تذکرۂ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی
حکیم ابوالعلاء صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اعظم گڑھ یوپی کے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابتدائی کتب اپنے جد امجد اور بھائی مولانا محمد صدیق علیہ الرحمۃ سے پڑھیں۔ بعد ازاں مدرسہ حنفیہ جونپور میں مولانا ہدایت اللہ خاں علیہ الرحمۃ سے کسب فیض کیا۔ پھر امام المحدثین علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ سے پڑھنے کے بعد بارگاہِ رضوی سےمنسلک ہوگئے اور خلافت سلسلہ رضویہ قادریہ واجازتِ حدیث سے نوازے گئے۔
دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں برسوں حدیث اور دوسرے فنون کی تعلیم دی۔ بارہ سال اجمیر مقدس میں صدر المدرسین کے عہدہ پر فائز رہے۔ تصانیف کثیرہ میں طحاوی شریف کا حاشیہ بےمثال و لازوال ہے فقہ حنفی میں بہار شریعت کے سترہ حصص اردو میں تصنیف فرما کر ملت مسلمہ پر وہ احسان فرمایا جس کا جواب نہیں۔
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کی فقاہت و ثقاہت پر اطمینان و اعتماد فرماتے ہوئے آپ کو صدرالشریعہ کا لقب عطا فرمایا اور ذکر احباب میں فرمایا
میرا امجد مجد کا پکا
اس سے بہت کچیاتے یہ ہیں
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ کا فقید المثال ترجمہ ‘‘کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن’’ آپ ہی کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوا اور پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بارادہ سفر حج بمبئی میں آپ کا وصال ہوا۔ گھوسی (انڈیا) میں آپ کا روضہ مرجع انام ہے۔
صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ دو قومی نظریہ کے عظیم مبلغ اور رہنما تھے ۔ مارچ ۱۳۳۹ھ؍ ۱۹۲۱ء کو بریلی میں جمیعۃ العلماء ہند کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ابوالکلام آزاد کے علاوہ دوسرے لیڈر بھی شریک ہوئے، جمعیت کے لیڈر اس جوش و خروش سے آئے تھے کہ گویا ‘‘ہندو مسلم اتحاد’’ کے مخالف علماء اہلِ سنت کو لاجواب کردیں گے۔ مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نےجماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے شعبہ علمیہ کے صدر کی حیثیت سے اراکین کے ہندوؤں سے اتحاد و داد کے بارے میں ستر سوالات (اتمام حجت نامہ) مرتب کرکے قائدین جمیعت کو بھجوایا، بار بار اصرار اور مطالبہ کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے پچیسویں عرس مبارک منعقدہ ۲۳، ۲۵، صفر المظفر ۱۳۲۵ھ؍ ۲۸، ۳۰ جنوری ۱۹۴۶ء کو بریلی شریف میں تحریک پاکستان کی راہ ہموار کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا
‘‘ہماری تمام سنی کانفرنسیں جو ملک کے گوشہ گوشہ میں ہر ہر صوبہ میں قائم ہیں، کانگریس کے مقابلہ میں پوری جدوجہد کررہی ہیں، چناں چہ پچھلے الیکشن میں ان کانفرنسوں کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور کانگریس کو شکست ہوئی۔ سنی کانفرنس کی کوششیں بہت مفید ثابت ہوئیں، اس وقت ہم پھر یہی اعلان کرتے ہیں کہ مسلمان کانگریس کو اور کانگریس کے کھڑے ہوئے امیدوار کو کانگریس کی حامی جماعت جمیعت علماء، دیوبند پارٹی مولوی حسین احمد کے زیر اثر طوفان برپا کررہی ہے اس کے علاوہ احرار و خاکسار یونینسٹ وغیرہ جن سے کانگریس کو مدد پہنچ رہی ہے یا جو کانگریس کی ہواخواہی میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں مسلمان ہر گز ان کی فریب کاری میں نہ آئیں’’
