بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی (چاچڑاں شریف)
بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی (چاچڑاں شریف) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
قدوۃ العاثقین حضرت خواجہ غلام فرید ابن حضرت خواجہ خدا بخش (م ۱۲ ذوالحجہ ۱۲۶۹ھ) ابن حضرت خواجہ احمد علی(م ۹ شعبان ۱۲۳۱ھ) ابن حضرت قاضی محمد عاقل (م ۸رجب ۱۲۲۹ھ)خلیفۂ حضرت قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی قدست اسرارہم ۲۶ ذیعقدہ (۱۲۶۱ھ؍۱۸۴۵ئ) چا چڑاں شریف (تحصیل خانپور ) مین پیدا ہوئے[1]
نوٹ:۔ جناب مسعود حسن شہاب نے اپنی تالیف ’’ خواجہ غلام فرید‘‘ میں مقابیس المجالس کی اس روایت کو ترجیح دی ہے کہ آپ کی ولادت ذوالحجہ ۱۳۶۱ھ کے آخری عشرہ کے شنبہ ۲۳ ذوالحجہ کو ہوئی۔
آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ کے اجداد میں سے پہلے پہل مالک بن یحییٰ مالک بن یحییٰ سند ھ میں وارد ہوئے ،بعد ازاں آپ کے اجداد نے کوٹ مٹھن کو شرف سکونت بخشا لیکن ااپ کے والد ماجد سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر نواب صادق محمد خان اول کی درخواست پر چا چڑاں شریف میں قیام پذیر ہوئے تھے یہیں حضرت خواجہ صاحب قدس سرہٗ کی ولادت با سعادت ہوئی۔
آٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اسی دوران آپ کے والدماجد کا وصال ہو گیا ۔ظاہری وباطنی علوم و معارف اپنے بڑے بھائی حضرت کواجہ فخر جہاں غلام فخر الدین رحمہ اللہ تعالیٰ (م ۵ جمادی الاولیٰ ۱۲۸۸ھ) سے حاصل کئے اور مرتبۂ کمال کو پہنچے ۔ حضرت خواجہ فخر جہاں قدس سرہکے وصال کے بعد آپ سجادہ نشین ہوئے[2]
حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سرائیکی زبان کے ملک الشعراء تھے۔آپ کے وجد آفریں کلام میں کا سوز ہے ۔آپ کی کافیاں آج بھی اثر آفرینی میںجواب نہیںرکھتیں ، عوام و خواص کے لئے کیف و سرور کا خزینہ اور عشق و عرفان کا سر چشمہ ہیں،اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا:۔
’’جس قوم میںخواجہ فرید اور اس کی شاعری موجود ہے ، اس قوم میں عشق و محبت کا موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے[3]‘‘
چونکہ آپ مسئلہ وحدۃ الوجود کے بہت برے حامی تھے اس لئے آپ کے کلام میں اس مسئلہ کی نمایاںترجمانی پائی جاتی ہے۔آپ نے اردو ، فارسی اور ملتانی زبان میںبھی اظہار خیال کیا ہے۔آپ کے مطبوعہ دیوان کے مطالعہ سے قدرت بیان، جودت طبع اور بلندی تخیل کاپتہ چلتا ہے۔
آپ شریعت مطہرہ اور سنت مبارکہ پر سختی سے کار بند تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ، رسوم بد کو ختم کر نے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ۔ اپنے زمانہ کی عورتوں اور مردوں کے ناز یبا افعال پر سخت نا پسندید گی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ عورتوں غیر مردوں کے سامنے اوڑھنی کندھے پر ڈال کر جلوہ گر ہوتی ہیں اور اسے باعث فخر سمجھتی ہں ، شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی بُری رسمیں پیدا ہوگئی ہیں مثلاً مرد عورتیں حلقہ باند کر رقص کرتے ہیں ، تالیاں بجاتے ہیں ، اور حلقہ کے درمیان نقارہ بجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اورکئی ممنوع اورمہلک امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ناہجاز کافروں کو کاموں کو مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے اگر انہیں منع کیا جائے توکہتے ہیں جس کام پر ہمارے باپ دادا تھے ہمیں وہی کافی ہے [4]‘‘
