قطبِ مدینہ کا سفرِ آخرت
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت کے مریدِ رشید و سعید اور خلیفۂ اجل قطبِ مدینہ، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا الحاج شاہ ضیاء الدین احمد قادری رضوی قَدَّسَ اللہُ سِرَّہُمَا الْعَزِیْز نے خاص مدینۃ النبی میں ۴؍ذی الحجہ کو جمعہ کے دن عین اذان کے وقت کلمۂ حی علی الفلاح پر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
۳۰ برس کی عمر شریف میں آپ نے ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور مدینہ امینہ میں جاکر بس گئے۔ مدینہ طیبہ کے دورانِ قیام آپ نے ستّر حج کیے۔ ادھر دس سالوں سے آپ مدینہ پاک میں اس طرح گوشہ نشیں ہوگئے تھے کہ ایک دن کے لیے بھی کبھی مدینے سے باہر نہیں نکلے، کیوں کہ آپ کی زندگی کی سب سے قیمتی آرزو تھی کہ جب پیامِ اجل لے کر موت کا فرشتہ آپ کے پاس آئے تو آپ مدینے میں اسے ملیں۔ اسی اندیشے کے پیشِ نظر آپ نے دس سال سے یک لخت اپنا سفر بند کردیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدینے کے باہر موت آجائے۔
اور خدا کا شکر ہے کہ بالآخر ایک عاشقِ صادق اور ایک وارفتۂ محبت کی یہ آرزو پوری ہوئی اور مدینے میں موت بھی آئی تو اس شان سے آئی کہ ادھر مسجدِ نبوی شریف کے مینارۂ نور سے خدا کے منادی نے آواز دی: ’’حی علی الفلاح‘‘ یعنی کامرانی کی طرف آؤ اور ادھر عاشقِ پاک باز کی روح نے جسدِ عنصری سے پرواز کی۔ پکار کے جواب میں ذرا بھی تاخیر نہیں ہوئی، کیوں کہ پکارنے والے نے جہاں سے پکارا تھا وہی اس کی زندگی کی آخری منزل تھی:
تمنّا ہے درختوں پہ ترے روضے کے جا بیٹھوں
قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقیّد کا
مدینۃ النبی میں حضرت شیخ کی خانقاہ عشق و عقیدت اور عرفان و اتّقان کی ایک ایسی آفاقی تربیت گاہ تھی جہاں روئے زمین کے سارے خِطوں سے اہلِ شوق کے قافلے اترتے تھے..... دلوں کی سر زمین پر بادل کی طرح فیضان کی بارش ہوتی تھی..... مایوس روحوں کے آفاق پر صبحِ اُمّید کا اجالا پھیلتا تھا..... اور حبِ رسول کے کیف میں ڈوبا ہوا ماحول اندر سے لے کر باہر تک روح و تن کی پوری بستی کو مہکا دیتا تھا۔
موسمِ حج کے موقعہ پر تو ان کے مے کدۂ عشق و عرفان میں بہار آجاتی تھی..... صبح سے شام اور شام سے رات گئے تک ہر وقت بادہ کشوں کا ہجوم لگا رہتا تھا..... ذکرِ الٰہی، تلاوتِ قرآن اور نغمہ ہائے نعت اور صلاۃ و سلام کے ترنّم سے پوری فضا معطر رہتی تھی..... سرور و مستی کے عالم میں کبھی آنکھوں کے پیمانے چھلکتے..... کبھی محفل سے نالۂ و فغاں کی چیخ بلند ہوتی..... کبھی یا رسول اللہ کی ضرب سے دل کی گرہیں کھلتیں..... اور کبھی ساقی کی نگاہِ التفات اٹھتی تو روحوں کے دامن سے جنم جنم کا غبار دھل جاتا۔
نجدی حکومت کے جبری ماحول میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے جذبۂ عقیدت کے مظاہرے میں بالکل آزاد تھے۔ ان کی خانقاہ کا سارا ہنگامۂ شوق، عشق و عرفان کی ساری سر مستی اور قلب و روح کی تطہیر و تنویر کا سارا عمل نجد کے قاضیوں کے نزدیک شرک ہی شرک تھا، لیکن اسے مدنی سرکار ہی کا تصرف کہیے کہ جبر و استبداد کی بنیاد پر اپنے مذہب کا کاروبار چلانے والی حکومت کبھی ان کے راستے میں حائل نہ ہوسکی یا پھر یوں کہیے کہ تاج دارِ حرم اور شہریارِ ارم نے اپنے ایک وفا کیش دیوانے کو اپنی رحمتوں کے حصار میں کچھ اس طرح چھپا لیا تھا کہ کسی گستاخ کا ہاتھ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکا۔
