حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی
حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ شمس الدین ترک محرم حریم جلال ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کے آباؤاجدادترک کےرہنےوالےتھے۔آپ خاندان سادات سےتھے۔۱؎آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سے حضرت محمدحنیفہ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتاہے۔آپ علوی ہیں۔
والد:
آپ کےوالدکانام سیداحمدہے۔
نسب نامہ پدری:
آپ کانسب نامہ پدری حسب ذیل ہے۔۲؎شمس الدین ترک ابن سید احمدبن سیدعبدالمومن ابن سیدعبدالملک ابن سیدسیف الدین ابن خواجہ ورعناابن باباقرعنا۔
ولادت:
آپ ترکستان میں پیداہوئے۔
نام:
آپ کانام شمس الدین ہے۔آپ کوشمس الدین ترک بھی کہتے ہیں۔
خطابات:
آپ کاخطاب"مشکل کشا"ہے۔۳؎"مشکل کشا"کےخطاب سےآپ کے پکارےجانےکی وجہ یہ ہے کہ آپ کےنام میں یہ تاثیرہےکہ اگرکوئی شخص آپ کااسم مبارک کسی مشکل یامہم کےواسطے ایک لاکھ مرتبہ پڑھےتوآپ کےنام کی برکت سےاس کاکام پوراہوجائےگا۔پڑھنےکی ترکیب یہ بتائی جاتی ہےکہ پہلےوضوکرناچاہیےاورپھرصدق واخلاص سے"یاشمس الدین ترک"ایک لاکھ مرتبہ پڑھناچاہیے۔اگرتنہانہ پڑھ سکےتواوروں کوشریک کرلے۔
لقب:
آپ "شمس الاولیاء"کےلقب سے پکارے جاتے ہیں۔
تعلیم:
آپ کی تعلیم وتربیت ترکستان میں ہوئی۔آپ نے بہت جلدتفسیر،حدیث،فقہ،ریاضی،منطق، ہیئت،ہندسہ میں قابلیت حاصل کی۔۴؎جلدہی علم معقول و منقول سےفارغ ہوکرعلم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔
تلاش حق:
تلاش کےحق کےجذبےسےمتاثرہوکرآپ نےاپنےوطن عزیزکوخیربادکہا۔اول ترکستان کی سیروسیاحت فرمائی۔جب وہاں کوئی مرشدکامل نہیں ملاتوماورالنہرتشریف لائے۔وہاں بہت سے بزرگوں سےملے،لیکن آپ کو تسکین نہیں ہوئی۔
ہندوستان میں آمد:
ماوراالنہرسےملتان تشریف لائے۔ملتان سےاجودہن آئےاورحضرت بابافریدالدین گنج شکر (رحمتہ اللہ علیہ)کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے۔آپ نےکچھ عرصہ حضرت باباگنج شکر(رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت بابرکت میں رہ کرفیوض وبرکات باطنی حاصل کئے۔
بیعت وخلافت:
حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکر(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ کوخلافت سے سرفرازفرمایا۵؎اور آپ سے فرمایاکہ ان کاحصہ دوسرے مرشدکےپاس ہے۔حضرت باباصاحب نےآپ کوبتایاکہ۔۶؎
"حصول نعمت وکمال توموقوف برمرشددیگراست"۔
(تمہاراحصول نعمت وکمال دوسرے مرشدپرموقوف ہے۔)
آپ کو حضرت علاؤالدین احمدصابر(رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں کلیرروانہ کیا۔حضرت مخدوم علاؤالدین احمدصابر(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ کودیکھ کرفرمایا۔
"اے شمس الدین!تومیرافرزندہے۔میں نےخداسےچاہاکہ میراسلسلہ تجھ سے جاری ہواور قیامت تک رہے"۔
آپ کوبیعت سےمشرف فرمایا۔کلاہ چہارترکی آپ کے سرپررکھی۔مقراض آپ کےسرگھمائی۔ آپ گیارہ سال تک اپنےپیرومرشدکی خدمت میں رہے۔پیرومرشدکووضوکرانےکی خدمت آپ کےسپردتھی۔حضرت نےخرقہ خلافت آپ کو عطافرمایااوراسم اعظم جوسینہ بسینہ چلاآتاتھا، آپ کو تعلیم کیا۔
پیرومرشدکی ہدایت:
