوا:

اورفضول نہ اڑا؛بے شک(مال)اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔(بنی اسرائیل:26تا 27)

(فتاوٰی رضویّہ، جلد 23، صفحہ 279)

شعبان کے روزے:

حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ

میں نے آقاومولیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کوماہِ رمضان کے علاوہ ماہ ِشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

(بخاری؛ مسلم؛ مشکوٰۃ، جلد1، صفحہ441)

ایک اورروایت میں فرمایا:

نبیِ کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم چند دن چھوڑ کرپورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے۔(ایضاً)

آپ ہی سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:

شعبان میرا مہینہ ہے اوررمضان میری امّت کامہینہ ہے۔

(مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ188)

نبیِ کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم کاارشادِ گرامی ہے:

جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان میں ملک الموت کودی جاتی ہے اس لئے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرانام اس وقت فہرست میں لکھاجائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔

یہ حدیث پہلے مذکورہوچکی ہے کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرھویں شعبان کی رات کوتیار کی جاتی ہے، حضورعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دارلکھے جانے کامطلب یہ ہے کہ بوقتِ کتابت(یعنی شب میں)اللہ تعالیٰ روزے کی برکت کوجاری رکھتاہے۔

(مَاثَبَتَ مِنَ السُّنَّۃ، صفحہ192)


متعلقہ

تجویزوآراء