حضرت قطبِ مدینہ کو بریلی سے جو والہانہ محبت تھی اس کے اظہار میں کبھی انہوں نے اس اندیشے کی پرواہ نہیں کی کہ سعودی عرب کے نجدی حکم راں بریلی کا نام سن کر سلگ جاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی عقیدت میں ان کی خانقاہ کا ماحول ہر وقت بھیگا رہتا تھا۔ مدینے کی کوئی صبح یا کوئی شام ایسی نہیں تھی جب کہ ان کے گھر سے ’’حدائقِ بخشش‘‘ کے نغموں کی آواز نہ سنائی دیتی ہو..... اور اعلیٰ حضرت کی وہ مشہورِ زمانہ نعت جو چار زبانوں پر مشتمل ہے اور جسے لوگ مردہ دلوں اور بے کیف روحوں کا مسیحا کہتے ہیں، جس کی ابتدا یوں ہے:
مثلِ تو نہ شد پیدا جانالَمْ یَأتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہِ دوسرا جانا
من بے کس اَلْبَحْرُ عَلٰی وَالْمَوْجُ طَغٰیو طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا
یہ تو آج بھی مدینے کے بچے بچے کی زبان پر ہے.....اور اسے بارگاہِ رسالت میں اعزازِ قبول کی سند ہی کہیے کہ یہ قصیدۂ جاں نواز حضرتِ شیخ کی محفل سے ٹیپ ہوکر مدینے کے بازار میں پہنچا اور وہاں سے کیسٹ کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل گیا۔
اب مدینے کا سب سے قیمتی تحفہ جو حاجی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور دلوں کو حبِ رسول کی تپش سے گرم رکھتا ہے وہ اعلیٰ حضرت کا یہی قصیدۂ نعتیہ ہے، جسے ایک انچ کے چوڑے فیتے نے اپنے سینے میں جذب کرلیا ہے۔
جگر گوشۂ اعلیٰ حضرت تاج دار اہلِ سنّت مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کو کئی بار حبیب کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ مدینۃ النبی میں اکثر آپ کا قیام حضرت شیخ ہی کے دولت کدے پر ہوتا تھا۔ مفتیِ اعظمِ ہند کی خداداد محبوبیت، بارگاہِ رسالت میں ان کا مقامِ تقرب اور علم و فضل، زہد و تقویٰ اور مدارجِ ولایت میں ان کی برتری کا نظارہ اس وقت دیکھنے میں آتا تھا جب کہ حضرت شیخ کے گھر وہ مہمان ہوتے تھے۔
ملک ملک کے علما و عمائدین، بلادِ عرب کے مشائخِ کبار اور بڑے بڑے اساطینِ ملّت بزم میں جلوہ گر ہوتے او رمفتیِ اعظم شہ نشیں میں بیٹھتے..... برکت و فیض کی نعمت تقسیم فرماتے..... کوئی حدیث و تفسیر اور دوسرے علوم و فنون کی سند طلب کرتا..... کوئی سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت کی درخواست کرتا..... کوئی اپنے ملک کے کسی نہایت پیچیدہ مسئلے میں حضرت سے استفتا کرتا..... اور حضرت شمعِ محفل کی طرح اپنے پروانوں کے ہجوم میں خود بھی روشن ہوتے اور دوسروں کو بھی روشن کرتے۔
حضرت شیخ کی متوکّلانہ زندگی، زہد و تقویٰ، علم و فضل، ولولۂ تبلیغ و ارشاد، امّت کا درد، دینی اخلاص، ریاضت و مجاہدہ، بارگاہِ رسالت میں تقربِ خاص اور باطنی کمالات کی بنیادوں پر دنیائے اسلام کے علمائے مشاہیر اور مشائخِ کبار انہیں ’’قطبِ مدینہ‘‘ کہتے تھے۔ اب وصال شریف کے موقع پر جن عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہوا ہے، ان سے اس عقیدے کو مزید تقویت حاصل ہوگئی ہے۔
