حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی
حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سلسلۂ نسب
آں شمس عوالم امثال، بدر منازل حضرت جمال، معدن گنجینہ علوم لدنی، پروردۂ لطف رسول مدنی، آئینہ جملال وحلال حقانی، مظہر تامہ کمال انسانی، صاحب تجرید وترک قطب ابدال حضرت شیخ شمس الدین ترک قدس سرہٗ حضرت مخدوم علی احمد صابر کے خلفائے کبار میں سے تھے۔ صاحب سیر الاقطاب کے نزدیک آپ نے حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ سے بھی خلافت حاصل کی تھی۔ آپ بڑے صاحب کرامت، عالی ہمت، شہسوار میدان تجرید وترک تھے۔ آپ لباس قنلندر رانہ چرمی پہنتےتھے اور دنیا وعقبیٰ دونوں سے مستغنیٰ تھے ۔ آپ ریاضات، مجاہدات اور ذوق تصفیۂ باطن میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ کے تصرف کا یہ عالم تھا کہ تھوڑی سی وجہ سے لوگوں کو مراتب بلند تک پہنچا دیتے تھے اور قہر و لطف جو کچھ زبان مبارک سے نکلتا تھا فوراً ہوجاتا تھا۔ مشائخ چشتیہ نے تواتر کے ساتھ آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان فرمایا ہے کہ شیخ شمس الدین ترک ابن سید احمد بزرگ عبدالمومن جو حضرت خواجہ احمد یسوئی قدس سرہٗ کی اولاد میں سے تھے اور خواجہ احمد یسوی کا سلسلہ نسب حضرت محمد حنفیہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پت اور اس کےنواحی علاقہ کے صاحب ولایت تھے۔ آپ کا وطن ترکستان تھا اور آپ کی سادت مسلم تھی چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ہندوستان آنے سے پہلے اپنے وطن میں ایک مجلس میں بیٹھے تھے۔ مجلس میں اکثر سادات اور اکابر شہر بھی موجود تھے ان میں ایک سید بزرگ بھی تھا۔ اس نے آپسے ازرہِ تمسخر کہا کہ تمہاری سیادت کا کیا ثبوت ہے۔ آپنے جواب دیا کہ ہم نے متواتر روایت سے اپنےآباواجداد سے یہی سُنا ہے کہ ہم سید ہیں اور ہمارے پاس سلسلۂ نسب بھی موجود ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اس چیز کا ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ جب تک مکمل ثبوت نہ ملے ہم کیسے اعتبار کرسکتےہیں۔ یہ بات سُن کر آپ کوجوش آیا اور ہاشیّت کی غیرت کو جنبش آئی۔ آپ نے فرمایا دوسری باتیں چھوڑ دو اور یہ جو عام مشہور ہے کہ سید کی داڑھی کو آگ نہیں جلاتی اس پر ہمیں عمل کرنا چاہئے۔ آؤ ہم دونوں آگ میں جاکر دیکھیں کہ کون سید ہے اور کون نہیں ہے۔ اس بہتر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اسکے بعد تنور گرم کیا گیا اور حضرت اقدس بلا خوف اس کے اندر چلے گئے۔ لیکن آگ ٹھنڈی ہوگئی اور آپ کے پیراہن کا ایک دھاگہ بھی نہ جا۔ نیز آگ سے ایک پانی کا چشمہ جاری ہوا اور آپ نے وضو کر کے دوگانہ ادا کیا۔ اسکے بعد اس طعنہ زن سید سے کہا کہ آپ بھی تنور کے اندر آکر دیکھیں۔ مجبور ہوکر وہ شخص تنور کے اندر داخل ہوا تو آگ نے اسے گھیر لیا اور فریاد کرنےلگا۔ آپ نےہاتھ برھاکر اسے باہر نکال لیا۔ اس سید نے جب آپ کی یہ کرامت دیکھی تو بہت پیشماں ہوا اور توبہ کی۔ لیکن اس واقعہ سےجب آپکی شہرت ہوگئی تو ایک رات چپکےسے گھر سے نکلےاور ہندوستان کی طرف چلے آئے۔ حضرت مخدوم صابر کی خدمت میں پہنچ کر بیعت کی۔ خلافت کے بعد پانی پت کی ولایت آپ کو تفویض ہوئی اور آپ نے اس علاقے کو اپنے نور ِ ہدایت کے ساتھ منور فرمایا۔
