حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمۃ سے انٹر ویو

 حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمۃ سے اِنٹر ویو

ماعتِ اہلِ سنّت پاکستان کراچی کے نائب ناظم حضرت علامہ مولانا عبد الحفیظ معارفی، حضرت علامہ مولانا محمد خالد ماتریدی، اور جماعتِ اہلِ سنّت کراچی دفتر کے آفس سیکریٹری حافظ محمد سلمان قادری نے حضرت شاہ صاحب قبلہ سے ان کی زندگی کے حوالے سے ایک انٹر ویو لیا تھا ، جو ماہ نامہ دلیلِ راہ راولپنڈی کے دسمبر 2009ء کے شمارے میں شائع ہُوا۔ قارئین کی معلومات کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ (ادارہ)

 

سوال: تاریخِ پیدائش اور مقامِ پیدائش ۔

جواب : حیدرآباد دکن کے شہر ناندھیڑ کے گاؤں موضع کلمبر جاگیر ،27؍رمضان المبارک ،شبِ قدر مطابق 15؍ستمبر 1944ء کو میری پیدائش ہوئی ۔ والد صاحب کا اسمِ گرامی مولوی سیّد شاہ حسین رحمة اللہ علیہ ہے  اور آپ کا سلسلۂ نسب سیّد ہے، جب کہ والدۂ محترمہ کا سلسلۂ نسب فاروقی ہے ۔ میرا نام وہاں کے ایک مشہور بزرگ سیّد شاہ تراب الحق رحمةاللہ علیہ کے نام پر رکھا گیا ۔ ان کا مزار وہیں ضلع پربھنی حیدر آباد دکن میں ہے۔

سوال: والد صاحب عالمِ دین تھے؟

جواب: جی ہاں !والد عالمِ دین تھے۔ حیدرآباد دکن میں ایک عالم کورس ہوتاتھا جس میں مولوی فاضل،منشی فاضل وغیرہ کا کورس پڑھایاجاتا تھا ۔ انہوں نے وہ مکمل کورس پڑھا اور پھر موضع کلمبر جاگیر میں ہمارے جدِّ امجد کے مزار سے متصل ہماری آبائی جامع مسجد تھی اس میں آپ رضا کارانہ امامت و خطابت کرتے تھے، بلکہ والد صاحب سے پہلے ہمارے داد ااور پڑ داد ا بھی اسی مسجد میں امامت و خطابت کرتے تھے۔

سوال: خاندانی پس منظر بیان فرمائیں؟

جواب: ہمارے جدِّ امجد بغداد شریف سے تقریباً 700سال قبل ہجرت کرکے حید رآباد دکن آئے تھے  اور ان کا نام بھی یہی تھا جو میرا ہے یعنی سیّد شاہ تراب الحق تھا ۔ میرے پاس ایک 1123ءکی دستاویز ہے، جس میں ہمارے آبا و اَجداد کو ملنے والی زمین کی تفصیل موجود ہے۔اسی طرح ہمارے جدِّ امجد کے بھانجے سانگڑے سلطان کے نام سے مشہور ہوئے، بلکہ ہمارے علاقے میں یہ ضرب المثل ہے کہ ”سانگڑے سلطان ، مشکل آسان“ یہ حضرت نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے صحبت یافتہ اور فیض یافتہ تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاءکے وصال کے بعد آپ حیدر آباد دکن تشریف لائے اور یہیں آپ کا وصال ہوا اور ہمارے گاؤں سے 56میل دور ایک قصبہ قندھار شریف میں آپ کا مزار شریف مرجعِ عام و خاص ہے۔ ہمارے جدِّ امجد کے بارے میں مشہور ہے کہ اس وقت کا مشہور ہندو راجہ سیوراج بہادر ایک مرتبہ اپنے لاؤ لشکر سمیت نکلا تو راستے میں ہمارے جدِّ امجد بیٹھے ہوئے تھے۔ قافلے کے آگے چلنے والے سپاہیوں نے نامناسب لہجے میں کہاکہ آپ کو پتا نہیں کہ راجہ کی سواری آرہی ہے اور آپ راستے میں بیٹھے ہوئے ہو،چلو ایک طرف ہوجاؤتو وہ ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئے۔ اب اس کے بعد جب راجہ نے ہاتھی کو آگے بڑھانا چاہا تو ہاتھی وہیں تھم اور رک گیا،گویا کہ زمین سے چپک گیا ہو۔ اب اس ہندو راجہ نے گڑ بڑ محسوس کی تو اپنے سپاہیوں سے کہا کہ تم نے اس بزرگ کی کوئی بے ادبی تو نہیں کی؛ جس پر اسے بتایا گیا کہ بزرگ کو نامناسب طریقے سے اٹھایاگیا ہے۔ تو وہ ہندو راجہ معاملہ سمجھ گیا اور اُس نے اپنے ہاتھی کے گلے میں لٹکے ہوئے سونے کے گھنٹے کو جس پر ہیرے جواہرات لگے تھے اتارا اور ہمارے جدِّ امجد کے پاؤں میں گر کر معافی کا خواستگار ہوا اور وہ سونے کاگھنٹہ بھی نذر کیا تو اس کا ہاتھی آگے کو روانہ ہوا۔ وہ سونے کا گھنٹہ کئی پشتوں تک ہمارے خاندان میں رہا۔ ہمارے جدِّامجد کا مختصر تذکرہ اور حضرت سانگڑے سلطان کا تذکرہ اب بھی ”تاریخ قندھار شریف “ میں موجود ہے۔ ہمارے جدِّ امجد کا مزار موضع کلمبر جاگیر میں ہے۔ اسی موضع کلمبر  میں ہمارے آبا و اَجداد کی جاگیر تھی اور ہمارے آبا و اَجداد ”انعام دار جاگیر دار“ کہلاتے تھے۔ علاقے کے جاگیر دار ہونے کے ساتھ ساتھ علم و روحانیت بھی ہمارے بزرگوں کی رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی، جیسا کہ میں نے بتایا کہ علاقے کی ہماری آبائی جامع مسجدمیں تمام دینی امور بھی وہی سرانجام دیا کرتے تھے۔

سوال:  تعلیم کے مختلف مراحل کیسے مکمل کیے؟

جواب: اصل میں جب ہم لٹ پٹ کر پاکستان ہجرت کرکے آئے تووہ انتہائی کڑا اور سخت ابتلا کا وقت تھا، پورا خاندان تتر بتر ہوچکا تھا، کچھ خبر نہ تھی کہ کون زندہ ہے اور کون شہید ہو چکا ہے۔ خاندان کے افراد کا کچھ پتا ہی نہ تھا کہ کون کہاں ہے اور کیسا ہے۔ آپ اِس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے سگے خالو قبلہ قاری مصلح الدین رحمة اللہ علیہ تین سال تک ہمیں ڈھونڈتے رہے اور ہم انہیں تلاش کرتے رہے اور ان سے تین سال بعد 1954ء میں ملاقات ہوئی، لیکن ان حالات کے باوجود حصولِ علم کا سفر جاری رکھا۔ کچھ ابتدائی تعلیم تو مدرسۂ تحتانیہ دودھ بولی،بیرونِ دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدر آباد دکن میں حاصل کی تھی اور پاکستان آنے کے بعد فیضِ عام ہائی اسکول پی آئی بی کالونی میں تعلیم حاصل کی اس دوران ہم پی آئی بی سے  متصل لیاقت بستی میں رہے  پھر وہاں سے کورنگی نمبر 4 منتقل ہوئے ۔1961ءمیں کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت اختیارکی اور اسی وقت درسِ نظامی پڑھنا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ پورٹ ٹرسٹ کی مسجد میں باقاعدہ امامت و خطابت بھی شروع کی۔ وہاں سے روزانہ سائیکل پر سوار ہو کر اخوند مسجد کھارادر میں قبلہ قاری مصلح الدین صدّیقی رحمة اللہ علیہ کے پاس پڑھنے کے لیے حاضر ہوتا تھا پھر دارالعلوم امجدیّہ میں باقاعدہ داخلہ بھی لیا، لیکن زیادہ تر اَسباق قبلہ قاری صاحب سے ہی پڑھے۔

