نفس مطمئنہ کی آواز
نفس مطمئنہ کی آواز
خواجہ رضی حیدر
سابق ڈائیریکٹر قائد اعظم اکیڈمی
حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ کی جب عالمی تبلیغی دورے سے واپسی ہوتی تو نشرح فاؤنڈیشن اُن کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کرتی تھی تا کہ حضرت علامہ کے مشاہدات و تاثرات سے مستفید ہوتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں جو مسائل مسلمانانِ عالم کو درپیش ہیں ، اُن سے آگہی حاصل ہوسکے۔ ان تقریبات میں نامور اہلِ علم و دانش شریک ہوتے رہے ۔ ستمبر ۱۹۹۶ء میں شاہ صاحب جب امریکہ کے تبلیغی دورے سے وطن واپس آئے تو مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں زیر نظر مضمون نشرح فاؤنڈیشن کے نائب صدر ، ممتاز محقق ، ادیب ، شاعر اور قائدِ اعظم اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جناب خواجہ رضی حیدر نے شاہ صاحب کی خدمت میں خطبۂاستقبالیہ کی صورت میں پیش کیا۔ یہ مضمون بغیر کسی ترمیم و اضافے کے شائع کیا جارہا ہے۔ (سید محمد اسلم غزالی)
حضراتِ گرامی !
میں اپنے لئے اسے سعادت تصور کرتا ہوں کہ ایک ایسی محفل میں جو علامہ شاہ تراب الحق قادری مد ظلہ العالی کے اعزاز میں آراستہ کی گئی ہو، اپنے معروضات پیش کروں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی دامن گِیر ہے کہ ایک ایسے شخص کی موجودگی میں جو اپنی قوتِ ناطقہ کے حوالے سے خود بھی بے مثل ہے کیا کہا جائے، اور کس طرح کہا جائے۔ ۔۔۔ لہٰذا میں یہی مستحسن تصور کرتا ہوں کہ گفتگو اس طرح کی جائے کہ علامہ شاہ تراب الحق قادری کی شخصیت و خدمات کا بھی جزوی طور پر احاطہ ہوجائے اور وہ سب بھی زبانِ قلم سے ادا ہوجائے جو فی زمانہ واقعی غور طلب ہے۔
حضراتِ گرامی ! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ حکیم میں بار بار تفکر اور تدبر کی صریحاً تاکید فرمائی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ ہم گزشتہ ۱۴۰۰ سال سے تدبر اور تفکر کا حق ادا کرنے کی پیہم کوشش کر رہے ہیں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
’’اَفَلا یتدبرّون‘‘ کی صدا مسلسل آرہی ہے اور ہم مسلسل غور کر رہے ہیں۔ تو گویا جس طرح ’’افلا یتدبرون‘‘ایک دائمی حقیقیت ہے اُسی طرح غور و فکر بھی ایک کلمہ گو کے لئے دائمی حکم ہے ۔ تفکر اور تدبر دراصل قرآنِ حکیم کی حقانیت کا اعتراف ہے اور قرآنِ کریم کے حوالے سے ہر اعتراف ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی لئے جو لوگ قرآنِ حکیم کے احکامات سے اپنی فکر کو منسلک رکھتے ہیں، اُن پر علم کے دروازے کھُل جاتے ہیں اور وہ نہ صرف اس دنیا میں معزز و ممتاز قرار پاتے ہیں بلکہ آخرت میں بھی اُن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث کے ناتے جو علم انسان کو ملتا ہے وہ اُسے عالم کے منصب پر فائز کرتا ہے اور یہ عالم ناصح بھی ہوتا ہے اور مصلح بھی ۔ حضراتِ گرامی ! علامہ شاہ تراب الحق قادری مد ظلہ العالی سے مجھے کم و بیش ۲۰ سال سے نیاز حاصل ہے اور یہ نیاز ورثہ ہے اُس بندۂ مومن سے تعلق کا جسے اہلِ دل حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی علیہ رحمہ کے نامِ نامی سے یاد کرتے ہیں۔ گویا علامہ شاہ تراب الحق قادری سے میرا تعارف ایک ایسی دہلیز پر ہوا جو اپنی نسبتِ عشق میں مرجعِ خلائق تھی ۔ جہاں آلائشِ دنیا کے ستائے ہوئے اور نفسِ اماّرہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے لوگ سوالاً نفسِ مطمئنہ کے حصول کے لئے آتے تھے اور جواباً عشقِ مصطفی ﷺ سے سرشار ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ۔۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ علامہ قاری مصلح الدین قادری علیہ الرحمہ کے حوالے سے علامہ سید شاہ تراب الحق قادری سے میری ملاقات ہو اور میں اُن کی مشرف شخصیت کا معّرف نہ ہوجاؤں۔
علامہ شاہ تراب الحق قادری کی شخصیت اپنے محیط میں اتنی بسیط ہے کہ اُن کے بارے میں کسی محدود وقت میں کچھ کہنا محال ہے۔
لیکن بہرحال میں نے حسبِ ظرف دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ دریا کوکوزے میں بند کرنا ایک محاوراتی رویہ ہے اور میں اس محاورے کی بلاغت سے قطعی ناواقف ہوں۔
حضراتِ گرامی! اگر آپ علماء کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو متحدہ ہندوستان میں ایسے لاتعداد علماء دکھائی دیں گے جو بیک وقت شریعت و طریقت کے نمائندہ تھے ۔ ان علماء نے قرآن و حدیث کی جس دل جمعی کے ساتھ تبلیغ و اشاعت میں حصہ لیا اُس کی فی زمانہ مثال خال خال ملتی ہے۔ آج علماء اور مشائخ دو متوازیُ السّمت تناظر میں نظر آتے ہیں جس کی بناء پر عقائد و اعمال میں وہ احتیاط موجود نہیں رہی جو سلف وصالحین کا وطیرہ تھی۔ لیکن علامہ شاہ تراب الحق اسلاف کی روایت کے امین ہیں۔ آپ نے شریعت اور طریقت کو اپنی ذات میں اس طرح یکجا کرلیا ہے کہ آپ سے مل کر سلف وصالحین کا تقرب محسوساتی طور پر ذہنوں میں اجاگر ہوجاتا ہے۔
گزشتہ نصف صدی او ر خصوصاً ساتویں عشرے کے بعد جہاں اسلام ایک عظیم قوّت کے طور پر بین الاقوامی منظر پر نمودار ہوا وہاں دوسری طرف سائنسی ترقی اس قدر دراز ہوگئی کہ مذہب جدیدیت کی نفی معلوم ہونے لگا۔ ذہنِ انسانی میں نئے سوالات ابھرے اور اُس نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مذہب کی موجودہ مادی زندگی میں کوئی گنجائش ہے ؟ کیا انسان مذہب سے کنارہ کش ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا ؟ کیا انسان کے لئے مذہب کا ٹرانکو لائزرTranquillizer ضروری ہے ؟ ۔۔۔ ان سوالات نے سماجی سطح پر تضادات اور انتشار کی صورت پیدا کی جس کے نتیجے میں ہمارے علما ءنے مذہب اور جدید سائنسی علوم کے تقابلی مطالعہ کے بعد نہ صرف یہ ثابت کیا کہ مذہب ٹرانکولائزر نہیں ہے بلکہ ایک حیات آفریں ٹانک ہے۔ ان علماء نے اپنے اقدامات سے کفر و الحاد کی بیخ کُنی ہی نہیں کی بلکہ انسانیت کو اُس ابدی پیغام کی طرف جوق در جوق راغب کیا جو دنیا و آخرت دونوں میں ذریعہ نجات ہے۔ ۔۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کا شمار بھی انہی علما میں ہوتا ہے جنہوں نے تبدیل شدہ سماجی صورتحال میں دکھی انسانیت کو مسائل سے نجات دلانے کے لئے اسلام کے حقیقی ضابطۂحیات سے انسان کو آگاہ کیا ہے ۔
