حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی
حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فرید عصر، زبدۃ الاولیاء حضرت مولانا خواجہ غلام فرید قدس سرہٗ ۲۶؍ذیقعدہ بروز منگل ۱۲۶۱ھ کو پیدا ہوئے، ‘‘خورشید عالم’’ تاریخی نام رکھا گیا، گنج شکر کان نمک شیخ الاسلام فرید الدین مسعود قدس سرہٗ کے نام نامی پر تیمناً غلام فرید نام تجویز کیا گیا، آپ کا سلسلۂ نسب حضرت ناصر بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وابستہ ہے، جو حضرت ناصر کے پر پوتے یحییٰ بن مالک اسلامی لشکر کے ساتھ سندھ وارد ہوئے، مالک سے ساتویں پشت میں عیسیٰ بن یوسف نے سیاست کی پُر شور زندگی سے کنارہ کش ہوکر فقر وعرفان کی زندگی اپنائی، ان کی اولاد میں مخدوم نور محمد نامور بزرگ گذرے ہیں، شاہ جہاں کے وزیر ارادت خاں اُن کے مریدوں میں تھے، خود شاہ جہاں کو حضرت مخدوم سےبڑی عقیدت تھی، ۲۵؍ربیع الاول ۱۱۴۴ھ میں بادشاہ نے ایک فرمانکے ذریعہ پانچ ہزار بیگھہ زمین پر گنہ منگلوٹ صوبہ ملتان میں اُن کی خدمت میں بطور نذر پیش کی تھی، یہ فرمان ‘‘ماقب فریدی’’ کے صفحہ ۴۷، ۴۸۷ پر منقول ہے۔ مخدوم نور محمد کے پوتے حضرت خواجہ محمد شریف ٹھٹھہ سے ترک وطن کر کے ملتان رُکتے ہوئے ضلع مظفر گڈھ کےایک ساحلی گاؤں میں جاکرمقیم ہوگئے، تھوڑے عرصہ کے بعد اُن کے پیر و مرشد نے اُن کو تبلیغ اسلام اور اشاعت سلسلہ کے لیے ڈیرہ غازی خاں کی اقامت کا حکم دیا، خواجہ شریف کے ایک نامور مرید مٹھن خاں نے جن کے بارے میں مختلف روایات ہیں، اُن کو اپنےگاؤں کی رہائش کی پیش کش کی، اس کے بعد اُن کی عمر کا باقی حصہ اسی گاؤں میں رشد و ہدایت میں بسر ہوا، مدفن بھی یہیں ہے،
خواجہ شریف کے بیٹے خواجہ محمد عاقل تھے، انہوں نے اولاً والد سےحفظ قرآن مجید کیا، اس کے بعد حضرت شیخ المشائخ مولانا شاہ فخر الدین محب النبی دھلوی اور حضرت مولانا خواجہ نور محمد مہاروی سے تحصیل علم کیا، حدیث کی سند مؤخر الذکر سے پائی اور اُنہیں سے مرید ہوئے اور اجازت حاصل کی، خواجہ عاقل کو رشد وہدایت کے ساتھ تدریس سے بھی خاس شغف تھا، بہادر شاہ ظفر علیہ الرحمۃ اُن کے بڑے معتقد تھے ؎
دل فدا کرتے ہیں، نامِ فخر دیں پہ اے ظفر ہم ہیں عاقل، ریط عاقل سے ولی رکھتے ہیں ہم خواجہ عاقل قاضی الحاجات کے لقب سے مشہور تھے، چارہ کی مختصر علالت کے بعد آٹھویں رجب ۱۲۲۹ھ کو انہوں نے وصال فرمایا، قاضی الحاجات کے فرزند ارجمند حضرت خواجہ احمد علی تھے جن سے حضرت خواجہ سلیمان تونسوی المتوفی ۱۲۶۷ھ مستفید ہوئے، حضرت خواجہ احمد علی کے بیٹے خواجہ خدابخش نے ۱۲؍ذی الحجہ ۱۲۶۹ھ کو وفات پائی۔
فرید عصر حضرت خواجہ غلام فرید نےاپنے برادر بزرگ حضرت خواجہ غلام فخر الدین فخر جہاں کی سر پرستی میں پرورش پائی اور انہیں سے علوم ظاہری کی تحصیل کی، اور بیعت ہوکر سلوک کی تکمیل کی، ۱۲۸۲ھ میں خواجہ فخر جہاں کی وفات کے بعد مسند آبائی پر متمکن ہوکر مصروف ہدایت ہوئے آپ کو بھی تدریس سے خصوصی شغف تھا، صبح سے دوپہر تک فقہ وتصوف وحدیث وتفسیر کا درس دیتےتھے، آپ کو عربی، فارسی، اُردو، سندھی، سنکرت زبانوں پر یکساں عبور تھا، آپ سرائیکی زبان کےعظیم شاعر تھے، بزرگان چشت کا مسلک عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا وصف خاص تھا، آپ اپنےمشائخ واسلاف کے سچے جانشین اور اُن کے قدم بہ قدم تھے، اسی بناء پر آپ نے مناظرۂ بہاول پور کا حکم بننا منظور فرمایا، اور ادب واحترام نبوی کی بناء پر ہی مشہور دیوبندی پیشوا مولانا خلیل احمد مؤلف براہین ققطعہ کے اخراج کا حکم فرمایا، اور آپ کے مرید وائی ریاست نے ان کو نکال دیا، ۶؍ربیع الآخر ۱۳۱۹ھ کو آپ نے وصال فرمایا۔
(روزنامہ ‘‘مشرق’’ لاہور، یکم جون ۱۹۷۱ء، تذکرہ صوفیائے پنجاب)