ہم چار شاگر د تھے جو قبلہ قاری صاحب سے حصولِ علم میں مصروف رہے:

ایک تو مولانا ابو البشر جو بنگلہ دیش کے تھے، کھوڑی گارڈن میں امام تھے اور قبلہ محدثِ اعظم پاکستان کے مرید تھے اور دوسرے مولانا غلام رسول کشمیری تھے جو اپنے وقت کے بڑے شعلہ بیان خطیب ہوئے اور جن کا مزار کورنگی میں ہے اور تیسرے مولانا  صوفی قائم الدین صاحب تھے جن کا تعلق گوجر خان سے تھا اور  وہ آرمی میں ہوتے تھے۔

ہم چاروں ہم سبق اور کلاس فیلو تھے اور مکمّل درسِ نظامی قبلہ قاری صاحب سے پڑھااور 1968ءمیں سندِ حدیث باقاعدہ شیخ الحدیث علّامہ عبد المصطفیٰ الازہری سے حاصل کی۔ اِس دوران مولانا  پیر جمال الدین کاظمی رحمة اللہ علیہ بھی علم التجوید میں ہمارے ساتھ قبلہ قاری صاحب کے شاگرد رہے۔

سوال :  اُس دور کے اور آج کے تعلیمی ماحول میں کچھ فرق محسوس کرتے ہیں؟

جواب : جی ہاں! ہمارے دور میں مکمّل انہماک کے ساتھ اساتذۂ کرام پڑھایا کرتے اور ہم پڑھا کرتے، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ تربیت بھی جاری رہتی اور تربیت کا یہ عمل صرف اَسباق کے دوران نہیں، بلکہ غیر تدریسی اوقات میں بھی جاری رہتا۔ ایک مسلمان کی حیثیت میں کیسی زندگی بسر کرنی ہے،ایک عالمِ دین کی حیثیت میں کس طرح خلوص و لگن سے دین کی خدمت کرنی ہے، ہمیں علم کے ساتھ ساتھ یہ سارے اَسرار و رموز بھی اساتذۂ کرام عطا فرمایا کرتے تھے، جب کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ انہماک، خلو ص کا فقدان ہے،  گویا کہ آج علم تو سکھایا جاتاہے مگر کردار سازی پر توجہ نہیں ہے۔

سوال :  زمانۂ طالبِ علمی کی کوئی یاد؟

جواب: اسکول کی تعلیم کے دوران پہلوانی بھی کی۔ ریسلنگ اور دیسی کشتیوں میں حصّہ لیا، بلکہ ویٹ لفٹنگ اور باڈی بلڈنگ میں کراچی کا چیمپئن بھی رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا کچھ اور روزانہ پرانی سائیکل پر سوار ہوکر قبلہ قاری صاحب کی خدمت میں حاضری دینا اور اَسباق پڑھنا، یہ سب حسین یادیں ہیں۔ اصل میں قبلہ قاری صاحب کی شخصیت ایسی مسحور کن تھی اور ان کا اندازِ تدریس ایسا دلر با تھا کہ موسم کی سختی کے باوجود ان کے پاس آنے کو جی چاہتا تھا۔

سوال : طلبہ کے لیے کوئی سبق؟

جواب: طلبہ کے لیے نصیحت یہی ہے کہ یک سوئی سے پڑھیں، مطالعہ ضرور کریں، تکرار کی عادت ڈالیں، دورانِ تعلیم مسائل پر ڈائری ضرورلکھیں۔ یاد داشتیں ضرور مرتّب کریں کیوں کہ آج کل کے ماحول میں لوگ یہ پوچھتے ہیں یہ مسئلہ کون سی آیت یا حدیث میں ہے تو طالبِ علم دورانِ تعلیم اپنے مذہب کی جو مؤیّد احادیث ہیں ان کو ازبر کریں ،ماخذ و مراجع یاد ہوں تا کہ عوام الناس کو مطمئن کیا جاسکے لیکن صرف لکھنے پر ہی زور نہ ہو بلکہ علم کو دل و دماغ پر نقش کرنے کی کوشش کی جائے۔ مزید سمجھانے کے لئے عرض کروں کہ میں نے امام غزالی کے واقعات میں پڑھا ہے کہ حصولِ علم کے بعد گھر واپس آتے ہوئے اُن کے قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور اس لوٹ مار میں امام غزالی کا مال اور وہ رجسٹر جس میں انہوں نے تمام علمی مواد جمع کیا ہوا تھاوہ بھی چھین لیا گیا ۔ اس پر امام غزالی نے کہا مال و اسباب تو تم نے لے لیا ہے، مگر میرا رجسٹر تو مجھے واپس کردو کیوں کہ اس میں تمہارے کام کی تو کوئی چیز نہیں جب کہ میری سالہا سال کی محنت سے حاصل کیا ہو اعلم اسی میں ہے ۔وہ اگر تم نے لے لیا تو میرے پاس کیا رہ جائے گا؟ میرا سارا علم تو اسی میں جمع ہے اس پر ڈاکوؤں کے سردار نے کہا کہ:

” تمہارے ایسے پڑھنے کا کیا  فائدہ کہ ڈائری غائب تو علم غائب۔“

اس بات نے امام غزالی پر ایسا اثر کیا کہ ڈائر ی وہیں چھوڑی اور دوبارہ حصولِ علم میں مشغول ہوگئے اور علم کو ایسا ازبر کیا کہ ان کی سوانح میں مشہور ہے کہ ”احیاءالعلوم“ اُن کی دورانِ سفر کی تصنیف ہے۔

سوال: بیعت کب اور کن سے ہوئے اور بیعت کے وقت عمر کیا تھی ؟

جواب: جب میری عمر ۱۸ یا ۱۹سال تھی تو ۱۹۶۲ءمیں قبلہ قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کے ارشاد پر بذریعۂ خط اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے چھوٹے صاحبزادے حضور مفتیِ اعظم حضرت مولانا مصطفیٰ رضا خاں رحمة اللہ علیہ سے بیعت کی اور پھر ۱۹۶۸ءمیں بریلی شریف جاکر اُن کے دستِ اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ زندگی کے اس یادگار سفر میں 13؍ دن تک حضور مفتی اعظم ہند رحمة اللہ علیۃ کے دولت خانے پر قیام رہا ۔ باقاعدہ تعویذات و عملیات کی تربیت فرمائی اور اجازت عطا کی، جب کہ اِس دوران اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی مسجدِ رضا میں اکثر نمازوں کی امامت بھی میرے سپرد رہی۔ حضرت فرمایا کرتے کہ آپ کی قراءت اچھی ہے، آپ نماز پڑھائیں جب کہ خود میری اقتداءمیں نمازیں ادا فرماتے۔ یہ اُن کی کرم نوازی تھی وگرنہ میں خود کو اِس قابل نہیں سمجھتا۔ پھر اُن کی موجودگی میں کئی جلسوں میں تقریر بھی کی، جس پر حضرتِ اَقدس نے بڑی شفقت فرمائی اور دعاؤں سے نوازا۔

