حضرت امام ابوالحسن علی ہادی بن محمد
حضرت امام ابوالحسن علی ہادی بن محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آں عارف حقائق اشیائے کمالی، مخصوص بعلوم حضرت رسالت پناہی حضرت امامابو الحسن علی الہادی بن محمدﷺ رضیاللہ عنہ ائمہ اہل بیت میں سے دسویں ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی شمامہ تھا، بعض کہتے ہیں کہ آپ کی والدہ اُم الفضل بنت مامون الرشید ہیں۔ آپ کی ولادت بتاریخ ۱۳؍رجب ۲۲۴ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۱۵؍ذوالحج ۲۲۸ھ کو مدینہ منورہ میں واقع ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک اور کنیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور امام علی رضا کی طرح ہے۔ اس وجہ سے آپ کو ابو الحسن ثالت کہتے ہیں۔آپ کے القاب نقی، ہادی، عسکری، ناصح، متوکل، فساح اور مرتضیٰ ہیں۔ امام ابو الحسن علی نقی کی عمر اپنے والد ماجد کے وصال کے وقت چھ سال کی تھی کہ مسند امامت پر بیٹے۔ آپ سے اس قدر کرامات کا ظہور ہو اکہ احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔ ‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ وہ علوم لامتنا ہی جو خاندان اہلبیت کو آنحضرتﷺ سے لے تھے ہر فرزند عالی مقام پر مسند امام پر بیٹھتے ہی فوراً منکشف ہوجاتےتھے۔ آنحضرت کی حدیث الائمہ الائمہ من بعدیاثنیٰ عشر خلیفتی(میرے بعد بارہ امام خلافت کریں گے) کے مطابق بارہ سال تک یہ سنت جاری رہی۔ ‘‘مراۃالاسرارا’’ میں حبیب السیرت منقول ہے کہ جب امام علی نقی سے صغیر سنی میں قسم قسم کے کرامات وکمالات ظاہر ہونے لگے تو مخلوق خدا کا آپ کے گرد اژدہام ہونے لگا۔ اس کو دیکھ کر خلیفہ بنی عباس متوکل کے دلمیں وہم پیدا ہوا اور اس نے حکم دیا کہ امام نقی کو مدینہ منوہر سے پچا کوس دور عراق کے علاقہ سرمن رائے میں مقام سامرہ پر رکھا جائے۔ جب امام موصوف کا سامرہ میں ایک خراب جگہ پر قیام کرایا گیا تو آپ کے ایک دوست صالح بن سعید نے آپ کے پا س آکر عرض کیا کہ اے ابن رسولﷺ ان لوگوں نے آپ کے خاندانسے نفرت کی وجہ سے آپ کو اس ویرانے میں قید کر رکھا ہے تو آپ نے فرمایا اے ابن سعید تم ابھی اس مقام میں ) یہ کہہ کر آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیا تو خوش و خرم باغات، بہتی ہوئی نہریں، اور بلند محلات اور مکانات ظاہر ہوگئے۔ یہ دیکھ کر اس کو حیرت ہوئی۔ امام صاحب نے فرمایا اے ابن سعید ہم جہاں ہوتے ہیں یہ چیزیں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ میں غیر آباد ویرانے میں نہیں ہوں۔
شیر کی تصویر کا زندہ ہوجانا
