سنیت کی جان تھے ہمارے چچا
ایک عظیم خسارہ ہے۔ ان کے وصال سے ہر سنی کو دلی صدمہ پہنچا۔ پوری دنیائے سنیت کاہر خطہ سوگوار ہوگیا۔ خاندان اعلیٰ حضرت ہی کو ان کے جانے کا غم نہیں بلکہ اہل سنت و جماعت کے ہر فرد کو دکھ ہے۔ عالم سنیت کے درد و کرب اور غم و اضطراب کو الفاظ کا جامہ پہنانا نہایت مشکل ہے۔ بلاشبہ وہ ہمارے خاندانی بزرگوں کے علم و فضل کی نشانی تھے۔ خاندان اعلیٰ حضرت کی ہی نہیں بلکہ وہ سنیت کی آبرو تھے۔ اس کی آن بان اور شان تھے۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب پاک صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ خاندان اعلیٰ حضرت پر یہ ایک عظیم احسان فرمایا ہے کہ ہر دور میں اس خاندان کی دینی، مذہبی، مسلکی، علمی اور روحانی شان و شوکت کی حفاظت و پاسبانی کے لیے اس خاندان کے کسی نہ کسی فرد کو مقرر فرما دیتا ہے۔ ہمارے جد اعلیٰ، حضرت علامہ مفتی رضا علی خاں علیہ الرحمہ نے اپنے پیش رو بزرگوں کی علمی و روحانی میراث کی حفاظت کی۔ ان کے بعد امام المتکلمین حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ نے اہل سنت و جماعت کے عقائد حقہ کی ترویج و اشاعت اور اس کی حفاظت و پاسبانی کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔ سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں قدس سرہ نے تو اسے نشان امتیاز بخشا اور اس طرح بخشا کہ ان کی ذات ہی خوش عقیدگی اور ٹھوس سنیت کی کسوٹی او رمعیار بن گئی۔ اہل سنت نے امام اہل سنت کی بے مثال دینی خدمات کی وجہ سے بریلی شریف کو مرکز اہل سنت تسلیم کیا۔ اس دار فانی سے امام اہل سنت کے کوچ کر دینے کے بعد اُن کے دونوں شہزاد گان جد امجد حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں اور تاجدار اہل سنت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہما نےمرکز اہل سنت بریلی شریف کی مرکزیت کو ہر جہت سے مضبوط و مستحکم کرنے کا زریں کارنامہ انجام دیا۔ ہمارے دادا حضور، مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ بھی شب و روز مرکز و مسلک کے استحکام میں مصروف رہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند اور حضرت جیلانی میاں کے وصال کے بعد میرے والد بزرگوار ریحان ملت حضرت علامہ مفتی محمد ریحان رضا خاں علیہ الرحمہ نے ہمارے خاندان کی آن بان شان کو برقرار رکھا، ملک و بیرون ملک کے بیشمار دورے کر کے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کو فروغ بخشا۔ جن ملکوں ہمارے خاندانی بزرگوں میں سے کوئی نہ پہنچا وہاں میرے والد بزرگوار ہی سب سے پہلے تشریف لے گئے۔ ہمارے خاندانی بزرگوں میں سے بیرون ملک کے اسفار سب سے پہلے میرے والد بزرگوار ہی نے شروع کیے۔ قدرت کی طرف سے اگرچہ انہیں بہت کم عمر نصیب ہوئی تھی مگر اس مختصر سی مدت میں انہوں نے مذہب و مسلک اور مرکز اہل سنت کی بے شمار خدمات انجام دیں۔ مرکز اہل سنت کو خوب سے خوب تر تقویت بھی پہنچائی او راسے استحکام بھی بخشا۔ ہندوستان کے علاوہ پاکستان، نیپال، موریشس، افریقہ، ہالینڈ، امریکہ، سرینام جیسے بہت سے ممالک کا انہوں نے سفر کیا۔ ان خطوں اور ملکوں میں مسلک اعلیٰ حضرت کی ترسیل و تبلیغ کے ساتھ سلسلۂ رضویہ کو بھی خوب فروغ بخشا۔ خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ درگاہ اعلیٰ حضرت، یاد گارِ اعلیٰ حضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام میں بہت سارے تعمیری اور ترقیاتی کام کرائے۔
