حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی
حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کے مرید اور خلیفہ تھے۔ مقامات عالیہ پر فائز تھے۔ سیرالاقطاب کے مصنف کہتے ہیں کہ آپ کو حضرت صابر کے علاوہ حضرت خواجہ فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خرقۂ خلافت ملا تھا۔ آپ حضرت گنج شکر کے حکم اور غیبی الہام پر حضرت صابر کے ساتھ پاک پتن سے کلیر گئے، آپ کا اصلی وطن ترکستان تھا اور وہاں کے سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ طلب حق میں اپنے وطن سے نکلے پاک پتن پہنچے۔ جناب گنج شکر کے مرید ہوئے کچھ عرصہ رہ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا، پھر گنج شکر کی اجازت سے حضرت صابر کے ساتھ کلیر شریف پہنچے، خدمت گزاری کی وجہ سے حضرت علی احمد صابر آپ کو اپنا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور حقیقت یہ ہے آپ سلسلہ صابر یہ چشتیہ کے امام تھے۔ پندرہ سال تک آپ حضرت صابر کے غسل وضو کھانا پکانے اور لکڑیاں لانے کی خدمت پر مامور رہے۔ پھر آپ سے اجازت لے کر کچھ عرصہ بادشاہ کے لشکر میں نوکری کرلی چنانچہ دہلی آکر سلطان غیاث الدین بلبن کے لشکر میں سواروں کی فوج میں ملازم ہوگئے انہی دنوں بادشاہ نے ہندوستان کے ایک قلعے پر لشکر کشی کی، خواجہ شمس الدین ترک بھی اس لشکر میں شریک تھے۔ قلعے کے فتح ہونے میں کچھ دیر لگی اور بادشاہ کئی مہینے تک وہاں ہی پڑاؤ ڈالے رہے۔ ایک رات گرد و غبار کا طوفان اٹھا۔ بادل اور بجلی چمکنے لگی، سارے لشکر میں کہیں آگ نہ رہی بادشاہ کے باورچی خانہ کے انچارج آپ کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھر رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ شاہی سواروں کے ایک سوار کے خیمے میں چراغ جل رہا ہے۔ جب نزدیک پہنچے، دیکھا کہ ایک درویش چراغ کی روشنی میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہے اگرچہ طوفان سخت تیز تھا مگر چراغ بجھنے نہ پاتا تھا۔ شاہی ناظم خیمے کے قریب گیا، تو حضرت کی ہیبت اور رعب سے اس کی زبان سوال کرنے میں عاجز رہی ناگاہ حضرت نے سر اُٹھایا اور اُسے آواز دے کر کہا کہ اگر آگ چاہتے ہو تو یہاں سے لے لو، وہ شخص آگے بڑھا ایک لکڑی آگ سے روشن کی اور آگ کو شاہی باورچی خانے میں لے گیا، صبح ہوئی تو وہی شخص پانی لینے کے لیے اس کی طرف سے گزرا اُس نے دیکھا کہ شیخ اپنے خیمے میں نہیں ہے، وہ تالاب پر پہنچا، اُس نے دیکھا کہ ایک ہتھیار بند سپاہی تالاب پر وضو کر رہا ہے اُس نے آپ کو پہچان لیا، یہ تو وہی بزرگ ہیں جو چراغ کی روشنی میں رات کو قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے وضو کرنے کے بعد حضرت شیخ اپنے خیمے میں تشریف لے گئے اور اُس شخص نے اس مقام سے مشک کو بھرا جہاں حضرت شیخ وضو کر رہے تھے وہ حیران رہ گیا کہ اس جگہ تالاب کا پانی گرم ہے، حالانکہ شدید سردی کی وجہ سے سارا تالاب برف سے ڈھانپا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ شخص تین دن تک حضرت کے وضو کرنے کی جگہ سے پانی بھر کر لے جاتا اور شاہی باورچی خانے میں گرم پانی استعمال کرتا۔ رفتہ رفتہ یہ خبر بادشاہ کو پہنچی، دوسرے دن اس کے ساتھ ہی بادشاہ حوض پر آیا اور گرم پانی کی تصدیق کی اور پھر اس شخص کی رہنمائی میں حضرت کے خیمے میں پہنچا، بادشاہ نے عرض کیا کہ میں بڑا نیک بخت ہوں کہ آپ جیسے ولی اللہ میرے لشکر میں موجود ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے قلعہ فتح نہیں ہو رہا، حضرت شیخ نے ہاتھ اُٹھاکر دعا مانگی اور قلعہ کے فتح کی بشارت دی، چنانچہ اسی دن قلعہ فتح ہوگیا، چونکہ شیخ کا یہ راز منکشف ہوگیا تھا اس لیے آپ وہاں سے ملازمت چھوڑ کر اپنے پیر روشن ضمیر کی خدمت میں چلے آئے اور خرقہ خلافت پانے کے بعد پانی پت کی ولایت کے مالک بنے۔
