توبہ کی بنیاد
توبہ کی بنیاد
حضرتِ سیِّدُنا ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم ، نور مجسم صلیﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں: «النَّدَمُ تَوْبَةٌ» یعنی:” شَرْمِنْدَگی توبہ ہے“۔[سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب ذکر التوبة، الحدیث: 4252،ج5، ص322].
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ”چونکہ گزشتہ گناہوں پر نَدَامَتْ(یعنی شرمندگی)توبہ کا رُکنِ اعلیٰ ہے کہ اس پر باقی سارے اَرکان مَبْنِی ہیں ،اس لئے صرف ندامت کا ذکر فرمایا ۔جو کسی کا حق مارنے پر نادِم ہوگا تو حق ادا بھی کردے گا، جو بے نمازی ہونے پر شرمندہ ہوگا وہ گزشتہ چھوٹی نمازیں قضا بھی کر لے گا“۔ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ۔
[مرآۃ المناجیح،ج3، ص379]۔
ہمیں چاہیے کہ ندامتِ قلبی کو پانے کے لئے اِن باتوں پر عمل کریں :
(١) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس طرح غور وفکر کریں کہ: اس نے مجھے کروڑہا نعمتوں سے نوازا مثلاً مجھے پیدا کیا، مجھے زندگی باقی رکھنے کے لئے سانسیں عطا فرمائیں ،چلنے کے لئے پاؤں دئیے، چھونے کے لئے ہاتھ دئیے، دیکھنے کے لئے آنکھیں عطا فرمائیں، سننے کے لئے کان دئیے، سونگھنے کے لئے ناک دی، بولنے کے لئے زبان عطا کی اور کروڑ ہا ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن پر آج تک میں نے کبھی غور نہیں کیا ۔""پھر اپنے آپ سے یوں سوال کرے:""کیا اتنے احسانات کرنے والے رب تعالیٰ کی نافرمانی کرنامجھے زیب دیتا ہے ؟""
(۲) گناہوں کے انجام کے طور پر جہنم میں دئیے جانے والے عذاب ِ الہٰی کی شدت کو پیشِ نظر رکھیں مثلاًسرورِ عالم صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا :
(1)""دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہو گا اسے آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا""۔ [صحیح مسلم ،کتاب الإیمان، باب أهون أهل النار عذاباً، رقم: 361، ص134].
(2)""اگراس زرد پانی کا ایک ڈول جو دوزخیوں کے زخموں سے جاری ہو گا دنیا میں ڈال دیا جائے تو دنیا والے بدبودار ہو جائیں""۔ [جامع التر مذي ،أبواب صفة جهنم، باب ما جاء في صفة شراب أهل النار، الحدیث: 2593، ج4، ص263].
(3)""دوزخ میں بُخْتِی(یعنی بڑے )اونٹ کے برابر سانپ ہیں، یہ سانپ ایک مرتبہ کسی کو کاٹے تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا۔ اور دوزخ میں پالان بندھے ہوئے خچروں کے مثل بچھو ہیں جن کے ایک مرتبہ کاٹنے کا دردچالیس سال تک رہے گا""۔ [المسند للإمام أحمد بن حنبل، حدیث عبد الله بن الحارث ، رقم: 17729، ج 6، ص 217].
(4) ""تمہاری یہ آگ جسے ابن آدم روشن کرتا ہے ، جہنم کی آگ سے ستر درجے کم ہے۔ ""یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کی "" یا رسول اللہ صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم!جلانے کے لئے تو یہی کافی ہے؟""ارشادفرمایا ""وہ اس سے اُنہتر(۶۹)درجے زیادہ ہے ، ہر درجے میں یہاں کی آگ کے برابر گرمی ہے""۔ [صحیح مسلم، کتاب الجنة، باب في شدة حر نار جهنم، رقم: 2843، ص: 1523].
پھر اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوں :""اگر مجھے جہنم میں ڈال دیا گیا تو میرا یہ نرم ونازُک بدن اس کے ہولناک عذابات کوکس طرح برداشت کر پائے گا ؟جبکہ جہنم میں پہنچنے والی تکالیف کی شدّت کے سبب انسان پر نہ توبے ہوشی طاری ہوگی اور نہ ہی اسے موت آئے گی ۔ آہ! وہ وقت کتنی بے بسی کا ہوگاجس کے تَصَوُّر سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے ۔کیا یہ رونے کا مقام نہیں ؟ کیا اب بھی گناہوں سے وَحْشَت محسوس نہیں ہوگی اور دل میں نیکیوں کی محبت نہیں بڑھے گی ؟کیا اب بھی بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں سچی توبہ پر دل مائل نہیں ہوگا ؟""
امید ہے کہ بار بار اس انداز سے فکر کرنے کی برکت سے دل میں ندامت پیدا ہوجائے گی اور سچی توبہ کی توفیق مل جائے گی ۔ ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