سیدہ فاطمہ کا نکاح

سیدہ فاطمہ کا نکاح

ہجرت کے دوسرے سال (جب عمر شریف ۱۳ یا ۱۴ برس تھی) حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ذریعے اکابر صحابہ سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق و عثمان ابن عفان و سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور دیگر اصحاب کو پیغام بھیجا آپ کے حکم پر سب جمع ہو گئے اور آپ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں حمد و ثنا کے بعد ترغیب نکاح کا مضمون تھا پھر فرمایا:

ان اللّٰہ تعالٰی یا مرک ان تزوّج الفاطمۃمنعلیّ

 (نور الابصار : ۴۶)

مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کردوں۔ اور ان کا مہر چار مثقال مقرر کرتا ہوں اے علی کیا تجھے منظور ہے؟ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیا ہاں میں بخوشی قبول کرتا ہوں تین بار آپ نے اس کا تکرار حاضرین کی موجودگی میں فرمایا اور یہ دعا فرمائی

 

بارک اللّٰہ علیکما واخراج منکما ولدا کثیرا طیبا

(ترجمہ)برکت دے تجھ کو اللہ تعالیٰ اور تم کو نیک و پاک اولاد عطا فرمائے۔

(زرقانی علی المواھب ۲:۳۶۰)

آپ نے جب تمام اجتماع میں عقد فرمادیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا علی المرتضیٰ کے ہاں رخصت فرمادیا۔ عشا کی نماز کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ کے ہاں تشریف لائے تو آپ نے پانی پر دم کیا روایات میں ہے کہ آپ نے معوذ تین پڑھ کر اس پانی کو دونوں پر چھڑکا اور پھر فرمایا:

اللّٰہم انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطٰن الرّجیم

(ترجمہ) یعنی اے اللہ! انہیں اور ان کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے پھر یہ دعا فرمائی:

اللّٰہم انّھما منّی و انا منھما اللّٰہم کما اذھبت عنّی الرجس وطھّر تنی فطھّر ھما۔

(ترجمہ) اے اللہ! بے شک دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان دونوں سے ہوں، اے اللہ! جیسے تو نے مجھ سے ہر ناپاکی دور کر دی ہے اور مجھے پاک کر دیا ہے ایسے ہی ان دونوں کو بھی پاک فرما دے۔(مجمع الزوائد ، ۹:۲۴)

پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رو پڑیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیٹی کیوں روتی ہو نہ روؤ میں نے تمہارا عقد اللہ تعالیٰ کے حکم سے علی المرتضیٰ سے کردیا ہے ۔

(مدارج النبوۃ، جلد ۲:۱۳۰)

ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ تمام جہاں کی عورتوں میں بہتر چار عورتیں ہیں ۔ حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا اور حضرت آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا اور حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابنت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ ایک حدیث حضرت انس بن مالک ص سے ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:

خیر النّساء امتی فاطمۃ بنت محمد ۔

میری امت کی عورتوں میں بہتر میری بیٹی فاطمہ ہے۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سیدہ خاتون جنت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا :

بیٹی! جس کو ساری کائنات " نبینا خیر الانبیاء" کہتی ہے۔

ھو ابوک و شھیدنا خیر الشھداء و ھو عم ابیک حمزۃو منا من لہ جناحان یطیر بھما فی الجنۃحیثشاءوھوابنعمابیکجعفرومناسبطھذہالامۃالحسنوالحسینوھماابناکومناالمھدی

(ترجمہ) خیر الانبیاء تمہارا باپ ہے اور ہمارا شہید تمام شہیدوں سے بہتر ہے وہ تمہارے باپ کے چچا حمزہ ہیں، اور ہم میں سے ایک وہ ہیں جن کے دو پر ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں پرواز کرتے ہیں اور وہ تمہارے باپ کے چچا کے بیٹے جعفر ہیں، اور ہم میں اس امت کے کریم و فیاض حسن و حسین ہیں اور وہ دونوں تمہارے بیٹے ہیں اور ہم ہی میں مہدی بھی ہیں۔

 (ذخائر العقبیٰ:۴۴، مؤلف حافظ محب الدین بن عبد اللہ طبری متوفی۶۹۴ھ)


متعلقہ

تجویزوآراء