حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی
حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ
خرقان (۳۵۲ھ/ ۹۶۳ء۔۔۔ ۴۲۵ھ/ ۱۰۳۳ء) خرقان (ایران)
قطعۂ تاریخِ وصال
ہیں شیخِ خرقانی و ہمیرِ بزمِ اولیاء |
|
شاداب جن کے دم سے ہے اسلام کا چمن |
(صاؔبر براری، کراچی)
آپ کا اسم گرامی علی بن احمد اور کنیت ابوالحسن ہے۔ طریقت میں بطریقِ اویسیت حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کی روحانی تربیت ہوئی کیونکہ آپ کی ولادت حضرت بایزید کی وفات کے بعد ۳۵۲ھ/ ۹۶۳ء میں ہوئی۔
آپ مشائخ کے سردار، اوتاد و ابدال کے قطب اور اہل طریقت و حقیقت کے پیشوا تھے توحید و معرفت میں کمال کے درجہ پر فائز تھے۔ اُن کے شب و روز ریاضت و مجاہدہ اور حضور و مشاہدہ میں گزرتے تھے۔ آپ کے زہد و عبادت، تقویٰ و پرہیزگاری اور سلوک ع مرفت کے پیش نظر ہی حضرت شیخ ابوالعباس قصاب رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے بعد ہمارا بازار ابوالحسن خرقانی سنبھالیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت استاد ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں جب خرقان کی حدود میں داخل ہوا تو حضرت ابوالحسن خرقانی کی دہشت سے میری فصاحت و بلاغت جاتی رہی، میں نے خیال کیا کہ میں اپنی ولایت سے معزول ہوگیا۔
اوائل زندگی میں آپ کا یہ معمول تھا کہ نمازِ عشاء باجماعت خرقان میں ادا کرکے حضرت بایزید رحمہ اللہ کے مزار مقدس بُسطام کی زیارت کے لیے روانہ ہوجاتے، وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے:
’’خدایا! جو خلعت تو نے بایزید رحمہ اللہ کو عطا کیا ہے وہ ابوالحسن کو بھی عطا فرما‘‘۔
پھر زیارت سے فارغ ہوکر خرقان واپس ہوتے اورتمام راستے میں اپنے شیخ کے مزار مبارک کی طرف پیٹھ نہ کرے اور نمازِ فجر عشاء کے وضو کے ساتھ خرقان میں ادا کرتے، بارہ برس کی مسلسل حاضری اور دعاؤں کے بعد مزار مبارک سے آواز آئی، اے ابوالحسن رحمہ اللہ! اب تمہارے بیٹھنے کا وقت آگیا ہے یہ سن کر عرض کیا کہ میں اَن پڑھ ہوں، رموز شریعت سے چنداں واقف نہیں، آواز آئی کہ تم نے جو کچھ خدا سے مانگا وہ تمہیں مل گیا۔ فاتحہ شروع کیجیے جب آپ خرقان واپس پہنچے تو قرآن مجید ختم کرلیا اور علوم ظاہری و باطنی آپ پر منکشف ہوگئے۔
ایک روز آپ بہت سے درویشوں کے ساتھ خانقاہ میں تشریف فرما تھے اور سات دن سے فاقہ گزار رہے تھے۔ ایک شخص آٹے کی بوری اور ایک بکری لے کر حاضر ہوا اور آواز دی کہ میں یہ صوفیوں کے لیے لایا ہوں۔ آپ نے درویشوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو صوفی ہو لے لے، مجھ میں تو جرآت نہیں ہے کہ تصوّف کا دعویٰ کروں، یہ سُن کر کسی نے بھی نہ لیا اور وہ شخص واپس لے گیا۔
روایت ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ ہر سال ایک مرتبہ دہستان میں شہیدوں کی قبروں کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ جب موضع خرقان سے گزرتے تو ٹھہرجاتے اور اس طرح سے سانس لیتے جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے۔ مریدوں نے پوچھا کہ آپ کس چیز کی بوسونگھتے ہیں ہم کو تو کچھ محسوس نہیں ہوتا، آپ نے ارشاد کیا کہ چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں کے اس گاؤں سے ایک مردِ خدا کی خوشبو آتی ہے جس کا نام علی رحمہ اللہ اور کنیت ابوالحسن ہے۔ اس میں تین باتیں مجھ سے زیادہ ہوں گی وہ اہل و عیال کا بوجھ اٹھائے گا، کھیتی باڑی کرے گا اور درخت لگایا کرے گا۔
آپ زہد و تقویٰ اور پابندیٔ شریعتِ مطہرہ کے معاملہ میں عبقریٔ عصر اور نابغۂ روزگار تھے۔ چالیس سال تک آپ نے سر تکیہ پر نہیں رکھا اور صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی۔ ایک دفعہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے اپنا خرقہ پہنائیں۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے مجھے ایک مسئلہ کا جواب دو کہ اگر عورت مرد کے کپڑے پہن لے تو کیا وہ مرد بن جائے گی، اُس شخص نے کہا کہ کہ نہیں فرمایا کہ پھر خرقہ سے کیا فائدہ، اگر تو مرد نہیں ہے تو خرقہ پہننے سے مرد نہیں ہوسکتا۔
ایک شخص نے عرض کیا کہ آپ مجھے اجازت بخشیں کہ میں لوگوں کو خدا کی طرف آنے کی دعوت دوں، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا، خبردار کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی طرف دعوت دینے لگ جاؤ، اُس نے عرض کیا کہ اپنی طرف دعوت کیسی ہوتی ہے؟ فرمایا: اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی اور شخص بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دے اور تجھے ناگوار گزرے تو یہ اپنی طرف دعوت دینے کی نشانی ہے۔
ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ آپ اُس وقت گھر پر تشریف فرما نہیں تھے۔ اُس نے آواز دی تو آپ کی بیوی نے جواب دیا کہ اُس زندیق اور کذّاب سے تجھے کیا غرض ہے۔ پھر اس کے علاوہ بے شمار نازیبا کلمات کہے۔ اس شخص کے دل میں خیال آیا کہ جس شخص کی بیوی منکر ہے وہ کیسے باوقار، باخدا اور باکرامت ہوسکتا ہے۔ خیر آپ کی تلاش میں جنگل کو نکل گیا، کیا دیکھتا ہے کہ آپ ایک شیر پر لکڑیوں کا گٹھا رکھ کر چلے آ رہے ہیں، عرض کیا کہ معاملہ سمجھ سے باہر ہے گھر کا وہ حال اور باہر کا یہ حال۔ آپ نے ارشاد کیا کہ جب تک میں ایسی بکری (یعنی بیوی) کا بوجھ برداشت نہیں کروں گا تو شیر میرا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔
آپ کی کرامات بے حد و حساب ہیں۔ ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ آپ کی عظمت و سطوت کا اندازہ ہوسکے۔
۱۔ سلطان محمود غزنوی آپ کی زیارت کے ارادہ سے خرقان پہنچا۔ ایک شخص کی زبانی آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ سلطان آپ کی زیارت کے لیے غزنی سے آیا ہے۔ اگر آپ خانقاہ سے باہر تشریف لاکر سلطان کی بارگاہ میں قدم رنجہ فرمائیں تو آپ کی عنایت سے کچھ بعید نہ ہوگا اور قاصد سے کہہ دیا کہ اگر شیخ انکار کردیں تو ان کے سامنے یہ آیت پڑھ دینا۔
یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْ اللہَ وَاَطِیْعُوْ الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْکُمْ (نساء، ع۸)
’’اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اُن کا جو اختیار والے ہیں تم میں سے‘‘۔
قاصد نے جب آپ کو پیغام دیا تو آپ نے انکار فرمایا، اس پر قاصد نے مذکورہ بالا آیت پڑھ کر سنائی۔ شیخ نے جواب دیا کہ مجھے معذور رکھیے، محمود سے کہہ دیجیے کہ میں اطیعواللہ میں ایسا غرق ہوں کہ اطیعو الرسول [۱] سے بھی شرمندہ ہوں۔ اولی امر تو ایک طرف رہا۔ جب قاصد نے سلطان محمود سے یہ جواب عرض کیا تو آبدیدہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ آؤ ہم خود اُس کی بارگاہ میں جبین عقیدت جھکائیں۔ یہ مرد خدا ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہم نے خیال کیا تھا۔ اپنا شاہی لباس اپنے غلام ایاز کو پہنایا اور خود ایاز کے کپڑے پہن لیے۔ دس لونڈیوں کو غلاموں کا لباس پہنا کر آپ کے امتحان کی غرض سے خانقاہ شریف کا رخ کیا۔ سب نے حاضر ہوکر سلام عرض کیا تو آپ نے سلام کا جواب دیا مگر تعظیم کے لیے نہ اُٹھے پھر آپ نے سلطان کی طرف توجہ کی اور ایاز کی طرف مطلق نگاہ کی۔ سلطان محمود نے عرض کیا کہ آپ سلطان کی تعظیم کے لیے نہیں اُٹھے۔ آپ نے ارشاد کیا کہ یہ سب کچھ جال ہے۔ محمود نے کہا ہاں جال ہے مرگ اس کا پرندہ آپ نہیں ہیں۔ پھر آپ نے محمود کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، آگے آؤ، تم مقدم ہو پس سلطان محمود بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے، آپ نے فرمایا کہ نا محرموں کو نکال دو محمود نے اشارہ کیا اور وہ لونڈیاں باہر چلی گئیں پھر عرض کیا کہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی حکایت ارشاد فرمائیے، آپ نے فرمایا سنو کہ انہوں نے فرمایا ہے جس نے مجھے دیکھا وہ بدبختی سے محفوظ ہوگیا۔ محمود نے کہا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ تو بایزید سے زیادہ تھا۔ پھر ابوجہل اور ابولہب جنہوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کیوں شقی رہے۔ آپ نے ارشاد کیا، اے محمود! ادب کو ملحوظ رکھ اور اپنی بساط سے باہر پاؤں مت رکھ۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے صحابہ کرام کے کسی نے نہیں دیکھا اس کی دلیل قرآن حکیم میں یوں ہے:
وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (اعراف۔ ع ۲۴)
’’اور تو اُن کو دیکھتا ہے کہ وہ چشم ظاہر سے تیری طرف دیکھتے ہیں حالانکہ چشم بصیرت سے تجھے نہیں دیکھتے‘‘۔
[۱۔حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ (ابوالحسن خرقانی) نے حق سبحانہ کی اطاعت کو اس کے رسول کی اطاعت کے مغائر جانا۔ یہ بات استقامت سے دور ہے۔ مستقیم الاحوال مشائخ اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور شریعت و طریقت و حقیقت کے تمام راتب میں حق سبحانہ کی اطاعت کو اس کے رسول کی اطاعت میں جانتے ہیں اور حق سبحانہ کی اطاعت کو جو اس کے رسول علیہ السلام کی اطاعت کے مغائر ہو عین گمراہی خیال کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ کا یہ کلام حالت سکر و غلبۂ حال میں صادر ہوا ہے ورنہ اطاعت رسول عین اطاعت حق سبحانہ ہے۔ (مکتوب شریف دفتر اول مکتوب ۱۵۲)]
’’محمود! ابوجہل اور ابولہب نے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم ظاہر سے دیکھا جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے چشم باطن سے دیکھا۔ ابوجہل اور ابولہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یتیم کی حیثیت سے دیکھا جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے دیکھا‘‘ یہ بات محمود کے دل کو بہت اچھی لگی اور عرض کرنے لگا کہ مجھے نصیحت فرمائیے، آپ نے فرمایا کہ چار چیزوں کو اختیار کیجیے۔ پرہیزگاری، نماز باجماعت، سخاوت، خلقِ خدا پر شفقت۔
سلطان محمود نے التجا کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں، آپ نے ارشاد کیا کہ میں پانچوں وقت دعا کرتا ہوں اللھم اغفر للمومنین والمؤمنات (یا اللہ! مومنین و مومنات کے گناہ بخش دے) سلطان نے کہا کہ خاص دعا فرمائیے، فرمایا: اے محمود! تیری عاقبت محمود ہو۔ اس کے بعد سلطان نے اشرفیوں کی تھیلی پیش کی۔ آپ نے جَو کی ایک روٹی اُس کے آگے رکھ کر فرمایا کہ اسے کھائیے۔ سلطان چباتا تھا مگر حلق سے نیچے نہ اترتی تھی، آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارا گلہ پکڑتی ہے۔ محمود نے کہا ہاں، فرمایا: تمہاری اشرفیوں کی تھیلی بھی اسی طرح میرا گلہ پکڑتی ہے اسے لے جاؤ۔ سلطان نے عرض کیا کہ مجھے اپنی کوئی یادگار مرحمت فرمائیے، آپ نے اپنا پیراہن عطا فرمایا، جب محمود واپس آنے لگا تو آپ اُس کی تعظیم کو اُٹھے۔ سلطان نے کہا کہ جب میں آیا تھا آپ نے کچھ التفات نہ کی اور اب تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں، فرمایا اُس وقت تو بادشاہی رعونت اور امتحان کی نخوت میں آیا تھا اور اب تو عاجزی و انکساری کا مجسمہ بن کر جا رہا ہے لہٰذا میں تب تیری بادشاہی کے لیے نہ اُٹھا اور اب تیری درویشی کے لیے کھڑا ہوگیا، غرض سلطان وہاں سے چلا آیا اور جب سومنات کے مندر کو فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کی اور شکست کا خطرہ پیدا ہونے لگا تو اضطراب و بیقراری کی حالت میں گوشۂ تنہائی میں آپ کے پیراہن کو ہاتھ میں لے کر اور پیشانی زمین پر رگڑ کر یوں دعا کی:
الٰہی بآبروئے ایں خرقہ را بریں کفار ظفر وہ کہ از نیجا غنیمت بگیرم بدر و یشاں بدہم۔
’’خداوند! اس خرقہ کے طفیل اور صدقے مجھے ان کافروں پر فتح دے۔ یہاں سے جو مالِ غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب کا سب درویشوں، محتاجوں اور حاجت مندوں کو دے دوں گا‘‘۔