سوال :  دستارِ خلافت کب حاصل ہوئی؟

جواب : عموماً پیر صاحب اپنے خلیفہ کو سندِ خلافت جاری کرتے ہیں اور معاملہ مکمّل ہوجاتاہے، لیکن مجھے سیّد ہونے کی وجہ سے غالباً 1980ء میں حضور مفتیِ اعظم ہند رحمة اللہ علیہ نے اپنے نواسے حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں الازہری کی موجودگی میں خلافت عطا فرمائی اور سیّد ہونے کی وجہ سے بڑا خاص انداز اپنایا۔ آپ نے اپنا جبہ شریف، عمامہ شریف اور ٹوپی مجھے عنایت فرمائی اور بطورِ خاص سندِ خلافت قبلہ تاج الشریعہ مد ظلہ العالی سے پُر کروائی اور خود اپنے ہاتھ سے دستخط فرمائے اور تاریخ ڈالی۔

اس کے ساتھ ساتھ سلسلۂ قادریہ برکاتیہ، اشرفیہ،شاذلیہ،منوّریہ،معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میں اپنے استاذِ محترم اور سسر قبلہ قاری مصلح الدین صدّیقی رحمة اللہ علیہ اور قطبِ مدینہ علامہ ضیاءالدین مدنی رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت مولانا فضل الرحمان مدنی اور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان الازہری سے اجازت و خلافت حاصل ہے۔

سوال :  تنظیمی کارکن کو کام کس طرح کرنا چاہیے؟

جواب: اس سلسلے میں میری گذارش یہ ہے کہ ہم دینی جماعت کے کارکن ہیں اور ہماری دینی جماعت، جماعتِ اہلِ سنّت ایک تنظیم تو ہے مگر اس کے ساتھ ہمارا مذہب و مسلک بھی توہے۔تو  ہمیں صرف ایک تنظیم کا کام سمجھ کر عملی میدان میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اپنا مذہب و مسلک سمجھ کر اس کی ترویج و اشاعت کی بھر پور کوشش کرنی ہوگی تبھی کامیابی و کامرانی ممکن ہوگی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم جماعت کا کام صرف ایک تنظیم کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں اور جز وقتی کا م کرتے ہیں۔ جس دن ہم جماعت کے کام کو دین، مذہب اور مسلک کا معاملہ سمجھ کر میدانِ عمل میں اُتریں گے تو ساری پریشانیاں اور رکاوٹیں دم توڑ دیں گی۔

سوال:  اب تک کیا دینی خدمات سرانجام دیں؟

جواب: ہمارے مولانا سیّد سعادت علی قادری کو 1967ءمیں علم ہوا  کہ قبلہ قاری صاحب کے داماد کورنگی میں ہوتے ہیں؛ تو اُنھوں نے مجھے طلب کیا اور جماعتِ اہلِ سنّت کورنگی کی ذمّے داری تفویض فرمائی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک جماعتِ اہلِ سنّت سے وابستہ ہو ں۔ ایک کارکن کی حیثیت سے کام شروع کیا اور آج اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ کریمﷺکے صدقے یہ کرم فرمایا کہ آپ کو اِس منصب پر فائز نظر آرہا ہوں۔

1965ءسے 1970ءتک محمدی مسجد کورنگی میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیے۔ 1970ءسے 1982تک کھارادر کی قدیمی اخوند مسجد میں اسی منصب پر رہا۔ اُس دور میں نوجوانوں کی تربیت پر خاص توجہ رہی، جس کی وجہ سے انہی نوجوانوں نے کئی دینی تنظیمیں قائم کیں: مثلاً سنّی باب الاشاعت،تحریکِ عوامِ اہلِ سنّت، انجمن اشاعتِ اسلام، تحریکِ حقوقِ اہلِ سنّت وغیرہ بڑی مشہور ہوئیں، بلکہ میں عرض کروں کہ دعوتِ اسلامی کے امیر مولانا محمد الیاس قادری بھی اُن نوجوانوں میں شامل تھے اور تقریباً دس سال انہوں نے ہمارے ساتھ گزارے۔ 1983ء میں قبلہ قار ی صاحب نے اپنے وصال سے دو ماہ قبل اپنی زندگی میں باقاعدہ میری جانشینی کا اعلا ن فرماتے ہوئے میمن مسجد کی امامت و خطابت میرے سپرد فرمائی۔ جماعتِ اہلِ سنّت کے مختلف اَدوار میں بڑے اَہم مناصب میرے سپرد رہے۔ ترجمانِ اہلِ سنّت کا مُدیر بھی رہا۔ روزنامہ جرأت، روزنامہ ریاست اور روزنامہ قومی اخبار کراچی میں شرعی مسائل کے جوابات کا کالم ہر جمعہ کو لکھتا ہوں۔ میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں خلقِ خدا کی خدمت بھی گذشتہ 26سال سے جاری ہے۔ ملک کے طول و عرض میں عموماًاور کراچی میں خصوصاً وعظ و تقریر کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ عوامِ اہلِ سنّت اور مسلکِ اہلِ سنّت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے دن رات کی تخصیص کیے بغیر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور مصطفیٰ کریم ﷺ کی نگاہِ شفقت کے حصول کی خاطر مصروفِ عمل ہوں اور اِنْ شَآءَاللہ تادمِ آخر رہوں گا، کیوں کہ عزّتیں، عظمتیں اور بلندیاں سب کوچۂ محبوب ﷺ کی گدائی میں ہیں۔

سوال:  کیا یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیاکے کونے کونے میں اسلام کی دعوت پہنچانے کا شرف حاصل ہوا۔ کئی ممالک میں وہاں کے رہنے والوں کے اصرار پر بار بار جانے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے 1977ء میں نیروبی، کینیا سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ اس پہلے دورے کی اللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ کی بارگاہ میں مقبولیت کی دلیل میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسی دورے کے اختتام پر حضور قطبِ مدینہ علامہ ضیاءالدین مدنی رحمة اللہ علیہ کے آستانۂ عالیہ پر حاضری ہوئی اور چالیس دن آپ کی صحبتِ کا ملہ میں مدینۂ طیبہ کے پُرنور ماحول میں رہا۔ اس کے ساتھ حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی، بلکہ میں آپ کو بتاؤں کہ حضورقطبِ مدینہ رحمة اللہ علیہ نے مجھے خلافت بھی عطا فرمائی، لیکن میں اس کا دعویٰ اس لئے نہیں کرتا کہ اُس وقت باقاعدہ کوئی لکھنے والا موجود نہ تھا کہ حضرت اُس سے سند لکھوا کر جاری کرتے، لیکن بہر حال حضرت کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان مدنی نے اُن کی طرف سے تمام سلاسل میں خلافت و اجازت باقاعدہ عطا فرمائی، تو میں کہہ رہا تھا کہ چالیس دن کوچۂ محبوب مدینہ طیبہ میں گزارے اور حضرت اتنی شفقت فرماتے کہ ہر محفل کے اختتا م پر دعا مجھ سے کرواتے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نسبتوں کا فیض ہے وگرنہ میں کیا اور میری اوقات کیا۔

