سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ

مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی ۱۸۸۳ء بمطابق ۱۲۹۸ھ میں پیلی بھیت میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے چچا مولوی عبداللطیف سورتی سے حاصل کی اور بعد میں اپنے والدسے تمام علوم و فنون کی تکمیل کی۔ اور تیرہ برس کی عمر میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچے۔ جہاں آپ نے باقاعدہ اعلیٰ حضرت سے دورۂ حدیث کیا۔ اور اعلیٰ حضرت نے آپ کی اپنے دست مبارک سے دستار بندی کی۔ علوم دینیہ سے فراغت پانے کے بعد آپ لکھنؤ پہنچے اور اپنے والد کے استاد حکیم عبدالعزیز سے تکمیل الطب کالج میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کو اعلیٰ حضرت سے سلسلۂ قادریہ میں جازت و خلافت بھی حاصل تھی۔  جبکہ اپنے والد ماجد مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ کی طرف سے آپ حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن علیہ الرحمۃ گنج مراد آبادی کے سلسلہ میں بھی بیعت کرنے کے مجاز تھے۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد آپ نے کچھ عرصہ لکھیم پور میں طبابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر اپنے والدکے حکم پر مدرسۂ حنفیہ پٹنہ میں مدرس ہو کر چلے گئے۔ جہاں کئ سال آپ کا چشمہ علم فیض رساں جاری رہا۔  ([1])

مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کو حضرت شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی علیہ الرحمۃ سے بے پناہ عقیدت تھی چنانچہ آپ اپنے والد کی ہمراہی میں اکثر گنج مرادآباد تشریف لے جاتے۔ حضرت شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد بھی آپ شاہ صاحب کے فرزند مولانا احمد میاں گنج مرادآبادی علیہ الرحمۃ اور خلیفہ مولانا عبدالکریم گنج مرادآبادی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں برابر حاضری دیتے رہتے تھے۔ ۱۳۲۳ھ میں آپ کی شادی حضرت شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی علیہ الرحمۃ کی نواسی اور مولانا عبدالکریم علیہ الرحمۃ کی بڑی صاحبزادی محترمہ حمیدہ خاتون  رحمۃ اللہ علیہا سے ہوئی جو علم و فضل میں  یکتا اور صاحب سلسلہ خاتون تھیں۔ علامہ محمود احمد قادری نے مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کی شادی کا مفصل احوال تحریر کیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ بھی اس شادی میں شرکت کیلئے باراتیوں کے ہمراہ گنج مرادآباد تشریف لے گئے تھے۔ جب بارات رخصت ہو کر اس زمانے کے ریلوے اسٹیشن مادھو گنج جانے کیلئے روانہ ہوئی تو اسٹیشن پہنچنے سے قبل مغرب کا وقت ہوگیا ۔ جنگل کا راستہ تھا اور قریب کا گاؤں ڈاکوؤں کی بستی مشہور تھی۔ اسی گاؤں کے ایک آدمی نے آکر اطلاع دی کہ ڈاکو آرہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے فرمایا اللہ اور اس کا محبوب ہماری مدد فرمائے گا۔ کچھ دیر بعد ڈاکوؤں کا گروہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ  پیش قدمی کرکے ان کے پاس پہنچ گئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے علاقے  کے بزرگ حضرت شاہ فضل رحمان علیہ الرحمۃ کی نواسی بیاہ کر لے جارہے ہیں کیا ایسی حالت میں تم ہم کو لوٹنا مناسب سمجھتے ہو؟ آپ کے اس طرز تخاطب کا ڈاکوؤں پر گہرا اثر ہوا۔ اور وہ نہ صرف اپنے ارادے سے باز آگئے بلکہ تائب ہوئے اور داخل سلسلہ ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ([2])

مولانا عبدالاحد کو فن خطابت پر ید طولی حاصل تھا۔ آواز نہایت پاٹ دار اور ایسی تھی کہ گھنٹوں ماحول میں اس کی گونج برقرار رہتی تھی۔ سیرۃ النبی اور فضائل صحابہ کے بیان پر خصوصی ملکہ حاصل تھا۔ تقریر کے دوران رقت طاری ہو جاتی اور وجد کے عالم میں درود و سلام پڑھنے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نو عمری ہی میں آپ کے مواعظ حسنہ کی پورے برصغیر میں شہرت ہوگئی آپ کے وعظ کی اثر پذیری سے متاثر ہو کر اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے بریلی میں ایک خصوصی تقریب کے دوران آپ کو ‘‘سلطان الواعظین’’ کا خطاب عطا فرمایا۔ اور اپنی طویل نظم الاستمداد میں ایک شعر رقم فرمایا کہ:

اک اک وعظ عبدالاحد پر      

   کیسے نتھنے پھلاتے یہ ہیں ([3])

مولانا غلام مہر علی گولڑوی نے مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ایک مقام پر مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کے بارے میں لکھا ہے کہ واشھرت مواعظہ فی اکناف الھند (آپ کے مواعظ کی شہرت ہندوستان کے اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی تھی)۔ ([4])

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کے رگ و پے میں جذبۂ حریت مؤجزن تھا ۔ آپ آزادیٔ وطن کے دلدادہ اور انگریزوں کی فریب کارانہ چالوں کے شدید مخالف تھے۔ اور برصغیر میں پروان چڑھنے والی تحریکوں میں حتی المقدور حصہ لیتے تھے۔ ندوۃ العلماء کی اور ندوہ کے مفاسد کو عوام پر واضح کرنے کیلئے مختلف شہروں کے دورے کئے۔ اور مسلمانوں کو اس ادارہ کی تائید و تعاون سے باز رکھا۔ ۲۷ جولائی ۱۹۱۳ء کو کانپور کے مچھلی بازار میں ایک سڑک کی تعمیر کے نتیجہ میں اس بازار کی ایک مسجد کا کچھ حصہ شہید کردیا گیا۔ حکومت کی اس حرکت سے پورے ہندوستان میں اشتعال پھیل گیا۔ اضطراب و بےچینی نے اس قدر زور پکڑا کہ ۳؍ اگست کو مسلمانوں نے مسجد میں جمع ہو کر مسجد کی از سر نو تعمیر شروع کردی۔ اس کارروائی کو روکنے کیلئے مقامی انتظامیہ نے پولیس طلب کی جس نے مجمع پر گولی چلادی۔ تقریباً ۱۵ منٹ تک فائرنگ جاری رہی۔ اور معاصر اخبارات کی اطلاع کے مطابق تقریباً چھ سو راؤنڈ کارتوس استعمال کئے گئے۔ اس فائرنگ سے ۱۶ مسلمان شہید اور ۳۰ زخمی ہوئے۔ اس واقعے کی پورے ہندوستان میں شدید مذمت کی گئ۔ مولانا عبدالاحد پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ بھی اس موقع پر کانپور پہنچ گئے اور اپنے خالہ زاد بھائی مولانا نثار احمد کانپوری کے ہمراہ حکومت کے خلاف احتجاج میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے گرفتار ہوئے اور تقریباً چھ ماہ کی قید و بند کی صعوبت برداشت کی۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ بھی اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے مسجد کے انہدام کے سلسلے میں ایک فتویٰ ‘‘اہانتہ المتواری’’کے نام سے دیا جس میں آپ نے وقف بالعوض یا بلا عوض قابل انتقال نہیں کے ثبوت میں قرآن حکیم اور احادیث سے دلائل قاہرہ کے انبار لگا دیئے۔ ([5])

