حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: حضرت خواجہ غلام فرید۔القاب:ملک الشعراء،فردِ فرید،قادرالکلام،شاعرِ ہفت زبان۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:قدوۃ العاشقین حضرت خواجہ غلام فریدبن حضرت خواجہ خدا بخش بن حضرت خواجہ احمد علی بن حضرت قاضی محمد عاقل(خلیفہ حضرت قبلہ عالم مہاروی) بن مخدوم محمد شریف بن مخدوم یعقوب بن مخدوم نور محمد۔آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔(علیہم الرحمہ)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز منگل 26/ذیقعدہ1261ھ،مطابق 25/نومبر 1845ء کو "چاچڑاں شریف"میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اسی دوران آپ کے والدماجد کا وصال ہو گیا ۔ظاہری وباطنی علوم و معارف اپنے بڑے بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں غلام فخر الدین رحمہ اللہ تعالیٰ اور دیگر جیدعلماء سے حاصل کئے اور مرتبۂ کمال کو پہنچے ۔
بیعت وخلافت: آپ اپنے برادرِ اکبر حضرت خواجہ فخر جہاں قدس سرہ سے بیعت ہوئے ،اور ان کے وصال کے بعدسجادہ نشین منتخب ہوئے۔
سیرت وخصائص: ملک الشعراء،فردِ فرید،قادرالکلام،شاعرِ ہفت زبان،غزالیِ گلستانِ الوہیت،رازیِ گلشنِ نبوت،بحرِ معرفت وشریعت،قدوۃ العاشقین ،زبدۃ العارفین،رئیس الموحدین حضرت خواجہ غلام فرید چشتی نظامی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت خواجہ صاحب ایک ہمہ جہت اور عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ایسی شخصیات صدیوں بعد پیداہوتی ہیں۔خواجہ صاحب کے وصال کے بعد اس خطے میں ایسی نامور،جامع اور مؤثر شخصیت پیدا نہیں ہوئی ہے۔خواجہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سرائیکی زبان کے ملک الشعراء تھے۔آپ کے وجد آفریں کلام میں بلاکا سوز ہے ۔آپ کی کافیاں آج بھی اثر آفرینی میں جواب نہیں رکھتیں ۔ عوام و خواص کے لئے کیف و سرور کا خزینہ اور عشق و عرفان کا سر چشمہ ہیں۔
اسی لئے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے کہا تھا:"جس قوم میں خواجہ فرید اور اس کی شاعری موجود ہے ، اس قوم میں عشق و محبت کا موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے"۔چونکہ آپ مسئلہ وحدۃ الوجود کے بہت بڑے حامی تھے ،اس لئے آپ کے کلام میں اس مسئلہ کی نمایاں ترجمانی پائی جاتی ہے۔آپ نے اردو ، فارسی ،سندھی،اور سرائیکی وغیرہ زبانوں اظہار خیال کیا ہے۔آپ کے مطبوعہ دیوان کے مطالعہ سے قدرتِ بیان، جودت ِطبع اور بلندی ِتخیل کاپتہ چلتا ہے۔آپ شریعت مطہرہ اور سنت مبارکہ پر سختی سے کار بند تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ، رسوم بد کو ختم کر نے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ۔ اپنے زمانہ کی عورتوں اور مردوں کے ناز یبا افعال پر سخت نا پسندید گی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"عورتیں غیر مردوں کے سامنے اوڑھنی کندھے پر ڈال کر جلوہ گر ہوتی ہیں اور اسے باعث ِفخر سمجھتی ہیں ، شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی بُری رسمیں پیدا ہوگئی ہیں مثلاً مرد عورتیں حلقہ باند کر رقص کرتے ہیں ، تالیاں بجاتے ہیں ، اور حلقہ کے درمیان نقارہ بجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اورکئی ممنوع اورمہلک امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ناہنجار کافروں کے کاموں کو مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے اگر انہیں منع کیا جائے توکہتے ہیں جس کام پر ہمارے باپ دادا تھے ہمیں وہی کافی ہے"۔