اچانک لشکرِ کفار کی طرف سے رعد و ظلمت (آسمانی بجلی کی کڑک اور تاریکی) اس شدت سے نمودار ہوئی کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ہی تہ تیغ کیا اور باقی ماندہ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ اس طرح اعلامی لشکر کو فتح و نصرت نصیب ہوئی۔ اُسی رات محمود نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شیخ فرما رہے ہیں، اے محمود! تو نے ہمارے پیراہن کی قدر نہ کی، اگر تو اس وقت خدا تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمام کفار مسلمان ہوجائیں تو سب مسلمان ہوجاتے۔
۲۔ ایک روز حضرت شیخ عبداللہ داستانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اُس وقت آپ کے آگے ایک تھال پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ شیخ موصوف نے تھال میں ہاتھ ڈال کر ایک زندہ مچھلی نکال کر آپ کے سامنے رکھ دی، آپ نے نظر کی تو سامنے ایک گرم تنور نظر پڑا، آپ نے اس میں ہاتھ ڈال کر زندہ مچھلی نکال لی اور فرمایا کہ پانی میں سے زندہ مچھلی کا نکالنا آسان کام ہے مزا تو جب ہے کہ آگ سے نکالی جائے، شیخ نے کہا آؤ ہم دونوں اس تنور میں کود پڑیں پھر دیکھیں کہ کون زندہ نکلتا ہے، آپ نے فرمایا اے عبداللہ! آ ہم اپنی نیستی میں چلے جائیں اور پھر دیکھیں کہ اس کی ہستی کے ساتھ کون نکلتا ہے، شیخ نے اس پر خاموشی اختیار کرلی۔
۳۔ آپ کے ایک مرید نے درخواست کی کہ مجھے کوہِ بسنان میں جاکر قطب عالم کی زیارت کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں، آپ نے اجازت دے دی، جب وہ مرید سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے لبنان پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہت سے لوگ ایک جنازہ سامنے رکھے قبلہ رو بیٹھے ہیں، مرید نے پوچھا کہ نمازِ جنازہ کیوں نہیں پڑھتے، انہوں نے کہا کہ قطبِ عالم کا انتظار ہے، وہ ہر روز یہاں پانچوں وقت کی امامت کرتے ہیں۔ یہ سن کر مرید خوشد ہوا کہ اب زیارت ہوجائے گی، قطبِ عالم تشریف لائے اور امام بن کر نمازِ جنازہ ادا کی۔ مرید پر دہشت طاری ہوگئی اور بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو لوگ مردہ کو دفنا چکے تھے اور قطب عالم تشریف لے جاچکے تھے، مرید نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا جو قطبِ عالم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حضرت ابوالحسن خرقانی ہیں۔ مرید نے پھر پوچھا کہ اب کب تشریف لائیں گے؟ لوگوں نے بتایا کہ اب دوسری نماز کے وقت جلوہ افروز ہوں گے۔ اس پر مرید رونے لگا اور کہا کہ میں اُن کا مرید ہوں، مجھے معلوم نہ تھا کہ قطبِ عالم وہی ہیں ورنہ یہ دور دراز کا سفر اختیار نہ کرتا۔ تم میری سفارش کرنا کہ وہ مجھے خرقان لے چلیں جب نماز کا وقت آیا، آپ تشریف لائے، امامت فرمائی اور جب سلام پھیرا تو مریدنے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ میں پشیمان و شرمسار ہوں، خدارا مجھے بھی خرقان لے چلیں آپ نے فرمایا کہ تجھے اس شرط پر خرقان لے چلتا ہوں کہ جو کچھ تو نے دیکھا ہے کسی پر ظاہر نہ کرے کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ اس جہان میں مجھے خلقت سے پوشیدہ رکھے چنانچہ مجھے سوائے بایزید بسطامی کے کسی مخلوق نے نہیں دیکھا۔
۴۔ آپ سماع بالکل نہیں سنتے تھے لیکن جب شیخ ابوسعید آپ کی زیارت کے لیے آئے تو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اجازت طلب کی کہ قوال کچھ گائیں، آپ نے فرمایا کہ ہمیں سماع کی بالکل رغبت نہیں ہے مگر آپ کی موافقت اور دل جوئی کے لیے سن لیتے ہیں۔ قوالوں نے ایک شعر پڑھا تو شیخ ابوسعید نے کہا اے شیخ اب وقت ہے کہ آپ اٹھیں، آپ اُٹھے اور اپنی آستین کو تین بار حرکت دی اور سات مرتبہ قدم مبارک زمین پر مارا۔ خانقاہ کی تمام دیواریں آپ کی موافقت میں ہلنے لگیں۔ شیخ ابوسعید نے کہا: اے شیخ! اب بس کیجیے ورنہ خانقاہ کی تمام دیواریں خراب ہوجائیں گی اور قسم ہے خداوندِ ذوالجلال کی عزت کی کہ زمین و آسمان بھی آپ کی موافقت میں رقص کرنے لگیں گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا اے ابوسعید! سماع اس شخص کے لیے جائز ہے جس کی نظر اور پر عرشِ معلیٰ تک اور نیچے تحت الثریٰ تک ہو اور پھر اپنے مریدوں سے ارشاد کیا کہ اگر تم سے کوئی دریافت کرے کہ رقص کیوں کرتے ہو تو یہ جواب دینا کہ ان لوگوں کو موافقت میں جو ہو گزرے ہیں اور وہ ایسے ہوا کرتے ہیں۔
۵۔ ایک دفعہ حضرت شیخ ابوسعید رحمہ اللہ آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُس وقت آپ کے ہاں جو کی چند روٹیاں موجود تھیں جو آپ کی بیوی نے خود پکائی تھیں۔ لوگوں کا خاصا اجتماع تھا آپ نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ ان روٹیوں پر چادر ڈال دو اور جتنی روٹیاں چاہو نکال نکال کر باہر بھیجتی رہو۔ بیوی نے ایسا ہی کیا، خادم روٹیاں لاتا رہا اور لوگ ذوق و شوق سے کھاتے رہے مگر وہ روٹیاں جو کی توں باقی بچی رہیں۔ مگر جب آپ کی بیوی نے چادر اٹھادی تو کوئی روٹی باقی نہ رہی، آپ نے بیوی سے کہا کہ تو نے غلطی کی اگر تو چادر نہ اٹھاتی تو قیامت تک اسی طرح اس چادر کے نیچے سے روٹیاں نکلتی رہتیں اور خلقِ خدا کی کھاتی رہتی۔
۶۔ شیخ بو علی سینا آپ کی شہرت سے متاثر ہوکر آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے، جب آپ کے دولت خانہ پر پہنچے تو آپ ایندھن لانے کے لیے جنگل کی طرف گئے ہوئے تھے، آپ کی بیوی سے پوچھا کہ کب واپس تشریف لائیں گے۔ بیوی نے جواب دیا کہ تم کو ایسے زندیق کذاب سے کیا کام ہے، اور بہت کچھ نازیبا اور غیر شائستہ باتیں کہیں۔ بو علی سینا کے دل میں خیال آیا جس کی بیوی ہی منکر ہے اس کا کیا حال ہوگا۔ پھر آپ کی زیارت کے لیے جنگل کی راہ لی۔ ناگاہ دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور در منہ (جوہری جوائن کی گھاس) کا گٹھا شیر پر لدا ہوا ہے۔ بو علی نے حیران ہوکر دریافت کیا کہ یا شیخ! یہ کیا حالت ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں ایسے بھیڑیے (یعنی بیوی کی بد زبانی) کا بوجھ نہ اٹھاؤں تو شیر میرا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔
جب دولت خانہ پر واپس آئے تو بو علی بیٹھ گئے اور آپس میں بہت سی باتیں ہوئیں، آپ نے دیوار بنانے کے لیے گاراتیار کیا ہوا تھا، فرمانے لگے میں نے دیوار بنانی ہے لہٰذا معذور سمجھیے۔ یہ فرماکر دیوار بنانے لگے۔ اچانک تیشہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑا، بو علی سینا نے اٹھاکر پکڑانا چاہا مگر اُس سے قبل ہی تیشہ آپ کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر بو علی سینا کے دل میں آپ کی عقیدت و محبت مزید مستحکم ہوگئی۔
آپ کی وفات مبارک کا وقت قریب آیا تو وصیت فرمائی کہ میری قبر تیس گز گہری کھودنا تاکہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے اونچی نہ رہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اس کی وجہ یہ فرمائی کہ خرقان کی نسبت بسطام شہر پستی میں واقع تھا۔ اگر آپ کی قبر اونچی رہتی تو یہ ترکِ ادب ہوتا کہ پیر کی قبر نیچے اور مرید کی قبر بلند۔ ۱۰؍محرم ۴۲۵ھ/ ۱۰۳۳ء کو آپ کا وصال ہوا اور خرقان میں آخری آرام گاہ بنی جو آج تک مرجع خاص و عام ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص میرے مزار پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگے گا وہ قبول ہوجائے گی اور یہ بات بارہا تجربہ میں آچکی ہے ۔ حکیم الامّت اقبال رحمہ اللہ نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا ؎
کیمیا پیدا کن زمشتِ گلے |
|
بوسہ زَن بر آستانۂ کاملے |
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ ایک دن آپ نے اپنے مریدوں سے پوچھا کہ کون سی چیز بہتر ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا شیخ! آپ ہماری نسبت زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’وہ دل بہتر ہے جس میں خدا کی یاد ہو‘‘۔
۲۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ صوفی کی کیا تعریف ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’صوفی وہ نہیں ہوتا جس کے پاس گدڑی اور جانماز ہو اور رسوم و عادات صوفیوں جیسی رکھتا ہو بلکہ صوفی وہ ہوتا ہے جو نیست (فناہ، معدوم) ہو اور صوفی اُس دن ہوتا (بنتا) ہے جب اُس کو آفتاب کی حاجت نہ ہو اور اُس رات ہوتا ہے جب اُسے چاند اور ستاروں کی محتاجی نہ ہو اور ایسا نیست ہوتا ہے کہ ہستی کی حاجت نہ ہو۔
۳۔ آپ سے پوچھا گیا کہ صدق کیا چیز ہے، فرمایا: صدق یہ ہے کہ دل سے بات کہے یعنی وہ بات کہے جو اس کے دل میں ہو (حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اسی مضمون کو یوں ادا کیا ہے:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق |
|
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق |
(قصوری)
۴۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ مردکس چیز سے اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ جاگتا ہے، فرمایا اس بات سے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے تو سر سے قدم تک اس کا تمام جسم یادِ الٰہی سے باخبر ہو۔
۵۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اخلاص کس چیز کا نام ہے، فرمایا: جو کچھ تو خدا کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے وہ اخلاص ہے اور جو کچھ لوگوں کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے وہ ریا ہے۔
۶۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ فنا، بقا میں کلام کرنے کا حق کس کا ہے، فرمایا: اُس شخص کا کہ جو ایک تار سے آسمان سے لٹکتا ہو اور ایسی تیز آندھی چلے کہ درختوں، عمارتوں اور ہر چیز کو تہہ و بالا کر دے تمام پہاڑوں کو اکھیڑ دے اور تمام دریاؤں، صحراؤں اور سمندروں کو اُلٹ دے مگر اس کو اپنی جگہ سے نہ ہلاسکے۔
۷۔ اُس شخص کے ساتھ ہرگز صحبت نہ رکھو جس کے سامنے تم خدا کا ذکر کرو اور وہ کچھ اور کہے۔
۸۔ غم و اندوہ کی طلب کر یہاں تک کہ تیری آنکھ سے آنسو نکل پڑیں کیونکہ اللہ تعالیٰ رونے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۹۔ اگر کوئی شخص راگ گائے اور اس کی وساطت سے خدا کو طلب کرے وہ اس شخص سے بہتر ہے جو قرآن پڑھے اور اُس کے ذریعے سے خدا کو طلب نہ کرے۔
۱۰۔ حضور سیّد عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث وہ شخص ہے جو آپ کے قول و فعل کی پیروی کرے نہ کہ وہ شخص جو کاغذ کو سیاہ کرے۔
۱۱۔ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں اس پر آپ نے فرمایا یہ بھی طلب ہے۔
۱۲۔ آج چالیس سال ہوگئے ہیں کہ میں ایک ہی حالت میں ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے دل کو دیکھتا ہے اور اپنے سوا کسی اور کو نہیں پاتا، مجھ میں غیراللہ کے لیے کوئی شے باقی نہیں رہی اور نہ ہی میرے سینہ میں غیر کے لیے قرار رہا ہے۔
۱۳۔ دنیا میں عالم و عابد بہت ہیں لیکن تجھے ایسا ہونا چاہیے کہ تو صبح سے شام اور شام سے صبح اس طرح کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔
۱۴۔ چالیس سال سے میرا نفس ٹھنڈے پانی یا کھٹی چاچھ (کھٹی لسی) کا ایک گھونٹ طلب کرتا ہے مگر اب تک میں نے اُس کو نہیں دیا۔
۱۵۔ دلوں میں سب سے روشن دل وہ ہے کہ جس میں مخلوق نہ ہو اور کاموں میں سب سے اچھا کام وہ ہے جس میں مخلوق کا ڈر نہ ہو اور نعمتوں میں سب سے حلال وہ نعمت ہے جو تیری کوشش اور ہمت سے ہو اور رفیقوں میں سب سے اچھا وہ رفیق ہے جس کی زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے بسر ہو۔
۱۶۔ مجھے تین چیزوں کی غایت (انتہا) معلوم نہیں ہوئی۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات، نفس کا مکر، معرفت۔
۱۷۔ میں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز سنی ، میرے بندے! اگر تو غم کے ساتھ میرے سامنے آئے گا تو تجھے خوش کروں گا۔ اگر حاجت و فقر کے ساتھ آئے گا تو تجھے تونگر (امیر) کردوں گا اور جب تو اپنے آپ سے بالکل دست بردار ہوجائے گا تو پانی اور ہوا کو تیرے مطیع کروں گا۔