۷؍ جولائی ۱۹۲۰ء کو جب کانگریس اور خلافت کمیٹی نے مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف ترک موالات کی تحریک کا آغاز کیا تو دو قومی نظریہ کے حامی علماء دین اس بدعت کو روکنے کیلئے میدان عمل میں کود پڑے۔ انہوں نے ہندوؤں سے اتحاد کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں کے نزدیک کافر ہیں۔ اور کہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک دشمن کو سینے سے لگا یا جائے اور دوسرے دشمن کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں بیک وقت تحریک موالات اور تحریک خلافت کیلئے ایک پلیٹ فارم استعمال کرنے سے ہندومسلم اتحاد کی فضا پیدا ہوئی جو یقیناً نہ صرف غیر شرعی صورتحال تھی بلکہ اس سے آزادی وطن کی جد و جہد میں بھی شدید رخنہ پڑنے کا اندیشہ تھا چنانچہ مسلمانوں کو ترک موالات کی شرعی حیثیت سے آگاہ کرنے کیلئے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت نے لاہور اور لائلپور سے یکے بعد یگرے دو استفسارات کا جواب ‘‘المحجۃ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنہ’’ کے نام سے دیا  جو ۱۹۲۰ء میں مطبع حسنی بریلی سے شائع ہوا۔ اس فتویٰ میں اعلیٰ حضرت نے قرآن حکیم ، مستند تفاسیر، احادیث نبوی اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ترک موالات کی تشریح کی اور یہ واضح کردیا کہ کوئی بھی غیر مسلم چاہے وہ ہندو ہو یا عیسائی ، مجوسی ہو یا یہودی اسلام اور مسلمین کے مقابلے میں ‘‘الکفر ملتہ واحدۃ’’ کے مصداق ہے۔ اعلیٰ حضرت کے اس فتوے نے ہندوستان کی ایک رخی سیاست کے زاویئے بدل دیئے اور گاندھی جی کی مسلمان دشمنی پر مبنی سیاست کی بنیادیں ہل گئیں۔ اعلیٰ حضرت کے خلفاء اور علماء اہلسنّت نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔ مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ نے جو ہندوستان کی سیاست کو اسلمای شریعت کا لباس فاخرہ عطا کرنے کی فکر میں منہمک تھے تحریکِ ترک موالات کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے اور پورے ہندوستان کا دورہ کرکے مسلمانوں کو ترکِ موالات کی شرعی حیثیت اور اس کے دور رس نقصانات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ہندو مسلم اتحاد کی نفی کی اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلہ میں قرآنی احکامات کی پابندی کریں۔ خصوصاً روہیلکھنڈ میں اس تحریک کے خلاف آپ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس ضمن میں اعلیٰ حضرت کے ایک معتمد خاص مولوی شفقت حسین وکیل علیہ الرحمۃ بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ جنہوں نے مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کے ہمراہ اس سلسلے میں مختلف شہروں کے دورے کئے اور مولانا محمد علی جوہر کی ترک موالات کے ضمن میں نا عاقبت اندیشی کا پردہ چاک کیا۔ مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ ۱۹۲۰ کے اواخر میں تحریک خلافت کا ایک وفد ہندومسلم اتحاد کی تبلیغ کیلئے جب روہیلکھنڈ پہنچا تو اس نے پیلی بھیت میں مولانا عبدالاحد سے بھی ملاقات کی اس وفد کی قیادت امرتسر کے ڈاکٹر سیف الدین کچلو کر رہے تھے۔ اور اس میں مولانا نثار احمد کانپوری علیہ الرحمۃ بھی شامل تھے۔ مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ نے وفد سے تقریباً چار گھنٹے مذاکرات کئے اور آخر وقت تک ہندو مسلم اتحاد کی مخالفت کرتے رہے۔ ([6])

مولانا عبدالاحد کانپوری کا یہ خیال اتنا مستحکم تھا کہ رہنمایانِ خلافت کو تحریک ترک موالات سے دست کش ہونا پڑا۔ انہوں نے برادرانِ وطن سے ہٹ کر مسلمانوں کو علیحدہ تنظیم قائم کرنے پر توجہ دی اور یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ کفر و اسلام دو متضاد نظریے ہیں۔ اور ان کے متبع کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ تحریک خلافت کے رہنما مولانا نثار احمد کانپوری علیہ الرحمۃ آپ کے حقیقی خالہ زاد بھائی تھے۔ لیکن جب  انہوں نے ترک موالات میں حصہ لیا تو آپ نے ان کی ہر مرحلہ پر سخت گرفت کی۔ مولانا حکیم قاری احمد علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ کانپور کے ایک جلسے میں مولانا نثار احمد کانپوری علیہ الرحمۃ ہندو مسلم اتحاد کے عنوان پر تقریر کر کے بیٹھے تھے کہ سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ نے اسی اسٹیج سے ہندو مسلم اتحاد کے خلاف دھواں دھار تقریر شروع کردی ۔ مولانا نثار احمد علیہ الرحمۃ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ آخر مجمع میں سے ایک شخص نے آواز اٹھائی تو مولانا کانپوری علیہ الرحمۃ نے اسے خاموش کر دیا۔ ([7])

