بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی (چاچڑاں شریف)

بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی (چاچڑاں شریف) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          خواجہ  غلام فرید چشتی بن خواجہ  خدا بخش سلسلہ چشتیہ کے معروف بزرگوں میں سے ہیں ، آپ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق رضی  اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان کے افراد سر زمین عرب سے سندھ میں منتقل ہوئے پھر مختلف مقامات پر رہائش پذیر ہونے کے بعد مٹھن کوٹ ڈیرہ غازی خان میں مقیم ہوئے بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے خاندان کے پہلے شخص جو سندھ میں تشریف لائے تھے وہ ملک بن یحییٰ تھے۔

          خواجہ غلام فرید چشتی کی ولادت قصبہ چاچڑاں میں ہوئی چار سال کی عمر میں والدہ ماجدہ اور آٹھ سال کی  عمر میں والد محترم کے سایہ سے محروم ہوگئے، والدین کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی خواجہ غلام فخرالدین پر آن پڑی، خواجہ غلام فخر الدین اپنے وقت کے برگزیدہ بزرگوں میں سے تھے، انہوں نے آپ  کی تعلیم  و تربیت  پر خاص  توجہ دی، بھائی کی سر پرستی  میں آپ ذہنی قلبی اور روحانی تربیت کی منازل طے کرتے رہے، عبادت و ریاضت اور مجایدات میں مصروف رہے اور سلوک و معرفت کے بام عروج تک پہنچے ۔

          چودہ سال کی عمر میں آپ نے اپنے  بھائی خواجہ غلام فخر الدین کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور مختلف علوم و فیوض باطنی سے بہرہ ور ہوئے، علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل  کے بعد آپ نے درس تدریس  کا سلسلہ  شروع  کردیا، اور چاچڑاں میں جامعہ  فرید یہ کے نام سے ایک مدرسہ  قائم کیا جس میں بے شمار طالبان نے ظاہری و باطنی علوم کا اکتساب کیا۔

          آپ شریعت مطہرہ کے بڑے پابند تھے اور اپنے تمام  مریدین اور معتقدین کو سختی  سے سنت پر عمل پیرا ہونے کی تلقین  فرماتے تھے، بری رسوم کے خاتمہ کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے۔

          ۱۲۸۸ھ میں آپ کے برادر بزرگ اور پیرو مرشد خواجہ فخر جہاں کا وصال ہوا تو آپ مسند رشد وہدایت پر جلوہ افروز ہوئے اور ساتھ ہی عبادت  و ریاضت اور مجاہدا ت میں استغراق کے ساتھ مشغول ہوگئے،  یہی زمانہ ہے جب آپ نے روہی میں گوشہ نشینی  اختیار کی اور اسرار و حقائق سے بھر پور  اشعار کہنا شروع کیے۔ آپ ہفت زبان کے شاعر تھے انہوں نے سرائیکی  زبان کے علاوہ مختلف زبانوں میں کافیاں لکھی ہیں، لیکن  انکی سرائیکی  کافیاں بے مثال ہیں، خواجہ فرید سے پہلے اور آپ کے بعد آج تک سرائیکی زبان میں کسی نےاس سے بہتر مواد نہیں پیش کیا۔ آپ کے کلام میں تصوف، اسرار و معرفت، حمدو نعت کے علاوہ حسن و عشق، درد و غم ، الفت و محبت  اور مناظر فطر کی عکاسی جھلکتی ہے۔ ۱۲۹۲ھ میں آپ نے حرمین  شریفین کی زیارت اور حج کا ارادہ فرمایا کئی ایک مرید اور عقیدت  مند بھی آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے اور آپ ملتان، لاہور، دہلی اور اجمیر سے ہوتے ہوئے بمبئی  پہنچے، اخراجات کے سلسلہ میں مولانا طالوت مرحوم لکھتے ہیں:

          ‘‘اتنے  کثیر ہمراہیوں کا سارا خرچ آپ نے خود برداشت کیا اور اس کے ساتھ ہی عرب کے رہنے والوں میں جس جودو سخا کا آپ نے مظاہرہ کیا، اسے وہ لوگ مدتوں تک یاد کرتے رہے، حج کے کل سفر میں آپ نے کس قدر روپیہ خرچ کیاا س کا توکسی نے  ذکر نہیں کیا۔ البتہ مرزا احمد اختر نے چاچڑاں سے بمبئی  تک کے خرچ کا اندازہ ۳۶ ہزار روپیہ لگایا ہے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جب آپ نے یہاں کے مساکین  پر ۳۶ ہزار روپیہ  صرف فرمایا تو عرب مساکین پر تو بدر جہا زیادہ خرچ کیا ہوگا اور کرایہ وغیرہ ملا کر دو چار لاکھ سے کیا کم خرچ کیا ہو گا۔ کیوں کہ واپسی نہ صرف وہی ہمراہی ساتھ نہ تھے  جو یہاں سے معیت  میں گئے، بلکہ  عرب میں جس قدر مساکین خرچ نہ ہونے کی وجہ سے رکے پڑے تھے۔ آپ ان سب کو ہمراہ لے آئے تھے۔

          اس سے خواجہ کی درویشانہ  زندگی، دریا دلی، اور خدا ترسی کا اظہار ہوتا ہے بیشتر صوفیاء کرام کی طرح خواجہ فرید بھی وحدت الوجود کے قائل تھے، انہیں  کائنات کے ہر ذرے میں ایک ہی روح خواجہ فرید بھی وحدت الوجود کے قائل تھے ، انہیں کائنات کے ہر ذرے میں ایک ہی روح رواں نظر آتا تھا، یہ وسیع  زمین بلند و بالا آسمان یہ سبزہ و گل، پانی سے بوجھل بادل، مست ہوائیں، یہ عالم ہست و بود، ہر چیز، ہر رنگ اور ہرادا میں انہیں ذات واحد  کی کرشمہ سازیاں نظر آرہی تھیں، چناں چہ اپنی کافی میں وہ اس حقیقت  کااس طرح اظہار کرتے ہیں:

ترجمہ: میں نے ہر گلی اور ہر بازار میں عشق کو جلوہ آرا دیکھ لیا ہے،  ہر چیز میں اسی نور حضور کا جلوہ نظر آرہا ہے۔

دوسری کافی میں فرماتے ہیں:

ترجمہ: اس ذات کے سوا کوئی اور وجود دیکھنا محال ہے، چاروں طرف اسی کا حسن و جمال نظر آرہا ہے، مجھےہر وقت وصال یار حاصل ہے۔

          حضرت خواجہ رسو ل اللہ ﷺ کی ذات ستودہ  صفات سے والہانہ محبت کرتے تھے م چناں چہ روضہ رسول ﷺ سے رخصت ہوتے وقت  اپنی عقیدت و محبت  کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

ترجمہ: آج میں محبوب سے رخصت ہورہاہوں اور میرے سر پر دکھوں کا بوجھ ہے، میرے دل نے سچی پریت لگائی ہے، اے خدا ایک بار مجھے محبوب کا وصال عطا فرمانا۔ میرا دل محبوب  کے لیے ترس رہا ہے، اس گھر ، شہر اور بازار میں کہیں بھی چین نہیں ملتا۔

          آخر عمر میں آپ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہوگئے مرض رفتہ رفتہ بڑھتا گیا،  آخر ۶ ربیع الثانی بمطابق ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء بدھ کے دن آپ کا وصال ہوا اور مٹھن کوٹ میں مدفون ہوئے۔

          مٹھن کوٹ میں آپ کا مزار شریف مرجع خلائق ہے، اور ہر سال ربیع  الثانی کی ۵ ،۶اور ۷ تاریخ کو شاندار طریقہ سے آپ کا عرس ہوتا ہے۔

(تذکرہ اولیاءِ سندھ )

تجویزوآراء