اپریل ۱۹۴۶ء میں بنارس کے مقام پر منعقدہ عظیم الشان سنی کانفرنس کو قیام پاکستان کی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اس میں اسلامی حکومت کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جلیل القدر علماء کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس کے ممتاز اراکین میں حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ بھی شامل تھے۔
محلہ کریم الدین گھوسی،ضلع اعظم گڈھ وطن اور مولد و منشاء، والد ماجد کا اسم گرامی مولانا حکیم جمال الدین،دادا مولانا خدا بخش اور پردادا حضرت مولانا خیر الدین تھے،ابتدائی کتابیں دادا سے پڑھیں،اور درس نظامی کے مبادیات رشتے کے بڑے بھائی مولانا محمد صدیق سے حاصل کیں،پھر اُنہیں کے مشورے سے مدرسہ حنفیہ جون پور میں حضرت امام الحکمۃ مولانا ہدایت اللہ خاں قدس سرہٗ کی خدمت میں بلا واسطہ استفادۂ درس شروع کیا،رات میں حضرت اُستاذ کی خدمت گذاری کا شرف حاصل کرتے،اسی اثناء میں حضرت دن کے اسباق کا جائزہ لے کر اعادہ کرادیتے،یہ طریقہ استعداد کی پختگی کے لیے معاون و مفید ہوا،علوم تکمیل کے بعد حُجۃ العصر مولانا شاہ وصی احمد محدث سورتی کے درس حدیث میں شریک ہوکر ۱۳۲۰ھ میں سند حاصل کی،اس کے بعد حاذق الملک حکیم عبد الولی لکھنوی سے ۱۲۲۳ھ میں طب پڑھی ۲۴تا ۲۷ھ محدث سورتی کے مدرسہ میں درس دیا ایک سال پٹنہ میں مطب کیا،مجدّ الملّۃ امام احمد رضا بریلوی کو مدرسہ منظر الاسلام کے لیے مدرس کی ضرورت ہوئی محدث سورتی نے آپ کا نام پیش فرمایا،اعلیٰ حضرت مجدد بریلوی قدس سرہٗ کی طلب پر پٹنہ سے بریلی پہونچے، بہت جلد اپنی قابلیت اور خدا داد حسن سلیقہ اور سعادت شعاری کی بنا پر فاضل کی عشق رسالت میں ڈوبی ہوئی درع وتقویٰ سے شاداب ودر خشندہ زندگی کی مسلسل دید کے بعد باطنی دستگیری اور رہنمائی کے لیے مرید ہوئے،اور خلافت واجازت سے سر فراز ہوئے،۱۳۴۳ھ میں حضرت مولانا سید سلیمان شرف ‘‘صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ’’ دار العلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف کی صدارت کے لیے میر نثار انمد مرحوم متولی و مہتمم کا دعوت نامہ لیکر پہونچے لیکن آپ نے شیخ کا آستانہ اور ان کا مدرسہ چھوڑ کر جانے سے معذت چاہی۔۔۔۔۔