آپ کے پیرومرشدنےآپ کورخصت کرتےوقت آپ کوہدایت فرمائی کہ پانی پت میں مستقل سکونت اختیارکریں،کیوں کہ پانی پت کی ولایت ان کے سپردکی گئی ہےاوران کےوصال کےبعد تین دن سےزیادہ کلیرمیں نہ رہیں۔
درخواست:
آپ نےاپنےمرشدسےعرض کیاکہ ابھی اتنی لیاقت نہیں ہے کہ کارمنصبی کوسنبھال سکیں۔اگر اجازت ہوتوکچھ دن ملازمت کرلیں۔حضرت مخدوم نےدرخواست منظورفرمائی۔
دوسری بات آپ نےاپنےپیرروشن ضمیرسےیہ عرض کی کہ پانی پت کے شاہ ولایت حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر ہیں،ان سے ان کی کیسے بنےگی۔حضرت مخدوم نےفرمایاکہ فکرکوئی بات نہیں۔۔ان کےپانی پت پہنچنےپروہ دوسری جگہ چلے جائیں گے۔
ملازمت:
اپنےپیرودستگیرسےرخصت ہوکرآپ سلطان غیاث الدین بلبن کےلشکرمیں ملازم ہوگئے۔۷؎ ریاضت،عبادت اورمجاہدہ کےساتھ ساتھ آپ اپنےفرائض کوبھی بحسن و خوبی انجام دیتےرہے۔ آپ اپناحال کسی پر ظاہرنہیں کرتےتھے۔باوجودامارت واعزازکےفقروفاقہ میں گزارتےتھے۔
استعفیٰ:
آپ سے جب کرامت کااظہارہوااورسلطان بلبن اورلشکروالےآپ کےحال سےخبردارہوئے تو آپ ملازمت سے مستعفی ہوکرکلیرآگئے۔
پانی پت میں آمد:
اپنےپیرومرشد کی تجہیزوتکفین سےفارغ ہوکرچوتھےروزآپ پانی پت روانہ ہوگئے۔پانی پت پہنچ کر آپ نےایک دیوارکےسائےکےنیچےقیام فرمایا۔حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر( رحمتہ اللہ علیہ)کوبہ نورباطن آپ کی آمدکی اطلاع ہوئی۔
رمزوکنایہ:
آپ نے دودھ سے بھراہواایک پیالہ حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں بھیجااوراپناسلام کہلوایا۔حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)کی خدمت میں جب دودھ بھراپیالہ لایاگیا،وہ مسکرائےاورانہوں نےگلاب کاپھول جو ان کےپاس ہی رکھاتھا،اس دودھ بھرےپیالےپررکھ کرپیالہ واپس کردیااوراپناسلام آپ کوکہلوایا،جب وہ دودھ کاپیالہ آپ کی خدمت میں واپس لایاگیاتوآپ بھی مسکرائے۔
حاضرین حیران تھے،ان کی سمجھ میں یہ رازونیازاوررمزوکنایہ نہ آیا،جب آپ سے اس کےمتعلق پوچھاگیاتوآپ نےفرمایاکہ اس سے مطلب یہ تھاکہ ولایت پانی پت بفرمان میرے پیرومرشد میرے سپردہوچکی ہے،دوسرےکی گنجائش نہیں اور حضر بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)نےجواس پر پھول رکھ کر واپس کیاتواس کامطلب یہ تھاکہ ولایت پانی پت سے ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا،وہ پانی پت میں اس طرح رہیں گے،جیسےدودھ پرپھول۔
لوگوں نےحضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ )سےبھی اس کے متعلق استفسارکیا،انہوں نے بھی وہی جواب دیا۔۸؎
آپ پانی پت رہتےرہے۔کارولایت انجام دیتےرہے۔کچھ ہی دنوں کےبعدحضرت بوعلی قلندر (رحمتہ اللہ علیہ)پانی پت کی حدودسے باہر تشریف لےگئے۔
شادی و اولاد:
آپ نےترکستان میں شادی کی تھی۔آپ کے صاحب زادےکانام سیداحمدحوارہے۔۹؎آپ تن تنہا ہندوستان تشریف لائےتھے۔
وفات:
آپ نے۱۵جمادی الثانی۷۶۱ھ کواس دارفانی سےسفردارالاخرت فرمایا۔۱۰؎مزار مبارک پانی پت میں حاجت روائے خلق ہے۔
خلیفہ:
حضرت شیخ جلال الدین محمدکبیرالاولیاءآپ کےخلیفہ ہیں۔
سیرت پاک:
آپ صاحب عظمت و ولایت تھے۔علم ظاہری و باطنی میں اپنی مثال آپ تھے۔زہدوتقویٰ آپ کا مشہورتھا۔ترک وتجرید،ریاضت،مجاہدہ اورعبادمت میں بےنظیرتھے،وضع قطع سےقلندرمعلوم ہوتےتھےاورقلندروں کاسالباس چرمی پہنتے تھے۔جوکچھ زبان سےفرماتےتھےویساہی ہوجاتا۔آپ