۱۸۔ میں نے پایا دو چیزوں کو دو چیزوں میں، عافیت تنہائی میں اور سلامتی خاموشی میں۔
۱۹۔ تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں مگر مرد وہ ہے کہ ساٹھ سال کی عمر تک اُس کے نامۂ اعمال میں فرشتے کو کوئی ایسی بات نہ لکھنی پڑے کہ جس کے سبب اُسے اللہ تعالیٰ سے شرمندہ ہونا پڑے اور اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک لمحہ بھی فراموش نہ کرے (آپ کے اس قول میں فلسفہ یہ ہے کہ جو مسلمان ساٹھ سال کی عمر تک تقویٰ و پرہیزگاری کے سبب گناہ سے بچا رہے گا تو اُس کے بعد اُس سے گناہ سرزد ہونے کی قوت ہی سلب ہوجاتی ہے اور اس پر نیکی کی قوت غالب آجاتی ہے اور بدی کی قوت ناپید ہوجاتی ہے۔ (قصوری)
۲۰۔ تین مقام ایسے ہیں کہ جہاں پر فرشتے اولیاء اللہ سے بہت زیادہ دہشت کھاتے ہیں۔ موت کا فرشتہ اُن کی جان نکالتے وقت، کراما کاتبین اُن کے عمل لکھنے کے وقت اور منکر نکیر اُن سے سوال کے وقت۔
۲۱۔ ایک روز اللہ تعالیٰ نے مجھے آواز دی کہ جو بندہ تیری مسجد میں آئے گا دوزخ کی آگ اُس پر حرام ہوگی اور جو کوئی تیری زندگی یا تیری رحلت کے بعد تیری مسجد میں دو رکعت نماز پڑھے گا۔ قیامت کے دن عابدوں کے گروہ میں اُٹھے گا۔
۲۲۔ خدا تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جو رات کو تنگ و تاریک گھر میں سوتے ہیں اور لحاف منہ پر ہوتا ہے تو آسمان کے ستاروں اور چاند کی سیر کو دیکھتے ہیں، لوگوں کی اس اطاعت اور گناہ کو دیکھتے ہیں جو فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں اور لوگوں کے رزقوں کو دیکھتے ہیں جو آسمان سے زمین پر آتے ہیں اور اُن فرشتوں کو دیکھتے ہیں جو آسمان سے زمین پر آتے ہیں اور پھر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور آفتاب کو دیکھتے ہیں جو کہ زمین میں گزرتا ہے۔
۲۳۔ دین کو شیطان سے اتنا اندیشہ نہیں جتنا کہ دنیا پرست عالم اور بے علم زاہد سے۔
۲۴۔ بہت سے آدمی ایسے ہیں کہ زمین پر چلتے ہیں لیکن مردہ ہیں اور بہت سے آدمی ایسے ہیں کہ وہ زمین کے اندر سوتے ہیں مگر وہ زندہ ہیں (حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو کس حسین انداز میں بیان فرمایا ہے ؎
اِک جاگن اک جاگ نہ جانن اک جاگدیاں ایں ستے ہو
اِک ستیاں ایں جاواصل ہوئے جنہاں کھوہ پریم دے جتے ہو
(قصوری)
۲۵۔ کاش کہ جنت اور دوزخ کا وجود نہ ہوتا کہ یہ معلوم ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے پرستاروں کی تعداد کتنی ہے اور دوزخ سے بچنے کے لیے کتنے بندے اُس کی عبادت کرتے ہیں۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
شیخ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ
نام و کنیت:
آپ کا اسم گرامی علی بن احمد اور کنیت ابوالحسن ہے۔ سلوک میں آپ کی تربیت حضرت بایزید بسطامی کی روحانیت سے ہوئی، کیونکہ آپ کی ولادت سلطان العارفین کی وفات کے بعد ہے۔
مقام و مرتبہ:
شیخ ابوالحسن سلطان و مشائخ اور اوتاد و ابدال کے قطب اور اہل طریقت و حقیقت کے پیشوا تھے۔ معرفت و توحید میں درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے۔ ہمیشہ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول اور حضور و مشاہدہ میں مستغرق رہتے تھے۔ شیخ ابوالعباس قصاب نے فرمایا تھا کہ ہمارے بعد ہمارا بازار خرقانی سنبھالیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ استاد ابوالقاسم قشیری کا بیان ہے کہ میں جب ولایت خرقان میں داخل ہوا تو پیر خرقانی کی دہشت سے میری فصاحت و عبارت جاتی رہی۔ میں نے خیال کیا کہ میں اپنی ولایت سے معزول ہوگیا۔
عبادت و ریاضت:
ابتدا میں آپ کا یہ معمول تھا کہ عشاء کی نماز خرقان میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے۔ پھر حضرت بایزید کے مزار شریف کی زیارت کے لیے روانہ ہوجاتے۔ وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے خدایا! جو خلعت تو نے بایزید کو عطا کیا ہے وہ ابوالحسن کو بھی عنایت فرما۔ پھر زیارت سے فارغ ہوکر خرقان کو آئے تو تمام راستے میں مزار مبارک سے آواز آئی۔ اے ابوالحسن اب تمہارے بیٹھنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ سن کر عرض کیا کہ میں ان پڑھ ہوں۔ رموز شریعت سے چنداں واقف نہیں۔ آواز آئی کہ تم نے جو کچھ خدا سے مانگا وہ تمہیں مل گیا۔ فاتحہ شروع کیجیے۔ جب آپ خرقان میں پہنچے تو قرآن ختم کرلیا۔ اور علوم ظاہری و باطنی آپ پر منکشف ہوگئے۔
انکساری:
ایک روز آپ بہت سے درویشوں کے ساتھ خانقاہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور سات دن سے کچھ نہ کھایا تھا۔ ایک شخص آٹے کی بوری اور ایک بکری لے کر حاضر خدمت ہوا۔ اس نے آواز دی کہ میں یہ صوفیوں کے لیے لایا ہوں۔ آپ نے درویشوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو صوفی ہو لے لے مجھ میں تو جرأت نہیں کہ تصوف کا دعویٰ کروں۔ یہ سن کر کسی نے نہ لیا او روہ شخص واپس لے گیا۔
حضرت بایزید کی پیش گوئی:
کہتے ہیں کہ سلطان العارفین ہر سال ایک مرتبہ دبستان میں قبور شہداء کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب آپ موضع خرقان[۱] سے گزرتے تو ٹھیر جاتے اور اس طرح سے سانس لیتے جیسا کوئی کچھ سونگھتا ہے۔ مریدوں نے پوچھا کہ آپ کس چیز کی بو سونگھتے ہیں ہم کو تو یہاں کچھ خوشبو نہیں آتی۔ آپ نے فرمایا کہ اس چوروں کے گاؤں سے ایک مردِ خدا کی خوشبو آتی ہے۔ جس کا نام علی اور کنیت ابوالحسن ہے۔ اس میں تین باتیں مجھ سے زیادہ ہوں گی۔ وہ اہل و عیال کا بوجھ اٹھائے گا، کھیتی کرے گا اور درخت لگایا کرے گا۔ سلطان العارفین کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ نے اس قصہ کو اپنی مثنوی میں نہایت دلچسپ پیرایہ میں یوں نظم کیا ہے۔
[۱۔ خرقان بفح رائے مہملہ استرآباد کے راستے پر بسطام کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔ معجم البلدان للیاقوت الحموی۔]
ایں طبیبان بدن دانشورند |
|
بر مقام تو زتو واقف ترند |
