محفل انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں

نعتیہ شاعری ایک ایسا مشکل میدان ہے جس میں شہسواری کے لیے بڑے شعور اور پاکیزہ فکر کی ضرورت ہے، فکر کی پاکیزگی سے میری مراد سرور کائنات، فخر موجودات کا عشق ہے جو کہ وجہ کامرانی دارین ہے کہ اگرعشق رسو سے فکر و نظر روشن نہ ہو تو شاعر جادۂ فلاح سے ہٹ کر گمراہی کے قعر عمیق میں جا گرے گا اور شعور سے میری مراد علم دین ہے کہ جب تک علم دین نہ ہو نعتیہ شاعری کا اہتمام نہیں کرسکتا، ایک لکھنوی شاعر نے اس بات کو نہایت سلیقہ مندی اور بڑی صداقت کے ساتھ کہا۔

’’اور وہ شعراء بھی جو دوسری اضاف سخن کے شانہ بشانہ نعت کہتے ہیں ہمارے لیے باعث افتخار ہیں، انہوں نے قافلہ نعت کو زاد راہ عطا کرنے میں بڑا کردار کیا ہے یہاں میرا اشارہ ان نعت گوؤں کی طرف ہے جو نعت گوئی کو ایک نقلیدی رسم تک محدود سمجھتے ہیں اور جی ہاں نعت کہنے میں حصول علم سے کہیں زیادہ مشق اور ریاضت کو دخل ہوتا ہے اسی بنیادی کمزوری کی بنا پر وہ خدا شناسی، محبوب شناسی، اور خود شناسی کے باہمی رشتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘‘

عصر حاضر میں ایسے شعرا کی کمی نہیں ہے خصوصا جب نعت خواں نعت گو بننے کی جسارت کرتا ہے تو وہ صرف اپنے ترنم، گلوکاری کا سہارا لے کر محفل کو گرماتا ہے اور پیسے بٹورتا ہے، میری اس بات کی سچائی نعت خوانی کی مجلسوں میں شریک ہوکر آپ بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔

مجددمأۃ ماضیہ اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا رضی اللہ عنہ نے بہت ہی اچھے انداز میں نعت گوئی کے بنیادی نقطۂ نظر کی وضاحت فرمائی ہے۔

قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے اداب شریعت ملحوظ

اسی طرح دسویں صدی کے مشہور شاعر عرفی شیرازی جوکہ شہنشاہ جہانگیر کے درباری شاعر تھے انہوں نے سلطان کی مدح میں بڑے بڑے قصیدے لکھے۔ انہوں نے خدا شناسی، محبوب شناسی اور خود شناسی کی ان لفظوں میں تشریح کی۔

عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا
ہشیار کہ رہ بردم تیغ است قدم را

اور محبوب شناسی کی حدود میں قلم رکھتے ہیں تو ان کے تخیل کی بلند پروازی کا عالم ہی عجیب ہوتا ہے اور صفات محبوب کو نہایت ہی اچھوتے انداز میں پیش کرتے ہیں۔

تقدیر بیک ناقہ نشانید دو محمل
سلمائے حدوث تو ولیلائے قدم را

حدوث و قدم کو ایک ذات گرامی میں جمع کر دیا۔

اس سے بھی زیادہ کمند فکر کو حیران کر دینے والا اسلوب ملاحظہ فرمائیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ؎

ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

الغرض سیدی و سندی، زادی لیومی و غدی حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کی نعتیہ شاعری ایسے ہی ادب آموز ماحول میں پروان چڑھی، وہ عظیم شعور اور پاکیزہ فکر کے مالک تھے، ان کو خدا شناسی، محبوب شناسی اور خود شناسی کا سبق اسی پاکیزہ ماحول نے دیا، چنانچہ ان کی نعتیہ شاعری میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف گرامی، خصائص نبوت رچے بسےہیں۔ محبوب کی محبت میں بار فتگی ہے لیکن ایسی وارفتگی جو حدود شریعت سے قدم آگے نہیں بڑھانے دیتی ان کی نازک خیالی کا اندازہ لگائیے کس طرح قلب مضطر اور چشم تر کو خطاب کرتے ہیں اور اس راز کو فاش کر رہے ہیں کہ ایک عاشق فراق محبوب میں اشک غم بہاتا ہے اگر دیار محبوب نگاہوں میں آجائے تب بھی اس کی نگاہیں نم دیدہ رہتی ہیں، کبھی غم کے آنسو تو کبھی خوشی کے آنسو۔ فرماتے ہیں۔

سنبھل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے
لٹا اے چشم تر گوہر مدینہ آنے والا ہے

