منظومات  

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم

پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی! کیوں کر اتریں پار ہم کس بَلا کی مے سے ہیں سرشار ہمدن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم تم کرم سے مشتری ہر عیب کےجنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تمدوستوں کی بھی نظر میں خار ہم لغزشِ پا کا سہارا ایک تمگرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم صَدقہ اپنے بازوؤں کا المددکیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم دم قدم کی خیر اے جانِ مسیحدر پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضورجانتے ہیں جیسے ہیں بدکار...

عارض شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاںعرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں جا بہ جا پرتو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاںدن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤںعرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں دب کے زیرِ پا نہ گنجایش سمانے کو رہیبن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاججس کی خاطر مرگئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں دو قمر دو پنجۂ خور دو ستارے دس ہلالان کے تلوے پنجے...

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن

عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامنیا خدا جَلد کہیں آئے بہارِ دامن بہہ چلی آنکھ بھی اشکوں کی طرح دامن پرکہ نہیں تار نظر جز دو سہ تارِ دامن اشک بر ساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیمیا خدا جلد کہیں نکلے بخارِ دامن دل شدوں کا یہ ہوا دامنِ اطہر پہ ہجومبیدل آباد ہوا نام دیارِ دامن مشک سا زلف شہ و نور فشاں روئے حضوراللہ اللہ حَلَبِ جیب و تتارِ دامن تجھ سے اے گل میں سِتم دیدۂ دشتِ حرماںخلشِ دل کی کہوں یا غمِ خارِ دامن عکس افگن ہے ہلالِ لبِ شہ جیب نہیں...

رشک قمر ہوں رنگ رخ آفتاب ہوں

رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوںذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں درِّ نجف ہوں گوہَرِ پاکِ خوشاب ہوںیعنی ترابِ رہ گزرِ بو تراب ہوں گر آنکھ ہوں تو اَبر کی چشمِ پُر آب ہوںدل ہوں تو برق کا دلِ پُر اضطراب ہوں خونیں جگر ہوں طائرِ بے آشیاں، شہا!رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں بے اصل و بے ثبات ہوں بحرِ کرم مددپروردۂ کنارِ سراب و حباب ہوں عبرت فزا ہے شرمِ گنہ سے مِرا سکوتگویا لبِ خموشِ لحد کا جواب ہوں کیوں نالہ سوز لَے کروں کیوں خونِ دل پیوںسیخِ ک...

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفے کہ یوں

  پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوںکیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں قصرِ دَنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیںرُوحِ قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیںصبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگاچھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کرمانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں دل...

پھر کے گلی گلی تباہ

پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوںدل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوںسوتے ہیں ان کے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کوروئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائیں کیوں یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستمخوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھیچھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خداجس...

یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوںبیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئیپوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بَن میں ٹھگوں کے آ بسوپھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں باغِ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آجقمریِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلدسوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آن...

اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریں

اہلِ صراط روحِ امیں کو خبر کریںجاتی ہے امّتِ نبوی فرش پر کریں اِن فتنہ ہائے حشر سے کہہ دو حذر کریںنازوں کے پالے آتے ہیں رہ سے گزر کریں بد ہیں تو آپ کے ہیں بھلے ہیں تو آپ کےٹکڑوں سے تو یہاں کے پلے رخ کدھر کریں سرکار ہم کمینوں کے اَطوار پر نہ جائیںآقا حضور اپنے کرم پر نظر کریں ان کی حرم کے خار کشیدہ ہیں کس لیےآنکھوں میں آئیں سر پہ رہیں دل میں گھر کریں جالوں پہ جال پڑ گئے لِلّٰہ وقت ہےمشکل کشائی آپ کے ناخن اگر کریں منزل کڑی ہے شان تبسم کرم ک...

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیںتیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جو تِرے در سے یار پھرتے ہیںدر بہ در یوں ہی خوار پھرتے ہیں آہ کل عیش تو کیے ہم نےآج وہ بے قرار پھرتے ہیں ان کے ایما سے دونوں باگوں پرخیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں ہر چراغِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاج دار پھرتے ہیں جان ہیں جان کیا نظر آئےکیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پرلاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں وردیاں بولتے ہیں ہرکا...

ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیے ہیں

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیںجس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں جلتے بھجا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہوجب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گےاب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں آن...