وصال شریف کے وقت کے عینی شاہد اور حضرت شیخ کے خادمِ خاص جناب ابوالقاسم صاحب قادری ضیائی نے اپنے خط میں جو واقعات تحریر فرمائے ہیں وہ انتہائی پراسرار، ایمان افروز اور رقّت انگیز ہیں۔
راوی کا بیان ہے کہ وصال شریف کے ایک ہفتے قبل ہی سے حضرت پر استغراقی کیفیت طاری رہنے لگی تھی، لیکن اس حالت میں بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔ جمعرات کا دن گزار کر شب میں عجیب و غریب واقعات کا ظہور ہوا۔ رات ڈھل جانے کے بعد حضرت اپنے اردگرد بیٹھنے والوں کی طرف متوجّہ ہوئے اور ان سے ارشاد فرمایا:
’’ہمارے مشائخ کرام تشریف لا رہے ہیں۔‘‘
پھر تھوڑی دیر کے بعد زبان کھلی اور حکم ہوا:
’’مؤدّب ہوجاؤ کہ سرکار غوث الوریٰ جلوہ فرما ہونے والے ہیں..... حضور تشریف لائیے..... اپنے غلام کی دست گیری فرمائیے۔‘‘
پھر کچھ دیر کے بعد متوجّہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:
’’حضرت خضر کے لیے جگہ خالی کرو..... وہ ایک مسکین بندے کو عرفان و اتقان کے جلووں سے سرفراز کرنے آ رہے ہیں۔‘‘
پھر کچھ ہی وقفہ گزرا تھا کہ ایک نہایت رقّت انگیز اور دھیمی آواز کان میں آئی جب کہ آنکھیں اشک بار تھیں اور چہرے پر مسرت کی روشنی چمک رہی تھی۔
’’حضور! نقاہت کی وجہ سے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے، ورنہ کھڑے ہوکر تعظیم بجالاتا..... اے خوشا نصیب کہ جلووں میں نہلا دیا گیا..... الصلٰوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ۔‘‘
راوی کا بیان ہے کہ جمعہ کی رات اسی عالمِ کیف و نور میں گزری۔ صبح کے وقت طبیعت نہایت ہشاش بشاش تھی۔ ۱۲ بجے دن کے وقت میں نے دودھ کا ایک گلاس پیش کیا۔ پہلے تو حضرت نے انکار فرمایا، لیکن جب میں نے شہد لاکر اہلِ مدینہ کا یہ محاورہ عرض کیا..... صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب وَاشْرِبُوا الْحَلِیْب یعنی حبیب پر درود بھیجیے اور دودھ نوش فرمائیے، تو اس جملے پر دیر تک ہونٹ جنبش کرتے رہے۔ اس کے بعد تھوڑا سا دودھ نوش فرمایا۔ اس کے چند ہی منٹ کے بعد دست گیرِ انس و جاں سرکار غوث جیلانی رضی اللہ عنہ کے حلقۂ جیلانیہ کے خطیب صاحب الفضیلۃ حضرت شیخ صبیح دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْقُدْسِیَّۃ تشریف لائے اور آپ سے ملاقات کی۔
یہ آخری شخص تھے، جن سے حضرت شیخ نے ملاقات فرمائی۔ اس کے بعد وہ کسی سے نہیں ملے۔ بارگاہِ غوثیت سے حضرت شیخ کو جو عظیم نسبت حاصل تھی، یہ اسی کی برکت تھی کہ عین دمِ واپسیں کے وقت حلقۂ قادریہ کے ایک شیخِ کامل نے انہیں رخصت کیا۔
ابھی وہ جلوہ فرما ہی تھے کہ چند منٹ کے بعد حضرت شیخ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا..... لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی ایک دھیمی آواز کان میں آئی اور ہمیشہ کے لیے وہ زبان خاموش ہوگئی، جس کے الفاظ چمن چمن میں بکھرے ہوئے ہیں۔