طرفگی خیال اور طرزادا کی ندرت نعتیہ شاعری میں بڑا مشکل مرحلہ ہے تغزل میں تو اس کی بہت گنجائش ہے لیکن نعت میں مبالغہ اور غلو کا گزر نہیں، بایں ہمہ طرزادا میں نازک خیال اور بیان میں طرفگی پیدا کرنا قادرا الکلامی کا خاصہ ہے۔ حضرت تاج الشریعہ نے انداز بیان کی طرفگی اور طرز ادا کا بانکپن غلو اور مبالغہ سے دامن بچا کر کیا، کلام کی بے ساختگی اس پر مستزاد آپ کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎

گدا گر ہے جو اس گھر کا وہی سلطان قسمت ہے
گدائی اس درِ والا کی رشک بادشاہت ہے

حضور سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ تصور میں جب ہجوم مسرت اور فزونی کیف و سرور ہوتی ہے تو شاعر یہی سمجھتا ہے کہ اس کی دل مراد، مراد آشنا ہوچکی ہے اس طرح کا کیف و سرور موصوف کی نعتیہ شاعری کا بڑا حصہ ہے ملاحظہ فرمائیں۔

رند پیتے ہیں تیری زلف کے سائے میں سدا
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات
دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رخ شہہ کے خیالات کی رات
جس کی تنہائی میں وہ شمع شبستانی ہو
رشک صد بزم ہے اس رند خرابات کی رات
ہجوم شوق کیسا انتظار کوئے دلبر میں
دل شیدا سماتا کیوں نہیں اب پہلو و بر میں

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے نزدیک

سویا نہیں میں رات بھر عشق حضور میں
کیسا یہ رت جگا رہا کیف و سرور میں
پچھلے پہر جو مرگیا ان کا وہ جانثار
سرگوشیاں یہ ہوئیں غلمان و حور میں

حضرت تاج الشریعہ کا فکری شعور چونکہ مذہبی اور دینی ماحول نیز علماء متبحرین کی صحبت میں پروان چڑھا اس لیے نعت گوئی کے میدان میں وہ بھٹکتا نہیں پھرتا، بلکہ جادۂ شریعت پر قائم رہتا ہے بال برابر انحراف نہیں کرتا ورنہ نعت معصیت بن جائے یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر کو سنبھل کر چلنا پڑتا ہے، اس کو اس بات کا خیال رہتا ہے کہ نبی کی تعریف اس طرز سے کی جائے کے وہ کذب اور بیجا مبالغہ آرائی اور غلو سے بھی دور رہے اور نقص و عیب کی بادیہ پیمائیوں سے بھی بالا تر ہو۔ حضرت کی برجستہ گوئی اور زبان کی بے ساختگی ملاحظہ ہو ؎

گدا گر ہے جو اس گھر کا وہی سلطان قسمت ہے
گدائی اس در والا کی رشک بادشاہیت ہے
جو مستغنی ہوا ان سے مقدر ان کا خیبت ہے
خلیل اللہ کو ہنگام محشر ان کی حاجت ہے

