ولایت کا معیار تقوی
بر صغیر ہندو پاک میں اسلام کی سر بلندی اور اس کی ترویج و اشاعت صوفیائے کرام ہی کی مرہون منت ہے، جنہوں نے علم، و عمل، رشد و ہدایت کے انوار سے ایک جہاں کو منور کیا اور ہزاروں ہزار گم گشتگان راہ راست سے ہمکنار کیا، تشنگان علم و معرفت کو اپنے علمی اور روحانی جام سے شاد کیا، جن کی آفاقی تعلیمات، روحانی اور اخلاقی عظمت نے جوق در جوق لوگوں کو دامن اسلام میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، جن کی دینی، علمی، فکری، روحانی اور اصلاحی خدمات کو آب زر سے لکھا جائے تب بھی ان کی شخصیت کا حق کما حقہ ادا نہ ہو پائے۔ وہ ایسے پاکیزہ خصلت انسان ہوتے ہیں جن کے قلوب و اذہان پر روز اول ہی سے ماحول و عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، وہ ہر حال میں اپنی حیات کو ہر قسم کی آلودگی اور نا شائستہ حرکتوں سے پاک و صاف رکھتے ہیں، وہ سماج میں اتنے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ معاشرے اور سوسائٹی میں کتنی ہی بدکاریاں پھیل جائیں لیکن ان کا مقصد دامن ان آلودگیوں سے داغدار نہیں ہوتا، ان کا ذہن ان بری باتوں کو قبول نہیں کرتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غلط باتوں سے وہ اپنے آپ کو اتنا دور رکھتے ہیں کہ دلائل و براہین کے ذریعہ کوئی ان کو کتنا ہی مطمئن کرنے کی کوشش کرے یا اپنی چرب زبانی سے ان پر اثر ڈالنا چاہے تو اس کو اس میں محرومی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ وہ ایسی باتوں سے اجتناب فرماتے ہیں جو نسل انسانی میں نفرت و عداوت، نفاق و دشمنی کا بیج بوتی ہیں اور آپس میں منافرت کی آگ بھڑکاتی ہیں کیونکہ وہ عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ انجام دینے میں فرحت و انبساط محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی نیک طینت، پاکیزہ خصلت اور مقدس نفوس میں امام اہل سنت محبّ عرب و عجم، پیر طریقت، رہبر سنیت، مجدد دین و ملت پروانہ شمع رسالت حضرت علامہ و مولانا الشاہ امام احمد رضا خاں بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سچے وارثوں میں، جانشین حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں ازہری معروف بہ حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ستودہ صفات بھی ہے۔ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ و مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمہ سے ہماری ملاقات اس وقت ہوئی جب حضرت اسکول میں پڑھتے تھے، جب کبھی میں بریلی شریف ان کے گھر مفسر اعظم ہند استاذ محترم حضرت ابراہیم رضا خاں صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے جاتا دروازے پر دستک دیتا تو ازہری میاں ۳؍ سوال کرتے۔ ۱۔ کون ہو؟ ۲۔ کہاں سے آئے ہو؟ ۳۔ کیوں آئے ہو؟ جب ہم ان کے سوالوں کے تشفی بخش جواب دیتے تو دروازہ کھل جاتا اور ہم اپنی ضرورت کے مطابق وہاں رکتے اور استاذ گرامی حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی برکتوں سے اپنے قلب کو منور و مجلی کرنے کی سعی کرتے اور اجازت طلب کر کے واپس چلے آتے۔ حضور تاج الشریعہ درس نظامی کی تعلیم کے لیے منظر اسلام تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضل و کرم سے اساتذہ سے پڑھے اور یہاں تک کہ خود مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے بریلی شریف میں ان اساتذہ سے خاص طور پر پڑھا۔ ۱۔ بحر العلوم حضرت مفتی افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ۔ ۲۔ حضور حافظ جہاں گیر صاحب قبلہ علیہ الرحمہ۔ پھر اس کے بعد آپ جامعہ ازہر مصر چلے گئے دنیا نے دیکھا کہ آپ علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے عکس جمیل تھے اور مفتی اعظم ہند کے بالکل آئینہ تھے، حضور مفتی اعظم ہند کا تقوی دنیا میں مشہور ہے یہاں تک کہ اپنے ہی نہیں بلکہ غیر بھی آپ کے تقوی کے قائل تھے۔ عبد الرحیم رائے پوری۔ جو تبلیغی جماعت کا امیر تھا۔ کہتا تھا: ’’ایسا متقی میں نے دنیا میں کسی کو نہیں دیکھا انہوں نے آج تک کسی غیر محرم کے ہاتھ کو بھی نہیں دیکھا‘‘ حضور تاج الشریعہ بالکل اپنے نانا جان کے آئینہ تھے، مفتی اعظم ہند کے تقوی کو دیکھنا ہو تو حضور ازہری میاں کو دیکھ لو، مفتی اعظم ہند کی زندگی دیکھنی ہو تو انہیں دیکھ لو، حضور ازہری میاں کی زندگی دیکھنے کے بعد مفتی اعظم ہند کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور مفتی اعظم ہند کا تقوی تو غیر نے بھی قبول کیا اور حضور ازہری میاں کے تقوی کی مثال اور ان کی زندگی کیسی تھی اس کا بخوبی اندازہ آپ حضرت کے تعلیمی دور کے ایک واقعہ سے لگا سکتے ہیں: حضور ازہری میاں اس وقت جوان اور عالم شباب میں تھے یہ اور مولانا شمیم ازہری (خطیب اعظم موریش) دونوں ازہر میں ساتھ رہے، ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ مولانا شمیم ازہری فرماتے ہیں: ’’مصر میں جشن جمہوریہ منایا جا رہا تھا اور وہاں کا طریقہ یہ تھا کہ ازہر کے تمام طلبہ لائن میں کھڑے ہوتے اور مصر کی حکومت کا ایک نمائندہ ان سے ہاتھ ملاتا اور طلبہ اس کو مبارک باد دیتے‘‘۔ تاج الشریعہ بھی لائن میں تھے اور علامہ شمیم ازہری بھی اور اس وقت جو ملک کا نمائندہ بن کر آیا تھا وہ ایک خاتون تھی اور وہ لائن میں کھڑے تمام طلبہ سے یکے بعد دیگرے ہاتھ ملا رہی تھی، جب وہ میرے (مولانا شمیم ازہری کے) پاس پہنچی تو میں (مولانا شمیم) نے اس خاتون سے ہاتھ ملا لیا اور اس کے بعد وہ تاج الشریعہ کے قریب آئی تو حضور تاج الشریعہ پیچھے ہٹ گئےا ور ہاتھ نہیں ملایا‘‘ علامہ شمیم ازہری کا کہنا ہے: ’’حضرت نے مجھ سے بات کرنا بند کردی، یہاں تک کہ سلام کا جواب بھی نہیں دیتے اور ایسے ہی کئی دن گزر گئے، میں گھبرا گیا کہ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد گار اور مجھ سے ناراض رہیں۔ لہٰذا میں حضرت کی قدموں میں گر گیا اور رونے لگا تو حضرت نے اپنا دست شفقت میرے سر پر پھیرا اور کہا: ’’شمیم! میں تم سے اپنے نفس کے لیے ناراض نہیں ہوا بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی کے لیے ناراض ہوا تھا کیوں کہ وہ خاتون جس سے تم نے ہاتھ ملایا وہ تمہاری محرم نہیں تھی بلکہ وہ تمہارے لیے غیر محرم تھی اور تم نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا؟‘‘ اس طرح انہوں نے ازہری میاں کے سامنے توبہ کی اور معافی مانگی تو حضرت نے انہیں معاف فرما دیا۔۔۔ آپ خیال کریں اس عمر میں جب جوانی کی عمر تھی اور شباب کا عالم تھا اور آپ طالب علم تھے، عموماً طالب علم کی زندگی ان باتوں کا خیال نہیں رکھتی مگر اس وقت بھی آپ شریعت مطہرہ کے کیسے پابند تھے، اللہ اللہ ہم نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے آج دنیائے سنیت ان کا سوگ منارہی ہے، کوئی جیتا ہے تو اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے جیتا ہے جب وہ مرتا ہے تو پورا خاندان اس کا سوگ مناتا ہے، کوئی جیتا ہے تو اپنے شہر و ملک کے لیے اور جب وہ مرتا ہے تو سارا شہر و ملک سوگ وار ہوتا ہے، مگر حضور ازہری میاں کا جینا تو اللہ و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے تھا اور سنیت کو فروغ دینے کے لیے تھا، آج ان کی رحلت پر پوری دنیائے سنیت رو رہی ہے۔ ایک عالم اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ وہ اپنی زندگی قوم کے حوالہ کر دیتا ہے، مسلک و ملت کے لیے جیتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ’’موت العالم موت العالم‘‘ یعنی ایک عالِم کی موت ایک عالَم یعنی جہان کی موت ہے۔اس لیے کہ ایک عالم اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ وہ ساری قوم کے لیے جیتا ہے۔ ازہری میاں علیہ الرحمہ کی زندگی مذکورہ بالا قول کی مصداق ہے کہ آپ کا جینا دین متین کی سر بلندی کے لیے تھا اس وجہ سے ساری قوم کی آنکھیں آپ علیہ الرحمہ کے وصال پر ملال پر اشک بار تھی۔ تاج الشریعہ اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے مسلک کے لیے، ملت کے لیے، جی رہے تھے اس وجہ سے ساری دنیا سوگ واری کے عالم میں کہہ رہی ہے کہ ؎ داغ فرقت دے گئے اختر رضا خاں ازہری روٹھ کر ہم سے چلے اختر رضا خاں ازہری تھا لقب تاج الشریعہ آپ کا کتنا حسیں وقت رحۂت لب پہ اللہ اکبر کی صدا تیری قبر پاک پر رحمت کی بارش ہو مدام اللہ اللہ حور و غلماں آئے استقبال کو آپ کے غم سے سسکتا رہ گیا عبد الحلیمؔ سارے سنی رو پڑے اختر رضا خاں ازہری مسکرا کر دیکھیے اختر رضا خاں ازہری تاج والے چل دئیے اختر رضا خاں ازہری موت پائی آپ نے اختر رضا خاں ازہری سب یہی کہتے رہے اختر رضا خاں ازہری سوئے جنت جب چلے اختر رضا خاں ازہری سوئے جنت جب چلے اختر رضا خاں ازہری