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
کرامات:
۱۔ سلطان محمود غزنی سے حضرت شیخ کی زیارت کے ارادہ سے روانہ ہوا۔ جب خرقان میں پہنچا تو شیخ کو ایک شخص کی زبانی یہ پیغام بھیجا کہ سلطان آپ کی زیارت کے لیے غزنی سے آیا ہے۔ اگر آپ خانقاہ سے اس کی بارگاہ میں قدم رنجہ فرمائیں تو آپ کی عنایت سے بعید نہ ہوگا۔ اور قاصد سے کہہ دیا کہ اگر شیخ انکار کریں تو ان کے سامنے یہ آیت پڑھ دینا۔
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اَطِیْعُو اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرَ مِنْکُمْ (نساء ع۸)
اے ایمان والوں! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو اس کے رسول کا اور جو اختیار والے ہیں تم میں سے۔
قاصد نے شیخ کو یہ پیغام دیا تو شیخ نے انکار کیا، اس پر قاصد نے مذکورہ آیت پڑھ کر سنائی۔ شیخ نے جواب دیا کہ مجھے معذور رکھیے اور محمود سے کہہ دیجیے کہ میں ا طیعو اللہ میں ایسا مستغرق ہوں کہ اطیعو الرسول [۱] سے بھی شرمندہ ہوں۔ اولی الامر تو بجائے خود رہے ۔ جب قاصد نے سلطان سے یہ جواب عرض کیا تو سلطان آبدیدہ ہوا، کہنے لگا ، اٹھو چلو یہ مرد ایسا نہیں جیسا ہم نے گمان کیا ہے، پس اپنے کپڑے اپنے غلام ایاز کو پہنائے۔ اور دس لونڈیوں کو غلاموں کا لباس پہناکر خود بجائے ایاز ہوگیا۔ اور امتحان کے لیے شیخ کی خانقاہ کا قصد کیا۔ جب سب نے حاضر خدمت ہوکر سلام کہا تو شیخ نے سلام کا جواب دیا مگر تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ پھر سلطان محمود کی طرف متوجہ ہوئے اور ایاز کی طرف نگاہ نہ کی۔ محمود نے کہا کہ آپ سلطان کی تعظیم کے لیے نہیں اٹھے۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ تمام جال ہے ، محمود نے کہا ہاں جال ہے مگر اس کا پرندہ تم نہیں ہو، پھر شیخ نے محمود کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا آگے آؤ تم مقدم ہو پس سلطان محمود بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ مجھے کچھ ارشاد فرمائیے۔ شیخ نے فرمایا کہ نامحرموں کو نکال دو۔ محمود نے اشارہ کیا اور وہ لونڈیاں باہر چلی گئیں۔ بعد ازاں عرض کیا کہ مجھے بایزید کی کوئی حکایت سنائیے۔ شیخ نے فرمایا کہ بایزید نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مجھے دیکھا وہ رقم شقاوت سے محفوظ ہوگیا۔ محمود نے کہا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ تو بایزید سے زیادہ ہے۔ پھر ابوجہل و ابولہب جنہوں نے حضرت کو دیکھا کس واسطے شقی ہی رہے۔ شیخ نے فرمایا۔ اے محمود ادب کو ملحوظ رکھ اور اپنی بساط سے پاؤں باہر نہ رکھ۔ حضرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے صحابہ کرام کے کسی نے نہیں دیکھا اور اس کی دلیل باری تعالیٰ کا یہ قول ہے:
وَتَرٰھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ (اعراف، ع۲۴)
اور تو ان کو دیکھتا ہے کہ وہ چشم ظاہر سے تیری طرف دیکھتے ہیں۔ حالانکہ چشم بصیرت سے تجھے نہیں دیکھتے۔
[۱۔ اس پر حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’حضرت شیخ نے حق سبحانہ کی اطاعت کو اس کے رسول کی اطاعت کے مغائر جانا۔ یہ بات استقامت سے دور ہے۔ مستقیم الاحوال مشائخ اس قسم کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور شریعت و طریقت و حقیقت کے تمام مراتب میں حق سبحانہ کی اطاعت کو اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں جانتے ہیں۔ اور حق سبحانہ کی اطاعت کو جو اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے مغائر ہو عین گمراہی خیال کرتے ہیں‘‘۔ خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ کا یہ کلام حالت سکر و غلبہ حال میں صادر ہوا ہے۔ ورنہ اطاعت رسول ﷺعین اطاعت حق سبحانہ ہے۔ (مکتوبات۔ دفتر اول۔ مکتوب۔ ۱۵۲)۔]
یہ بات محمود کو اچھی لگی۔ عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ شیخ نے فرمایا کہ چار چیزیں اختیار کیجیے۔ اول پرہیزگاری، دوم نماز باجماعت، سوم سخاوت، چہارم خلقِ خدا پر شفقت۔ سلطان نے التجا کی کہ میرے واسطے دعا فرمائیں۔ شیخ نے فرمایا: میں پانچوں نمازوں میں دعا کرتا ہوں۔ اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات (یااللہ! مومنین و مومنات کے گناہ بخش دے)۔ سلطان نے کہا کہ خاص دعا کیجیے، فرمایا: اے محمود! تیری عاقبت محمود ہو۔ اس کے بعداس نے اشرفیوں کی تھیلی پیش کی۔ شیخ نے ایک جو کی روٹی اس کے آگے رکھ دی اور کہا کہ کھائیے۔ سلطان چباتا تھا مگر حلق سے نیچے نہ اترتی تھی ، شیخ نے فرمایا: کیا تمہارا گلا پکڑتی ہے۔ محمود نے کہا کہ ہاں، فرمایا کہ تمہاری اشرفیوں کی تھیلی اسی طرح میرا گلا پکڑتی ہے۔ اسے لے جاؤ، میں نے اسے طلاق دے دی ہے، سلطان نے کہا مجھے اپنی کوئی یادگار عطا کیجیے، شیخ نے اپنا پیراہن عطا فرمایا۔ جب محمود واپس ہوا تو شیخ اس کی تعظیم کو اٹھے۔ سلطان نے کہا کہ جس وقت میں آیا تھا آپ نے کچھ التفات نہ کی تھی۔ اور اب تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ فرمایا کہ تو بادشاہی کی رعونت اور امتحان کی نخوت میں آیا تھا اور اب انکسار درویشی میں جاتا ہے۔ اس لیے میں پہلے تیری بادشاہی کی رعونت اور امتحان کی نخوت میں آیا تھا اور اب انکسار و درویشی میں جاتا ہے۔ اس لیے میں پہلے تیری بادشاہی کے لیے نہ اٹھا اور اب تیری درویشی کے لیے کھڑا ہوگیا۔ غرض سلطان وہاں سے چلا آیا۔
سومنات کی فتح:
جب سومنات پر چڑھائی کی اور شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں ایک گوشہ میں اترا اور پیراہن شیخ کو ہاتھ میں لے کر اور پیشانی زمین پر رکھ کر یوں دعا کی:
الٰہی بآبروے ایں خرقہ مرا بریں کفار ظفر وہ کہ ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشان بدہم۔
خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقہ مجھے ان کافروں پر فتح دے۔ میں یہاں سے جو غنیمت لوں گا درویشوں کو دے دوں گا۔