چلیے آپ کے سوال کی طرف لوٹتا ہوں1977ءسے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ جہاں بھی جاؤں جماعتِ اہلِ سنّت کی تنظیم سازی کروں، دینی اداروں اور مساجد ان ممالک میں تعمیر ہو ں اور دین و مسلک کی بھر پور ترویج و اشاعت ہو۔ امریکا میں 11بار جاچکا ہوں، یورپ کے پانچ، چھ دورے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، عرب امارات،سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی ،بیلجیئم، ساؤتھ افریقہ، کینیا ، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا۔اور سرکاری وفدکے رکن کی حیثیت میں چین کادورہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا۔ کنز الایمان شریف اور اہلِ سنّت و جماعت کا دیگر لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا،اسی طرح اردن اور مصر کا دورہ بھی کیا۔ قصّہ مختصر یہ کہ افریقا کے جنگلوں سے لے کر یورپ کے مَرغ زاروں تک اور سنگلاخ پہاڑوں سے لے کر برِّصغیر کے سبزہ زاروں تک ہر مقام پر قَالَ اللہُ وَ قَالَ الرَّسُوْل ﷺ کی صداؤں کو عام کرنے کا شرف حاصل رہا۔

سوال :  آپ نے عملی سیاست میں حصّہ لیا، اُس کے اسباب کیا تھے ؟

جواب: جی ہاں، 1969ء میں باقاعدہ عملی سیاست میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا، وجہ اس کی یہ بنی تھی اس دور میں بھٹو نے سوشل ازم کا شوشہ چھوڑا تھااور چین اور روس کے کمیونزم کے نظام کو پاکستان میں نافذ کرنے کےلیے بہت ساری قوتیں اور افراد متحرک ہو گئے تھے، جب کہ ہم نے جو پاکستان کی خاطر گھر بار لٹایاتھا اور ہجرت کی تھا، اور اپنی جاگیریں قربان کی تھیں اور خاندان کے اَفراد اس راہ میں شہید ہوئے تھے تو اُس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے سنا بھی تھا اور یہ نعرہ لگایا بھی تھا کہ پاکستان میں اسلام اور نظامِ مصطفیٰ ﷺ کا نفاذ ہوگا، جب کہ اُس دور میں ہونے والی یہ ساری سازشیں اور نعرے ہمارے دین سے بالکل متصادم تھیں تو صر ف میں ہی نہیں بلکہ اکثر علمائےاہلِ سنّت میدانِ عمل میں نکل آئے اور باقاعدہ جدّو جہد شروع کی اور ظاہر ہے کہ یہ علمائےحق کی ذمّے داری بھی تھی کہ ایسے پُر آشوب ماحول میں ملّت کی رہ نمائی کی جائے تو مولانا سیّد سعادت علی قادری، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی،شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ ازہری اور خود ہمارے قاری صاحب رحمة اللہ علیہ دیگر علماکے ساتھ میدانِ عمل میں آئے اور لانڈھی کورنگی میں جب علامہ عبد المصطفیٰ ازہری  نےالیکشن لڑا اور علامہ حسن حقانی صوبائی اسمبلی کے امّید وار تھے تو ان کی تما م الیکشن کمپین کا میں انچارج تھا خود قبلہ قاری صاحب نے بھی اکثر جلسوں میں خطاب کیا۔ اس زمانے میں مذہبی تقسیم اتنی زیادہ نہ تھی اور مسلک کا کام کرنے والی تنظیمات باہم ایک دوسرے سے منسلک ہوا کرتی تھیں، چناں چہ مولانا سیّد سعادت علی قادری جماعتِ اہلِ سنّت کے بھی ناظمِ اعلیٰ تھے اور جے یو پی کے بھی ناظم اعلیٰ تھے۔

سوال:  عملی سیاست کے دوران کن مناصب پر فائز رہے؟

جواب : کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن K.M.C میں کونسلر رہا، پھر K.M.Cکی تعلیمی کمیٹی کا چیئرمین بھی رہا، اسی طرح لاءکمیٹی کراچی کا چیئرمین بھی رہا، انٹرمیڈیٹ بورڈ کا رکن بھی رہا، اِنسدادِ جرائم کمیٹی کا چیئرمین بھی رہا، ضیاءالحق کے زمانے میں الیکشن کا اعلان ہُوا تو کورنگی سے صوبائی اسمبلی کا امّیدوار بنا، لیکن وہ الیکشن ملتوی ہوگئے، اسی طرح 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں حلقہ 190کراچی ساؤتھ سے جماعتِ اسلامی کے محمد حسین محنتی کو بھاری اکثریت سے ہرا کر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہُوا۔ غالباً اُس وقت جیتنے والوں میں سب سے زیادہ ووٹ میں نے حاصل کیے، بلکہ جس امّید وار نے ہمارے مقابلے میں شکست کھائی اُس کے ووٹ بھی اس وقت کے جیتنے والوں سے زیادہ تھے۔ اس اسمبلی میں اطلاعات کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا ممبر اور دہشت گردی کا قانون ہماری کمیٹی نے بنا کر دیا تھا۔ جاویداں سمنٹ فیکٹری کا ڈائریکٹر بھی رہا، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا رکن رہا، اس سے ہٹ کر دینی شعبےمیں بےشمار مدار س اور مساجد اور فلاحی انجمنوں کی ذمّے داریاں بھی مجھ حقیر فقیر کے کندھوں پر ہیں۔

سوال:  قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت میں کوئی ایسا کام جو یاد گار ہو؟

جواب: مولانا! ہماری اسمبلی سے پہلے شاتمِ رسول کے لیے 2؍ سال کی سزا تھی اور یہ بھی صرف حضور ﷺ کی گستاخی تک محدودتھی۔ ہمارے زمانے میں /C295کا قانون منظور ہونے کےلیے اسمبلی میں پیش ہوا کہ جس میں تمام انبیاعلیھم السلام، آسمانی کتب اور شعائرِ دین کی گستاخی کرنے والے کے لیے موت کی سزا تجویزکی گئی تو ہمارے پورے گروپ، شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ ازہر ی، محمد عثمان خا ن نوری، حاجی محمد حنیف طیّب، پروفیسر محمد احمد پسرور،سیالکوٹ، قمرالنساء قمر اور میں نے دن رات ایک کردیا، ایک ایک رکن کے پاس گئے اور اس قانون کی منظوری کے لیے حمایت چاہی اور الحمد للہ ہماری کوششوں سے پوری اسمبلی نے متفقہ طور پر /C295کو منظور کرلیا۔ اسی طرح ایک بار مؤتمر عالمِ اسلامی نے اذان سے پہلے دُرود شریف پڑھنے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور حکومتِ پاکستان کو لکھ بھیجا ۔ حکومت نے بھی پابندی کا سوچا اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث شروع کروائی۔ اِس سے پہلے کہ یہ شیطانی سازش کامیاب ہوجاتی، ہم نے ایک بار پھر تما م اَراکین سے رابطہ کیا اور اُس کے بعد اسمبلی کے فلور پر ہم کھڑے ہوگئے اور حکومت کو باور کرایا کہ تم تو مسجد میں اذان سے پہلے دُرود شریف پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہوجب کہ ہم یہاں بھی دُرود و سلام پڑھا کریں گےاور ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد ہم نے وہیں اسمبلی میں مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام اور یا نبی سلام علیک  پڑھنا شروع کردیا اور اکثر اَراکین بھی ہمارے ساتھ شریک ہوگئے۔ اس صورتِ حال کو دیکھنے کے بعد حکومت کے وزیر مقبول احمد خان نے معذرت کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے پابندی کی قرار داد واپس لینے کا اعلان کیا۔