حضرت شیخ کے وصال کی خبر سارے مدینے میں بجلی کی لہر کی طرح دوڑ گئی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد علما و مشائخ اور ساداتِ کرام سے سارا گھر بھر گیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے والوں کے ہجوم سے گلی میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔
عصر کے وقت حضرت کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں میں حضرت شیخ کے جانشین و جگر گوشۂ مظہرِ ضیا حضرت مولانا الحاج فضل الرحمٰن صدّیقی، نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضرت مولانا ریحان رضا خاں عرف رحمانی میاں، حضرت مولانا قاری مصلح الدین صدّیقی، حضرت مولانا مفتی نور اللہ صاحب محدّث بصیرپوری، یونان میں حضرت شیخ کے خلیفۂ راشدمولانا اشرف القادری اور حضرت کے خادمِ خاص مولانا ابوالقاسم ضیائی کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
غسل دیتے وقت حضرت کے جسم کے اس حصّے سے جہاں بحالتِ مرض انجکشن دیا گیا تھا، جلد کھل جانے کی وجہ سے تازہ خون بہنے لگا، جسے بڑی مشکل سے بند کیا گیا۔ حضرت کی یہ زندہ کرامت دیکھ کر لوگ ششدر رہ گئے اور دلوں میں یہ اعتقاد راسخ ہوگیا کہ اللہ والے مرکر بھی زندہ رہتے ہیں۔
غسل کے بعد حلقۂ قادریہ مدینہ طیبہ شاخ کے احباب اور حضرت شیخ کے متوسلین و اقارب نے حضرت کو کفن پہنایا..... سرِمبارک کے نیچے روضۂ پاک کے حجرۂ شریف کی خاک اور روضۂ پاک کا غلاف رکھا گیا..... کفن پر گنبدِ خضریٰ کا غُسالہ اور عطر چھڑکا گیا..... اور خوشبودار پھول ڈالے گئے۔
بعد نمازِ عصر مسجدِ نبوی شریف کے ریاضِ جنّت میں شام کے تاج المشائخ عارف باللہ حضرت شیخ محمد علی مراد کی اقتدا میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں انڈونیشیا، الجزائر، ترکی ،مصر، شام، حجازِ مقدّس، جزائرِ عرب، ہندوپاک اور عرب و عجم کے بہت سارے بلاد و امصار کے علما، مشائخ اور عام مسلمانوں نے شرکت کی۔
نمازِ جنازہ کے بعد ہزاروں مجمع عشّاق کے ساتھ جنازۂ مبارکہ کا جلوس تہلیل و تکبیر کے ساتھ مدینے کے قبرستان ’’جنّت البقیع‘‘ کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں اہلِ بیتِ اطہار کے مزاراتِ طیبات کے پہلو میں حضرت کی لحد پہلے سے تیار تھی۔
حضرت شیخ کو ان کے جگر گوشہ او رجانشیں حضرت مولانا فضل الرحمٰن صدّیقی نے خلفا، اعزّہ اور ممتاز علما و مشائخ کے تعاون سے لحد میں اتارا۔
عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب حضرت شیخ کے چہرے سے کفن ہٹایا گیا تو دیکھنے والوں پر ایک حیرت کا عالم طاری ہوگیا، اتنا حسین، پرنور اور شگفتہ چہرہ زندگی میں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے ساختہ لوگوں کی زبانوں سے تسبیح و تہلیل کی آواز بلند ہوگئی۔ بلاشبہ چہرے پر انوار کی مچلتی ہوئی تجلّی ایک پیکرِ عشق و وفا کی سچائی، حق پرستی اور محبوبیت کی کھلی ہوئی دلیل تھی۔
ٹھیک اس وقت جب کہ مدینے کے افق پر آفتاب کی زرد ٹکیہ ڈوب رہی تھی، دنیائے اسلام و سنّیت کا مہرِ تاباں لحد کی آغوش میں غروب ہوگیا۔
مسندِ گل منزلِ شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدۂ بیدار کا
(قطبِ مدینہ کا سفرِ آخرت)