مولانا عبدالاحد کو تفسیر قرآن میں  غیر معمولی ملکہ حاصل تھا ۔ مولانا نثر احمد کانپوری علیہ الرحمۃ، مولانا حسرت موہانی علیہ الرحمۃ، مولانا عبدالباری فرنگی محلی علیہ الرحمۃ، مولوی شفقت حسین وکیل علیہ الرحمۃ، خان بہادر احمد حسین وکیل علیہ الرحمۃ، مولانا قطب الدین بھرم چاری علیہ الرحمۃ، مولانا عبدالقدیر بدایونی علیہ الرحمۃ، مولانا آزاد سبحانی علیہ الرحمۃ، مولانا حمد رضا خان علیہ الرحمۃ، مولانا عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمۃ، مولانا جمیل احمد بدایونی علیہ الرحمۃ، مولانا عبدالماجد بدایونی علیہ الرحمۃ، مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ بنگال اور نواب سر سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ سے آپ کے خصوسی مراسم تھے۔ اور اکثر مراحل پر باوجود نظریاتی اختلافات کے کبھی باہمی محبت اور تعلق میں کوئی فرق نہیں آیا۔

۱۳۳۳ھ  میں مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ نے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کے معیت میں فریضہ حج ادا کیا، ملفوظات اعلیٰ حضرت میں ہے کہ علماء حرمین شریفین سے اعلیٰ حضرت کی ملاقات کے دوران آپ ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ میں جب حضرت مولانا شیخ صالح کمال سابق قاضی مکہ و مفتی حنفیہ کی خدمت میں گیا تو حضرت مولانا مولوی وصی احمد صاحب محدث سورتی علیہ الرحمۃ کے صاحبزادے عزیزی مولوی عبدالاحد صاحب بھی ہمراہ تھے  ([8])

اس سفر میں عبدالاحد  علیہ الرحمۃ کبیر العلماء مولانا شیخ احمد ابو الخیر مرداد کو چند احادیث سنا کر سند حدیث حاصل کی ۱۳۳۴ھ میں حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد آپ مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دینے لگے اور یہ سلسلہ آخر دم تک جاری رہا۔

۱۹۲۵ء میں شاہ ابن سعود نے بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی برطانیہ کی شہہ پر حجاز پر حملہ کردیا کیونکہ شریف حسین ‘‘وہائٹ ہال ’’ میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ ([9]) چنانچہ مکہ معظمہ اور طائف شریف پر نجدیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس تبدیلی سے برصغیر کی سیاسی فضا بھی متاثرہوئی ڈاکٹر قریشی نے لکھا ہے کہ اہلحدیث اور ان سے قربت رکھنے والے طبقوں نے ان سعود کی حمایت کی جب کہ بریلوی مکتبۂ فکر کے علماء نے شریف حسین کی تائید کا اعلان کیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے بھی ابن سعود کی حمایت صرف  اس امید پر کی کہ نجدی حجاز پر بادشاہت قائم نہیں کریں گے لیکن ان کی یہ امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں جب شاہ ابن سعود نے حجاز پر اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ مولانا جوہر کے پیر و مرشد مولانا عبدالباری فرنگی محلی علیہ الرحمۃ ایام اسیری کے ساتھی مولانا نثار احمد کانپوری علیہ الرحمۃ اور قدیم رفیق کار مولانا عبدالماجد بدایونی علیہ الرحمۃ نے حجاز پر نجدیوں کے قبضہ کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ ایک تنظیم انجمن خدام الحرمین قائم کی تاکہ حجاز میں نجدیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی سے روکا جاسکے۔ اس تنظیم کے آرگنائزروں میں مولانا حسرت موہانی علیہ الرحمۃ اور مشیر احمد قدوائی بھی شامل تھے۔  ([10])