‘‘شواہد النبوت’’ میں لکھا ہے کہ ہندوستان سے ایک مداری آیا اور خلیفہ متوکل کو اپنےفن کے عجیب و غیر کرشمے دکھایا کرتا تھا۔ متوکل نے اس سے کہا کہ اگر تو کوئی ایسا کرشمہ دکھائے کہ جس سے امام علی نقی کو سراسیمگی ہو تو میں تجھے ایک ہزار دینار انعام دوں گا۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ جب امام موصوف متوکل کی مجلس میں پہنچے تو وہ مداری آکر آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ اور اپنے کمال کا مظاہری کرنے لگا۔ امام موصوف اس سے جس قدر بے پروائی سے پیش آئے۔ وہ باز نہ آتا تھا جس پر حاضرین مجلس ٹھٹھا مذاق کرنے لگے۔ اس مجلس میں ایک چادر لٹکی ہوئی تھی جسپر شیر کی تصویر تھی امام صاحب نے اس شیر کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہمداری کو پکڑو آپ کے اشارے سے شیر میں جان آگئی۔ اس نے ایک چھلانگ لگاکر مداری کو پکڑلیا اور خلیفہ متوکل نے امام صاحب سے بہت درخواست کی کہ اس کی جان رہائی کرائی جائے لین کچھ بن نہ پڑا اور شیر اُسے ہلاک کر کے باہر چلا گیا۔ اس کے بعد اس کو کسی نے دیکھا۔
اسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک اعرابی نے آپ کو گھر پر بلایا۔ آپ اس کے پاس سر من رائے کے قریب ایک گاؤں تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ قید ہوگیا ہے۔
چنانچہ اُسی روز شام کے وقت وہ قید سے رہا ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا گھر پہنچ کر اپنے دل میں خیال آیا کہ خرچ کے لیے کچھ نہیں ہے کیا کروں۔ امام صاحب کو اس کے دل کی بات معلوم ہوگئی اور آپ نے فوراً اس کے پاس چن دینار بھیج دیئے اور یہ بھی فرمایا کہ آئندہ تجھے جو ضرورت پیش آئے م جھ سے لب کرنا اور شرم نہ کرنا انشاء اللہ تعالیٰ تیری ضرورت پوری ہوجائے گی۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص نے امام عسکری کی خدمت میں حاضر ہوکر فقروفاقہ کی شکایت کی۔ آپ نے چابک ہاتھ میں لے کر زمین پر مارا جس سے ز مین میں سے پانچ سو دینار بر آمد ہوئے اور آپ نے اس کے حوالہ کردیئے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں دنیا کے خزانوں کی چابی دے رکھی تھی۔ آپ جو کچھ چاہتے تھے حاصل کرلیتے تھے۔ غرضیکہ آپ کی کرامات احاطہ تحریر سے باہر ہیں۔
وصال
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ آپ کا وصال جمعہ کے دن ۸ربیع الاول یا ربیع الآخر ۲۶۰ھ کو خلیفہ بنی عباس معتمد کے عہد میں ہوا تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ خلیفہ معتمد نے آپ کو زہر دیا تھا۔ آپ کا مزار سر من رائے کے قریب سامرہ نامی گاؤں میں اپنے والد ماجد امام علی نقی کے مزار مبارک کے قریب ہے آپکی عمر شریف ایک قول کے مطابق ۲۹سال اور دوسرے قول کے مطابق ۲۸سال تھی اور امامت کی مدت ایک روایت کے مطابق سات سال اور دوسری کے مطابق چھ سال تھی۔ آپ کا ایک فرزند ارجمند تھا جو امام مہدی ہوں گے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
(اقتباس الانوار)
کنیت ابوالحسن، ابوالحسن ثالث، لقب ہادی، عسکری اور نقی مشہور تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ شماتہ، ام الفضل مامون الرشید کی بیٹی تھیں۔ آپ کی ولادت مدینہ منوّرہ میں ۱۳؍رجب ۲۱۲ھ بقول بعضے؍۲۱۳ھ ہُوئی۔ شواہدالنبوّت، سفینۃ الاولیا اور مخبرالواصلین میں مختلف سال دیے گئے ہیں۔