شیخ غلام معین الدین اپنی کتاب معارف الولایت میں لکھتے ہیں کہ خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی حضرت شیخ احمد بسوی کے بیٹے تھے، آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے محمد حنفیہ بن علی المرضی وجہ سے ملتا ہے، ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد آپ ترکستان سے نکلے اور طلب حق میں بڑے ملکوں کی سیر و سیاحت کی، ماوراء النہر کے بہت سے بزرگوں سے ملاقات کی پھر ہندوستان پہنچے، یہاں آکر کلیر شریف میں شیخ علی احمد صابر کے مرید ہوئے ایک مدت تک آپ کی خدمت میں رہے اور آپ سے بڑی بڑی کرامات ظاہر ہونے لگیں حضرت صابر کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت ترک کو اپنے پاس بلایا اور خرقۂ خلافت عطا کیا ساتھ ہی اپنی پت جانے کی اجازت دی اور ارشاد فرمایا کہ میرے مرنے کے تین دن بعد پانی پت کو روانہ ہوجانا، آپ نے گزارش کی کہ حضور پانی پت کی ولایت پر ان دنوں شرف الدین بو علی قلندر فائز ہیں، میں وہاں کس طریقے پر جاسکتا ہوں اور کس طرح رہ سکتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ ان کی ولایت کا دور ختم ہوچکا ہے تم وہاں پہنچو گے تو وہ شہر کے دروازے پر تمہیں آکر ملیں گے۔ حضرت صابر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے تین دن بعد حضرت شمس الدین پانی پت کو روانہ ہوئے وہاں پہنچے تو آپ کے رہنے کی کوئی جگہ نہ تھی ایک دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ گئے، حضرت شیخ بو علی قلندر نے نورِ باطن سے آپ کی حالت کو دیکھ لیا۔ اپنے حجرے سے باہر آئے اور حلوہ فروش کے بیٹے نے جو جنابِ قلندر کا محبوب اور منظور نظر تھا، پوچھا کہاں جا رہے ہو میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا، آپ نے فرمایا: بیٹا اس علاقے کی ولایت ایک اور بزرگ کے حوالے ہوگئی ہے اب میرے لیے حکم نہیں کہ میں اس شہر میں رہ سکوں، حلوہ فروش کے بیٹے نے کہا کہ حضور مجھے اس ملک کے صاحبِ ولایت سے ملاقات کروائیں، آپ نے فرمایا: فلاں محلے میں ایک شخص چمڑے کا لباس پہنے، قلندرانہ بیٹھا ہے دیوار کے سائے میں بیٹھا ملے گا تم وہاں جاؤ اور ان کی زیارت کرلو، حلوہ فروش کا بیٹا وہاں پہنچا اس مردِ درویش کو دور سے دیکھا اور واپس آگیا اس وقت حضرت بو علی قلند شہر سے نکل کر باہر جا چکے تھے۔ شیخ شمس الدین شہر میں داخل ہوئے، بو علی قلندر کے حجرے میں آئے اور زندگی بھر وہاں ہی قیام کیا، اس دوران بو علی قلندر اور خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی آپس میں بڑی محبت اور اتحاد سے رہے۔
سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا کہ پانی پت کے ایک بہت بڑے بزرگ سید آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو کرتے ہوئے کہ آپ کی سیادت کس طرح ثابت ہے یہ فرمایا ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے ایسے ہی سنا ہے اور ہمارے پاس نسب نامہ بھی ہے ، اُس بزرگ نے کہا اس بات کو ثابت کرنا بڑا مشکل ہے ہماری تسلی نہیں ہوئی آپ نے یہ بات سنی دل میں جوش پیدا ہوا فرمایا کہ عوام الناس میں ایک بات مشہور ہے کہ جو شخص صحیح النسب سید ہوگا اور حضرت علی کی اولاد سے ہوگا، اُس کے بال آگ میں نہیں جل سکتے۔ اگرچہ ہم نے آج تک اس بات کا تجربہ نہیں کیا، لیکن میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے آؤ میں اور تم دونوں مل کر آگ میں کودتے ہیں، جسے آگ نہ جلائے گی وہ سید ہوگا، یہ کہتے ہی آپ خانقاہ کے تنور میں کود گئے اور تھوڑا وقت اُسی میں رہے اور اندر سے اُس سید کو آواز دی کہ تم بھی اندر آجاؤ تاکہ تمہاری سیادت کا دعویٰ بھی ثابت ہوسکے، وہ شخص شرمندہ بھی تھا اور خوف زدہ بھی، تنور کے نزدیک جاکر دیکھا کہ حضرت شیخ آگ میں بڑے مزے سے بیٹھے ہیں، یہ دیکھ کر اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا، واپس ہونا چاہتا تھا تنور سے ایک شعلہ نکلا اُس کے کپڑوں پر گرا اور جلنے لگا، وہ چیختا چلاتا ہائے ہائے کرتا دوڑ رہا تھا کہ حضرت شیخ تنور سے نکلے اور دوڑ کر اس کی آگ بجھائی۔ جب حالت ٹھیک ہوگئی تو سیّد مذکور نے توبہ کی اور آپ کا مرید ہوگیا۔