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد نے بھی نجدیوں کے ہاتھوں حجاز میں مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر سخت احتجاج کیا اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ انگریزوں کے حمایت یافتہ شاہ عبدالعزیز سعود کو مسلمانوں کی دل آزاری سے باز رکھے۔ اس ضمن میں مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں انجمن خدام الحرمین کے جلسوں سے خطاب کیا اور مولانا محمد علی جوہر علیہ الرحمۃ کو مشورہ دیا کہ وہ نجدیوں کی حمایت ترک کرکے مقاماتِ مقدسہ کی بے حرمتی کو روکنے کیلئے انجمن خدام الحرمین پلیٹ فارم سے کام کریں۔ نجدیوں کی کارروائیوں کی مذمت میں مولانا عبدالاحد علیہ الرحمۃ کی خدمات کا احاطہ معاصر اخبارات کی عدم دستیابی کی بناء پر اگرچہ بڑا مشکل ہے لیکن اس عہد کے بیشتر اردو اخبارات میں آپ کی تقاریر کے اقتباسات ملتے ہیں۔ امرتسر کے پندرہ روزہ اخبار الفقیہہ نے بریلی اور پیلی بھیت میں ۱۵؍ اور ۱۶ ؍ جون کو نجدیوں کی مذمت میں ہونے والے دو جلسوں کی کار روائی بڑی تفصیل سے شائع کی ہے۔ بریلی کے اجلاس کی صدارت اعلیٰ حضرت کے صاحبزادے اور جانشین مولانا حامد رضا خان علیہ الرحمۃ نے کی تھی جبکہ  پیلی بھیت کے جلسہ کی صدارت حکیم سعید الرحمٰن خان علیہ الرحمۃ نے کی تھی۔ بریلی کا جلسہ مسجد بی بی جی میں ہوا تھا اور پیلی بھیت کا جلسہ حضرت شاہ جی شیر میاں پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ کے عرس کے موقع پر مزار کے احاطہ میں منعقد ہوا تھا۔ ان اجلاسوں سے سلطان الواعظین مولانا عبدالحکیم مختار احمد صدیقی میرٹھی ، قاضی احسان الحق بریلوی علیہ الرحمۃ اور مولانا نعیم الدین مرادآبادی  علیہ الرحمۃ نے خطاب کیا۔ ان اجلاسوں میں طے کیا گیا تھا کہ علماء اہلسنت پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب روانہ کیا جائے جو شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کر کے اسے مقامات مقدسہ کو مسمار کرنے کے سلسلے میں مسلمانان ہند کے جذبات سے آگاہ کرے۔ ایک قرار داد کے ذریعہ حکومت ہند سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلمانان ہدن کے جذبات سے حکومت برطانیہ اور شاہ عبدالعزیز کو آگاہ کرے۔ مسمار شدہ مزارات کی از سر نو تعمیر کا انتظام کرائے۔([11])

الفقیہہ کی ایک اور اشاعت کے مطابق جون ۱۹۲۸ء کو درگاہ معلیٰ برکاتیہ ایٹہ ضلع مارہرہ میں حضرت سید شاہ محمد صادق قدس سرہ کے عرس کی تقریب سے سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد قادری پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ نے خطاب کرتے ہوئے فضائل حضور سید عالم ﷺ بیان فرمائے اور آیت کریمہ انما انا بشرمثلکم کی توضیح و تفسیر اس دلنشیں طرز پر فرمائی جس نے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے مثلی اور بے مثالی اور تمام مخلوق پر برتری اہل ایمان پر خوب واضح کرکے نجدیوں کی ضلالت و اباطیل وہابیہ کا ترو پود بکھیر دیا۔ اس تقریب سے مولانا حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمۃ، مولانا غلام رسول قادری بہاولپوری، حافظ محمد جان ناصری بریلوی علیہ الرحمۃ وغیرہم نے بھی خطاب کیا۔([12])