حضرت نقی ایک دن رے کے دیہات میں تشریف لے گئے۔ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی کہ میرے ذمّہ ایک بہت بڑا قرضہ ہے کہ میں اس کے ادا کرنے سے قاصر ہُوں۔ حضرت امام اس کی بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ ایک تمسک تیس ہزار کا لکھ دیا اور اپنی مُہر چسپاں کردی اور اس کے حوالے کرتے ہُوئے کہا کل جب میں امراء میں بیٹھا ہوا ہوں لے آنا اور شدید تقاضا کرنا اور بیشک درشت کلامی بھی کر لینا اور اس تدبیر سے تمہارا قرضہ بیباق کرنے میں مدد مل جائے گی۔ دیہاتی نے تمسک تھام لیا اور چلا گیا۔ ایک دن خلیفہ بغداد کو ملنے کے لیے بہت سی مخلوق آئی ہوئی تھی۔ مجلس جمی ہوئی تھی۔ اعرابی آگیا اور تمسک نامہ پیش کیا اور تیس ہزار روپے کا تقاضا کرنے لگا اور سخت توہین آمیز الفاظ استعمال کرتا رہا۔ حضرت امام نے بڑی نرمی سے اسے ٹالا اور سہولت کے ساتھ ادائیگی کا وعدہ کرلیا۔ خلیفہ نے یہ صورت حال دیکھی۔ تیس ہزار روپیہ خزانے سے منگوا کر حضرت امام کی خدمت میں رکھا اور یُوں آپ نے اس دیہاتی کو دے کر روانہ کیا۔
ایک دفعہ خلیفہ متوکّل بیمار ہوگیا۔ اس کی ران پر سخت قسم کا پھوڑا نِکلا جو کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا تھا۔ تمام اطباء اس کے علاج سے بے بس ہوگئے۔ متوکل کی والدہ نے نذر مانی کہ اگر میرا بیٹا صحت یاب ہوگیا تو اپنے مال کا کچھ حصّہ حضرت امام کی خدمت میں بھیجوں گی۔ ایک دن فتح بن خاتون جو متوکل کے مقربین سے تھا کہنے لگا کہ کسی آدمی کو علی بن محمد کی خدمت میں بھیجا جائے اور اس سے اس موذی مرض میں مدد حاصل کرنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ امام کے پاس کوئی علااج ہو۔ متوکل نے ایک شخص کو حضرت امام کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اطبّاء کی تشخیص و علاج کے بالکل برعکس کوئی چیز بھیجی اور کہا: اسے گھسا کر پھوڑے پر لگادیں۔ اللہ کے حکم سے شفا پائے گا۔ اطباء سُن کر مذاق کرنے لگے۔ فتح بن خاقان نے کہا۔ تجربہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس چیز کو لایا گیا اور گھساکر پھوٹے پر رکھا گیا۔ اسی دن جتنا مواد پھوڑے میں تھا باہر نکل آیا۔ دوسرے روز زخم مندمل ہوگیا: اور تیسرے دن غسلِ صحت کرلیا۔ متوکل نے اپنی والدہ کی نذر کے مطابق ایک ہزار دینار کی تھیلی حضرت امام کی خدمت میں بھیجوادی۔ چند دن بعد آپ کے بد خواہوں میں سے ایک نے کہا کہ امام کے پاس تو بہت سا مال و زر ہے اور اپنے گھر میں ایک کثیر دولت دبائے بیٹھے ہیں۔ اسلحہ کی ایک خاصی مقدار موجود ہے۔ اگر اس کا خزانہ اور اسلحہ فوری طور پر ضبط نہ کیا گیا تو چند دنوں میں فساد کا خطرہ ہے جس پر قابُو پانا مشکل ہوجائے گا۔ متوکل ڈرگیا اور اپنے خاص آدمی کو بلایا اور کہا آج رات چند واقف کار آدمی لے جاکر کسی حکمتِ عملی سے امام کے گھر سے تمام خزانہ اور اسلحہ لے آؤ تو بہت سی عنایات حاصل کرلوگے۔