مقصد براری کا محرب ترین عمل
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ اگر آپ کےنام مبارک کا ایک لاکھ مرتبہ ورد کیا جائے تو ہر مہم یا مشکل آسانہوجاتی ہے۔ اگر ایک آدمی یہ کام نہیں کر سکتا تو جتنے آدمی ملکر بیٹھ جائیں اور یہ کام کرلیں۔ اسکا طریقہ یہ ہےکہ پہلے وضو کیا جائے اور ھر ایک لاکھ مرتبہ کہا جائے کہ (وظیفہ)‘‘یاشمس الدین ترک’’ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ابھی لاکھ ختم بھی نہیں ہوتا کہ اس نامکی برکت سے حق تعالیٰ وہ مشکل آسان کر دیتے ہیں۔
اس کتاب کے مصنف نےیہ بھی لکھا ہے کہ ہمارے خاندان میں ہر مشکل اور ہر تکلیف و رنج کے وقت یہی ورد کیا جاتا ہے خصوصاً جب یہ دعا گو اکثر اوقات اپنی حاجت روائی کےلیے پندرہ بیس دفعہ یہ نام پاک لیتا ہے تو مدعا حاسل ہوجاتا ہے اور جس شخص کو دعا گونے اجازت دی اکثر کام ہوگیا۔ اب بھی دعا گو کی طرف ہر عاجز، محتاج اور ضرورت مند کو اجازت عام ہے۔ بشرط یہ کہ اعتقاد صحیح ہو اور وضو کے ساتھ پڑھے۔ کارساز حقیقی سے امید قوی ہے کہ مقصد پورا ہوگا۔ حضرت اقدس کی نذر نان اور حلوہ ہے جس قدر توفیق ہو۔ ہمارے خاندان میں ہر شادی بیاہ کےموقعہ پر پہلے آپ کیلئے نذر پیش کی جاتی ہے اس کے بعد کوئی اور کام کیا جاتا ہے۔
شرفِ بیعت
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ شمس الدین ترک قدس سرہٗ سن تمیز کو پہنچے تو آپ کو تحصیل علوم کا شوق دامنگیر ہوا۔ا ور مدت تک آپ ترکستان میں تحصیل علم میں مشغول رہے۔ تحصیل علم عقلی ونقلی کے بعد بھی جب آپ کا مدعا پورا نہ ہوا تو آپ نےسب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تجرید و تفرید، اختیار کرلی۔ اور سلوک طریقت پورا کرنے کے شوق میں آپ نے ترکستان چھوڑا اور تلاش شیخ میں ہندوستان تشریف لائے۔ راستے میں اکثر مشائخ ماورالنہر سے ملاقات ہوئی لیکن چونکہ آپ کا مقدر کسی اور جگہ تھا کسی بزرگ کے ساتھ وابستگی پیدا نہ ہوئی۔ سیر سیاحت کرتے ہوئے کافی مدت اور مشقت کے بعد آپ کلیر شریف پہنچے اور حضرت مخدوم صابر کے جمال ولایت کا مشاہدہ کرتے ہی آپ علم کو جو حجاب اکبر ہے بھول کر حضرت اقدس کے قدموں میں گر گئے اور شرف بیعت حاصل کیا۔ اس وقت حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ نے آپ کے حق میں فرمایا کہ اے شمس الدین تو میرا فرزند ہے اور خدا تعالیٰ سے میں نے درخواست کی ہے کہ ہمارا سلسلہ تجھ سے جاری ہو اور قیامت تک قائم رہے۔
خلافت