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد علیہ الرحمہ کی زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ مواعظ کی کثرت اور پے در پے مذہبی و سیاسی تحریکوں میں شرکت کی بناء پر عمر کا ایک طویل عرصہ آپ نے سفر میں گزارا اور ہر سفر آپ کیلئے وسیلۂ ظفر ثابت ہوا۔ ہندوستان کے مذہبی و سیاسی حلقوں میں آپ کی مقبولیت عام تھی۔ اور آپ کی آراء کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ خصوصاً مذہبی مباحث پر آپ کی تقاریر کو عوام بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اور جب آپ وعظ و تقریر کیلئے کسی دوسرے شہر جاتے تو ہزاروں افراد قرب و جوار کی بستیوں سے آپ کی تقریر سننے کیلئے جلسہ گاہ میں پہنچتے تھے۔ آپ ہر سال ۲۲؍ ربیع الاول کو حضرت شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی کے عرس میں شرکت کیلئے پیلی بھیت کے عقیدت مندوں کے ایک قافلے کے ہمراہ گنج مرادآباد تشریف لے جاتے اور اپنے والد کے شیخ کی سیرت و خدمات پر گھنٹوں تقریر کرتے۔ غیر مقلدوں اورعلماء دیوبند کے عقائد کی تردید میں ایسی دلیلیں لاتے کہ پورا مجمع بیک آواز جزاک اللہ پکار اٹھتا۔ ایک مرتبہ آپ ایک جلسہ میں شرکت کیلئے مراد﷜آباد تشریف لے گئے اس زمانے میں ہندوستان کے علماء میں طول طویل تقاریر کا رواج عام تھا۔ خصوصاً دیوبند کے مولوی انور شاہ کشمیری اور عطاء اللہ شاہ بخاری تو اکثر اذان فجر تک تقاریر کیا کرتے تھے۔ مرادآباد کے عوام کو سلطان الواعظین سے بھی یہ توقع تھی کہ آپ رات گئے تک تقریر کریں گے لیکن آپ نے حسب عادت قرآن حکیم کے حوالے سے ابتدائی چند جملوں میں ہی عوام کے دلوں کو گرما دیا۔ ہر سمت سے نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت گونجنے لگا اور آپ نے ایک گھنٹے کے بعد تقریر ختم کردی۔ عوام بے چین ہوگئے اور آپ سے تقریر جاری رکھنے کی درخواست کی چنانچہ آپ دوبارہ کھڑے ہوئے اور پندہ بیس منٹ بولنے کے بعد فرمایا مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں کو پوری پوری رات تقریر سننے کی عادت ہے اور آج بھی آپ یہاں اسی ارادہ سے تشریف لائے ہیں لیکن اذان فجر تک کس طرح تقریر کروں میں آپ میں سے اکثر حضرات کے تہجد قضا ہونے کا گناہ اپنی گردن پر نہیں لے سکتا۔

مولانا عبدالاحد کو آخر عمر میں شدید خونی بواسیر ہوگئی تھی۔ جس کی بناء پر آپ کی مصروفیتوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگئی ۔ اور آپ کا بیشتر وقت مدرسۃ الحدیث میں گزرنے لگا ۔ تصنیف و تالیف کی جانب آپ کی طبیعت مائل نہ تھی جس کی بناء پر آپ کی تحریں صرف فتاویٰ اور تقاریظ کی حد تک محدود ہیں۔ ‘‘اسوۂ رسول ﷺ’’ کے عنوان سے آپ نے ایک طویل مضمون قلمبند کیا جس کو پہلی مرتبہ رسالہ کی صورت میں مکتبۂ اہلسنت پیلی بھیت نے ۱۹۲۸ء میں اور ۱۹۶۷ء میں تحریک احیائے سنت کراچی نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالاحد کے مختلف موضوات پر مختلف رسالے مکتبۂ اہلسنت سے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ لیکن باوجود تلاش بسیار یہ رسالے پاکستان کے کسی کتب خانے سے دستیاب نہیں ہوسکے۔

