جدید سائنس کے غیر اسلامی نظریات
جدید سائنس کے غیر اسلامی نظریات
اور مولانا احمد رضا خاں کے ذریعے ان کا ردِ بلیغ
از: ڈاکٹر رضاء الرحمٰن عا کف سنبھلی *
سائنسی علوم بالخصوص جدید سائنس میں بھی مولانا احمد رضا خا ں نے عظیم الشان کارہائے نمایا ں انجام دئیے ہیں اور اس فن میں بھی مولانا موصوف کا معیار تحقیق نہایت بلند ہے۔اس سلسلے میں تو مول انا نے متعدد تصانیف لکھیں۔نظریات قائم کئیے اور دیگر کتابوں میں بھی مناسب مقامات پر سیر حاصل بخششیں کیں۔لیکن یہاں ہم آپ کی اس موضوع پر نہایت ہی معروف اور اہم کتاب ’’فوزمبیں درردِّ حرکت زمین‘‘سے کچھ اہم اقتسابات نقل کریں گے۔یہاں ہمارا مقصد اس سلسلے میں آپ کے نظریات (جو کہ مختلف فیہ ہیں)کے سلسلے میں تردید و تصدیق کرنا نہیں ہے کیونکہ سائنسی نظریات ذیادہ تر اختلافات کا شمار رہےہیں اور آج تک کسی بھی سائنسی نظریہ پرتمام سائنس داں متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ تو پھر ہم کو مولانا کے نظریات ہی یہ شکایت کیوں ہو! بہر حال ہم تو آپ کے اندازِ نگارش اور معیارِ تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات اپنے قارئین کرام کے سامنے لانا چاہتے ہیں کہ آپ نے کس قدر مضبوت دلائل اور جامع انداز سے یہاں مخالفین کے شکوک و شبہات کے جواب دےکر ان کو انگشت بدنداں رہ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔
امام احمد رضا خاںؒ کے سائنسی کارناموں میں فوزِمبین ایک عظیم شاہکار کی حیشیت رکھتی ہے۔جس کو موصوف نے فلفسۂ جدید کے رد مین تحریر فرمایا ہے اور حرکت ِ زمین کو ایک سو پانچ دلیلون سے باطل قرار دیا۔اس کتاب میں ایک مقدمہ اور چار فصل اور ایک خاتمہ ہے۔مقدمہ میں مقررات ہیئاتِجدیدہ کا بیان ہے۔ فصلِ اوّل میں نیمزت سے بحث کی گئی ہے اور حرکت ِ زمین کو بارہ دلیلون سے باطل قرار دیا ۔اس کتاب کےاندر مولانا کا معیارِ تحقیق اور اندازِ تحریر نہایت عمدہ اور بلند ہے جس کے ذریعے مصنف کے وہ جواہر بھر کر سامنے آئے ہیںجو ایک عظیم محقق ِ و اسکولر میں ہونے چاہیئں۔ہیئت جدیدہ میں سائنس دانوں کا اصل مبنٰی آب زمین کی جازبیت اور نافریت ہے۔ یہ دونوں مفروضمسملے جس کو جاذبہ اور نامزد سے تعبیر کرتے ہیں۔جن کی تلاش نیوٹن (nuton) نے ۱۶۶۵ میں سیب کو زمین پر گرنے سے کی اور جازبیت اور نافریت کی تھیوری تیار کی۔اس سلسلے میں مولانا احمد رضا خاں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’ہر جسم میں دوسرے کو اپنے طرف کھینچنے کی ایک قوت طبعی ہے جسے جاذبہیا جاذبیت کہتے ہیں ۔اس کا پتہ نیوٹن کو ۱۶۶۵ میں اس وقت چلاجب وہ وہاں سے بھاگ کرکسی گائوں میں گیا۔ باغ میں تھا کہ درخت سے سیب ٹوٹا سے دیکھ کر اسے سلسلہ ٔ خیالات چھوٹا جس سے قواعد کشش کا بھبو کا پھوٹا۔اقوال۔سیب گرنے اور جاذبیت کا آسیب جاگنے میں علاقہ بھی ایسا ہی سبب لزوم کا تھا کہ وہ گرا یہ اُچھلا۔ کیونکہ اس کے سوا اس کا کوئی سبب ہو سکتا ہی نہ تھا۔اس کی مفصّل بحث تو فصل ِ دوم میں آئے گی ۱۶۶۵ تک ہزاروں برس کے عقلا سب اس فہم سے محروم گئے تو گئے تعجب تو یہ ہے کہ اس سیب سے پہلے نیوٹن نے بھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہ دیکھی یا جب تک اس کا کوئی اور سبب خیال میں تھاجسے اس سیب نے توڑ کر رکھ دیا‘‘۔ (ماہنامہ سنی دنیا بریلوی بابت اگست، ستمبر ۱۹۸۳،( فوزِ مبین نمبر،ص ۱۸)
پھر فصلِ دوم کی وہ بحث جس کی حضرت موصوف ؒ نے جاذبیت (ABSORBENT)کے ردّ میں تحریر فرمایا ہے اور اور جب نیوٹن کے نزدیک حرکتِ زمین کی علت بنی نیز جس پر ما بعد کے دیگر سائنسدانوں نے عقیدہ حرکت رکھ کر اپنی جولانی طبع کا واشگاف مظاہرہ کیا اس کے پرخچے اڑائے اور ملت باطلہ کا قلع قمع فرماتے ہوئے حق اور صحیح پہلو کی وضاحت فرمائی جس سے ان سائنسدانوں کے گھروندوں کا سارا کھیل بگڑ گیا کہ ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی مثال نگاہوں کے سامنے آئی۔ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جاذبیت ان کے نزدیک ایسے ہی مسائل سے ہے اور ایں درجہ اہم ہے کہ ان کا نظام سمشی سارا علم ہیئت اسی پر مبنی ہے۔وہ باطل ہو تو سب کچھ باطل ، وہ لڑکوں کے کھیل کے برابر،برابر کھڑی کی ہوئی اینٹیں ہیں کہ اگر ایک کو گرائو تو سب گر جائیں۔ایسی چیز کا روشن قاطع دلیل پر مبنی ہونا تھا نہ کہ محض خیا ل پر۔نیوٹن پر ایک سیب ٹوٹ گرتا ہے وہ اس سے اٹکل دوڑاتا ہے کہ زمین پر کشش ہے جس نے کھینچ کر گرا لیا مگر اس پر دلیل کیا ہے جواب نہ دارد۔ اولاً نمبر۲۰۲، عقلا کے عالم اثقال میں میل اسفل مانتے ہیں کیا وہ میل اس کے گرانے کو کافی نہ تھا۔
میل نجانا۔یوں نہ سمجھ سکتاتھا کہ ثقیل کے استقرار کو وہ محل چاہیئے جو اس کا بوجھ سہارے۔سیب وہی ٹوٹےگا جس کا علاقہ شاخ سے ضعیف ہوجائے وہ کمزور تعلق ا اس بوجھ نہ سہار سکے ورنہ سبھی ٹوٹ جاتے۔ادھر تو وہ ضعیف علاقہ کے سبب شاخ سے چھوٹاادھر اس سے نرم تر ملاء ہوا کا ملا۔ہوا ایسےاس کو کس طرسہارتی،لہذا ا س سے لثیف تر ملاء۔درکار ہوا کہ زمین ہو یا پانی ۔کیا اتنی سمجھ نہ تھی۔بطلان میل پر کوی قطعی دلیل قائم کریں اور جب کچھ نہیں تو جاذبیت کا خیال محض ایک احتمال ہوا۔محتمل شکوک بے ثبوت بات پر علوم کی بناء رکھناکارِخردمنداںنیست‘‘۔(فوزِمبین نمبر،ص ۲۴)
