حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:حضرت خواجہ شمس الدین ۔لقب:شمس الاولیاء۔ترکی النسل ہونے کی وجہ سےترک،اورپانی پت میں قیام کی وجہ سے پانی پتی کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:شمس الدین ترک بن سید احمدبن سیدعبدالمومن بن سیدعبدالملک بن سیدسیف الدین بن خواجہ ورعنابن باباقرعنا۔آپ کے آباؤاجدادترک کےرہنےوالےتھے۔آپ ساداتِ علوی سےتھے۔آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سے حضرت محمدحنیفہ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتاہے۔
تاریخِ ولادت:21/جمادی الثانی 597ھ،مطابق مارچ/1201ءکوبمقام مرخس ترکمانستان میں پیداہوئے۔
تحصیل ِ علم: آپ کی تعلیم وتربیت ترکمانستان میں ہوئی۔آپ نے بہت جلدتفسیر،حدیث،فقہ،ریاضی،منطق، ہیئت،ہندسہ میں قابلیت حاصل کی۔جلدہی علم معقول و منقول سےفارغ ہوکرعلم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔
بیعت وخلافت: حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکررحمتہ اللہ علیہ نےآپ کوخلافت سے سرفرازفرمایا،اور آپ سے فرمایا:تمھاراباقی حصہ دوسرے مرشدکےپاس ہے۔"حصول نعمت وکمال توموقوف برمرشددیگراست"۔تمہاراحصول نعمت وکمال دوسرے مرشدپرموقوف ہے۔آپ کو اپنےمریدوخلیفہ حضرت علاؤالدین احمدصابررحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں کلیرروانہ کیا۔(اس وقت ایساپیرنہیں دیکھاگیاکہ جوبابافریدکےمقام پرفائزہواورآئے ہوئےشخص سےیہ کہےکہ تم فلاں شخص کےپاس چلےجاؤ،تمھاراحصہ ان کےپاس ہے۔اب تویہ ہےکہ ایک ترغیبی مہم چلائی جاتی ہےکہ فلاں حضرت اس مقام پرفائزہیں تم ان کےمریدہوجاؤ،ماشاء اللہ لنگرمزیدارہوتاہےوغیرہ۔پھرصرف لنگرہی ملتاہے،خدانہیں ملتا)حضرت مخدوم علاؤالدین احمدصابر(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ کودیکھ کرفرمایا۔"اے شمس الدین!تومیرافرزندہے۔میں نےخداسےچاہاکہ میراسلسلہ تجھ سے جاری ہواور قیامت تک رہے"۔آپ کوبیعت سےمشرف فرمایا۔سلسلہ عالیہ چشتیہ کےمطابق آپ کوحلق کرایا۔کلاہ چہارترکی آپ کے سرپررکھی۔ آپ گیارہ سال تک اپنےپیرومرشدکی خدمت میں رہے۔پیرومرشدکووضوکرانےکی خدمت آپ کےسپردتھی۔حضرت نےخرقہ خلافت آپ کو عطافرمایااوراسم اعظم جوسینہ بسینہ چلاآتاتھا، آپ کو تعلیم کیا۔
سیرت وخصائص: شمس الاولیاء،بدرالاتقیاء،آئینہ جمال وجلال حقانی ،قطبِ وقت،فیض یافتہ حضرت فریدالدین،وشیخ صابر،معارفِ علومِ ربانی حضرت شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ صوفیِ باصفااورکاملانِ اولیاء میں سےتھے۔تلاش کےحق کےجذبےسےمتاثرہوکرآپ نےاپنےوطن عزیزکوخیربادکہا۔اول ترکستان کی سیروسیاحت فرمائی۔جب وہاں کوئی مرشدکامل نہیں ملاتوماورالنہرتشریف لائے۔وہاں بہت سے بزرگوں سےملے،لیکن آپ کو تسکین نہیں ہوئی۔ماوراءالنہرسےملتان تشریف لائے۔ملتان سےاجودہن(پاک پتن) آئےاورحضرت بابافریدالدین گنج شکررحمتہ اللہ علیہ کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے۔آپ نےکچھ عرصہ حضرت باباگنج شکررحمتہ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں رہ کرفیوض وبرکات باطنی حاصل کئے۔