سعید کہتے ہیں کہ میں حسب الارشاد چند آدمی لے کر رات کے اندھیرے میں حضرت امام کے گھر گیا۔ ساتھیوں کو باہر کھڑا کیا اور ایک سیڑھی کے ذریعے اندھیرے صحن میں اترا تو ایک شخص اندر سے پکارا: سعید! اپنی جگہ ٹھہر جاؤ میں شمع روشن کر کے لاتا ہوں تمہیں ساری چیز تلاش کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ جب شمع جلی تو میں نے دیکھا کہ حضرت امام پشمین کپڑے پہنے مصلّے پر قبلہ رو بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرا گھر تمہارے سامنے ہے، جس چیز کی ضرورت ہو اٹھا لو۔ سعید کہتے ہیں: میں نے سارا مکان چھان مارا مجھے کچھ نظر نہ آیا۔ سوائے ایک تھیلی کے جس میں ایک ہزار دینار پڑے تھے اور اس پر خلیفہ کی والدہ کی مُہر لگی ہوئی تھی۔ تھیلی ابھی تک بند پڑی تھی۔ ایک جڑاؤ تلوار آپ نے مصّلے کے نیچے رکھی تھی دونوں چیزون کو اٹھا کر میں خلیفہ کے پاس پہنچا۔ متوکل نے اپنی والدہ سے اس تھیلی کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میں نے یہ نذرانہ بھیجا تھا کیونکہ میں نے تمہاری بیماری پر یہ نذر مانی تھی۔ آپ نے فرمایا: ایک تھیلی اور بھی امام کے ہاں بھیج دی جائے۔ اور تلوار بھی امام کو لوٹا دی۔ سعید کہتے ہیں: جب میں دونوں تھیلیاں اور تلوار لے کر آپ کی خدمت میں دوبارہ گیا چونکہ میں نادم تھا، میں نے آپ کے پاؤں چُوم کر کہا: رات میں اس نیّت سے آپ کے گھر بلا اجازت آیا تھا کیونکہ مجھے حکم سے سرتابی نہیں تھی۔ آپ نے تبسّم فرمایا اور کہا: سَیَعْلَمُوا الذین ظلموا۔
جب متوکل نے حضرت امام کو مدینہ سے عراق طلب کیا۔ آپ راستہ میں ایک جگہ قیام پذیر ہُوئے۔ یہ مقام بڑی ویران اور نا پسندیدہ جگہ تھی۔ ایک دن امام صالح ابن سعید کے احباب میں سے ایک صاحب خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: یا ابن رسول اللہ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ نا مراد عراقیوں کا لشکر ہمیشہ ہر کام میں خفیہ طور پر آپ کی مخالفت کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس پُر آشوب مقام پر انہوں نے آپ کو ٹھہرایا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے ابن سعید! تم ابھی اسی مقام پر رہو اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں رکھو اور آپ نے فرمایا: نظر اٹھا کر چاروں طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو دُور دُور تک خوش مناظر باغ، نہریں اور بلند و بالا محّلات نظر آئے۔ مجھے یہ منظر بہشت سے کم نہ تھا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ آپ نے فرمایا: حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں اسی طرح باغ وبہار مہک اُٹھتے ہیں۔ ان وحشت ناک مقامات سے ہمیں کبھی وحشت نہیں آتی۔
ایک شخص نے کوفہ کے قاضی کے خلاف حضرت امام کی خدمت میں شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: دو ماہ تک صبر کرو۔ جب دو ماہ گزرے تو قاضی فوت ہوگئے۔
متوکل نے اپنے گھر میں ہر قسم کے پرندے جمع کر رکھے تھے۔ ان کے شور و غل سے بات سنی نہیں جاتی تھی۔ جب امام وہاں تشریف لے جاتے تمام پرندے خاموش ہوجاتے تھے۔ جب تک بیٹھے رہتے کسی جانور کی آواز نہ آتی تھی۔
