حضرت سیدنا امام علی نقی رضی اللہ عنہ
نام ونسب:اسم گرامی:سیدعلی۔کنیت:ابوالحسن۔القاب:نقی،ہادی،زکی،عسکری،متوکل،ناصح، فقیہ،امین،طیب۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت سیدناعلی نقی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی المرتضیٰ۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔آپ کی والدہ محترمہ کانام حضرت سمانہ ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزجمعۃ المبارک 13/رجب المرجب 214ھ،مطابق 14/ستمبر829ءکومدینۃ المنورہ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: علم وعمل،زہدوتقویٰ میں اپنی آباءواجدادکی علمی وروحانی امانتوں کےامین ووراث ِ کامل تھے۔
سیرت وخصائص:نقی،تقی،ہادی زکی،ناصح،فقیہ،محدث،طیب،طاہرحضرت امام لمسلمین سیدناامام علی نقی رضی اللہ عنہ۔آپ علم وعمل،فضل و احسان،تقویٰ،سخاوت،شجاعت میں مثل اپنےآباءکےتھے۔جب چھ سال کی عمرمیں پہنچےتووالدِ ماجدکاانتقال ہوگیا۔بچپن ہی میں کرامات کاظہورشروع ہوگیاتھا۔دورسےہی معلوم ہوتاتھاکہ یہ خاندان نبوت کےچشم وچراغ ہیں۔
اللہ جل شانہ نےاس امتِ مرحومہ کےدلوں میں فطری طورپراس خاندان کی محبت طبیعتوں میں ودیعت فرمادی ہے،اوران کی محبت ایمان کی علامت بتایاگیاہے۔یہ جہاں بھی تشریف فرماہوتےتھے مخلوقِ خداپروانہ واران پرگرتی تھی،اوردنیاکےبندےجن کےپاس کرسی،عہدے،لشکروغیرہ ہرچیزہوتی تھی،وہ یہ چیزیں دیکھ کرحیران ہوکراورپھرحسد کی بیماری میں مبتلاہوجاتےکہ سب کچھ تو ہمارےپاس ہے لیکن ہماری وہ عزت وشوکت نہیں ہے،جو اس گلستانِ کرم کےایک پھول کی ہے۔آپ کوبھی اس راستےمیں ستایاگیا،تکلیفیں دی گئیں لیکن آپ جرأتِ حیدری،اورصبرِ حسینی کی مثال بن کرشان وشوکت کی زندگی گزارتےرہے۔کبھی کسی سےانتقام نہیں لیا۔جوبھی آیاخالی ہاتھ نہ گیا۔
حضرت امام نقی ایک دن رے کے دیہات میں تشریف لے گئے۔ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی کہ میرے ذمہ ایک بہت بڑا قرضہ ہے کہ میں اس کے ادا کرنے سے قاصر ہُوں۔ حضرت امام اس کی بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ ایک رقعہ تیس ہزار کا لکھ دیا اور اپنی مہر چسپاں کردی اور اس کے حوالے کرتے ہُوئے کہا کل جب میں امراء میں بیٹھا ہوا ہوں لے آنا اور شدید تقاضا کرنا اور بیشک درشت کلامی بھی کر لینا اور اس تدبیر سے تمہارا قرضہ بےباک کرنے میں مدد مل جائے گی۔ دیہاتی نے وہ تمسک لیا اور چلا گیا۔ ایک دن خلیفہ بغداد کو ملنے کے لیے بہت سی مخلوق آئی ہوئی تھی۔ مجلس جمی ہوئی تھی۔ اعرابی آگیا اور تمسک نامہ پیش کیا اور تیس ہزار روپے کا تقاضا کرنے لگا اور سخت توہین آمیز الفاظ استعمال کرتا رہا۔ حضرت امام نے بڑی نرمی سے اسے ٹالا اور سہولت کے ساتھ ادائیگی کا وعدہ کرلیا۔ خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی۔ تیس ہزار روپیہ خزانے سے منگوا کر حضرت امام کی خدمت میں رکھا اور یُوں آپ نے اس دیہاتی کو دے کر روانہ کیا۔
فضل وکمال: متوکل نے اپنے گھر میں ہر قسم کے پرندے جمع کر رکھے تھے۔ ان کے شور و غل سے بات سنی نہیں جاتی تھی۔ جب سیدناامام علی نقی رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے جاتے توتمام پرندے خاموش ہوجاتے تھے۔ جب تک بیٹھے رہتے کسی جانور کی آواز نہ آتی تھی۔
ہندوستان کا ایک شعبدہ بازخلیفہ متوکل کے دربار میں آیا اور عجیب و غریب شعبدے دکھانے لگا۔ ایک دن متوکل نے شعبدہ باز کو کہا: اگر تم اپنے شعبدےسےامام علی نقی کو شرمندہ کر دکھاؤ تو میں تمہیں ایک ہزار دینار انعام دوں گا۔ وہ کہنے لگا: مجھے مجلس میں امام کے بالکل قریب بٹھادینا، میں اسے شرمندہ کردوں گا۔ جب مجلس لگی تو حضرت امام کو اس شعبدہ باز کے ساتھ ہی کھانا کھانے کو کہا گیا۔ جب امام اور دوسرے اہل مجلس کھانا کھانے لگے تو حضرت امام علی نقی نے جس روٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا وہ اڑکر دوسرے شخص کی طرف چلی گئی۔ دوسری بار ہاتھ بڑھایا تو پھر ایسا ہی ہوا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔
اہلِ مجلس اس شعبدے سے بڑے محظوظ ہوئے اور حضرت امام پر ہنسنے لگے۔ آپ نے معلوم کرلیا کہ اس شعبدے کا مقام یہاں ہے، جو شخص میرے پاس بیٹھا ہے آپ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس مکان کی دیوار پر ایک شیر کی تصویر نقش تھی۔ آپ نے اس شیر کی طرف اشارہ کرکے کہا:اس دشمن اہلِ بیت کو پکڑ لو۔ حکم سنتے ہی شیر اصلی شیر کی طرح اٹھا اور شعبدہ باز کا ایک لقمہ کرکے پھر دیوار پر نقش بن گیا۔ متوکل نے بڑی کوشش کی کہ اسے لوٹا دیا جائے مگر آپ نے ایک نہ مانی۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ آپ غصے کے عالم میں مجلس سے اٹھ کر چلے آئے۔
آپ نےساری زندگی رسول اللہ ﷺ کےدین کی خدمت اورنشرواشاعت فرمائی،لوگوں کووعظ ونصیحت،اوران کاتزکیہ نفس آپ کامشغلہ تھا۔لوگوں کودنیا کی بےثباتی اور اس کی محبت کےنقصانات اوراس کےمقابلےمیں اخروی نعمتیں ،اوران کی ثباتی اوراللہ جل شانہ اوراس کےحبیب ﷺکی محبت کی تلقین فرماتےتھے۔ہر قسم کی دنیاوی عہدوں،منصبوں،اوردنیاداروں سے دوررہتےتھے۔
علامہ جامی فرماتےہیں: حضرت رضا علی بن محمدموسیٰ سےمنقول ہے:کہ جس شخص نےآپ کی مرقدکی زیارت کی اسےجنت کاحصول ہوگا۔(صحیح العقیدہ ہوناشرط ہے)۔(بارہ امام:208)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 25/جمادی الآخر254ھ،مطابق 19/جون 868ءکو"سامرہ" عراق میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: خزینۃ الاصفیاء۔ شریف التواریخ۔اقتباس الانوار۔بارہ امام علامہ جامی۔
//php } ?>