سیرالاقطاب کے مصنف نے شیخ شاہ علی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ نقل کیا کہ ایک رات میں بستر پر سویا ہوا تھا کہ میرے شریکوں میں سے ایک بھائی میرے قتل کے لیے داخل ہوا تلوار کھینچی، مجھے مارنا ہی چاہتا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی، غور سے دیکھا کہ وہ شخص مجھے ننگی تلوار سے قتل کرنا ہی چاہتا ہے میں نے حضرت شمس الدین ترک کا تصور کرکے فریاد کی، میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھ جس پر چاندی کی انگوٹھی تھی۔ غیب سے نمودار ہوا اور اس ظالم کو گردن سے پکڑ کر باہر پھینک دیا۔ میں اُسی وقت اٹھا، وضو کیا، حضرت شیخ کے روضے منورہ کی طرف چل پڑا، میں نے دیکھا کہ قبر سے ایک ہاتھ باہر نکلا اور میرے سر پر رکھ دیا گیا، میں نے اس ہاتھ کو تبرکاً چوما دونوں آنکھوں کو لگایا اور دل میں آرزو کی کاش اندھیری رات نہ ہوتی دن کی روشنی ہوتی تو میں ہاتھ کی زیارت بھی کرسکتا۔ اسی وقت ہاتھ کے ناخن سے روشنی کی ایک کرن نکلی اور میں نے دیکھا کہ یہ وہی ہاتھ ہے جس پر چاندی کی انگوٹھی ہے اور میرے قتل کو دفع کرنے کے لیے ظاہر ہوا تھا میں نے شکرانہ کے ہزار نفل پڑھے۔ فاتحہ کا تحفہ پیش کیا اور وہاں سے رخصت ہو آیا۔
شیخ شمس الدین ترک رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان میں آئے تو آپ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی ایک ہزار پچاس ہجری میں سیّد صفدر خان جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کی طرف سے اکبرآباد کا گورنر تھا۔ کسی وجہ سے معزول کردیا گیا۔ وہ ہندوستان سے چل کر اپنے وطن واپس جانا چاہتا تھا، پانی پت میں پہنچا تو حضرت شمس الدین کے روضے کی زیارت کے لیے وہاں رک گیا، روضے کے مجاوروں سے حضرت کے حالاتِ زندگی معلوم ہوئے اور ترکستان سے ہندوستان آنے کے حالات بھی سنے۔ بہت رویا اور کہنے لگا کہ میں حضرت شمس الدین کی اولاد سے ہوں میں ہندوستان میں محض آپ کی زیارت بابرکت کے لیے آیا تھا مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کا روضۂ مقدس کہاں ہے اس نے اپنا نسب نامہ نکالا۔ مجاوروں کو دکھایا جس وقت اُن بزرگوں کے ناموں کا مقابلہ ہوا تو یہ نسب نامہ حضرت شمس الدین کے دستخطوں سے مزین تھا۔ صفدر خان نے یہاں کہا کہ جب حضرت شیخ ترکستان میں رہتے تھے تو وہاں اُن کی شادی ہوئی آپ کے بیٹے کا نام سید احمد تھا۔ ہندوستان میں تشریف آوری کے بعد سیّد احمد کی وہاں بہت اولاد ہوئی۔ جس وقت یہ بات بادشاہ شاہ جہاں تک پہنچی تو اس نے صفدر خان کو اپنے دربار میں واپس بلایا او رصاحبزادگی کے ادب کے پیش نظر کابل اور قندھار کی حکومت اُس کے حوالے کردی۔
شیخ شمس الدین سیرالاقطاب تذکرۃ العاشقین، معارج الولایت اور دوسری کتابوں کے حوالے سے سات سو پندرہ ہجری میں فوت ہوئے۔ شجرۂ چشتیہ کے مصنف نے آپ کا سال وفات سات سو اٹھارہ ہجری لکھا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلا حوالہ درست ہے میری نظر میں اور بھی بہت سی کتابیں گزری ہیں جن میں آپ کا سالِ وفات سات سو پندرہ ہجری ہی ہے۔
رفت از عالم چو شمس الدین بخلد
سال وصل آں امام پیشوا!!!
طالب مقبول شمس الدین بگو
۷۱۵ھ
نیز شمش الدین ولی باصفا
۷۱۵ھ