جو دو سخا کی کوئی انتہا نہ تھی ،دور نزدیک کے کثیر التعداد وغرباء و مساکین وظیفے مقرر کر رکھتے تھے ،بہت سے یتیم اور بیوہ عورتوںآپ کے زیر سایہ خوشحالی سے وظیفے گزارتے ، کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کرتے ۔ آپ نے سجادئہ فقر پر فائز ہونے کے باوجود علوم باطنی کے علاوہ ظاہری کا درس بھی جاری رکھا ،خاص طور پر حدیث شریف اور تصوف کی کتبکا درس ہمیشہ جاری رہتا برے بڑے علماء حاجر خدمت رہتے لیکن جب آپ کسی مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے اور تائید میں عقلی نقلی دلائل کے انبار لگاتے تو انہیں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنا پڑا[5]
شوال ۱۳۰۲ھ میں ج مولانا غلام دستگیر قصوری نے براہین قاطعہ کی بعض عبارات پر (جو خلاف مسلک اہل سنت تھیں) گرفت کی اور مولوی خلیل احمد انبھیٹوی (مدرساولجامعہ عباسیہ بہاولپور) سے ان عبارات پر مناظرہ یا تو اس مجلس کے حکم نواب بہاول پور نواب محمد صادق عبسی کے پیر و مرشد حضرت خواجہصاحب ہی تھے آپ نے فیصلہ دیا تھا کہ متناز عہ فیہا عباراتابیت کی ترجمانی کرتی ہیں اور مسلک اہل سنت کے خلف سنت کے خلاف ہیں [6]
آپ نے چا چڑاں شریف میں ایک مدرسہ قائم کیا جس کا نامجامعہ فرید یہ رکھا اور اس میں سے دور کے چوٹی کے فضلاء کو تدریس پر مقرر کیا ، اس مدرسہ سے بیشمار فضلاء پیداہوے۔
حضرت خواجہ صاحب قدس سرہ کے مریدین و معتقد ین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ عوام و خواص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مستفیض ہوتے ۔ بڑے بڑے نواب او امراء آپ کی نسبت ارادت اور خدمت کواپنے لئے باعث فخر سمجھتے ۔آپ کے درس توحید و ہدایت سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد مستفید ہوئے اور متعدد حضرات منازل سلوک طے کر کے صاحب کمال ہوئے ۔خلافت عطا کرنے میںبڑی احتیاط سے کام لیتے تھے، فرماتے تھے ، جب تک کل منازل طے نہ ہو جائیںشیخ کو لازم ہے کہ مرید کو خرقہ خلافت نہ دے آپ کے چند خلفاء کیاسماء یہ ہیں :۔
۱۔ حضرت خواجہ محمد بخش المعروف بہ نازک کریم رحمہ اللہ تعالیٰ (فرزند اجمند)
۲۔ مخدوم سید ولایت شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ (اوچ شریف)
۳۔ حضرت خواجہ میاں فضل حق مہاروی رحمہ اللہ تعالیٰ ۔
۴۔ میاں بلند وخاں بیکا نیری ۔
۵۔ مولانا احمد بخش ساکن حجہ عباسیاں ( بہاولپور ) وغیر ہم [7]
آپ کی بلند پایہ اور مقبول عام تصانیف یہ ہیں:۔
۱۔ فوائد فریدیہ ،مسلک توحید اور اعتقادی مسائل پر بہترین کتاب۔
۲۔ دیوان فرید (اردو)
۳۔ ملتانی
نیز آپ کے ملفوظات مرتبہ مولانا رکن الدین ’اشارات فریدی‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں طبع ہو چکے ہیں[8]
۶؍ربیع الاول ۱۳۱۹ھ؍۱۹۰۱ ء کو آپ کا وصال ہوا ۔مزار پر انوار کوٹ مٹھن شریف (بہاولپور ڈویژن ) میں مرجع خلائق ہے ۔ قطعۂ تاریخ وصال یہ ہے:
’’ خرامید بہ قصر خلد امروز ‘‘ ( ۱۳۱۹ھ)
[1] احمد اختر، نبیرئہ بہادر شاہ ظفر : مناقب فریدی ( مطبع احمدی، دہلی ۱۳۱۴ھ)ص ۹۶
[2] مسعود حسن شہاب : خواجہ غلام فرید ، اردو اکادمی ، بہاولپور ، ۱۹۲۳ئ، س ۲۷۔۳۶
[3] فیض احمد اویسی ،مولانا: التذکار السعدی فی ذکر خواجہ غلام فرید ،مکتبہ اویسیہ بہاولپور۱۳۸۱ھ،ص ۵۴
[4] ایضاً : ص ۲۱
[5] فیض احمد اویسی،مولانا : التذکار السعید ص ۲۶۔۱۳
[6] اقبال احمد فارقی ، مولانا: متقدیس الوکیل (حالات و تصانیف مؤلف)
[7] فیض احمد اویسی ،مولانا: التذکار السعید ، ص ۲۸
[8] ایضاً:ص ۶۴۔۴۵
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)