تاج الشریعہ مظہر اعلیٰ حضرت
تاج الشریعہ، شمس الطریقہ، منبع الفضائل، فخر الاماثل بقیۃ السلف، حجۃ الخلف، قطب الاعالی، فلک المعالی، شیخ الاسلام والمسلمین، قطب الارشاد والمستر شدین، مخزن علم و حکمت، مرجع قوم و ملت، علم و فضل کے تابندہ اختر، عالم اسلام میں فخر ازہر، وارث علوم اعلیٰ حضرت، جانشین تاجدار اہل سنت، پر تو مجدد الاسلام، مظہر حجۃ الاسلام رہبر شریعت، شیخ طریقت، حضرت علامہ و مولانا اختر رضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے علوم کے سچے وارث تھے۔ کیوں نہ ہوں؟ آپ کی رگوں میں اعلیٰ حضرت کا لہو اپنی تاثیر دکھا رہا تھا۔ آپ کے مزاج میں تفقہ پوری شان کے ساتھ موجود تھا۔ امور دین میں تسلط آپ کی فطرت وجبات میں داخل تھا۔ اپنے اسلاف کے موقف اور نقطۂ نظر سے سر موانحراف کو روا نہیں رکھتے۔ اعدائے دین کے لیے ہر وقت شمشیر قلم بے نیام رکھتے۔ اسلاف کے نقطۂ نظر کے خلاف کہیں بھی قلم اٹھایا جاتا تو فوراً آپ کا تصلب اور علمی فیضان سد سکندری بن کر حائل ہوجاتا۔
قوت حفظ، استحضار مسائل اور قوت استخراج و استنباط امام احمد رضا قدس سرہ کی بارگاہ سے گویا ترکہ میں پائی۔ علم فقہ و علم کلام کے دقیق مسائل میں اتنا استحضار کہ اہل علم محو حیرت رہ جاتے۔ آپ کے سامنے بڑے بڑے اہل علم سے کسی کتاب کی عبارت پڑھنے میں اتفاقاً چوک ہوجاتی تو حضرت فوراً اصلاح فرما دیتے۔ ذہانت و فطانت اور قوت حفظ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ’’المعتقد المنتقد‘‘ اور اس کی شرح ’’المستند المعتمد‘‘ اور اس جیسی کتابوں کا محض عبارت سماعت فرما کر فی البدیہ ترجمہ بیان کر دیتے۔ شرق و غرب اور شمال و جنوب سے جو حضرات شرف ملاقات کے لیے حاضر بارگاہ ہوتے ان حضرات نے اچھی طرح مشاہدہ کیا کہ اکثر اوقات حضرت کی زبان فیض ترجمان سے علمی مشاغل جاری اور قلم ساری رہتا۔ کبھی لاینحل استفتاء کا جواب لکھواتے اور کبھی دینی مشکل کتاب کا ترجمہ تحریر کرواتے اور کبھی فتاویٰ رضویہ اور امام احمد رضا قدس سرہ کی دیگر کتابوں کی تعریب میں مشغول رہتے تاکہ اہل عرب مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت کی تعلیمات سے متعارف ہو سکیں اور فرقۂ باطلہ کے مکر و کید سے آگاہ رہیں۔ عربی زبان و ادب پر قدرت کاملہ اور قوت حافظہ کی وہ نرالی شان تھی کہ عالی جناب مولانا عاشق حسین صاحب کشمیری بڑی بڑی عبارتیں حضرت کو پڑھ کر سناتے جاتے جبکہ وہ عبارتیں احکام فقہیہ اور مسائل کلامیہ کی دقیق ابحاث پر مشتمل ہوتیں مگر حضرت محض عبارت سن کر فی البدیہ فصیح عربی میں ترجمہ بیان فرما دیتے۔
ایک بار کا اتفاق ہوا کہ ٹائی کے مسئلہ میں اس فقیر کی حضرت سے گفتگو چل رہی تھی۔ اسی درمیان ’’نسیم الریاض‘‘ کی ایک طویل عبارت حضرت کے سامنے پیش کی۔ پھر چند دنوں کے بعد جب اسی مسئلے پر دوبارہ گفتگو شروع ہوئی تو حضرت نے وہ پوری عبارت زبانی پڑھ دی۔ میں محو حیرت تھا کہ چند دن پہلے ایک بار ملاحظہ فرمانے کے بعد پوری عبارت حرف بحرف یاد رکھ لینا حضرت کی قوت حفظ کی بے مثال خوبی اور خصوصیت ہے۔
اسلاف کی تعلیمات اور مسلک اعلیٰ حضرت کی حفاظت و صیانت کے عظیم داعی و امین تھے۔ اپنے اسلاف کے موقف کے خلاف کوئی تحریر ملاحظہ فرماتے تو فوراً مدلل و شافی جواب تحریر کراتے اور جوابی تحریر لکھوانے میں اصول بحث اور قواعد مناظرہ کا پورا لحاظ رکھتے۔ اس وجہ سے حضرت کی جوابی تحریر اہل علم کے نزدیک دقیع اور دلچسپ ہوتی۔ اگر تفصیل کا موقع ہوتا تو بطور تمثیل کچھ عبارتیں پیش کرتا۔
عزم و استقلال اتنا قوی کہ ضعف بصر و علالت طبع حضرت کے علمی مشاغل میں حائل نہ ہوسکے۔ یہ لفاظی اور مبالغہ آرائی نہیں بلکہ اپنے مشاہدات کو الفاظ و عبارات کا جامہ پہنا رہا ہوں۔ حضرت کے عربی و اردو کے تراجم اور بخاری شریف کے حواشی و دیگر تصنیفات و تعلیقات کا مطالعہ کر کے بخوبی اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ بطور نمونہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی کتاب ’’الھاد الکاف‘‘ کے عربی ترجمہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ کتاب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ فصیح عربی میں لکھی جانے والی ایک مستقل تصنیف ہے۔
حضرت کے تبلیغی اسفار جاری رہے۔ دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کا کام جاری و ساری رہا۔ آپ نے نور علم کی ضیا بار کرنوں سے عالم اسلام کو منور کیا۔ کونسا ملک ہے کہ جوان کے فیضان سے محروم رہا۔ کون سا صوبہ ہے جہاں ان کے رشد و ہدایت کی روشنی نہیں پہنچی۔ کون سا خطہ ہے جس کو آپ کی ضیا بار کرنوں نے منور نہ کیا۔ کون سی سر زمین ہے جہاں آپ کی شفقت ساون بن کر نہ برسی۔
یہی وجہ ہے کہ ایشیا ہو یا افریقہ یورپ ہو یا امریکہ کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ کے فیضان کرم کا جھالہ نہ پڑا ہو۔ حضرت کی رحلت عالم اسلام کے لیے خاص طور سے ہندوستان کے سنیوں کے لیے عظیم خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت جل جلالہ حضرت کا علمی فیضان جاری و ساری رکھے اور عالم اسلام کو مستفیض و مستنیر فرمائے۔