غرضیکہ بیعت کے بعد حضرت شیخ شمس الدین ترک پوری ہمت سے حضرت مخدوم صابر کی خدمت میں منہمک ہوگئے اور ہر لحظ آپ کی نظر کیمیا اثر میں پرورش پاکر روز بروز کسب سلوک میں ترقی کرنے لگے۔ حتیٰ کہ سلوک تمام کرلیا اور خلافت سے مشرف ہوکر خلق خدا کی ہدایت پر مامور ہوگئے۔ اکثر اوقات آپ سے ایسی کرامات کا ظہور ہوتا تھا کہ جس میں زندہ ہونا اور مرجانا بھی شامل ہے۔ لیکن غایت بلند پروازی کی وجہ سے آپ نے ان چیزوں کی طرف التفات نہ کیا۔ اسکے بعد حضرت مخدوم صابر نے آپ کو اپنا خرقہ عطا فرمایا اور اپنے ہاتھ سے خلافت نامہ لکھ کر اُن کے حوالہ کیا اور اسم اعظم جومشائخ سے سینہ بسینہ چلا آرہا تھا وہ بھی تلقین فرمایا۔ اس کے بعد وصیت فرمائی جب رحلت کرجاؤں تو تین دن سے زیادہ یہاں نہ رہنا۔ حق تعالیٰ نے تجھے علاقہ پانی پت کی ولایت عطا فرمائی ہے وہاں جاکر سکونت اختیار کرنا اور گم گشتگانِ بادیہ ضلالت کی ہدایت میں کمر بستہ ہوجانا۔ میں ہر جگہ تمہارا ممدو معاون رہونگا۔ حضرت شیخ شمس الدین نے عرض کیا کہ حضور اقدس کی ولایت باقی اور پائیندا ہے۔ اس بندہ کا ارادہ یہ تھا کہ باقی عمر آستانہ عالیہ کی جاروب کشی میں صرف کرتا۔ اب آپ کا حکم یہ ہے کہ پانی پت جاؤ۔لیکن وہاں شیخ شرف الدین بو علی قلندر موجود ہیں معلوم نہیں وہ مجھ سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ فکر مت کرو انکا وقت آخر کو پہنچ چکا ہے۔ تمہارے ہاں پہنچتے ہی وہ وہاں سے چلے جائینگے اور چند یوم کے بعد اس دُنیا سے رحلت کرجائیں گے۔
سیر الاقطاب کی عبارت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم صابر سے رخصت ہونےکے بعد حضرت شیخ شمس الدین ترک نے سلطان غیاث الدین بلبلن کے ہاں فوج میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنی ولایت کو دولت مندوں کے بھیس میں پوشیدہ رکھا۔ آپ کی ولایت کے ظاہر ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ سلطان بلبن نے ایک قلعہکا مھاصرہ کای جو کافی مدت تکجاری رہا۔ ایک رات گرد و باراں کا ایسا طوفان آیا کہ بادشاہِ اسلام کےلشکر کے تمام خیمے گرگئے۔ اور تیز بارش ہونے لگی۔ سخت سردی کا موسم تھا اور آگ کا کہیں نام و نشاننہ تھا۔ حتیٰ کہ بادشاہ کے خیمے میں بھی اندھیرا تھا۔ بادشاہ کے خادم نے لوٹا اٹھایا اور ارادہ کیا کہ کہیں سے آگ حاصل کر کے بادشاہ کے وضو کے لیےپانی گرم کرے۔ اس نے دور سے دیکھا کہ ایک خیمہ میںچراغ روشن ہے۔ وہ خیمہ حضرت شیخ شمس الدین ترک کا تھا۔ جب خادم وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک درویش تلاوت کلامِ پاک میں مشغول ہے۔ لیکن انکی ہیبت سے خاموش ہوکر ٹھیر گیا حضرت اقدس نے سر اٹھاکر فرمایا کہ اگر آگ درکا ر ہےتو لےجاؤ۔ چنانچہ اسن ے ایک لکڑیکو آگ لگائی اور بادشاہ کے خیمے کی طرف لےگیا لیکن دل میں سوچتارہا کہ ماجرا کیا ہے۔ علی الصبح اٹھ کر اس خیمہ کی طرف گیا لیکن اب وہ خالی تھا۔ اس کے بعد وہ تالاب کی طرف گیا کیا دیکھتا ہے کہ وہی درویش تالاب پر بیٹھے وضو کر رہے ہیں۔ خادم چپ چاپ کھڑا رہا۔ جب درویش وضو کر کے اپنے خیمے کی طرف چلےگئے تو خادم نے حسب دستور تالاب سے مشک بھری لیکن اس مرتبہ تالاب کا پانی ایسا گرم پایا کہ گویا کسی نے آگ سے گرم کیا ہے۔ باوجود یکہ سخت جاڑے کا موسم تھا اور باقی ہر جگہ جم چکا تھا۔ خادم کو معلوم ہوگیا کہ یہ ساری برکت اس درویش کی ہے۔ خیر پہلے دن تو اس نے یہ راز کسی پر فاش نہ کیا۔ دوسرے دن جب حضرت اقدس کے تالاب پر جانے سے دو تین گھنٹے پہلےجاکر دیکھا تو پانی جم کر برف کی طرح سرد تھا۔ وہاں ایک درخ تھا خادم اسکےپیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت اقدس تشریف لائے اور وضو کرکے نماز ادا کی۔ اسکے بعد جب خادم نے پانی میں ہاتھ ڈالا تو گرم تھا۔ مشک بھر کر بادشاہ کےخیمہ میں گیا اور جو کچھ دیکھا تھا، یعنی پہلی رات کے طوفان کے وقت آپ کے خیمہ میں چراغ روشن ہونا۔ اس سے آگ جلانا وغیرہ سارا ماجرا بادشاہ سے بیان کردیا۔ دوسری رات تین چار گھڑی شب باقی تھی کہ بادشاہ اٹھا اور تالاب پر جاکر پانی میں ہاتھ ڈالا تو سخت سرد پایا۔ اس کے بعد چپکے سے بیٹھ گیا۔
آپکی دُعا سے قلعہ کا فتح ہونا
کچھ دیر کے بعد حضرت شیخ تشریف لائےتو انہوں نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے۔ انکے چلے جانےکے بعد بادشاہ نے تالاب پر وضو کیا تو پانی گرم تھا۔ حیرت زدہ ہوکر وہ حضرت اقدس کےخیمہ کی طرف گیا اور دیکھا کہ آپتلاوت قرآن میں مشغول ہیں۔ بادشاہ دست بستہ ہوکر کھڑا ہوگیا۔ تلاوت کے بعد جب آپ نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ بادشاہ سامنےکھڑا ہے تو آپ نے اسکی تعظیم کی۔ بادشاہ نے کہا یہ میری سعادت ہے کہ آپ جیسے ولی اللہ میرے عہد میں موجود ہیں۔ اسکے باوجود معلوم نہیں کہ یہ قلعہ کیوں فتح نہیں ہورہا۔ حضرت اقدس نے جس قدر کوشش کی کہ بادشاہ کو دفع کریں اور آپ اپنے کو چھُپاسکیں۔ لیکن کوئی تدبیر کارگرنہ ہوئی۔ آخر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فاتحہ پڑھا۔ اسکے بعد بادشاہ سے فرمایا کہ ابھی حملہ کردو۔ انشاء اللہ تعالیٰ قلعہ فتح ہوجائیگا ۔ بادشاہ خوش ہوکر اپنےخیمہ میں آیا اور اسی وقت ہلہ بول دیا۔ حضرت اقدس کی توجہ سے دو گھنٹے کے اندر قلعہ فتح ہوگیا۔ بادشاہ فتح مندی سے خوش ہوکر اپنے مقام پر آیا اور اس نے ارادہ کیا کہ حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری دوں۔ آپ کو نورِ باطن سے یہ بات معلوم ہوگئی۔ اس لیے آپ اپنا ساز و سامان چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے اور حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپ کو پانی پت جانے کا حکم مل گیا۔ لیکن حضرت مخدوم کے وصال کے بعد آپکی وصیت کے مطابق صرف تین دن کلیر شریف میں رہے اسکے بعد پانی پت تشریف لے گئے۔ جب پانی پت پہنچے تو رہنے کےلیے کوئی جگہ نہ تھی۔ ناچار ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے[1]۔
جب حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندر کو اس بات کا علم ہوا تو فوراً سامان باندھ کر اپنے حجرہ سے باہر جانے لگے۔ ای ک حلوہ فروش لڑکا آپ کا منظور نظر تھا، اس نے دریافت کیا کہ اس وقت آپ کہاں جارہے ہیں۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ولایت کسے اور کو مل گئی ہے۔ اور مجھے دوسری جگہ پر طلب کیا گیا ہے اور میں یہاں ایک لمحہ بھی ٹھیر سکتا حلوہ فروش بچےنے ضد میں آکر کہا کہ مجھے یہاں کے صاحب ولایت کو دیکھنے کا شوق ہے دکھا دیجئے۔ اس کے آپ جہاں تشریف لے جائینگے میں بھی ساتھ جاؤنگا۔ جب اس نے بہت اصرار کیا تو حضرت بو علی قلندر نے فرمایا کہ فلاں محلے میں اس لباس کا ایک شخص قلندرانہ جامۂ چرمی پہنے ہوئے دیوار کے سائے میں بھیٹا ہوا ہے وہاں جاؤ اور دور سے دیکھ کر واپس آجاؤ۔ لیکن یاد رکھو کہ کوئی گستاخی نہ کرنا۔ جب وہ لڑکا وہاں پہنچا کیا دیکھتا ہے کہ ایک شاہباز نے دیوار کے سایہ میں بیٹھا ہے اور اس کا نورِ ولایت آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور دو شیر غراں آپ کے دائیں بائیں بیٹھے غرار ہے ہیں۔ لڑکے کو یہ سماں دیکھنے کی طاقت نہ رہی اور سیراسمیہ ہوکر حضرت شیخ بو علی قلندر کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا کہ واقعی اب یہاں رہنا مشکل ہے۔
کتاب سیر الاقطاب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت شیخ شمس الدین ترک قدس سرہٗ پانی پت پہنچے تو آپ نے اشارۃ ایک پیالہ دودھ سے بھر کر شیخ شرف الدین بو علی قلندر قدس سرہٗ کے پاس بھیجا اس میں اشارہ یہ تھا کہ یہ شہر میری ولایت سے پر ہے اور یہاں کسی دوسرے کی گنجائش نہیں ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین نے بات سمجھ لی اور اسی دودھ بھرے پیالے میں ایک گلاب کا پھول ڈال کر واپس بھیج دیا۔ اس میں اشارہ یہ تھا کہ ہم اس شہر میں اس طرح رہ سکتے ہیں جس طرح یہ پھول پیالے میں سماگیا ہے۔ اور مجھے آپ کی ولایت سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔
ایک اور روایت
ایک اور کتاب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت شیخ شمس الدین ترک نے پانی پت میں سکونت اختیار کرلی تو ایک دن آپکے خادم کا گذر حضرت بر علی قلندر کے مقم پر ہوا کیا دیکھتا ہے کہ آپ شیر کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نے واپس آکر حضرت شیخ حضرت شیخ شمس الدین کی خدمت میں ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اب واپس جاؤ اور دیکھو کہ اگر وہ اسی طرح شیر کی شکل میں بیٹھے ہیں تو انکو میرا سلام دیکر کہنا کہ شیر کی جگہ جنگل ہے۔ خادم نے واپس جاکر دیکھا کہ آپ اسی طرح شیر کی شکل میں بیٹھے ہیں۔ اس نے حضرت شیخ کا سلام دیکر عرض کیا کہ حضور میرے شیخ نے فرمایا ہے کہ شیر کا مقام جنگل ہوتا ہے۔ یہ سنکر آپ فوراً وہاں سے اٹھے اور اُسی شیر کیصورت میں باکھوٹی پانی پت سے مشرق کی جانب ایک جگہہے۔ چونکہ آپ شیر کی شکل میں اس مقام پر جا بیٹھے تھے۔اس لیے اسکا نام باکھوٹی ہوگیا۔ یہ مقام آپ کے قدموں کی برکت سے آج تک زیارت گاہِ خلائق ہے۔ جب شاہ بو علی قلندر وہاں سکونت اختیار کرلی تو حضرت شیخ شمس الدین نے خادم بھیج کر کہلا بھیجا کہ یہ جگہ بھی ہماری ولایت میں شامل ہے۔ یہ سنکر آپ وہاں سے اٹھے اور موضع بوڈہ کھیڑہ جو کرنال کے نواح میں ایک قصبہ ہے میں سکونت اختیار کرلی۔ اگر چہ آپ گاہے بگا ہے پانی پت تشریف لے آتے تھے لیکن اکثر اوقات بوڈہ کھیڑی میں بسر فرماتے تھے۔
[1] ۔سبحان اللہ! ملک کے بادشاہ ہیں اور دیوار کے سایہ میں بیٹھ کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ انکسار، ہمت اور جوانمردی صرف خاصان خدا کو حاصل ہوتی ہے۔ نفس کے غلاموں کو کہاں نصیب ہوتی ہے۔
(اقتباس الانوار)