سوال:  کیا سیاسی عمل میں مذہبی طبقے کو شریک ہونا چاہیے؟

جواب: جی ہاں، ضرور آنا چاہیے مگر بھر پور تنظیم اور قوّت کے ساتھ تاکہ اسمبلی میں بھر پور کردار ادا کیا جاسکے ۔اگر اکیلے یا دو چار افراد انفرادی طور پر وہاں پہنچ بھی جائیں تو سوائے شور مچانے کے اور کیا کرسکتے ہیں، لہٰذا اپنی صفوں میں بھر پور اتحاد پیدا کرکے تحریک چلائی جائے اور اس کے نتیجے میں جب آپ پارلیمنٹ جائیں گے تو نتیجہ خیز معاملات سر انجام دے سکیں گے۔

سوال:  اتحادِ اہلِ سنّت میں رکاوٹ کیا ہے اور کوئی صورت اتحاد کی نظر آتی ہے؟

جواب: مولانا! یہاں معاملہ لیڈری اور قیادت کے شوق کا ہے، جو اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؛ ہر شخص جس کو اُس کے محلے میں بھی کوئی نہ جانتاہو اپنی تنظیم بنائے بیٹھا ہے، اب ظاہر ہے کہ اتنے قائدین کو کسی ایک تنظیم میں کیسے ایڈ جسٹ کیا جاسکتاہے اور یہ بات وہ سب بھی جانتے ہیں، اس لیے عوام اہلِ سنّت  میں تو اتحاد کی تڑپ بھی ہے اور خواہش بھی لیکن یہی قائدین پھر ان کو ورغلاتے اور بہکاتے رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایثار اور قربانی کا جذبہ اگر پیدا ہوجائے تو اتحاد ممکن ہوگا، میں دو مثالوں کے ذریعے سمجھاتا ہوں: ایک زمانہ تھا کہ جماعتِ اہلِ سنّت پاکستان مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی پھر کچھ اہلِ درد کی کوششوں سے تمام دھڑوں کو لاہور میں اکھٹا کیا گیا تو اگر اس مرحلے پر سب قائد بننے پر رہتے تو اتحاد ممکن نہ ہوتا۔ تو ہم نے یہ کیا کہ ایثار و قربانی سے کام لیتے ہوئے قیادت سے اپنی دست برداری کا اعلان کیا اور جماعتِ اہلِ سنّت کے ایک دھڑے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تو اب سب کو یہ چیزاچھی لگی اور تمام گروپنگ ختم ہوگئی اور جماعتِ اہلِ سنّت کی نشاةِ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ اسی طرح آپ دیکھیں کہ اس وقت سنّی اتحاد کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس میں اکثر و بیشتر سنّی تنظیمات موجود ہیں۔ ہمارے قائدین علامہ سیّد مظہر سعید کاظمی شاہ صاحب اور علامہ سیّد ریاض حسین شاہ صاحب نے ایثار و قربانی سے کا م لیا اور قیادت کے لیے صاحبزادہ فضلِ کریم کو آگے کیا تو ایک پلیٹ فارم بن گیا۔ اسی طرح تمام قائدین اور زُعما ایثار و قربانی سے کام لیں تو اتحاد ممکن ہے یا پھر ایسا کرلیاجائے کہ سنّی اتحاد کونسل ٹائپ کا ایک مستقل ادارہ قائم کردیا جائے اور تمام سنّی تنظیمات جو پاکستان سطح پر اپنا وجود رکھتی ہوں اُ ن کے سربراہوں کو اس کا ممبر بنادیا جائے اور یہ ادارہ سپریم حیثیت میں مسلک و مذہب کے حوالے سے اجتماعی ایشوز پر ہر فیصلہ کرے اور تمام تنظیمات اہلِسنّت ان فیصلوں کونافذ کرنے کی کوشش کریں تو پھر اتحاد کا معاملہ حل ہو سکتاہے وگرنہ اگر صرف زبان سے اتحاد کے دعوے کیے جائیں اور عملی طور پر اس کی مخالفت ہو تو پھر ایسا ہی ہے  کہ کوئی شخص آم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر اَنار کی دعا کر رہا ہو۔

سوال : آپ فن خطابت کی طرف کیسے آئے؟

جواب :  پہلی بات تو یہ یاد رکھیں میں خود کو کوئی اچھا خطیب نہیں سمجھتا۔ ہاں مسلک کی خدمت کے لیے ٹوٹی پھوٹی گفتگو کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں اور یہ سلسلہ زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ غالباً 1962ء کا زمانہ تھا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مادرِ علمی دار العلوم امجدیہ کی طرف سے بحیثیتِ مقرر و مبلغ ہر جلسے میں جایا کرتاتھا اور مسلک کی ترویج و اشاعت کے لیے، بدمذہبوں کے رد کے لیے اور اصلا ح مسلمین کے لیے یہ سلسلہ گذشتہ 47 سال سے جاری ہے۔ پور ا سال یہ سلسلہ جاری رہتاہے، بلکہ مجھے یاد ہے ایک ایک دن میں پندرہ پندرہ تقریریں بھی کی ہیں۔ کئی مُناظرے بھی ہوئے۔ ایک مشہور مُناظرہ تو مشہور دیوبندی مُناظر مولوی محمد فاضل کے ساتھ ہُوا جو کہ دار العلوم کراچی سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس مُناظرے میں علامہ مفتی محمد عبد اللہ نعیمی رحمة اللہ علیہ صدرِ مُناظرہ تھے اور ثالث مولانا مفتی عبد السبحان قادری اور مولانا فضل سبحان تھے۔ اِسی طرح ایک مناظرہ مجھے یاد ہے کہ حزب اللہ کراچی کے سربراہ ڈاکٹر کمال عثمانی سے بھی ہوا۔ اَلْحَمْدُ لِلہ تمام مُناظروں میں فتح حاصل ہوئی۔ اِسی طرح سرکاری دفاتر اور اداروں میں ہونے والے جلسوں میں مولوی احتشام الحق تھانوی نے اپنا سکہ بٹھا رکھا تھا، باوجود شدید مصروفیات کے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں مسلسل تقاریر کے ذریعے اُس کے اثر کو زائل کیا اور گذشتہ 38سال سے یہ خدمت بھی سرانجام دے رہا ہوں۔

سوال :  تقریر کے لیے مطالعہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب: اُتنا ہی ضروری سمجھتا ہوں کہ جتنا ایک جسم کو باقی رکھنے کےلیے سانس ضروری ہوتاہے۔ ہم نے قبلہ قاری صاحب رحمة اللہ علیہ سے یہی سیکھا ہے کہ بغیر مطالعے کے تقریرکرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کوئی پودا لگاکر اُسے پانی دینا چھوڑ دیں، ایک وقت آئےگا کہ وہ پودا اپنا وجود کھو دے گا۔