مولانا حکیم قاری احمد علیہ الرحمۃ کی قلمی یاد داشتوں سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان الواعظین ۱۹۳۱ء کے اواخر میں شدید بیمار ہوئے۔ ابتداً پیلی بھیت میں حکیم عبدالجبار خان کے مشورہ سے خود ہی اپنا علاج کرتے رہے لیکن مرض روز بروز شدت اختیار کرتا گیا۔ چنانچہ اپنے صآحبزادے مولانا حکیم قاری احمد علیہ الرحمۃ کے ہمراہ علاج کیلئے لکھنؤ تشریف لے گئے اور امین آباد میں ایک مکان کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کی۔ مولوی عبدالحئی صاحب نزہۃ الخواطر کے فرزند ڈاکٹر حکیم عبدالعلی نے علاج شروع کیا تقریباً ایک سال علاج جاری رہا لیکن نقاہت اور کمزور دور نہ ہوئی اور آپ نے ۱۳؍ شعبان ۱۳۵۲ھ بمطابق یکم دسمبر ۱۹۳۳ء بروز جمعہ عصر اور مغرب کے درمیان داعیٔ اجل  کو لبیک کہا۔ مولانا حکیم قاری احمد کا بیان ہے کہ عصر کے وقت سلطان الواعظین نے فرمایا نیچے کا جسم پاک کردو۔ اور کپڑے تبدیل کرادو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر اشارہ سے نماز عصر ادا کی پھر فرمایا کیا دن ہے میں نے عرض کیا جمعہ کا دن ہے، فرمانے لگے بہت مبارک ساعت اور دن ہے ۔ اس کے بعد سیدھی کروٹ لیٹ کر سیدھا ہاتھ کنپٹی کے نیچے رکھا اور فرمایا پیر و مرشد اعلیٰ حضرت کا وصال بھی جمعہ کے دن ہوا تھا۔ کچھ دیر خاموش لیٹے میری طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ آ پکو خوش رکھے میں نے بڑی زحمت دی اور اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بہتر اجر دے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر زیر لب کچھ پڑھا اور جب آواز تیز ہوئی تو آپ کی زبان مبارک پر ‘‘محمد الرسول اللہ’’ تھا۔ آپ کی انتقال کی خبر پورے ہندوستان میں پھیل گئی کانپور سے اعزاء کی آمد کے بعد آپ کی میت حسب وصیت گنج مرادآباد لے جائی گئی جہاں دوسرے دن بعد نماز عصر اپنے خسر مولانا عبدالکریم گنج مرادآبادی کے پہلو میں سپردِ قبر کئے گئے حافظ محمد احسن خلف مولانا حمد حسن نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں مولانا عبدالحلیم خلف مولانا عبدالکریم گنج مراد آبادی اور مولانا رحمت اللہ نبیرۂ شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کے علاوہ ہزاروں عقیدتمندوں نے شرکت کی۔ بریلی کانپور، دہلی، مراد آباد، پیلی بھیت اور بدایوں کی مساجد میں ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی ہوئی امرتسر کے اخبار الفقیہہ کے مطابق بریلی کی مسجد بی بی جی میں ۱۵ شعبان المعظم ۱۳۵۲ھ کو ایک تعزیتی جلسہ ہوا جس میں مختلف بلاد و امصار کے علماء نے خطاب کیا اور حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان بریلوی نے مغفرت کیلئے دعا فرمائی([13])

سلطان الواعظین مولانا عبدالاحد قادری پیلی بھیتی نے اپنی یادگار تین فرزند چھوڑے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں مولانا شاہ فضل الصمد مانا میاں، مولانا فضل احمد صوفی اور مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی۔

 

[1]     تذکرۂ علماء اہلسنت ص: ۱۶۸

[2]     تذکرۂ علماء اہلسنت ص: ۱۶۹

[3]     الاستمداد ص: ۱۹۶، مولانا احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ مظہر فیض رضا ، لائل پور ۱۳۹۶ھ

[4]     الیواقیت المہریہ ص:۸۶، مولانا غلام مہر علی مطبوعہ مکتبۂ مہریہ چشتیاں ۔ ۱۹۶۵ء

[5]     اعلیٰ حضرت کی سیاسی بصیرت ص:۱۳، سید نور محمد قادری مطبوعہ مکتبہ رضویہ گجرات ۱۹۷۵ء

[6]     تاریخ ہندو پاکستان ص: ۳۶۷، مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی۔ مطبوعہ کراچی۔ ۱۹۷۶ء

[7]     تاریخ  ہندو پاکستان ص: ۳۵۳

[8]     ملفوظات اعلیٰ حضرت ص: ۱۲۶، حصہ دوئم، مطبوعہ کامیاب دار التبلیغ لاہور

[9]     علماء ان پولیٹکس  ص: ۲۹۰، ڈاکٹر قریشی مطبوعہ معارف لمیٹڈ، کراچی

[10]    علماء ان پولیٹکس  ص: ۲۹۰، ڈاکٹر قریشی مطبوعہ معارف لمیٹڈ، کراچی

[11]    اخبار الفقیہہ امرتسر، ۷؍ جولائی ۱۹۲۶ء

[12]    الفقیہہ ۷؍ مئی ۱۹۲۸ء

[13]    الفقیہہ ، ۷؍ دسمبر ۱۹۳۳ء

تجویزوآراء