حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ
اسمِ گرامی: آپ کا اسم گرامی علی بن احمد۔ کنیت: ابوالحسن ہے۔
تاریخِ ولادت:ابو الحسن خرقانی علیہ الرحمہ کی ولادت 352ھ/ 963ء میں ہوئی۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے وفات کے بعد عالمِ روحانیت میں ان سے بیعت ہوئے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔
سیرت وخصائص: حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ مشائخ کے سردار، اوتاد و ابدال کے قطب اور اہل طریقت و حقیقت کے پیشوا تھے ۔توحید و معرفت میں کمال کے درجہ پر فائز تھے۔ اُن کے شب و روز ریاضت و مجاہدہ اور حضور و مشاہدہ میں گزرتے تھے۔ آپ کے زہد و عبادت، تقویٰ و پرہیزگاری اور سلوک ومعرفت کے پیش نظر ہی حضرت شیخ ابوالعباس قصاب رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ: ہمارے بعد ہمارا بازار ابوالحسن خرقانی سنبھالیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ :میں جب خرقان کی حدود میں داخل ہوا تو حضرت ابوالحسن خرقانی کی دہشت سے میری فصاحت و بلاغت جاتی رہی، میں نے خیال کیا کہ میں اپنی ولایت سے معزول ہوگیا۔ اوائل زندگی میں آپ کا یہ معمول تھا کہ نمازِ عشاء باجماعت خرقان میں ادا کرکے حضرت بایزید رحمہ اللہ کے مزار مقدس بُسطام کی زیارت کے لیے روانہ ہوجاتے، وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے: ’’خدایا! جو خلعت تو نے بایزید رحمہ اللہ کو عطا کی ہے وہ ابوالحسن کو بھی عطا فرما‘‘۔ پھر زیارت سے فارغ ہوکر خرقان واپس ہوتے اورتمام راستے میں اپنے شیخ کے مزار مبارک کی طرف پیٹھ نہ کرے اور نمازِ فجر عشاء کے وضو کے ساتھ خرقان میں ادا کرتے، بارہ برس کی مسلسل حاضری اور دعاؤں کے بعد مزار مبارک سے آواز آئی: اے ابوالحسن رحمہ اللہ! اب تمہارے بیٹھنے کا وقت آگیا ہے، یہ سن کر عرض کیا کہ میں اَن پڑھ ہوں، رموز شریعت سے چنداں واقف نہیں، آواز آئی کہ تم نے جو کچھ خدا سے مانگا وہ تمہیں مل گیا۔ فاتحہ شروع کیجیے جب آپ خرقان واپس پہنچے تو قرآن مجید ختم کرلیا اور علوم ظاہری و باطنی آپ پر منکشف ہوگئے۔ روایت ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ ہر سال ایک مرتبہ دہستان میں شہیدوں کی قبروں کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ جب موضع خرقان سے گزرتے تو ٹھہرجاتے اور اس طرح سے سانس لیتے جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے۔ مریدوں نے پوچھا کہ آپ کس چیز کی بوسونگھتے ہیں ہم کو تو کچھ محسوس نہیں ہوتا، آپ نے ارشاد کیا کہ چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں کے اس گاؤں سے ایک مردِ خدا کی خوشبو آتی ہے جس کا نام علی رحمہ اللہ اور کنیت ابوالحسن ہے۔ اس میں تین باتیں مجھ سے زیادہ ہوں گی وہ اہل و عیال کا بوجھ اٹھائے گا، کھیتی باڑی کرے گا اور درخت لگایا کرے گا۔ آپ زہد و تقویٰ اور پابندیٔ شریعتِ مطہرہ کے معاملہ میں عبقریٔ عصر اور نابغۂ روزگار تھے۔ چالیس سال تک آپ نے سر تکیہ پر نہیں رکھا اور صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔
تاریخِ وصال:10محرم الحرام 425ھ/بمطابق دسمبر 1033ء کو آپ کا وصال ہو۔اور خرقان میں آخری آرام گاہ بنی, جو آج تک مرجعِ خاص و عام ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا: جو شخص میرے مزار پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگے گا وہ قبول ہوجائے گی اور یہ بات بارہا تجربہ میں آچکی ہے ۔
ماخذ ومراجع: تاریخِ مشائخ نقشبند۔
//php } ?>