سوال:  آپ کی آواز میں جو گھن گرج اور رعب داب ہے، اُس کا راز؟

جواب: یہ سب اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے، جو اُس نے اپنے محبوب ﷺ کے دین کی خدمت کے لیے عطاکیا ہے۔ ہمارے والد صاحب کی آواز بھی ایسی ہی تھی، جب کہ ہمارے دادا سیّد شاہ محی الدین قادری رحمة اللہ علیہ تو اونچی جگہ سے کسی کو آواز دیتے تو پورا گاؤں اُن کی آواز سنتا تھا۔

سوال:خطیبوں میں کس کو پسند کرتے ہیں؟

جواب: علامہ فیض الحسن آلو مہار شریف والے اپنی طرز کے منفرد خطیب تھے۔ علمی خطاب میں غزالیِ زماں علامہ کاظمی صاحب رحمة اللہ علیہ بہت پسند ہیں، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی بھی اچھے لگتے تھے، قبلہ قاری صاحب کی تقریر از حد پسندتھی، موجودہ دور میں علامہ سیّد ریاض شاہ صاحب کو شوق سے سنتا ہوں، لیکن ایک شکوہ ہے کہ وہ کراچی والوں کو مستقل اور مسلسل نہیں نوازتے۔

سوال:  خطباکے لیے کوئی نصیحت؟

جواب : مطالعہ ضرور کریں، اپنی تقریرمیں مقصدیت کو غالب رکھیں، خواہ مخواہ وقت نہ گزاریں، تقریر کو بامقصد، جامع اور مختصر رکھنے کی کوشش کریں، عوام کی ذہنی سطح کے قریب آ کر بات کریں؛ ایسا نہ ہو کہ عوام تو دہقان اور مزدور ہوں جب کہ آپ اُن کے سامنے وحدت الوجود اور وحدت الشہود جیسے مسائل پر ادق علمی زبان میں گفتگو کرنے لگیں، وقت کی پابندی بھی ضروری ہے وگرنہ ایسا ہو گا کہ تقریر کے اختتام پر صرف آپ ہوں گے اور ڈیکوریشن والے سامان اٹھانے کے انتظار میں آپ کا منہ دیکھ رہے ہوں گے۔ تقریر کے لیے اُردو ادب کا مطالعہ ضرور کریں کہ زبان ادبی ہوگی تو بات زیادہ اثر انداز ہوگی۔

سوال:  کون کون سی یاد گار تحریکوں میں حصّہ لیا اور دیکھیں؟

جواب: 1954ءکے بعد سے جتنی بھی تحریکیں چلیں اُن سب کا میں عینی شاہد ہوں اور دینی حوالے سے جتنی تحریکیں چلیں اُن میں بڑی سرگرمی سے شریک بھی ہوا۔ تحریکِ ختمِ نبوّت ہو یا تحریکِ نظامِ مصطفیٰ، ناموسِ رسالت ﷺ کا معاملہ ہو یا پھر شعائرِ دین اور قوانینِ الٰہیہ کے تحفّظ کی تحریک ہو یا پھر مسلکِ حق کی بقااور تحفّظ کی جدّ و جہد ہو، کسی بھی معاملے میں پیچھے نہیں رہا؛ بلکہ اور علماو قائدین کے شانہ بَہ شانہ صفِ اوّل میں شریک رہا۔ آپ کی معلومات کے لیے میں آپ کو بتاؤ ں کہ تحریکِ ختمِ نبوّت اور تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں کثرت سے گرفتاریاں ہوئیں اور اکثر علماو قائدین گرفتار ہو گئے تو بالخصوص تحریکِ ختمِ نبوّت میں ہم باقی رہ جانے والے علمانے فیصلہ کیا کہ پکڑائی نہیں دینا اور حکمتِ عملی یہ اختیار کی کہ اچانک پہنچتے اور جلسے میں تقریرکرکے خاموشی سے نکل جاتے۔ کئی بار پولیس نے جلسے کو گھیرا مگر ہم تقریر کے بعد جبہ وعمامہ و ٹوپی اتار کر بالکل عام آدمی کی طرح منہ جھکائے نکل جاتے، وہ ٹوپی اور عمامے کی تلاش ہی کرتے رہتے۔ اُس زمانے میں لوگوں کا دینی جذبہ ایسا تھا کہ ایک ایک لاکھ کا مجمع ہوتا ہمیں نہیں یاد کہ کبھی 30 40ہزار سے کم کا مجمع رہا ہو۔ آج میں دیکھتا ہو ں کہ دین کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ کم ہوگیا ہے۔

سوال:  جلسوں کی زندگی میں کوئی یادگار موقع؟

جواب: جی ہاں، 13یا 18مارچ 1974ء کو حیدر آبادمیں ایک بڑا میلاد شریف کا جلسہ تھا۔ وہاں مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور اپنے طور پر تو اُن لوگوں نے مجھے مار ہی دیا تھا۔ پورا جسم اور لباس خون میں تر بتر ہوگیا، بازو کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی، ناک کی ہڈی تو بالکل چکنا چور ہوگئی، سر پھٹ گیااور بھی کئی زخم آئے۔ بزرگانِ دین کی دعائیں بالخصوص قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی دعائیں اور اللہ کا فضل شاملِ حال تھا کہ اللہ نے نئی زندگی عطا فرمائی۔ اُسی حالت میں A.T.Iکے نوجوانوں نے بڑی مشکل سے وہاں سے نکالا اور تانگے میں بٹھا کر سول ہسپتال لے گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر کہ یہ تو پولیس کیس ہے مرہم پٹی سے انکار کردیا۔ اب اس کے بعد یہ ہوا کہ میں نے محسوس کیا کہ سانس وغیرہ ٹھیک آرہی ہے تو میں نے میڈیکل اسٹور سے روئی لی اور رگڑ کر اپنا منہ وغیرہ صاف کیا اور پھر جلسہ گاہ پہنچ گیا اُس وقت تک یہ بات مشہور ہوچکی تھی کہ شاہ تراب الحق کو مار دیا گیا ہے؛ لہٰذا، مجمع حدِّشمار سے باہر ہوچکا تھا۔ بہرحال اُسی حالت میں پھر میں نے ڈھائی گھنٹے تقریر کی، پورے جسم سے خون نکل نکل کر تالاب کی شکل اختیار کرگیا مگر زباں ذکرِ مصطفیٰ ﷺ میں مصروف ثنا  رہی، یہاں تک کہ احد یوسف وغیرہ پاؤں میں گر گئے کہ شاہ صاحب بس کریں ہم کراچی والوں کو کیا جواب دیں گے۔ پھر وہ مجھے تھانے لے گئے، جہاں ایف آئی آر در ج ہوئی اور میں تین دن تک سول ہسپتال میں داخل رہا، مگر سب سے زیادہ حسین پہلو یہ ہے کہ جلسہ کروانے والو ں نے پلٹ کر خبر تک نہ لی۔ مولانامحمد علی رضوی صاحب اور ایک لڑکا تھا ایئر فورس میں اُس کا نام تھا شفاعت، یہ میری تیمار داری اور دیکھ بھال کرتے رہے اور جب میں چلنے پھرنے کے قابل ہُوا تو بس میں سوار کرکے کراچی روانہ کیا۔ اب بھی جب کوئٹہ کی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو کافی تکلیف ہوتی ہے اور وہ ساری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