جو دو سخا کی کوئی انتہا نہ تھی ،دور نزدیک کے کثیر التعداد غرباء و مساکین کےوظیفے مقرر کر رکھے تھے ۔بہت سے یتیم اور بیوہ عورتیں آپ کے زیر سایہ خوشحالی سے زندگی گزارتے ،کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کرتے ۔ آپ نے سجادۂ فقر پر فائز ہونے کے باوجود علوم باطنی کے علاوہ علومِ ظاہری کا درس بھی جاری رکھا ،خاص طور پر حدیث شریف اور تصوف کی کتب کا درس ہمیشہ جاری رہتا ۔بڑے بڑے علماء حاضر ِخدمت رہتے لیکن جب آپ کسی مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے اور تائید میں عقلی نقلی دلائل کے انبار لگاتے تو انہیں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنا پڑتا۔آپ کے تبحرِ علمی کاندازہ اس واقعے سے لگایاجاسکتا ہےکہ مولانا محمد شاکر ڈیروی صاحب علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور مدرس تھے،انھیں بھی خواجہ صاحب سے اکتسابِ علم کاموقع ملا۔ایک دن کسی دوست نے پوچھا مولانا!اب تک کتنا علم حاصل کیا؟مولانا کہنے لگے: جس وقت حضرت نے"لاالہ الا للہ" کی تشریح فرمائی،تو میں نے اپنے آپ کو طفلِ مکتب سمجھا،اور ابھی اسی کلمہ ٔ پاک کی توضیح ختم نہیں ہوئی۔(انسائیکلوپیڈیا،ج4،ص:233)
شوال 1302ھ/1885ءمیں جب مولانا غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمہ نے "براہین ِقاطعہ" کی بعض عبارات پرگرفت کی اور مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سے ان عبارات پر مناظرہ کیا تو اس مجلس کے جج نواب آف بہاول پور نواب محمد صادق عباسی کے پیر و مرشد حضرت خواجہ صاحب ہی تھے۔آپ نے فیصلہ دیا تھا کہ" متناز عہ فیہا عبارات وہابیت کی ترجمانی کرتی ہیں اور مسلکِ اہل ِسنت کے خلاف ہیں"۔آپ کے فیصلے کی بناء پر مولوی انبیٹھوی کو گستاخانہ عبارات کی وجہ سے ریاست بہاولپورنکال دیا گیاتھا۔(تقدیس الوکیل)
حضرت خواجہ صاحب قدس سرہ کے مریدین و معتقد ین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ عوام و خواص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مستفیض ہوتے ۔ بڑے بڑے نواب و امراء آپ کی نسبت ارادت اور خدمت کواپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ۔آپ کے درس ِتوحید و ہدایت سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد مستفید ہوئے اور متعدد حضرات منازل سلوک طے کر کے صاحبِ کمال ہوئے ۔خلافت عطا کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ، فرماتے تھے :جب تک کل منازل ِ سلوک طے نہ ہو جائیں شیخ کو لازم ہے کہ مرید کو خرقہ ٔخلافت نہ دے۔
حضرت خواجہ صاحب کو سرکارِ دوعالم ﷺسے والہانہ محبت تھی،بلکہ آپ "فنافی الرسولﷺ"کے مقام پر فائز تھے۔آپ نے اپنے کلام میں اس کا جا بجا اظہار فرمایا ہے۔آپ فرماتے ہیں:
میڈا عشق وی توں میڈایار وی توں میڈا جسم وی توں،میڈی روح وی توں میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں میڈا زہد عبادت طاعت تقویٰ
|
میڈادین وی توں ایمان وی توں میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں صوم صلوٰۃ ا ٓذان وی توں علم وی توں عرفان وی توں
|
وصال: آپ کاوصال 7/ربیع الثانی 1319ھ،مطابق جولائی/1901ءکو ہوا۔آپ کا مزار پرانوار"کوٹ مٹھن شریف "(ڈیرہ غازی خان ڈویژن)میں مرجعِ خلائقِ ہے۔
وقتِ وصال کلمہ طیبہ سے پہلےیہ رباعی پڑھتے رہے:
گزریا وقت ہَسَن کھِلن دا اوکھا پینڈا یار ملن دا
|
آیا وقت فرید چلن دا ہن جان لباں تے آئی اے
|
ماخذومراجع: خواجہ غلام فرید۔تذکرہ اکابرِ اہلسنت۔انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام۔
//php } ?>