کے پیرومرشدحضرت مخدوم صابرکلیری(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ کے متعلق فرمایا۔۱۱؎
"شمس ماوراولیاءچوں شمس است"
ہماراشمس اولیاء میں سورج کی طرح ہے۔
کشف وکرامات:
ہندوستان آنےسےقبل آپ سےترکستان میں ایک شخص نےدریافت کیاکہ آپ کےسیدہونے کاکیا ثبوت ہے۔وہ شخص آپ کےجواب سےمطمئن نہیں ہوا۔آپ کوغصہ آیا،آپ نےفرمایاکہ یہ کہا جاتاہےکہ سیدکابال آگ میں نہیں جلتا،آگ میں چل کردیکھیں کہ ہم میں سے کون سیدہے۔ آگ روشن کی گئی،آپ آگ میں کودگئے،آپ کالباس تک آگ سےمحفوظ رہا۔آپ نےاس شخص کوجو اپنےآپ کوسیدکہتاتھااورجس نےآپ سےسوال کیاتھاآوازدی،وہ شخص آگ کےنزدیک ہی آیا تھاکہ آگ کےایک شعلےنےاس کےکپڑےجلادیئے،آپ تنورسےجس میں آگ روشن تھی، نکل کرباہرتشریف لائےاوراس کےکپڑوں کی آگ بجھائی،حاضرین کوآپ کےسیدہونےکاپورا پورایقین ہوگیا۔
سلطان غیاث الدین بلبن نےایک قلعہ کا محاصرہ کیا۔آپ شاہی لشکرکےساتھ تھے۔قلعہ فتح نہ ہو سکا،لیکن محاصرہ بدستورجاری رہا۔ایک رات آندھی اوربارش کےطوفان سےلشکروالوں کےخیمے گرپڑے۔ہرطرف اندھیراہوگیا۔آگ بجھ گئی۔ایک بہشتی لوٹالےکرسلطان بلبن کے وضو کے لئے پانی گرم کرنےکےواسطےآگ تلاش کرنےنکلا۔اس کی نگاہ آپ کےخیمےپرپڑی کہ بدستور قائم تھا۔وہ خیمہ میں داخل ہواتودیکھاچراغ روشن ہےاورآپ قرآن شریف کی تلاوت میں مشغول تھے۔وہ بہشتی خیمہ میں جاکرخاموش کھڑاہوگیا۔آپ نےاس کی طرف دیکھ کرفرمایاکہ اگرآگ چاہےتولےجاؤ،اس بہشتی نےلکڑی سلگائی اورواپس چلاگیا۔
دوسرے روزوہ پھرآیا،لیکن آپ کوخیمہ میں نہ پایا،وہاں سےتالاب پرپانی بھرنےگیاتوکیادیکھتاہے کہ آپ وضو کررہے ہیں۔وہ ایک طرف چھپ کرکھڑاہوگیاآپ کےجانےکےبعداس نےمشک بھری توپانی کوخوب گرم پایا،اس کوسخت حیرت ہوئی،اگلےروزعلی الصبح آپ کے پہنچنےسے قبل وہ تالاب پرگیا،پانی کوسردپایا،وہ ایک جگہ چھپ کربیٹھ گیا،تھوڑی دیربعدآپ تشریف لائےاور وضو کیا،آپ کےجانےکےبعداس نےجو مشک بھری توپانی گرم پایا،اب اس کویقین ہواکہ بس آپ کی برکت کانتیجہ ہے۔
اس نےسلطان بلبن سےذکرکیا۔سلطان بلبن اس سقہ کوہمراہ لےکراس تالاب پرپہنچا،پانی کو سرد پایا،سلطان بلبن اوروہ سقہ ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے،آپ تالاب پر تشریف لائےاوروضوکیا، آپ کے جانےکےبعدسلطان بلبن نےجوتالاب پرجاکردیکھاتوپانی گرم پایا،اس کوکامل یقین ہواکہ آپ کامل درویش ہیں۔
سلطان بلبن آپ کےخیمہ میں گیا،آداب بجالایا،آپ سےدعاکاطالب ہوا،آپ نےدعاکی اورقلعہ فتح ہوا۔
حواشی
۱؎سیرالاولیاء(فارسی)ص۱۸۵
۲؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۶،۱۸۵
۳؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۶
۴؎سیرالاسرار
۵؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۶
۶؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۶
۷؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۶
۸؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۹
۹؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۶
۱۰؎بعض نےآپ کی تاریخ وفات۱۰شعبان اوربعض نے۱۹شعبان لکھی ہے۔
۱۱؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۵
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)