مرد مومن مرد حق

مرد مومن مرد حق

علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمہ اللہ علیہ

از ،مفتی اعظم سندھ و بلوچستان محامد العلماءمفتی احمد میاں برکاتی مدظلہ،

مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم احسن البرکات ،حیدرآباد

______________________________________________________

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رب محمد صلیٰ علیہ وسلم     نحن عباد محمد صلیٰ علیہ وسلم

وہ ایسے مرد حق تھے ،جن کے خمیر میں حق کا غلبہ تھا، اس طرح وہ اسم با مسمّی تھے۔نسیم پہلوان سے وہ تراب الحق کہلائے اور اس نام سے مشہور ہوئے۔ گویا وہ بغداد مقدس کے مشہور ولی، جنید بغدادی پہلوان کی طرح تھے۔جنہوں نے کشتی میں ایک سید زادے کی لاج رکھی اور ولایت کے اعلی مرتبہ کو پا گئے۔اور تراب الحق تو خود سید زادے تھے،ان کی کونسی ایسی خدمت تھی کہ وہ کورنگی کے نسیم پہلوان سے علامہ مولانا سید شاہ تراب الحق بن گئے اور دنیا میں اسی ”حق کی مٹی“ سے مشہور ہوکر زمانے کو فیضیا ب کرگئے ۔میری ان سے پہلی ملاقات دارالعلوم امجدیہ کراچی میں ہوئی تھی ۔یہ ۱۹۷۰ءکا زمانہ تھا ،پھر ان کی نسبتوں اور استاذ المکرم حضرت قبلہ علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ و الرضوان سے قربتیں دیکھ کر فقیر بھی ان سے قریب ہوتا چلاگیا ۔اور الحمد للہ یہ قرب آخر وقت تک حاصل رھا اور اب بھی ہے اور رہے گا ۔پھر خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے مشائخ کی ان پر عنایات نے اور خانقاہ رضویہ بریلی شریف کی توجیہات نے ان کو اور بھی محبوب  بنایا اور بالآخر وہ جلد مرد مومن مرد حق کے اعلی منصب پر فائز ہوگئے۔وہ اکثر علماءکی آنکھ کا تارا رھے۔خصوصاًمیرے والد گرامی خلیل ملت علامہ مفتی محمد خلیل خاں قادری برکاتی علیہ الرحمہ و الرضوان بھی ان سے بہت محبت فرماتے تھے اور آخری عمر شریف میں جب والدگرامی نے ۱۹۸۴ءکے آخر میں شاہ صاحب کو حیدرآباد آنے کے لئے فرمایا تو شاہ صاحب ،تمام کام چھوڑ کر ، والد گرامی کی عیادت کو تشریف لائے اور صحت کے لئے خصوصی دعا فرمائی اور حضرت کی خواہش پر روحانی استخارہ بھی فرمایا ۔

            علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ و الرضوان ہر میدان کے سپہ سالار تھے ۔وہ نہ کسی سے مرعوب ہوتے تھے اور نہ کسی کے سامنے جھکتے تھے۔خواہ میدان نقابت ہو ،میدان خطابت ہو،یا میدان سیاست ہو،ہر جگہ اپنا لوھا منواچکے تھے،وہ فقیر پر بھی تین نسبتوں سے بڑے مشفق تھے ،(۱) والد گرامی کی نسبت(۲) استاد المکرم علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے تلمّذ کی نسبت اور(۳) ایک ہی دارالعلوم میں طلب علم کی نسبت ۔فقیر جب کبھی ان سے ملاقات کو حاضر ہوتا،فوری اہتمام فرماتے،خواہ وہ مسجد کے کمرے میں ہوں ،یا گھر کے کمرے میں چائے یا مشروب سے تواضع لازمی فرماتے تھے ۔میں اس شخصیت سے جلوت میں تو کثیر ملتا تھا ،کبھی کبھی ان کے دوران آرام بھی حاضر ہوا تو فوراً ا ندر بلالیا اور تواضع کا حکم دیا ۔فقیر بھی ان سے بہت سے دنیوی معاملات میں مشورے کو حاضر ہوتا تو انتہائی توجہ سے سن کر اعلی مشورہ دیتے، فرماتے تھے، برکاتی میاں صاحب آپ سے ہمارے بہت سے رشتے ہیں اور ہر رشتے کے الگ لوازم ہیں،وہ فقیر کی دعوت پر احسن البرکات کے جلسے میں بھی تشریف لائے ۔ایک بار ایک نازک مسئلے پر ایک عالم سے اختلاف ہوگیا ،وہ عالم والد گرامی کی وساطت سے فقیر کے بھی قریب تھے ،فقیر ان عالم کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کی ،مگر وہ اپنے موقف پر قائم رھے،اور فقیر سے ناراض ہوگئے،مگر میں نے ان سے کہا کہ اس اختلاف کی وجہ سے میں سید صاحب کو نہیں چھوڑ سکتا،اگر آپ کو ناپسند ہے تو میں آپ کے پاس نہیں  آﺅنگا۔مگر علامہ شاہ تراب الحق قادری کی خدمات بہت وزنی اور موثر ہیں۔ فقیر ان سے ملتا رہےگا۔آخری مہینوں میں ،مدینہ منورہ میں بھی حضرت سے ملاقات رہی ،کراچی میں بھی عیادت کو حاضر ہوتا رھا اور بے شمار مرتبہ ان سے مختلف ضرورتمندوں کے لئےتعویذ بھی لئے ۔

            فقیر نے شاہ صاحب کے ساتھ پاکستان میں تو کم سفر کئے لیکن بیرون ملک سفر میں،بنگلہ دیش کا سفر بہت یاد گار رتھا،یہ غالباً ۲۰۰۰کی بات ہے،چاٹگام ( بنگلہ دیش) میں سنی کانفرنس کا دعوت نامہ آیا ،علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علامہ سید حامد سعید کاظمی کراچی سے جناب رفیع الدین صاحب اور حیدرآباد سے یہ فقیر، برکاتی فاﺅنڈیشن کی طرف سے ہمراہ تھے،بنگلہ دیشی قونصلرنے ویزا بمشکل دیا ،ڈھاکہ تک سفر بہت آرام دہ تھا، وہاں سے چاٹگام کی اندرون ملک کی پرواز تھی ۔چھوٹا جہاز تھا ۔جہاز کے کپتان نے دعائے سفر پڑھی ،جو غلط تھی،شاہ صاحب نے کپتان کو چلتی پرواز میں ہی پیغام دیا کہ آپ نے دعاصحیح نہیں پڑھی۔کپتان نے کہا کہ مجھے صحیح لکھ کر دیدیں۔ شاہ صاحب نے مجھے کہا کہ برکاتی میاں ، آپ کا خط اچھا ہے ،تو ان کو واضح طور پر دعائے سفر لکھ کر دیدیں فقیر نے لکھ کر دیدی۔

            سنی کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں ہم سب لوگ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے کہ میزبان عالم علامہ عبد الرحمن چاٹگامی اسٹیج پر آئے اور شاہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ ”شاہ صاحب آپ نے ہمارا خانہ خراب کردیا“ ہم سب ہی اس جملے پر چونک گئے،علامہ شاہ تراب الحق قادری نے مڑ کر کہا کہ بھئی میں نے آپ کا کیا خانہ خراب کردیا ہم لوگوں کی علی الصبح واپسی تھی،وہ موصوف گویا ہوئے “دیکھیں حضرت ہم نے کل دوپہر کو آپ کا خانہ (کھانا) رکھا تھا ،آپ تو صبح صبح جارہے ہیں،ہمارا تو خانہ (کھانا)خراب ہوگیا نا۔سب لوگ بڑے محظوظ ہوئے،یہاں بتاتا چلوں کہ الحاج محمد حنیف طیب کے مشورے پر ،برکاتی فاﺅنڈیشن نے مجھے بھی بہ طور خاص اس کانفرنس میں شرکت کے لئے بھیجا تھا اور میں نے چاٹگام میں پانچ منٹ تک بنگالی میں تقریر کی تھی،میں تو بنگالی کی الف سے بھی واقف نہیں ہوں،مگر میرے ایک تلمیذ رشید پیر الحاج رفیع الدین مختاری علیہ الرحمہ(آف کوٹری)نے مجھے میرے مضمون کا ترجمہ کر کے بنگالی میں لکھ کردیا ، جو میں نے وہاں پڑھ دیا تھا۔بہر حال یہ ایک یاد گار سفر تھا۔