جذب ہے اور نہ ہی حرکت ۔ یہ دلیل منطقی قیاسات کے دورد تسلسل پر مبنی ہے جس سے غلط نظریہ کالچر پوچ ہونا اظہر من الشمسّ ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں مولانارقمطراز ہیں:
’’قول نمبر ۲۰۵، فرض کردم کہ سیب گرنے سے زمین پر جاذبیت کا آسیب آیا مگر اس سے شمس میں جاذبیت کیسے سمجھی گئی جس کے سبب گردش کا طومار باندھ دیا گیا۔اس پر بھی کوئی سبب گرتے دیکھا یا یہ ضرور ہے کہ جو کچھ زمین کے لئے ثابت ہو آفتاب میں بھی ہو۔زمین بے نور ہے، آفتاب سے روشن ہوتی ہے۔ آفتاب بھی بے نور ہوگا کسی اور سے روشن ہوگا۔یوں ہی یہ قیاس اس ثالث کو نہ چھوڑے گا۔اس کے لئے رابع درکار ہوگااور اسی طرح غیر متناہی چلے جائے گا یا واپس آئے گا۔ مثلاً شمس ثالث سے روشن اور ثالث شمس سے تووہ تلسلس تھا اور یہ دور ہے اور دونوں محال ۔یہ منطق الطیراسی بے بضاعتی کا نتیجہ ہے جو ان لوگوں کے علوم عقلیہ میں ہے ورنہ ہر عاقل جانتا ہےکہ شاہد پر غائب کا قیاس محض وہم اور وسواس ہے‘‘۔(فوزِ مبین در ردّ حرکت زمین،ص ۲۵)
اس کتاب کی فصلِ دوم میں ہی ایک جگہ اسی حرکت ِ زمین کا بطلان رضایات سے فرمایا اس لئے کہ سائنسدانوں کےنذدیکعلمِ سائنس کا سب سے بڑا مآخذ علم ریاضی ہی ہے۔ان کے نذدیک مدار آفتاب میں ایک نقطہ جو مرکز سے انتہائی دوری پر ہے جس کو ’’اُوج‘‘ سے تعبیر کیا جا تا ہے اور دوسری نہایت قرب پر جس کو حفیض کہتے ہیں ۔ تیسری جولائی کو آفتاب انتہائی دوری یعنی اوج پر ہوتا ہے اور تیسری جنوری کو انتہائی قرب یعنی حفیض پر ہوتا ہے۔ یہ تفاوت اکتیس لاکھ میل سے زائد ہے۔اب مدار کشش کی تھیوری کا جائزہ امام اہلسنّت نے لیا ہے اس کو ملاحظہ کیا جائے۔
تحقیق جدید (علمِ سائنس جدید) میں شمس کا بعد اوسط نو کروڑ انتیس لاکھ میں بتایا گیا ہے اور ہم نے حساب کیا ، مابین مرکزین دو درجہ ۴۵ ثانئے یعنی ۵۲۱۲ ء ۵ ہے تو بعد ۲۶-۹۴۴۵۸، میل ہوا۔ اور بعد اقرب ۹۳۴۱۹۷۴ میل۔تفاوت۵۲-۳۱۱۶ میل اگر زمین آفتاب کے گرد اپنے مدار بیضی پر گھومتی ہے جس کے مرکز اسفل میں شمس ہے جیسا کہ ہیئات جدیدہ کا زعم ہے تو اوّل ان کی سمجھ کے لائق یہی سوال ہے کہ زمین اپنے قوی عظیم شدید ممتد پر ہزار ہا سال کے متوتر جذب سے کھینچ کیوں نہ گئی ! ہیہاتِ جدیدہ میں آ فتاب ۱۲ لاکھ میل پینتالیس ہزار ایک سو تیس(۵۴۱۳۰) زمینون کے برابر اور بعض نے دس لاکھ اور بعض نے چودہ لاکھ دس ہزار لکھا ہے ۔ہم نے مقررات جدیدہ پر بر بنائے حاصل کردی حساب کیا تو تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپّن (۱۳۱۳۵۶) زمینوں کے برابر آیا ۔بہر حال وہ جرم کے اس کے ۱۲لاکھ حصّوں کے ایک کے بھی برابر نہیں ۔اس کی کیا مقاومت کر سکتا ہےتو گرد دور کرنا نہ تھا ۔بلکہ پہلے ہی دن کھینچ کر اس میں ملِ جاتا۔کیا ۱۲ لاکھ اشخاص مل کر ایک کو کھینچے اور وہ دوری چاہے تو بارہ لاکھ سے کھینچ نہ سکے گا بلکہ اس کے گرد گھومے گا‘‘((فوزِ مبین نمبر،ص۶۶))
