شاہ صاحب کی یادیں

خالد حسین قادری

yrkhalid@gmail.com

______________________________________________________

 

            1997 میں پہلی بار میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی زیارت کی، آپ کی پر وقار اور وجیہ شخصیت بلاشبہ کشش کا سامان رکھتی تھی. وہ ہمارا زمانہ طالبِ علمی تھا جب میرے کچھ دوست بھی محرم الحرام کے تین روزہ پروگرام میں شرکت کرنے میرے ساتھ آئے. شاہ صاحب کی اسٹیج پر آمد سے قبل نعت خوانی کا سلسلہ جاری تھا کہ نعت خوانی روک کر شاہ صاحب کی تشریف آوری پر نعرے لگائے گئے اور استقبال کیا گیا، جو طلباء پہلی بار آئے تھے انہوں نے فوراً کہا کہ ویسے تو عشق و محبت کی باتیں کرتے ہیں مگر ایک شخص کی آمد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر روک دیا گیا، میں نے کہا پروگرام کے آخر میں علمی مذاکرہ ہوتا ہے آپ یہ سوال لکھ کر بھیج دیں کہ کیا کسی شخصیت کی آمد پر نعت خوانی روک کر نعرے لگانا کیسا ہے؟ شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بالکل ٹھیک مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اس دن کے بعد شاہ صاحب تشریف لاتے تو ایسا کچھ نہیں ہوتا. اس پورے واقعہ سے شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں، سب سے پہلی بات کہ اپنی اصلاح کرنے میں بالکل تاخیر نہیں کرنا چاہیے. دوسرا یہ کہ خود سے چھوٹا بھی اگر کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلائے تو اسے جھڑکنا نہیں چاہیے. تیسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر کے آداب کا خیال ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے. جس ادب سے شاہ صاحب علیہ الرحمۃ ذکرِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سنتے اور سناتے وہ اپنی مثال آپ ہے. اللہ تعالٰی آپ کے نقوش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین


متعلقہ

تجویزوآراء