ہندوستان کا ایک شعبدہ باز متوکل کے دربار میں آیا اور عجیب و غریب شعبدے دکھانے لگا۔ ایک دن متوکل نے شعبدہ باز کو کہا: اگر تم اپنے شعبدہ سے علی نقی کو شرمندہ کر دکھاؤ تو میں تمہیں ایک ہزار دینار انعام دوں گا۔ وہ کہنے لگا: مجھے مجلس میں امام کے بالکل قریب بٹھادینا، میں اسے شرمندہ کردوں گا۔ جب مجلس لگی تو حضرت امام کو اس شعبدہ باز کے ساتھ ہی کھانا کھانے کو کہا گیا۔ جب امام اور دوسرے اہل مجلس کھانا کھانے لگے تو امام نے جس روٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا وُہ اڑکر دوسرے شخص کی طرف چلی گئی۔ دوسری بار ہاتھ بڑھایا تو پھر ایسا ہی ہُوا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہُوا۔ اہلِ مجلس اس شعبدے سے بڑے محفوظ ہُوئے اور حضرت امام پر ہنسنے لگے۔ آپ نے معلوم کرلیا کہ اس شعبدے کا مقام یہاں ہے، جو شخص میرے پاس بیٹھا ہے آپ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس مکان کی دیوار پر ایک شیر کی تصویر نقش ہے۔ آپ نے اس شیر کی طرف اشارہ کرکے کہا: اس دشمن اہلِ بیت کو پکڑ لو۔ حکم سنتے ہی شیر اصلی شیر کی طرح اٹھا اور شعبدہ باز کا ایک لقمہ کرکے پھر دیوار پر نقش بن گیا۔ متوکل نے بڑی کوشش کی کہ اسے لوٹا دیا جائے مگر آپ نے ایک نہ مانی۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ آپ غصّے کے عالم میں مجلس سے اٹھ کر چلے آئے۔
ایک دفعہ کسی امیر کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ پر بغداد کے تمام امراء جمع تھے، امام ابھی وہاں ہی تشریف فرما تھے۔ ایک بے ادب آدمی مجلس میں بیٹھا بڑی بے ہُودہ گفتگو کر رہا تھا اور آپ کا حقِ ادب بھی سامنے نہیں رکھتا تھا۔ آپ نےاسے مخاطب ہوکر فرمایا: تم کس بات پر ہنسے جارہے ہو حالانکہ تین (۳) دن کے بعد تم قبر میں ہوگے۔ وہ شخص اسی دن بیمار ہوا اور تیسرے دن مرگیا۔
ایک دن حضرت امام عباسیوں کی ایک مجلس میں تشریف فرماتھے۔ ایک شخص گستاخانہ گفتگو کرتے کرتے حد سے تجاوز کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اس شخص کو آج کے کھانے میں ایک لقمہ بھی نصیب نہیں ہوگا۔ اس کے گھر سے ایک ایسی خبر آنے والی ہے کہ اس کی زندگی حرام ہوجائے گی۔ جب اس شخص نے کھانا کھانے کے لیے ہاتھ دھوئے تو اس کا غلام آہ و فغاں کرتا ہوا اندر آیا اور کہنے لگا: تمہاری ماں کوٹھے سے گِر گئی ہے اور وہ حالتِ نزع میں ہے۔ وہ زندگی میں تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتی ہے۔ مجبوراً کھانا کھائے بغیر بھاگ گیا۔
آپ کی وفات حسرت آیات مستنصر باللہ خلیفہ بغداد کے دورِ خلافت میں ہُوئی اور بمقام سرمن رائے جو بغداد کے قریب ہی ہے، مدفون ہوئے۔ آپ بروز پیر آخر ماہ جمادی الآخر ۲۵۲ھ کو فوت ہُوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس یا اکتالیس سال تھی۔ آپ عالیشان مقبرہ سرمن رائے میں ہے۔
سالِ تولید آں شہِ ذیجاہ |
|
کن رقم عالم ولی اللہ |
|
||
|
جناب احمد حنبل شہ دیں |
|
کہ بود اد جامع معقول و منقول |