 

سوال :  اپنی اِزدواجی زندگی اور اولادسے متعلق کچھ بتائیں؟

جواب: 13؍ مارچ1966ءکو قبلہ قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہمارا نکاح ہوا۔ قبلہ قاری صاحب ہمارے استاد بھی ہیں اورساتھ ہی ہمارے خالو بھی ہیں۔ ہماری سگی خالہ آپ کی زوجۂ محترمہ تھیں۔ اس لحاظ سے ہماری زوجہ محترمہ ہماری خالہ زاد بھی ہیں۔ تقریبِ نکاح میں شیخ الحدیث علامہ ازہری رحمة اللہ علیہ قاری رضا ءالمصطفیٰ اعظمی اور دیگر علماشریک ہوئے۔ اَلْحَمْدُ لِلہ 3بیٹے اور 6بیٹیا ں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ایک بیٹی کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا، باقی اولاد اَلْحَمْدُ لِلہ بقیدِ حیات ہے۔بڑا بیٹا شاہ سراج الحق قادری آج کل کافی بیمار ہے، تمام احباب اس کی صحت کے لیے دعا فرمائیں، جب کہ منجھلا بیٹا مولانا سیّد شاہ عبد الحق قادری اچھا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین خطیب بھی ہے اور میرا دست و بازو بن کرآج کل میرے اکثر جلسے وہی سنبھال لیتا ہے۔ میر ی آرزو اور دعا ہے کہ  اللہ تعالیٰ مسلک کی خدمت کے لیے اُس کو مزید توفیقِ رفیق مرحمت فرمائے ۔چھوٹا بیٹا شاہ فرید الحق قادری اپنا کام کرتا ہے۔

 

سوال : تنظیمی سفر میں کوئی دیرینہ ساتھی؟

جواب: کافی اَحباب اور بزرگ ہیں جو شفقت اور محبت فرماتے رہے۔ حضرت قبلہ قاری مصلح الدین صدیقی رحمة اللہ علیہ جو میرے استاد ، مربی، محسن اور سب کچھ ہیں۔علامہ سیّد سعادت علی قادری نے بھر پور ساتھ دیا ۔مفتی محمد وقار الدین رحمة اللہ علیہ بڑی دل نواز شخصیت تھے۔ تصنیف کے کام میں مولانا آصف قادری اور محمد عارف قادری اسلام آباد والے بڑا ساتھ دیتے ہیں۔ مولانا عبد الرزاق بھترالوی، مفتی محمد سلیمان رضوی اورمولانا عبد الشکور پنڈی والے جو اپنے وسیع و عریض کتب خانوں میں مجھے ہر طرح کی سہولت دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر جس آدمی نے سفر، حضر میں میری خدمت کی اور میرا معاون رہا وہ ایک ہی ہے: ”مولانا محمد رئیس قادری “۔ اسی طرح محمد ادریس قادری بھی اخوند مسجد سے اب تک میرے ساتھ ہیں۔

سوال : زندگی کا وہ لمحہ جسے آواز دینے کو جی چاہتا ہے؟

جواب: جو لمحات درِ مصطفیٰ کریم ﷺ پر گزرے، جو وقت بزرگانِ دین کی صحبت میں گزرا، زندگی کا جو حصّہ قطبِ مدینہ رحمة اللہ علیہ ،حضور مفتیِ اعظم ہند رحمة اللہ علیہ اور قبلہ قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی نگاہِ عنایت کے سائے میں بسر ہوا ،وہ بہت یاد آتا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری ساری کامیابیوں کا باعث انہی جیسی پاک باز ہستیوں کی صحبت ہے۔

سوال :  پسندیدہ موسم ؟

جواب : دینی حوالے سے تو مجھے سب کچھ ”مدینۂ طیّبہ “ کا پسند ہے۔ چاہے وہ موسم ہو یا کچھ اور،  عام زندگی میں سردی کا موسم اچھا لگتا ہے۔

سوال :  پسندیدہ لباس؟

جواب: کرتا، شلوار اور حیدرآبادی شیروانی۔

سوال :  پسندیدہ خوشبو؟

جواب: کوئی بھی اچھی خوشبو ہو استعمال کر لیتا ہوں۔ ویسے حنا اور مجموعہ پسند ہے۔

سوال:  پسندیدہ کتاب؟

جواب: قرآنِ مجید اور احادیث کی کتب؛ اس کے علاوہ، حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی کتابیں اچھی لگتی ہیں۔ محدثین میں قاضی عیاض میرے پسندیدہ محدث ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ سب  کچھ ایک ہی رنگ میں یعنی عشقِ رسالت مآب ﷺ میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔

سوال:  پسندیدہ اَفراد یا رہنما؟

جواب : اِس وقت میرے پسندیدہ لیڈر سیّد ریاض حسین شاہ صاحب ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر مظہر میاں کا احترام پیشِ نظر رہتا ہے؛ وجہ اس کی یہ ہے کہ علامہ کاظمی رحمة اللہ علیہ سے ہماری 1954ء سے ملاقات رہی، وہ جب بھی کراچی آتے تو جمعہ کی نماز ہماری مسجد میں پڑھاتے،چوں کہ حضرت صاحب بغیر کسی اعلان کے تشریف لاتے تھے تو قبلہ قاری صاحب بھی اور اُن کے بعد میں بھی اپنی جاری تقریر کو ادھورا چھوڑ دیا کرتے اور حضرت کا بیان شروع کرادیا جاتا۔ وہ کہتے بھی تھے کہ ”مولانا! آپ اپنی بات پوری کر لیں“ مگر ہمیشہ ہمارا جواب یہی ہوتا کہ حضرت اب آپ تشریف لے آئے ہیں تو بس آپ ہی سنبھالیں، نائبِ مفتیِ اعظم ہند علامہ مفتی اختر رضا خاں صاحب اور حضرت علامہ قاضی عبد الرحیم بستوی بریلی شریف انڈیا، محدثِ کبیر علامہ ضیاءالمصطفیٰ اعظمی بہت پسند ہیں اور شفقت فرماتے ہیں۔

سوال:  پسندیدہ سواری؟

جواب :             موٹر سائیکل

سوال :  پسندیدہ شہر ؟

جواب : دینی حوالے سے مدینۂ طیّبہ،اور ویسے کراچی۔

سوال:  پسندیدہ تنظیم؟

جواب: ظاہر ہے جماعتِ اہلِ سنّت، اِسی لیے تو اِس میں ہیں۔

سوال:  پسندیدہ شاعر؟

جواب: نعتیہ شاعری میں اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ اور اُستادِزمن مولانا حسن رضا خاں پسند ہیں۔ اسی طر ح علامہ مفتی کفایت علی کؔافی جو ان دونوں کو بھی پسند تھے، بلکہ اعلیٰ حضرت فرمایا کرتے کہ”مفتی صاحب دنیائے نعت کے سلطان ہیں اور میں اُن کا وزیرِ اعظم “۔ اُردو ادب کے سارے اساتذہ کو پڑھا، مگر غالؔب اور استاد داؔغ دہلوی اچھے لگے۔