اس کے بعد مزید تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اور ان باطل نظریات کا کامل رد یہ ہےکہ کسی قوت کا قوی پڑکر ضعیف ہوجانا محتاج علت ہے اگر چہ اسی قدر کے زوال علت قوت جب کہ نصف دورے میں جاذبیت شمس غالب آکر اکتیس لاکھ میل سے زائد زمین کو قرب کھینچ کر لائی تو نصف دوم میں اسے کس نے ضعیف کر دیا کہ زمین پھر اکتیس لاکھ میل دور بھاگ گئی حالانکہ قرب موجب قوت اثر جذب ہے تو حفیض پر لاکھ جاذبیت شمس کا اثر اور قوی تر ہونا اور زمین کا وقتا فوقتاً قریب تر ہوتا جانا لازم تھا نہ کہ نہایت قریب آکر اس کی قوت سست پڑے اور زمین اس کے نیچے سے چھوٹ کر پھر اتنی ہی دور ہو جائے ۔شاید جولائی سے جنوری تک آفتاب کو راتب زیادھ ملتا ہے۔ تبھی تو قوت تیز ہوتی ہے اور جنوری سے جولائی تک بھوکا رہتا ہے جس کی وجہ سے کمزور پڑ جاتا ہے۔(فوزِ مبین درردِ حرکت زمین،ص ۶۶)
اب مزید دو مساوی جسموں میں تقابل کی انجذابی کیفیت کا اثر مرتب ظاہر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’دو جسم اگر برابر کے ہوتے تو یہ کہنا ایک ظاہر لگتی ہوئی ہوتی کہ نصف دورے میں یہ غالب رہتا ہے نصف میں وہ۔ نہ کہ وہ جرم کہ زمین کے ۱۲ لاکھ امثال سے بڑا ہے اسے کھینچ کر ۳۱ لاکھ میل سے قریب کرے اور عین شباب اثر جذب کے وقت سست پڑ جائے اور ادھر ایک لاکھ اور ادھر ۱۲ لاکھ سے ذائد پر غلبہ و مغلوبیت کا دورہ پورا نصف نصف اقسام پائے اس پر یہ مہمل عذر پیش ہوتا ہے کہ نقطہ حفیض پر نافریت بھر جاتی ہے ۔وہ زمین کو آفتاب کے نیچے سے چھڑا کر دور لے جاتی ہے‘‘(فوزِ مبین درردِ حرکت زمین،ص ۶۷)
قارئین کرام فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مو لانا نے اپنی ان تحقیقات میں جدید سائنسدانوں کے غیر اسلامی نظریات کا ابطال کس قدر مدلل اور مسکت انداز میں کیا ہے ۔فوزِ مبین جہاں آپ کے سائنس نظریات پر مشتمل ایک بلند پایئہ تخلیق ہے وہی اس سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہو تا ہے کہ آپ سائنسی نظریات سے کبھی بھی کسی طرح مغلوب نہ ہوتے اور انہوں نے علی الاعلان وببانگ دُہل سائنس کے غلط تصورات اور غیر اسلامی نظریات کا کھل کر محاسبہ کیا اور انہیں پوری طرح سے باطل ثابت کر دیا۔ فجزاہم اللہ
یہ چند اقتباسات بطور شہادت پیش کر دئیے گئے ہیں ورنہ اس موضوع پر مولانا احمد رضا خاں نے زبردست تحقیقات پیش کی ہیں جن کا تعارف کرانے کے لئے چند اوراق ہی نہیں بلکہ ضخیم ِ تصانیف کی ضرورت ہے۔