            کسی بزرگ کا قول ہے (غالباًامام احمد بن حنبل کا ) ہمارے منصب کی گواہی ہمارے جنازے دیں گے ۔وہ مقام و مرتبہ حضرت شاہ صاحب کو ملا ، جن کے جنازے میں شرکت کو ہر خاص و عام معتقدین اور غیر معتقدین نے بھی اپنے لئے سعادت جانا۔اور جنازے میں ٹاور ( بولٹن مارکیٹ )سے آرام باغ تک جم غفیر ،ان کے مقام کو خوب واضح کررہاتھا۔

            ان کے سسرالی والد علامہ قاری صاحب رحمہ اللہ علیہ نے ان کو اور بھی ہیرا بنادیا تھا ۔یہ بھی بہت خوشی کا مقام ہے کہ قاری صاحب کے  بھانجےاور فرزِند علامہ شاہ تراب الحق رحمہ اللہ علیہ نے ان کی ظاہری حیات میں ہی ان کے بہت سے کام سنبھال لئے تھے۔اسطرح شاہ صاحب نے اپنی جگہ خالی نہیں چھوڑی اور فوری طور پر خلا  پُرہوگیا،حضرت عزیزی القدر مولانا شاہ عبد الحق قادری سلمہ الباری نے انتہائی صبر، حلم اور رعب کے ساتھ ، شاہ صاحب کی جگہ سنبھال لی ہے اور تمام تر سعادتوں کا رخ مولانا عبد الحق صاحب کی طرف ہوگیا ہے۔جسطرح علامہ شاہ تراب الحق علیہ الرحمہ خواص و مشائخ و علماءمیں مشہور تھے اسطرح فرزند تراب الحق بھی خواص و عوا م میں اپنا مقام بنا چکے ہیں شاہ صاحب کی شخصیت کا نمایاں پہلو،ان کا انداز خطابت شوق مطالعہ ،ذوق احقاق حق تو تھا ہی مگر ان کی اعلی گونج دار آواز اور گفتگو نے ان کی شخصیت کو حسین تر بنادیا تھا ۔ان کا مخصوص وضع کالباس،عمامہ شریف،دوپلی خانقاہی ٹوپی اور خوبصورت پٹکا،ان کی نشانی اور طرّۂ امتیاز تھے۔جو آ ج تک فقیر کی آنکھوں میں اپنا رنگ بکھیرتے ہیں ۔وہ عموماً ہر موسم صدری زیب تن فرماتے تھے،پاجاما اور کرتا ان کی خاص وضع تھی۔

            آخر عمر میں، ان کے مریدوں اور معتقدین نے حضرت کو آمادہ کرلیا اور حضرت نے چند سالوں میں نہایت خوبصورت کتب تحریر فرمادیں،جو آج بھی اپنا رنگ جمائے ہوئے ہیں۔شاہ صاحب کی خطابت سے ہر عمر اور ہر صنف کے لو گ مانوس تھے اور شوق سے ان کو سننا چاھتے تھے۔یہ چند سطور بہ عجلت تحریر کی ہیں،کہ میرے فاضل دوست برادرم محمد اشفاق قادری نے فون پر مجھ سے فرمایا کہ ریئس بھائی کا یہ پیغام ہے کہ عرس چہلم کے موقعہ پر ایک کتاب قارئین کی نذر کی جائے تو یہ  چند کلمات قلم برداشتہ لکھدئے ہیں۔شاہ صاحب قبول فرمائیں تو زہے عز و شرف۔


متعلقہ

تجویزوآراء