ناگاہ کفار کی طرف سے رعد و ظلمت ایسی نمودار ہوئی کہ انہوں نے ایک دوسرے کو تہ تیغ کیا اور بہت سے پراگندہ ہوگئے۔ اس طرح لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ اسی رات محمود نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شیخ فرما رہے ہیں۔ اے محمود! تو نے ہمارے خرقہ کی آبرو ضائع کردی۔ اگر تو اس وقت دعا کرتا کہ تمام کفا رمسلمان ہوجائیں تو سب مسلمان ہوجاتے۔
آگ سے مچھلی نکالنا:
ایک روز شیخ المشائخ[۱] آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے آگے ایک تھال پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ شیخ المشائخ نے تھال میں ہاتھ ڈال کر ایک زندہ مچھلی نکال کر آپ کے سامنے رکھ دی۔ آپ نے نگاہ کی تو ایک گرم تنور نظر پڑا۔ آپ نے اس میں ہاتھ ڈال کر مچھلی نکال لی اور فرمایا کہ پانی میں سے زندہ مچھلی نکالنا آسان ہے۔ آگ میں سے نکالنی چاہیے۔ شیخ المشائخ نے کہا: آؤ ہم دونوں اس تنور میں کود پڑیں۔ دیکھیں کون زندہ نکل آتا ہے۔آپ نے فرمایا اے عبداللہ! آجا تا کہ ہم اپنی نیستی میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ اس کی ہستی کے ساتھ کون نکلتا ہے۔ شیخ المشائخ نے پھر کچھ نہ کہا۔
[۱۔ شیخ عبداللہ داستانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام مبارک محمد بن علی داستانی اور لقب شیخ المشائخ ہے جن کی و فات رجب ۴۱۷ھ میں ہوئی۔ دیکھو نفحات الانس۔]
قطب عالم:
نقل ہے کہ ایک مرید نے شیخ ابوالحسن سے درخواست کی کہ مجھے اجازت دیجیے کہ کوہ لبنان میں جاکر قطب عالم کی زیارت کروں۔ شیخ نے اجازت دے دی۔ جب وہ لبنان میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ بہت سے لوگ ایک جنازہ سامنے رکھے رو بقبلہ بیٹھے ہیں اور نماز جنازہ نہیں پڑھتے۔ مرید نے پوچھا کہ نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھتے، انہوں نے کہا کہ قطب عالم کی انتظار ہے۔ کیونکہ وہ ہر روز یہاں پانچوں وقت کی امامت کرتے ہیں۔ یہ سن کرمرید خوش ہوا۔ کچھ دیر کے بعد سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرید کا بیان ہے کہ میں نے شیخ کو دیکھا کہ امام بن کر نماز ادا کی۔ مجھ پر دہشت طاری ہوئی۔ جب ہوش آیا تو لوگ مردہ کو دفن کرچکے تھے اور شیخ تشریف لے جاچکے تھے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابوالحسن خرقانی، میں نے پوچھا کہ پھر کب تشریف لائیں گے؟ وہ بولے کہ نماز دیگر کے وقت آئیں گے۔ میں رو پڑا کہ میں ان کا مرید ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ قطب عالم وہی ہیں۔ ورنہ یہ دور دراز سفر نہ کرتا۔ تم میری سفارش کرنا تاکہ وہ مجھے خرقان لے جائیں۔ جب نماز کا وقت آیا میں نے دوبارہ شیخ کو دیکھا کہ امام بنے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے آپ کا دامن پکڑ لیا۔ اور عرض کیا کہ میں پشیمان ہوں مجھے بھی خرقان لے چلیں۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے اس شرط پر خرقان لے چلتا ہوں کہ جو کچھ تو نے دیکھا ہے کسی پر ظاہر نہ کرے کیو نکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ اس جہان میں مجھے خلقت سے پوشیدہ رکھے۔ چنانچہ مجھے سوائے بایزید بسطامی کے کسی مخلوق نے نہیں دیکھا۔
سماع کی کیفیت:
حضرت شیخ سماع نہ سنتے تھے۔ جب شیخ ابوسعید خرقان میں آپ کی زیارت کے لیے آئے تو کھانا کھانے کے بعد آپ سے کہا کہ اجازت ہے کہ قوال کچھ گائیں۔ آپ نے فرمایا ہمیں سماع کی پروا نہیں۔ مگر آپ کی موافقت سے سن لیتے ہیں۔ پس قوالوں نے ایک شعر پڑھا ابوسعید نے کہا اے شیخ! اب وقت ہے کہ آپ اٹھیں۔ حضرت شیخ اٹھے اور تین بار آستین کو حرکت دی اور سات مرتبہ قدم زمین پر مارا خانقاہ کی تمام دیواریں آپ کی موافقت میں ہلنے لگیں۔ ابوسعید نے کہا یا شیخ! بس کیجیے کہ عمارتیں خراب ہوجائیں گی پھر کہا کہ قسم ہے خدا تعالیٰ کی عزت کی کہ آسمان و زمین آپ کی موافقت میں رقص کرنے لگیں گے۔ اس کے بعد حضرت شیخ نے فرمایا کہ سماع اس شخص کے لیے جائز ہے جو اوپر عرش تک اور نیچے تحت الثری تک سب کچھ دیکھے اور اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم سے پوچھا جائے کہ رقص کیوں کرتے ہو تو جواب دیجیو کہ ان لوگوں کی موافقت سے جو ہو گزرے ہیں اور وہ ایسے ہوا کرتے ہیں۔
روٹیوں میں برکت:
ایک روز شیخ ابوسعید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے ہاں چند جو کی روٹیاں موجود تھیں۔ جو بیوی نے پکائی تھیں آپ نے بیوی سے فرمایا کہ ان پر چادر ڈال دو اور جتنی چاہو نکالتی جاؤ، بیوی نے ایسا ہی کیا۔ لوگوں کا خاصہ مجمع ہوگیا۔ خادم روٹیاں لارہا تھا۔ مگر وہ اسی طرح باقی تھیں کہ اتنے میں بیوی نے چادر اٹھادی کوئی روٹی نہ رہی آپ نے بیوی سے کہا کہ تو نے غلطی کی اگر تو چادر نہ اٹھاتی تو قیامت تک اسی طرح اس کے نیچے سے روٹیاں نکلتی رہتیں۔
شیر کا تابعداری کرنا:
نقل ہے کہ بو علی سینا آپ کی شہرت سن کر خرقان کو آئے۔ جب آپ کے دولتخانہ پر پہنچے تو شیخ ایندھن کے لیے جنگل گئے ہوئے تھے۔ پوچھا کہ کہاں ہیں۔ بیوی نے جواب دیا کہ تم ایسے زندیق کذاب کو کیا کرو گے۔ اور بہت کچھ سخت سست کہا، بو علی کے دل میں آیا کہ جب بیوی ہی منکر ہے تو شیخ کا کیا حال ہوگا۔ پھر شیخ کی زیارت کے لیے جنگل کو چلے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ شیخ آ رہے ہیں وار در منہ [۱] کا گٹھا شیر پر لدا ہوا ہے۔ بو علی حیران ہوئے، پوچھنے لگے کہ شیخ! یہ کیا حالت ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر میں ایسے بھیڑیے (یعنی بیوی) کا بوجھ نہ اٹھاؤں تو شیر میرا بوجھ کیسے اٹھائے۔ جب دولتخانہ میں واپس آئے تو بو علی بیٹھ گئے اور آپس میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ شیخ نے دیوار بنانے کے لیے مٹی میں پانی ڈالا ہوا تھا۔ اٹھ کر فرمانے لگے کہ مجھے یہ دیوار بنانی ہے۔ معذور رکھیے۔ یہ کہہ کر دیوار بنانے لگے۔ اچانک تیشہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑا۔ بو علی نے اٹھاکر دینا چاہا مگر اٹھنے سے پہلے وہ شیخ کے ہاتھ میں پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر بو علی کو اور تصدیق ہوئی۔