حضراتِ گرامی ! آج صورت یہ ہے کہ بہت سے تاریخی عوامل ، نسلی خصوصیات، داخلی ، سماجی اور سیاسی عناصر اور دیگر اسباب کی بنا پر اسلامی دنیا میں زندگی کے ایسے مختلف نمونے ملتے ہیں جن میں فکر و عمل کے جدید اصولوں اور طریقوں کی پیوند کاری ہے ۔اور اس سے وہ پراگندگی اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے کہ اجنبی تو خیر اجنبی ہے ، خود مسلمانوں کے لئے یہ مشکل ہوگیا ہے کہ وہ اسلام کا من حیث المجموع کوئی مؤثر ادراک کرسکیں۔ پہلے وقتوں میں یوں تھا کہ روایتی تعلیم کے وسیلے سے مسلمانوں کو اپنے علوم اور تمدنی ورثے سے واقفیت ہوجاتی تھی۔ آج جدید طرزِ تعلیم سے آراستہ افراد اپنے علمی و تمدنی ورثے کے بہت سے بنیادی اجزاء سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اس صورت میں کسی بھی مسلم معاشرے کو درپیش نئے چیلنج اور نئے تقاضوں کا جواب عالموں اور دانشوروں کا وہی طبقہ دے سکتا ہے جسے ایک طرف اسلام کے پورے علمی و تمدنی سفر سے مکمل آشنائی ہو تو دوسری طرف وہ جدید علوم سے بھی حسی یا علمی واقفیت رکھتا ہو۔ جو قرآن و حدیث سے استنباط و استخراج کی نہ صرف مکمل اہلیت رکھتا ہو بلکہ استدلال کے ذریعے اُس کی نفاذی صورتحال کی وکالت و وضاحت پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ ماضی قریب میں ایسے علماء کی مثالیں کثرت سے موجود تھیں، جنہوں نے اپنے سماجی تقاضوں کو مذہب کی کسوٹی پر کس کر دیکھا اور پھر اُن کے سلسلے میں حتمی رائے وضع کی ۔ لیکن اب بے سر و پا تغیر پذیری کے درمیان کم ہی لوگ ایسے ہیں جو کسی فیصلے سے گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
علامہ شاہ تراب الحق قادری نے اپنی مذہبی بصیرت کو سماجی ضرورت سے اس طرح آمیز کیا ہے کہ اُن کے ہاں ہر اُس مبدّل صورتحال کا شافی علاج موجود ہے جس نے نئے انسان کو ہراساں کر رکھا ہے۔ میں ذاتی طور پر علامہ شاہ تراب الحق کی جانب خلقِ خدا کے رجوع کا شاہد ہوں ، مسائل سے گھِرے ہوئے لوگ جب اُن تک مذہب کے حوالے سے پہنچتے ہیں تو اُن کے ہاں اپنے حوالے سے علوئے ذات کا گماں تک نہیں ہوتا بلکہ اُن کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ جب یہ شخص مذہب کے حوالے سے مجھ تک پہنچتا ہے تو پھر اس سے اس طرح معاملہ کیا جائے کہ اُس کے دل میں شخصی عقیدت جاگزیں نہ ہو بلکہ عقیدہ راسخ ہوجائے۔ یہیں سے علامہ شاہ تراب الحق قادری کی بے نفسی کا سراغ ملتا ہے اور اُن سے رابطے میں آنے والا ہر شخص عقیدے کی بالادستی کے ساتھ اُن کی عقیدت میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔
علامہ شاہ تراب الحق قادری کے ہاں اسلام ایک فقرِ غیور کے طور پر قیامی ہے ۔ جس کے معنی آب و گِل سے مہجوری نہیں ، تسخیرِ خاکی و نوری کے ہیں۔بے دولتی و رنجوری نہیں ، یقین و استغنا ء کے ہیں ۔۔ کیونکہ ان کو علم ہے کہ مغرب کے ساحلوں سے جنم لینے والے سائنسی اور صنعتی دھارے کے خلاف صرف اسی صورت میں بند باندھا جا سکتا ہے کہ نئے انسان کے دکھ درد میں شریک ہو کر اُسے اسلام کے نظامِ حیات سے اس طرح قریب کیا جائے کہ وہ اپنی مہجوری میں بھی سرشار رہے اور یہ سرشاری مزاجِ انسانی میں یقیناًاسی صورت میں ورود کرتی ہے جب یہ خیال راسخ ہو کہ قادرِ مطلق کوئی اور ہے اور ہم کو تمام عمر عاجزِ محض کی صورت میں روز و شب کو جمع کرنا ہے۔ یہی شریعت و طریقت کی ضرب تقسیم ہے اور اسی میں نئے انسان کی فلاح مضمر ہے ۔