آپ صاحب عظمت و ولایت تھے۔علم ظاہری و باطنی میں اپنی مثال آپ تھے۔زہدوتقویٰ آپ کا مشہورتھا۔ترک وتجرید،ریاضت،مجاہدہ اورعبادمت میں بےنظیرتھے،وضع قطع سےقلندرمعلوم ہوتےتھےاورقلندروں کاسالباس چرمی پہنتے تھے۔جوکچھ زبان سےفرماتےتھےویساہی ہوجاتا۔آپ کے پیرومرشدحضرت مخدوم صابرکلیری رحمتہ اللہ علیہ نےآپ کے متعلق فرمایا:شمس ما دراولیاءچوں شمس است"ہماراشمس اولیاء میں سورج کی طرح ہے۔آپ اپنےپیردستگیرکی اجازت سے سلطان غیاث الدین بلبن کےلشکرمیں ملازم ہوگئے۔ ریاضت،عبادت اورمجاہدہ کےساتھ ساتھ آپ اپنےفرائض کوبھی بحسن و خوبی انجام دیتےرہے۔ آپ اپناحال کسی پر ظاہرنہیں کرتےتھے۔باوجودامارت واعزازکےفقروفاقہ میں گزارتےتھے۔
فضل وکمال: سلطان غیاث الدین بلبن نےایک قلعہ کا محاصرہ کیا۔آپ شاہی لشکرکےساتھ تھے۔قلعہ فتح نہ ہو سکا،لیکن محاصرچھ ماہ تک بدستورجاری رہا۔ایک رات آندھی اوربارش کےطوفان سےلشکروالوں کےخیمے گرپڑے۔ہرطرف اندھیراہوگیا۔آگ بجھ گئی۔ایک بہشتی(پانی بھرنےوالا) لوٹالےکرسلطان بلبن کے وضو کے لئے پانی گرم کرنےکےواسطےآگ تلاش کرنےنکلا۔اس کی نگاہ آپ کےخیمےپرپڑی کہ بدستور قائم تھا۔ جب نزدیک پہنچے، دیکھا کہ ایک درویش چراغ کی روشنی میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہے اگرچہ طوفان سخت تیز تھا مگر چراغ بجھنے نہ پاتا تھا۔وہ بہشتی خیمہ میں جاکرخاموش کھڑاہوگیا۔آپ نےاس کی طرف دیکھ کرفرمایاکہ اگرآگ چاہےتولےجاؤ،اس بہشتی نےلکڑی سلگائی اورواپس چلاگیا۔ دوسرے روزوہ پھرآیا،لیکن آپ کوخیمہ میں نہ پایا۔
وہاں سےتالاب پرپانی بھرنےگیاتوکیادیکھتاہے کہ آپ وضو کررہے ہیں۔وہ ایک طرف چھپ کرکھڑاہوگیاآپ کےجانےکےبعداس نےمشک بھری توپانی کوخوب گرم پایا،اس کوسخت حیرت ہوئی،اگلےروزعلی الصبح آپ کے پہنچنےسے قبل وہ تالاب پرگیا،پانی کوسردپایا،وہ ایک جگہ چھپ کربیٹھ گیا،تھوڑی دیربعدآپ تشریف لائےاور وضو کیا،آپ کےجانےکےبعداس نےجو مشک بھری توپانی گرم پایا،اب اس کویقین ہواکہ بس آپ کی برکت کانتیجہ ہے۔اس نےسلطان بلبن سےذکرکیا۔سلطان بلبن اس کوہمراہ لےکراس تالاب پرپہنچا،پانی کو سرد پایا،سلطان بلبن اوروہ ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے،آپ تالاب پر تشریف لائےاوروضوکیا، آپ کے جانےکےبعدسلطان بلبن نےجوتالاب پرجاکردیکھاتوپانی گرم پایا،اس کوکامل یقین ہواکہ آپ کامل درویش ہیں۔
سلطان بلبن آپ کےخیمہ میں گیا،آداب بجالایا۔اورکہا: میں بہت خوش قسمت ہوں آپ جیسے کامل میرےلشکرمیں موجودہیں۔آپ سےدعاکاطالب ہوا،آپ نےدعاکی اوردودن میں قلعہ فتح ہوگیا۔آپ سے جب کرامت کااظہارہوااورسلطان بلبن اورلشکروالےآپ کےحال سےخبردارہوئے تو آپ ملازمت سے مستعفی ہوکرکلیرآگئے۔پیرومرشدکےحکم سے پانی پت پہنچے،اوروہاں دین اسلام کےچراغ روشن کیے،اورلوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بااسلام ہونےلگے۔فاسق وفاجرتائب ہوکرنیکی کی زندگی گزارنےلگے۔
اولیاء کرام جہاں بھی تشریف لےگئے،اپنےاخلاق وکرداراورسیرت سےاسلام کی تفسیربیان کرتےتھے۔صرف قال نہیں ہوتاتھا،قال کےساتھ حال بھی ہوتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کےاخلاق اورکرداراےمتائثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتےتھے۔پاک وہند،اوربنگلہ دیش میں جواکثریت مسلمانوں کی نظرآرہی ہےیہ کسی کی دعوت وتبلیغ کانتیجہ نہیں ہے،بلکہ یہ تواولیاء کرام کافیضان واحسان ہے۔
تاریخ ِ وصال: آپ کاوصال15/جمادی الثانی 716ھ،مطابق ستمبر/1316ءکوہوا۔آپ کامزارشریف پانی پت انڈیامیں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ اولیائےپاک وہند۔اقتباس الانوار۔انسائیکلوپیڈیااولیائےکرام،ج،3۔
//php } ?>