سوال:  پسندیدہ شعر؟

جواب :

عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ، فرش پہ طرفہ دھوم دھام
کان جدھر لگائیے، تیری ہی داستان ہے

 

سوال:  کسی شخصیت کے ساتھ ملاقات جو ناقابلِ فراموش ہو۔

جواب: مجاہدِ ملّت علامہ حبیب الرحمٰن رئیسِ اڑیسہ، اندور کے مفتیِ اعظم علامہ رضوان الرحمٰن، مولانا رجب علی نانپاروی، حافظ ملّت مولانا عبد العزیز اور یہ ساری شخصیات جن کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا اور بہت سارے نام ہیں؛ اگر گنوانے لگوں تو معاملہ بڑا مشکل ہو جائے گا۔

سوال:  سانحۂ نشتر پارک کے اسبا ب آپ کی نظر میں کیا ہیں؟

جواب : اہلِ سنّت وجماعت کا جو اتحاد ناموسِ رسالت ﷺ کے عنوان سے قائم ہوا اور اس کا سب سے بھر پور مظاہرہ کراچی میں ناموسِ رسالت ریلی کی صورت میں ہوا، پھر عقیدہ و مسلک کی خدمت جو کراچی میں ہو رہی ہے اور میلاد شریف جس شان و شوکت سے منایا جاتاہے ان سب کو سبوتاژکرنے کےلیے اور مسلکِ حق کو دبانے کےلیے یہ اندوہ نا ک سانحہ ہوا؛ مگر ہم نے یہ عزم کیا اور سارے زمانے کو دکھا دیا کہ ظلم وجبر سے نہ ہمیں مٹایا جاسکتاہے اور نہ ہی دبایا اور جھکایا جاسکتا ہے ۔ اوربھی زیادہ جوشِ عقیدت و محبت میں ہم سارے کا م کررہے ہیں، بلکہ سانحۂ نشتر پارک کے بعد میلاد شریف کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس ہم نے کراچی میں نکالا۔

سوال :  آپ اسٹیج پر موجود نہیں تھے، وجہ؟

جواب: مولانا! جب سے ہم نے نشتر پارک میں جلسۂ میلاد النبی ﷺ شروع کیا ہے اُس وقت سے لے کر اب تک سال ہاسال سے عصر اور مغرب کی نماز میدان میں عوام اہلِ سنّت کوپڑھاتا ہوں۔ جب کہ علمااسٹیج پر ہی نماز پڑھتے ہیں۔ اُس دن بھی اسی معمول کے مطابق میں میدان میں نمازِ مغرب پڑھا رہا تھا اور اسٹیج پر علماالگ نماز پڑھ رہے تھے اور اسی اسٹیج پر جماعتِ اہلِ سنّت کراچی کی پوری کابینہ، ٹاؤنز کے اُمرا و ناظمین موجود تھے، جب کہ میرا سگا بیٹا سراج الحق، دو پوتے ابرار الحق اور منہاج الحق اور میرا دامادمولانا سیّد زمان علی جعفری، حاجی حنیف طیّب کا اکلوتا بیٹا محمد احمد رضا اور داماد محمد نبیل قادری یہ سب اسی اسٹیج پر تھے۔ اب یہ کہنا کہ یہ جو بچ گئے تو  کیوں؟ اور وہ جو شہید ہوئے تو کیوں؟ جواب فقط اتنا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں کہ کچھ کو منصبِ شہادت عطا ہوا اور کچھ اب بھی دینی ذمّے داریاں سرانجام دینے کے لیے میدانِ عمل میں ہیں۔

سوال:  آپ اس کا ذمّے دار کس کو ٹھہراتے ہیں؟

جواب: وہی باطل اور طاغوتی قوتیں جو مسلکِ حق کو ترقی کرتے دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔

سوال:  جماعت نے اور لوگوں کی طرح کسی تنظیم کو ٹارگٹ کیوں نہیں کیا؟

جواب: ہم نے ایک اُصولی موقف اپنایا کہ ہمیں مجرم چاہییں، چاہے وہ کوئی بھی ہو ، سیاست میں ہوں یا بیورو کریسی میں یا کسی اور منصب پر ہوں، ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ اہلِ سنّت پر قیامت ڈھانے والے ان شیطان صفت درندوں کو بے نقاب کیا جائے ۔ ہاں جن لوگوں نے سیاسی مفادات حاصل کرنے تھے تو انہوں نے اسی انداز میں بات کی اور معاملے کو اسی زاویے سے پیش کیا۔ جب کہ ہمارا نہ تو کوئی سیاسی مفاد تھااور نہ خواہ مخواہ دشمن بنانے کی پالیسی، لہٰذا ہم نے یہی اصولی بات کی کہ سانحۂ نشتر پارک کے مجرموں کو سامنے لایا جائے اور بعد میں جب مجرم بے نقاب ہوئے اور خود کش حملہ آور محمد صدّیق اور اس کو لانے والااور منصوبہ بنانے والا سب کا پتہ چل گیا، تو بد گوئی کرنے والوں نے منہ کی کھائی۔

سوال:  کوئی ایسی بات جو آپ کہنا چاہیں ،افادۂ عام اور خصوصاً  ہمارے قارئین کے لیے؟

جواب: سب کچھ تو آپ نے پوچھ لیا، بہر حال ایک بات یہی ہے کہ میں نے بڑی غربت میں زندگی گزاری، محنت، مزدوری اور مشقت بھی کی، پاکستان آنے کے بعد ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا، زمینیں جاگیریں سب وہیں رہ گئیں، جھونپڑی میں رہے، بارشوں کے زمانے میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتے تھے، پھر جماعت میں بھی ایک کارکن کی حیثیت سے کام کیا اور قومی اسمبلی میں پہنچے تو ہماری حالت دیکھ کر اور لو گ کہتے کہ یہ کراچی والوں نے کس کوووٹ دیا ہے۔ کیوں کہ ہم ہو ں یا مولانا شیخ الحدیث ازہری صاحب ہمارے پاس گاڑی نہیں ہوتی تھی، پیدل ہی بستہ اور فائلیں ہاتھ میں دبائے پارلیمنٹ ہاؤس جاتے، راستے میں کبھی کبھار کوئی رکن رحم کھاکر اپنی گاڑی میں لفٹ دے دیا کرتا،اسی طرح واپسی کے لیے گوہر ایوب خان کی  مہر بانی تھی وہ ہمیں ڈراپ کرنے کےبعد اپنے گھر جایا کرتے۔ بہر حال کسی کام کو کرنے میں ہم شرمائے نہیں، محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ علم حاصل کیا، اپنے آپ کو پالا اور سنبھالا، غربت میں بھی ایک وقار کے ساتھ جیے، دین کا کام کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی رحم فرمایا۔ مولانا! اب جو بھی عزّت اور مقام ملا ہے تو یہ کسی مستحکم بیک گراؤنڈ کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف مسلکِ حق کی خدمت کی وجہ سے ملا ہے۔ اللہ کریم کے محبوبِ کریم کی غلامی میں رہنا سعادت جانا اور اُن کی عزّت و عظمت اور مسلک کی نگہبانی کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا تو اُس کریم و رحیم رب نے ہمیں بھی باعزّت کردیا۔

 


متعلقہ

تجویزوآراء