علامہ شاہ تراب الحق قادری اپنے موقف میں جلالی ہیں لیکن اپنی عادت میں جمالی ہیں۔ اُن کو اُن کی مسندِ علمی و روحانی نے جلالتِ فکر اور حلاوتِ قلب و روح ودیعت کی ہے لہٰذا جہاں اُن کو فکر کی ترسیل و تفہیم سہل ہے وہاں اُن کے لب و لہجے کی شائستگی خلقِ محمدی کا ایک پَر توِ خفی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج ہمارے درمیان ایک مقبول ترین ترجمانِ شریعت و طریقت کے طور پر جلوہ افروز ہیں۔ آپ نے دعوت و تربیت کا ایک ایسا جوہر نوجوان نسل کے دل و دماغ میں رکھا ہے کہ آج پوری دنیا میں آپ کے عقیدت مند اسلام کی سربلندی کے لئے سرگرمِ عمل ہیں۔
حضراتِ گرامی ! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ آج ہم یہاں علامہ شاہ تراب الحق قادری کی امریکہ کے مطالعاتی دورے سے واپسی پر اُن کے مشاہدات سے متمتع ہونے کے لئے جمع ہوئے ہیں اس لئے میں آپ کے اور علامہ کے درمیان تادیر حائل نہیں رہنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی اس نارسا گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے یہ واقعہ بیان کرتا چلوں کہ حکیم ابنِ سینا ایک مرتبہ کسی صوفی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپسی پر ایک شخص کو اس کام پر معمور کردیا کہ میرے رخصت ہونے کے بعد یہ بزرگ جو کچھ میرے بارے میں فرمائیں، اُس سے مجھے آگاہ کردینا۔ جب اس صورتحال کا اُن بزرگ کو علم ہوا تو انہوں نے فرمایا ،’’بو علی سینا اخلاق نباشُد‘‘ ۔۔ بوعلی سینا دوبارہ اُن بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا کہ حضرت میں نے تو علمِ اخلاق پر ایسی کتب تصنیف کی ہیں جو رہتی دنیا تک سند رہیں گی، آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ’’بو علی سینا اخلاق نبا شُد‘‘؟ وہ بزرگ مسکرائے اور فرمایا، ’’ہم نے یہ کب کہا کہ بو علی سینا اخلاق کا علم نہیں رکھتا، ہم نے تو کہا ہے کہ وہ اخلاق نہیں رکھتا۔
حضراتِ گرامی ! علامہ شاہ تراب الحق نے علم الاخلاق پر کوئی جامع کتاب تو تصنیف نہیں کی لیکن اپنے طرزِ عمل سے خود کو اخلاقِ مصطفوی کا وارث ضرور ثابت کیا ہے ۔ اس تکبر اور نمائش سے مملو دور میں شائد اُن سے ہماری عقیدت اور وابستگی کا یہی اخلاق با مراد وسیلہ ہے ۔
حضراتِ گرامی ! شاہ تراب الحق کے لغوی معنی ہیں، ’’حق کی مٹی کے شاہ‘‘ ۔ یقیناًحق کی یہ مٹی وہ نہیں ہے جو زمینوں کی مٹی سے علاقہ رکھتی ہے ، یہ مٹی حق کی وہ مٹی ہے جس سے دلوں کی سرزمین شاد و آباد رہتی ہے۔ گویا شاہ تراب الحق دلوں کی زمین سے نمو پانے والا وہ نمایاں شجر ہیں جسے شاہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔
میرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک
جہاں تمام ہے میراث مردِ مومن کی