حضرت مولانا سید سلیمان اشرف نے حُجۃ الاسلام کی طرف رجوع کیا،اُن کی اجازت لینے پر اجمیر معلیٰ حاضر ہوئے،بڑی نیک نامی اور عظیم الشان پیمانے پر درس دیا،اور اکابر رجال افرادتیار کیے،جن میں سے ہر ایک غیرت علم دفن ثابت ہوئے،۱۳۵۱ھ میں میر نثار احمد متولی مرحوم سے بعض امور میں اختلاف کے سبب درگاہ خواجہ سے جُدائی اختیار کر کے علماء کی ایک کثیر تعداد کو،جو حلقۂ تلمذ سے وابستہ تھی،ہمراہ لے کر بریلی آگئے اور حضرت مولانا سید مصباح اکسن پھپوندوی قدس سرہ کی رہنمائی میں نواب حاجی غلام محمد خاں شیروانی رئیس ریاست داروں علی گڈھ نے دار العلوم حافظیہ سعیدیہ کی مسند صدارت کی پیشکش کی،یہیں کے قیام کے دوران میں صاحبزادہ مولانا عطاء المصطفیٰ مرحوم نے ۱۳۶۲ھ میں انتقال کیا،مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی نے،جو ایک زمانہ میں حیدر آباد دکن میں صدر اُمور مذہبی رہ چکے تھے ۱۳۵۶ھ کے سالانہ جلسۂ امتحان کے موقع پر اپنی تقریر میں حضرت کی مہارت درس،اور تبحر علمی کا اعتراف کیا اور کہا، کہ ‘‘ مولانا امجد علی صاحب پورے ملک میں اُن چار پانچ مدرسین میں ایک ہیں جنہیں میں منتخب جانتا ہوں ’’ بہار کے بعد ایک سال نبارس رہے بعدہ ۱۱۶۴ھ تک منظراسلام میں درس دیا،اور صاحبزادگان کی رہائش کے لیے مکان تعمیر کرایا،۲؍شوال۱۳۶۷ھ کو حج وزیارت کے ارادہ سے مفتیٔ اعظم مولانا مصطفیٰ رضا بریلوی کی معیت کے لیے بحالت بخار بریلی آئے، ۵؍ ذیقعدہ کی رات کو اسی حالت میں بمبئی پہونچے عبد الحبیب حاجی محمد رحمت والے اور عبد العزیزی حاجی رحمت والے استقبال کو کارلے کر اسٹیشن پہونچے تو اسٹیشن پر حضرت کو صاحب فراش دیکھ کر روپڑے،اور حضرت کو اپنے مکان لے آئے ۷؍ذیقعدہ بروز شنبہ جہاز کھلنے والا تھا،مفتیٔ اعظم وداعی ملاقات کو آئے اور روتے ہوئے رخصت ہوئے،دن گذار کر رات کو ۱۲؍بج کر ۲۶؍منٹ پر نماز کی طرح نیت باندھے ہوئےواصل بحق ہوئے،جنازہ مبارک بذریعہ ریل گھوسی لایا گیا، ۱۴کی شام کو جم غفیر نے جنازہ میں شرکت کی نماز کی امامت حضرت مولانا الحافظ عبد العزیز محدث مراد آبادی مدظلہٗ العالی نے کی،تاریخ وفات قرآن کریم کی آیت مبارکہ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ہے،۔تصانیف میں ‘‘بہار شریعت’’ فقۂ حنفی کی اردو میں عظیم الشان کتاب ہے،اس کی تحریر کا آغاز ۱۳۳۴ھ میں کیا گیا تھا،اور ۱۳۶۳ھ میں سترھواں حصہ ختم فرمایا،دادوں کے زمانۂ قیام میں ۸؍محرم ۱۳۶۲ھ میں بعض طلبہ کے اصرار سےشرح معانی الآثار کے تحشیہ کا کام شروع کیا،سات ماہ میں نصف اول محشیٰ ہوگیا اور ۳۶سطری مسطر پر باریک قلم سے ۴۵۰صفحات پر مشتمل اور ہنوز غیر مطبوعہ ہے، مجموعہ فتاویٰ جو چار جلدوں میں ہے وہ بھی غیر مطبوعہ ہے اعلیٰ حضرت آپ کی فقہی مہارت کے مدرج تھے، صدر الشریعہ کا خطاب آپ ہی کا عطیہ ہے مین شریعت شیخ الحدیث مولانا شاہ رفاقت حسین مدظلہٗ،محدث پاکستان حضرت شیخ الحدیث مولانا شاہ سردار احمد بانی جامعہ مظہر اسلام لائل پور،حضرت استاذ العلماء مولانا حافظ شاہ عبد العزیزی شیخ الحدیث دار العلوم اشرفیہ مبارک پور،مجمع الفضائل حضرت مولانا شاہ حبیب الرحمٰن سابق صدر المدرسین جامعہ سبحانیہ الہ آباد،حضرت مولانا قاضی شمس الدین جون پوری شیخ الجامعہ جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس،شیر بیشۂ سُنت مولانا حشحت علی خاں،علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،حضرت الاستاد مولانا غلام جیلانی مدظلہٗ آپ کے نامور تلامذہ میں سے ہیں۔آپ یگانۂ عصر مفسر،فقیہ،مفقولی محدث اور صاحب ارشاد بزرگ تھے۔