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی نعت گوئی لفظی اور معنوی دلکشی کا سنگم ہے، آپ کا فکر و شعور اور نازک خیالی فن شاعری کو جلا بخشتی ہے، شعر گوئی ایک نہایت مشکل ترین فن ہے کہنے کو شاعر بے شمار ہوتے ہیں مگر صنف سخن کو بحر و وزن سے آشنا کرانا، فصاحت و بلاغت کے زیور سے آراستہ کرنا، بدیع و بیان کی حسن آفرینی کا غازہ لگانا سب کے بس کی بات نہیں خصوصا حمد، نعت اور منقبت یہ وہ انواع سخن ہیں جن میں شاعر شریعت کی حدود میں پابند ہوتا ہے، ساتھ ہی کلام میں متانت و سنجیدگی، مصرعوں کی ہم آہنگی اور رمز سخن کی حسن انگیزی اس صنف کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیتی ہے، حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ وہ شاعر ہیں جن کے کلام میں بحر و وزن کی سلامتی، مصرعوں میں باہمی ربط نکتہ آفرینی، جدت پسندی، محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دلکشی اور رنگینی ساتھ ساتھ نظر آتی ہے اس لحاظ سے آپ دور حاضر کے ممتاز شاعروں میں ایک تھے، ان تمام خوبیوں کی جھلک ان کے اشعار میں نظر آتی ہے ان کی شاعری ارادت و کیفیات کی شاعری ہے، ان کے یہاں مجاز محبت کے حسن کی جو رعنائی، ناز و فخر کی طرب آرائی نظر آتی ہے وہ آپ کے یہاں حسن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ساختہ اداؤں اور محبوب خدا کے ہزار رنگ جلووں کی جھلک بَن کر نمودار ہوتی ہے حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی شاعری کا محور محبت رسول ہے، ان کا مجموعہ کلام ’’سفینۂ بخشش‘‘ عشق رسول کی غمازی کر رہا ہے، وہ محبوب حقیقی کی یاد میں وارفتہ نظر آتے ہیں، اس مجموعۂ کلام میں پائے جانے والے مضامین، ذات خدا وندی، وحدت الوجود، رسول کی رفعت و عظمت، اوصاف و کمالات، معجزات، اختیار و اقتدار و غیرہ کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ حضرت کے کلام میں عشق رسول کی جلوہ سامانی، کوچۂ نبی کے حسین تخیل اور فکر جمیل کی وجہ سے دلکشی اور دل آویزی تو پیدا ہوتی ہی ہے ساتھ ہی اس فن کو اعتبار بخشنے میں ان کے مخصوص انداز بیان، نرم لب و لہجہ اور مزیت و اشاریت کو بھی بڑا دخل ہے، تشبیہات و استعارات کے استعمال کے سلسلے میں ان کا جمالیاتی ذوق کافی الگ ہے، ان کی شخصیت کی طرح ان کا طرز بیان بھی نہایت ششتہ اور پر تاثیر ہے، وہ جس طرح رسول خدا کے لب و دندان کی نازکی اور چمک بیان کرتے ہیں ویسے ہی گفتار میں بھی رطب اللسان نظر آتے ہیں، اپنے محبوب حقیقی کے خرام ناز کا نقشہ بھی پیش کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا پڑنے سے کیسے گلی کوچے مہکتے ہیں، جہاں اپنے آقا کے زلف اسیر ہیں وہیں ان کی قدرت کے فدائی بھی، انہوں نے اپنے کلام میں اس کی دلکش تصویریں پیش کی ہیں، وہ رسول خدا کی قدرت کو ہر مخلوق کی قدرت سے بڑھ کر مانتے ہیں، جہاں روئے زمین پر پائے جانے والے شجر و حجر، خشک و تر پر نبی کے تصرفات کے شیدائی ہیں، وہیں آسمان کی بلندیوں میں بھی مالک و مختار ماننا ان کا عقیدۂ حقہ ہے فرماتے ہیں ؎

جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کر دیں
نبی مختار کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں
مجھے کیا فکر ہو اختر مرے یاور ہیں وہ یاور
بلاؤں کو جو میری خود گرفتارِ بلا کردیں

جہاں وہ اپنے عقائد کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہیں عقائد باطلہ اور ان کے مرتکبین کے سنیوں کو الفاظ کے شمشیر و سنان سے چھلنی کرنا بھی ان کا شیوہ ہے ؎

وہی جو رحمۃ للعالمین ہیں جان عالم ہیں
بڑا بھائی کہے ان کو کوئی اندھا بصیرت کا
یہ کس کے در سے پھرا ہے تو نجدی بے دیں
برا ہو تیرا ترے سر پہ گرہی جائے فلک

اس طرح سے ان کی شاعری میں مخصوص زاویہ حیات اور ایک مستقل فکری میلان نظر آتا ہے، ان کی شاعری صرف اپنی بلند خیالی، فکر جمیل اور اثر انگیزی کی وجہ سے اہمیت کی حامل نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام فنی خوبیاں بھی موجود ہیں جو بلند پایہ شاعری کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آج کے شعراء کے بارے میں یہ عام شکایت ہے کہ ان کے اشعار میں فکری اور بحری انتشار بری طرح محسوس ہوتا، لیکن حضور تاج الشریعہ کی شاعری اس عیب سے پاک نظر آتی ہے تمام اشعار بحر و وزن کے حسی تسلسل اور فکر و نظر، جذبہ و خیال، ندرت و طرفگی، بدیع و بیان کی عمدگی، اور نازک خیالی کی غیر مرئی زنجیر میں مربوط نظر آتے ہیں، ان کی شاعری میں فکر و فن کا ایسا خوش گوار امتزاج اور دلوں میں اتر جانے والی کیفیت موجود ہے جو ان کے فن کو ہمیشہ زندہ رکھے گی اور آنے والی نسلو کو فکر و نظر اور تخیل کی بلند پروازی کی راہوں میں غیر مرئی چراغ روشن کرنے کے لیے زمین ہموار کرے گی۔


متعلقہ

تجویزوآراء