نیّت کی اہمیت
نیّت کی اہمیت
امیرُ المومِنین حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِقلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ». یعنی ”اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔ [صحیح البخاري،کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي،الحدیث: ١،ص١].
علامہ شریف الحق امجدی صاحب اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ”اس حدیث سے معلوم ہواکہ اَعمال کا ثواب نیت پر ہی ہے ،بغیر نیت کسی عمل پر ثواب کا اِسْتِحْقَاق(یعنی حق)نہیں ۔اَعمال عمل کی جمع ہے اور اس کا اِطلاق اعضاء، زبان اور دل تینوں کے اَفعال پر ہوتا ہے اور یہاں اعمال سے مراد اَعمالِ صَالِحَہ(یعنی نیک اعمال)اور مُبَاح (یعنی جائز)اَفعال ہیں۔اورنیت لُغوی طورپردل کے پختہ اِرادے کو کہتے ہیں اور شَرْعاً عبادت کے اِرادے کو نیت کہا جاتا ہے۔ عبادات کی دو قسمیں ہیں :
(١)مقصودہ :جیسے نماز ،روزہ کہ ان سے مقصود حصولِ ثواب ہے انہیں اگر بغیر نیت ادا کیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ ان سے مقصود ثواب تھا اور جب ثواب مَفْقُود ہو گیا تو اس کی وجہ سے اصل شے ہی ادا نہ ہوگی ۔
(٢)غیر مقصودہ :وہ جو دوسری عبادتوں کے لئے ذریعہ ہوں جیسے نماز کے لئے چلنا ،وضو ،غسل وغیرہ ۔ان عباداتِ غیرمقصودہ کو اگر کوئی نیتِ عبادت کے ساتھ کریگا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بلانیّت کریگا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کا ذریعہ یا وسیلہ بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز صحیح ہوجائے گی“ ۔ [ماخوذ از نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری ،ج1،ص224]۔
شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ایک عمل میں جتنی نیّتیں ہوں گی اتنی نیکیوں کا ثواب ملے گا،مثلاًمحتاج قرَابَت دار کی مدد کرنے میں اگر نیت فقط لِوَجْہِ اللہِ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے )دینے کی ہوگی تو ایک نیت کا ثواب پائے گا اور اگر صلہ رحمی کی نیّت بھی کرے گا تو دوہراثواب پائے گا“۔ [اشعۃ اللمعات،ج1،ص36]۔
اسی طرح مسجد میں نماز کے لئے جانابھی ایک عمل ہے اس میں بہت سی نیّتیں کی جاسکتی ہیں ، امامِ اہلسنّت الشاہ مولانا احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے فتاویٰ رضویہ جلد5صفحہ673 میں اس کے لئے چالیس نیّتیں بیان کیں اور فرمایا: ”بے شک جو علمِ نیّت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کرسکتا ہے “۔ [فتاویٰ رضویہ ،ج5،ص673]۔