منظومات  

مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے

مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے عرش سا فرشِ زمیں ہے فرشِ پا عرشِ بریں کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں بَارَکَ اللہ مرجعِ عالَم یہی سرکار ہے جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھر دیےصدقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی درکار ہے لب زلالِ چشمۂ کُن میں گندھے وقتِ خمیر مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے گورے گورے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے نور کا تڑکا ہو پیارے گور ...

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے

عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو ساری بہارِ ہشت خُلد چھوٹا سا عطردان ہے عرش پہ جاکے مرغِ عقل تھک کے گراغش آ گیااور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دھام کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے اِک تِرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہوجان ہیں وہ...

اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے

اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلالِ باری عتاب میں ہے جلی جلی بو سے اُس کی پیدا ہے سوزشِ عشقِ چشمِ والا کبابِ آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے اُنھیں کی بو مایۂ سمن ہے اُنھیں کا جلوہ چمن چمن ہے اُنھیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنھیں کی رنگت گلاب میں ہے تِری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی...

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تو ہی والی ہے نہ ہو مایوس آتی ہے صدا گورِ غریباں سے نبی امّت کا حامی ہے خدا بندوں کا والی ہے اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لےاندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اجالی ہے ارے یہ بھیڑیوں کا بن ہے اور شام آ گئی سر پرکہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا اُبالی ہے اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹتا دل اُکتاتا خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے زمیں تپتی کٹیلی راہ بھاری بوجھ گھائل پ...

گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے

گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے اسے بو کر تِرے رب نے بنا رحمت کی ڈالی ہے تمھاری شرم سے شانِ جلالِ حق ٹپکتی ہے خمِ گردن ہلالِ آسمانِ ذوالجلالی ہے زہے خود گم جو گم ہونے پہ ڈھونڈے کہ کیا پایا ارے جب تک کہ پانا ہے جبھی تک ہاتھ خالی ہے میں اک محتاجِ بے وقعت گدا تیرے سگِ در کا تِری سرکار و...

نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے

نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے نہ لطفِ اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیبِ لَنْ تَراَنِیْ ہے نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زندگانی ہے اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے ہر اِک دیوار و در پر مہر نے کی ہے جبیں سائی نگارِ مسجدِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی زبانِ بے زبانی ترجمانِ خستہ جانی ہے کھلے کیا رازِ محبوب و م...

حرزِ جاں ذکر شفاعت کیجئے

حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیےنار سے بچنے کی صورت کیجیے اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے اُن کے حُسنِ با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوانو! کچھ تو ہمّت کیجیے پھیر دیجے پنجۂ دیوِ لعیں مصطفیٰ کے بل پہ طاقت کیجیے ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آبِ کوثر کی سباحت کیجیے یادِ قامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے اُن کے در پر بیٹھیے بن کر فقیر بے نواؤ! فکرِ ثروت کیجیے جس کا حُسن اللہ ک...

دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے

دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیےملحدوں کی کیا مروّت کیجیے ذکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجیے مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکرِ آیاتِ ولادت کیجیے غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل ’’یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ کی کثرت کیجیے کیجیے چرچا اُنھیں کا صبح و شام جانِ کافر پر قیامت کیجیے آپ درگاہِ خُدا میں ہیں وجیہ ہاں شفاعت بالوجاہت کیجیے حق تمھیں فرما چکا اپنا حبیب اب شفاعت بالمحبّت کیجیے اِذن کب کا مل چکا اب تو حضور ہم غ...

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے نا شکر! یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے کس خاکِ پاک کی تو بنی خاکِ پا شفاتجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے آبِ حیاتِ روح ہے زرقا کی بوند بوند اکسیرِ اعظمِ مسِ دل خاکِ در کی ہے ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے وہ دیکھو جگمگاتی ہے ...

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے ہم گردِ کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گےمجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے ڈوبا ہوا ہے شوق م...