سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: آپکا اسمِ گرامی :طیفور۔کنیت :بایزید۔لقب:سلطان العارفین۔علاقہ "بسطام "کی نسبت سے بسطامی کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:طیفور بن عیسیٰ بن شروسان بسطامی ۔
تاریخِ ولادت: آپ علیہ الرحمہ 188ھ بمطابق 804ء "خراسان "کے ایک شہر "بسطام "میں پیدا ہوئے۔بسطام ایران کا علاقہ ہے۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر کے قریبی مکتب میں حاصل کی ،بچپن ہی سے آپ کا قلبی لگاؤ تصوف کی طرف ہوگیاتھا ۔اس وقت مساجد میں تمام علوم کی مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں ۔آپ نے مختلف شہروں میں کئی شیوخ سے علمی استفادہ کیا،اور جملہ علوم میں کمال حاصل کیا۔
بیعت وخلافت:آپ کی روحانی تربیت باطنی طور پر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔
سیرت وخصائص: آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔آپ کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں :کہ جب آپ میرے پیٹ میں تھے،تو جب کبھی میں مشتبہ لقمہ کھابیٹھتی، توآپ میرے پیٹ میں تڑپنا شروع کردیتے۔ جب تک قے نہ کرتی اور وہ لقمہ دور نہ ہوجاتا آپ آرام نہ کرتے۔سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بایزید ہماری جماعت(جماعتِ صوفیاء) میں ایسے ہیں جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں، دیگر سالکین کےمقام کی نہایت بایزید کے مقام کی بدایت ہے۔ ایک دفعہ آپ حج کے لیے روانہ ہوئے اور بارہ سال میں کعبہ میں پہنچے۔ راستے میں چند قدم چلتے اور جا ئے نماز بچھا کر دو رکعت نماز پڑھتے، فرما تے کہ یہ دنیا کے بادشاہوں کا دربار نہیں کہ یکبارگی وہاں پہنچ سکیں۔ اس دفعہ آپ حج سے فارغ ہوکر واپس آگئے اور مدینہ منورہ میں حاضر نہ ہوئے۔ فرمایا کہ زیارتِ روضہ منورہ کو حج کے تابع بنانا خلاف ادب ہے۔ اس لیے آیندہ سال آپ نے روضہ منورہ کی زیارت کے لیے علیحدہ احرام باندھا۔شیخ ابوسعید ابوالخیر آپ کی زیارت کیلئے آئے تو فرمانے لگے: یہ وہ جگہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوئی ہو وہ یہاں ڈھونڈے۔
ریاضت و مجاہدہ: آپ بسطام سے نکلے اور تیس سال تک بادیۂ شام میں ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ سخت سے سخت مجاہدہ کون سا ہے؟ جو آپ نے راہِ خدا میں کیا ہے، فرمایا کہ اس کا بیان ممکن نہیں، اس نے عرض کیا کہ آسان سے آسان تکلیف تو بتادیجیے جو آپ کے نفس نے اٹھائی ہے، فرمایا ہاں یہ تو سن لو، ایک دفعہ میں نے اپنے نفس کو کسی طاعت کی طرف بلایا اس نے میرا کہا نہ مانا، اس پر میں نے اسے ایک سال پیاسا رکھا۔(اسیطرح حضرت غوث الاعظم وخواجہ غریب نواز ودیگر مشائخ علیہم الرحمہ طویل مشقتیں اور مجاہدے فرمایا کرتے تھے۔اس کے با وجود وہ ولایت کے دعوے نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارے زمانے میں ان کی ولایت کی دھوم مچی ہوئی ہے۔لیکن فی زمانہ حالات اس کے برعکس ہیں۔مجاہدے تو دور احکامِ اسلام اور شرعِ محمدی ﷺ کی پاسداری بھی نہیں ہے۔اگر القاب کی طرف نظر کریں !تو غوث اور قطب کے مرتبے سے کم کسی مرتبے پر راضی نہیں ہیں۔حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں:قال:إذا رأيتم الرجل قد أعطي من الكرامات حتى يرتفع في الهواء فلا تغتروا به حتى تنظروا كيف تجدونه عند الأمر والنهي، وحفظ الحدود والوقوف عند الشريعة۔
ترجمہ:اگر تم کسی شخص میں کرامات دیکھو یہاں تک کہ وہ ہوا میں اڑتا ہو۔ تو اس سے دھوکہ مت کھاؤ ۔ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ وہ امر و نہی۔ حفظ ِحدود اور آداب ِ شریعت میں کیسا ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن۔
وصال: آپ نے15شعبان 261ھ بمطابق874ء میں انتقال فرمایا۔
//php } ?>