مختصر سی عمر میں ان کے وصال فرما جانے کے بعد ہمارے چچا حضور نے ملک و بیرون ملک کے بیشمار سفر کر کے مسلک و مرکز کا پیغام عام کیا، سلسلہ رضویہ کو خوب سے خوب تر فروغ بخشا۔ فقہ و فتاویٰ کے سلسلہ میں خاندان اعلیٰ حضرت کی امتیازی شان کو بر قرار رکھا۔ اپنے اسلاف اور اپنے اجداد کے موقف کی حفاظت و صیانت کے لیے انہوں نے کوئی نرم رویہ اختیار نہ فرمایا۔
چونکہ وہ میرے والد محترم سے عمر میں کافی چھوٹے تھے۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے بچپن ہی سے اُن پر والد صاحب شفقت فرماتے۔ ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں اپنے والد گرامی حضرت جیلانی میاں علیہ الرحمہ کا ہاتھ ہٹاتے۔ خود بھی بھی تعلیم دیتے اور منظر اسلام کے جید علماء سے بھی تعلیم دلواتے۔ منظر اسلام سے تعلیمی سفر مکمل کرنے کے بعد جامع ازہر مصر میں داخلے سے متعلق ضابطے کی کاروائی مکمل کرانے میں میرے والد کا کافی اہم رول رہا۔ جامع ازہر مصر سے تعلیمی سفر مکمل کر کے مؤرخہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۶ء میں صبح کےوقت جب چچا جان بریلی شریف تشریف لائے تو ان کی آمد پر میرے والد بزرگوار نے جنکشن سے گھر تک نہایت ہی پُرتپاک انداز میں استقبال کا اہتمام فرمایا۔ ماہنامہ اعلیٰ حضرت کی ادارت اس وقت والد محترم ہی کے ذمہ تھی۔ آپ نے چچا جان کی تشریف آوری اور استقبالیہ کی کافی اہتمام کے ساتھ رپورٹ شائع کرائی جو مندرجہ ذیل ہے:
’’اے آمدنت باعث۔۔۔۔۔۔‘‘
گلستان رضویت کے مہکتے پھول، چمنستان اعلیٰ حضرت امام اہل سنت کے گل خوشتر مولانا محمد احمد اختر رضا خاں صاحب ابن حضرت مفسر اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک عرصہ دراز کے بعد جامع ازہر مصر سے فارغ التحصیل ہوکر ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۶ء کی صبح کو بہار افزائے گلشن بریلی ہوئے۔ بریلی کے جنکشن اسٹیشن پر متعلقین و متوسلین و اہل خاندان، علمائے کرام و طلبہ دار العلوم کے علاوہ معتقدین حضرات نے (جن میں بیرون جات خصوصاً کانپور کے احباب بھی موجود تھے) حضرت مفتی اعظم ہند مدظلہ العالی کی سر پرستی میں پُرتپاک اور شاندار استقبال اور صاحبزادے موصوف کو خوش رنگ پھولوں کے گجروں اور ہاروں کی پیش کش سے اپنے والہانہ جذبات و خلوص اور عقیدت کا اظہار کیا۔
ادارہ مولانا اختر رضا خاں اور ان کے متوسلین کو اس کامیاب سفر پر ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ بطفیل اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم، ان کے آبائے کرام خصوصاً اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مجدد اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سچا، صحیح وارث و جانشین بنائے۔ آمین ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں آمین آباد۔ [1]