[۱۔ در منہ جوہری جوائن کی گھاس کو کہتے ہیں۔]
وصال مبارک:
جب آپ کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو وصیت کی کہ میری قبر تیس گز گہری کھودنا تاکہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے اونچی نہ رہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ آپ کاوصال خرقان میں عاشورہ کے دن ۴۲۵ھ میں ہوا۔ مشہور ہے کہ آپ نے فرمایا تھا۔ جو شخص میرے مزار کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگے گا وہ قبول ہوجائے گی۔ یہ بات تجربہ میں بھی آچکی ہے۔
ارشادات عالیہ
۱۔ ایک دن آپ نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ کون سی چیز بہتر ہے؟ انہوں نے عرض کی اے شیخ آپ ہی فرمائیے، فرمایا کہ وہ دل جس میں خدا کی یاد ہو۔
۲۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ صوفی کون ہے؟ فرمایا کہ گدڑی اور جانماز سے صوفی نہیں ہوتا اور سوم و عادات سے صوفی نہیں ہوتا۔ صوفی وہ ہوتا ہے کہ نیست ہو۔ اور آپ نے ہی فرمایا ہے کہ صوفی اس دن ہوتا ہے کہ اس کو آفتاب کی حاجت نہ ہو اور اس رات ہوتا ہے کہ اس کو چاند اور ستارے کی حاجت نہ ہو۔ اور ایسا نیست ہوتا ہے کہ ہستی کی حاجت نہ ہو۔
۳۔ لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ صدق کیا چیز ہے، فرمایا: صدق یہ ہے کہ دل سے بات کہے یعنی وہ بات کہے جو اس کے دل میں ہو۔
۴۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ مرد کس چیز سے جانے کہ وہ جاگتا ہے، فرمایا اس بات سے کہ جب وہ حق کو یاد کرے تو اس کا سر سے قدم تک حق کی یاد سے خبر رکھتا ہو۔
۵۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اخلاص کیا ہے؟ فرمایا جو کچھ تو خدا کے واسطے کرتا ہے اخلاص ہے جو کچھ بندوں کے واسطے کرتا ہے ریا ہے۔
۶۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ فنا بقا میں کلام کرنے کا حق کس کا ہے۔ فرمایا کہ اس شخص کا کہ ایک تار سے آسمان سے لٹکتا ہے ایسی ہوا چلے کہ درختوں اور عمارتوں کو گرادے۔ اور تمام پہاڑوں اور تمام دریاؤں کو الٹ دے۔ مگر اس کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔
۷۔ تم ہرگز اس شخص کے ساتھ صحبت نہ رکھو کہ تم کہو خدا اور وہ کہے کچھ اور۔
۸۔ اندوہ طلب کر یہاں تک کہ تیری آنکھ سے آنسو نکل پڑیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ رونے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۹۔ کوئی شخص راگ گائے اور اس سے خدا کو طلب کرے وہ ایسے شخص سے بہتر ہے جو قرآن پڑھے اور اس سے حق کو طلب نہ کرے۔
۱۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث وہ شخص ہے جو آپ کے فعل کی پیروی کرے۔ نہ وہ شخص جو کہ کاغذ کو سیاہ کرے۔
۱۱۔ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ نہ چاہوں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی طلب ہے۔
۱۲۔ آج چالیس سال ہوئے ہیں کہ میں ایک حالت میں ہوں اور حق میرے دل کو دیکھتا ہے اور اپنے سوا کسی اور کو نہیں پاتا۔ مجھ میں غیر خدا کے لیے کوئی شے باقی نہیں رہی اور نہ میرے سینہ میں غیر کے لیے قرار رہا ہے۔
۱۳۔ عالم و عابد جہان میں بہت ہیں۔ تجھے ایسا ہونا چاہیے کہ تو صبح سے شام اس طرح کرے جیسا کہ خدا پسند کرتا ہے۔ اور رات سے صبح اس طرح کرے جیسا کہ خدا چاہتا ہے۔
۱۴۔ چالیس سال سے میرا نفس ٹھنڈے پانی کا یا کھٹی چھاچھ کا ایک گھونٹ طلب کرتا ہے مگر اب تک میں نے اسے نہیں دیا۔
۱۵۔ دلوں میں سب سے روشن دل وہ ہے کہ جس میں مخلوق نہ ہو اور کاموں میں سب سے اچھا وہ ہے کہ جس میں مخلوق کا اندیشہ نہ ہو۔ اور نعمتوں میں سب سے حلال وہ ہے جو تیری کوشش سے ہو۔ اور رفیقوں میں سب سے اچھا وہ ہے جس کی زندگانی حق کے ساتھ ہو۔
۱۶۔ مجھے تین چیزوں کی غایت معلوم نہ ہوئی۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات، نفس کا مکر، معرفت۔
۱۷۔ میں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز سنی میرے بندے! اگر تو غم کے ساتھ میرے سامنے آئے گا تو تجھے خوش کروں گا اور اگر حاجت و فقر کے ساتھ آئے گا تو میں تجھے تونگر کروں گا۔ جب تو ا پنے آپ سے بالکل دست بردار ہوجائے گا پانی و ہوا کو تیرا مطیع بنادوں گا۔
۱۸۔ میں نے عافیت تنہائی میں پائی اور سلامتی خاموشی میں۔
۱۹۔ تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن مرد وہ ہے کہ ساٹھ سال اس پر گزر جائیں مگر فرشتہ اس کے نامہ اعمال میں کوئی ایسی چیز نہ لکھے کہ جس کے سبب سے اسے حق تعالیٰ سے شرمندہ ہونا پڑے۔ اور وہ حق کو ایک لمحہ فراموش نہ کرے۔
۲۰۔ تین مقام پر فرشتے اولیاء سے زیادہ ہیبت کھاتے ہیں۔ ایک موت کا فرشتہ ان کے جان نکالنے کے وقت۔ دوسرے کراماً کاتبین ان کے عمل لکھنے کے وقت۔ تیسرے منکر نکیر ان سے سوال کے وقت۔
۲۱۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے مجھے آواز دی کہ جو بندہ تیری مسجد میں آئے گا اس کا گوشت و پوست دوزخ کی آگ پر حرام ہوگا۔ اور جو بندہ تیری زندگی میں اور تیرے مرنے کے بعد تیری مسجد میں دو رکعت نماز پڑھے گا قیامت کے دن عابدوں کے گروہ میں اٹھے گا۔
۲۲۔ خدا تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں کہ جب رات کے وقت روئے زمین پر اندھیرے گھر میں سوتے ہیں اور لحاف منہ پر ہوتا ہے تو آسمان کے ستارے اور چاند ان کی سیر کو دیکھتے ہیں اور لوگوں کی طاعت اور گناہ کو دیکھتے ہیں۔ جو فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں اور لوگوں کے رزقوں کو دیکھتے ہیں۔ جو آسمان سے زمین پر آتے ہیں۔ اور ان فرشتوں کو دیکھتے ہیں جو آسمان سے زمین پر آتے ہیں اور پھر آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ اور آفتاب کو دیکھتے ہیں جو کہ زمین میں سے گزرتا ہے۔ (نفحات الانس۔ تذکرۃ الاولیاء)
(مشائخِ نقشبندیہ)