جنوری ۱۹۶۷ء میں بحیثیت مدرس و مفتی آپ کو والد صاحب علیہ الرحمہ نے منظر اسلام کی ذمہ داریاں تفویض فرمائیں۔ چونکہ خاندان اعلیٰ حضرت کی بے مثال خدمات و مقبولیت کی وجہ سے جہاں اس کے بے شمار عقید تمند ہیں تو وہیں کچھ دشمن اور کچھ حاسدین بھی ہیں جن کی نگاہوں میں اس خاندان کا یہ امتیاز، وقار اور عزت و عظمت ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے۔ اس کی عظمت کو داغدار کرنے کےلیے بہت سی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے اور شاطرانہ چالیں بھی چلی جاتی ہیں جس میں ہمارے خاندان کے یہ بدخواہ کبھی کبھی وقتی طور پر معمولی سی کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ افراد کی شاطرانہ چالوں اور ان کے ذریعہ پیدا کی گئی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہمارے والد بزرگوار اور چچا جان کے درمیان وقتی کچھ شکر رنجی بھی ہوگئی تھی۔ مگر معمولی سی مدت کے بعد حالات حسب سابق معمول پر آگئے تھے۔ لیکن بد خواہ اور بدباطن افراد نے اس کا فائدہ اٹھا کر کذب بیانی اور الزام و بہتان تراشی کا ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔ غلط فہمیاں پھیلانا شروع کردیں۔ اسی ضمن میں میرے والد گرامی کے نام سے انہیں بد خواہ اور بدباطن حاسدین اور دشمنوں نے ایک فرضی پوسٹر شائع کیا جس کا والد صاحب نے بروقت جواب بھی دیا، اپنی برأت کا اظہار بھی کیا اور بریلی تھانے میں قانونی کاروائی بھی کی۔ فرضی طور پر اس پوسٹر کو چھاپنے والے (انجان و گمان افراد) کے خلاف پولیس میں رپوٹ بھی درج کرائی۔
میرے والد صاحب کے وصال کے بعد ان کے عرس چہلم کے موقع پر خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ درگاہ اعلیٰ حضرت کی سجادگی و تولیت، جامعہ رضویہ منظر اسلام کی نظامت، ماہنامہ اعلیٰ حضرت کی ادارت اور دیگر اوقاف کی تولیت فقیر راقم الحروف کو تفویض کی گئی۔ رسم سجادگی کے اسی موقع پر میرے سر پر دستار سجادگی ہمارے چچا جان ہی نے رکھی۔
آپ کے وصال سے کچھ مہینے پیش تر ہی کی بات ہے کہ چچا جان کی عیادت کو میں ان کے گھر گیا۔ چہرہ تو نورانی تھا ہی اب اور پُر نور ہوگیا تھا۔ چچا جان محو آرام تھے۔ دست بوسی کی، سر پر ہاتھ رکھوایا اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس آگیا۔ کئی بار آپ سخت علیل ہوئے۔ کئی بار ہسپتال میں بھرتی رہے۔ اس بار بھی جب آپ ہسپتال گئے تو ہمیں یہ امید بھی نہ تھی کہ اب آپ کا آخری وقت آچکا ہے۔ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اب ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیائے فانی سے تشریف لے جا چکے ہیں۔
پوری دنیا میں کہرام برپا ہوگیا جس کے پاس بھی یہاں کے کسی بھی شخص کا نمبر تھا وہ انہیں فون کر رہا تھا۔ میرے پاس بھی کئی دنوں تک مسلسل فون آتے رہے۔ پہلے انتقال کی تصدیق کے لیے۔ بعد میں تعزیت کے لیے۔ ہر ایک اپنے اپنے طور پر انہیں خراج پیش کر رہا ہے۔ ادارہ ماہنامہ اعلیٰ حضرت بھی خصوصی شمارے کے ذریعہ انہیں قلمی اور تحریری خراج پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ قابل مبارکباد ہیں عزیز مفتی محمد سلیم بریلوی زیدہ مجدہ کہ انہوں نے شب و روز کی محنت کے بعد انتہائی سرعت کے ساتھ تن تنہا اس نمبر کو سلیقہ مندی کے ساتھ مرتب کیا۔ اللہ تعالیٰ چچا جان کی تربت پر انوار و رحمت کی بارشیں نازل فرمائے۔ سبھی اہل سنت کو صبر عطا فرمائے۔ ہماری خاندانی عظمت و رفعت اور شان و شوکت کی غیب سے حفاظت و صیانت فرمائے۔ ہمارے خاندان میں ایسے افراد پیدا فرمائے کہ جو اس کی شان و شوکت، جاہ و حشمت، عظمت و رفعت کے محافظ و پاسبان بنیں۔ آمین بجاہ حبیبہ الکریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم۔