منظومات  

اے سرور عالم ﷺ

تم سیّدِ کونین، شہہِ ہر دو سَرا ہو، اے سرورِ عالم طالب ہو خدا کے، تمہیں مطلوبِ خدا ہو، اے سرورِ عالم تم منعمِ کل، لُطف و کرم عام تمہارا، انعام تمہارا تم سیّدِ کُل، فخرِ رُسُل، شاہِ ھُدا ہو، اے سرورِ عالم گلشن کی ہر ایک شاخ میں، ہر برگ و شجر میں، ہر گُل میں ثمر میں تم حسنِ ازل، نورِ ابد،رنگِ بقا ہو، اے سرورِ عالم انگشتِ تحیّر تہہِ دندانِ حَکیماں، اعجاز نمایاں ہو نُور سے پُرجسم نہ سائے کا پتا ہو، اے سرورِ عالم سرکار بھلا کب یہ طلب دل کی ہ...

ہے ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں

ہُوا نورِ نبوّت جلوہ گر ایسے زمانے میں کہ ظلمت کُفر کی چھائی ہوئی تھی ہر گھرانے میں موحّد کوئی بھی اللہ اکبر کہہ نہ سکتا تھا ہر اِک مشرک فنا تھا، لات و عِزّیٰ کے منانے میں ہوئی شمعِ رسالت جب منور نورِ وحدت سے ضیاء ایمان کی جا پہنچی  ہر اِک کفر خانے میں جہاں کا ذرّہ ذرّہ گونج اُُٹھا اللہ اکبر سے وہ پھیلی روشنی توحید کی سارے زمانے میں نہ بھٹکو در بدر اس سایۂ رحمت  میں آجاؤ ہے  ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں انہی ک...

جس قدم کا عرش پامال خرام ناز ہو

اُلفتِ سرکار کا جس دل میں پنہاں راز ہو بے اثر اس پہ ہے سب کچھ، سوز ہو یا ساز ہو حشر کی ہیبت سے دل جس وقت ہوں گے چاک چاک اُس کو کیا خطرہ ہو، جس کا آپ سا دم ساز ہو شمس کو پھیرا، قمر کو شق اشارے سے کیا اُس کی اُنگلی کے میں قرباں جس اُنگلی کا یہ اعجاز ہو ہوں نہ کیوں سات آسمان و لا مکاں اس پر نثارجس قدم کا عرش پامالِ خرام ناز ہو عَلَّمَکَ مَالَمْ َکُنْ تَعْلَمْ‘‘ سے واضح کردیا رازِ قدرت کے مِرے مولا تم ہی ہم راز ہو صورتِ انسان م...

بجز محبوب رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو

بجز محبوبِ رب ہم کو محبت غیر کی کیوں ہو جب اُن کے ہو چکے پھر ہم کو حاجت غیر کی کیوں ہو؟ ہم اُن کے وہ ہمارے، روزِ محشر سلطنت اُن کی جو اُن کا ہے وہ اپنا ہے، تو جنّت غیر کی کیوں ہو؟ جنہیں حاصل ہُوا اعزاز، کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتْ کا ہدایت کے لیے اُن کی سماجت غیر سے کیوں ہو؟ زمانہ سارا پل رہا ہے جب اُن کے صدقے میں تو اَب اُن کے سَوا بُرہانؔ کو نسبت غیر کی کیوں ہو؟...

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری

کرم ہے تمہارا عنایت تمہاری دو عالم پہ بالا ہے امّت تمہاری شہیدٌ علیٰ النّاس اُمّت تمہاری وَلٰکِنْ کَفَانَا شہادت تمہاری نہ پایا کسی نے نہ پائے گا کوئی یہ رُتبہ تمہارا یہ عزّت تمہاری اسے پھر جہنّم سے کیا ہو علاقہ ہے جس دل میں سرکار اُلفت تمہاری سبھی چاہتے ہیں وسیلہ تمہارا بھلا کس کو چھوڑے شفاعت تمہاری اُنہیں بے کَسی میں جس نے پُکارا بڑھی، کھولے آغوش رحمت تمہاری عنایت تو اعدا پہ بھی ہو رہی ہے غلاموں کو کیا چھوڑے رافت تمہاری اگرچہ مع...

ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی

فرقت کی آگ ہے مرے دل پر لگی ہوئی کیوں کر دکھاؤں تمہیں، اندر لگی ہوئی تم کو عطا ہوئے ہیں علومِ ازل ابد تم جانتے ہو کیا ہے اور کیوں کر لگی ہوئی کوئی چلے بہشت میں، دوزخ میں کوئی جائے ہو میری آنکھ سوئے پیمبر لگی ہوئی فرماتے ہونگے امّتِ عاصی سے بار بار ’’دوڑو سبیل ہے، لبِ کوثر لگی ہوئی‘‘ اے دل اگر زیارتِ احمدﷺ نصیب ہو بُجھ جائے پھر تو سینے کے اندر لگی ہوئی پیارے تری عُلُوِّ مراتب کی تیز دھار برچھی وہابیوں کے جگر پر ...

گیسوئے ہستی پریشاں کل بھی تھا اور آج بھی

روضۂ اطہر کا ارماں کل بھی تھا اور آج بھی عاصیوں بخشش کا ساماں، کل بھی تھا اور آج بھی مثل میثاق ربویّت ازل سے تا ابد عظمتِ احمدﷺ کا پیماں، کل بھی تھا اور آج بھی ابتداء عالم کی جس کے نُورِ اقدس سے ہوئی نُور پاک ان کا درخشاں، کل بھی تھا اور آج بھی رحمت للعالمیں فرما کے واضح کردیا سارا عالم زیرِ فرما، کل بھی تھا اور آج بھی ظلِّ انوار احمدﷺ کی ضیائیں واہ واہ! ذرّہ ذرّہ جن سے تاباں، کل بھی تھا اور آج بھی کہہ کے مَنَّ اللہ ہم پر نعمتیں کردیں...

عرش پر کُرسی مِلی جس کو خدا کو سامنے

کیسی عظمت ہے محمدﷺ کی خدا کے سامنے ہیچ ہیں سب عظمتیں خیر الوریٰ کے سامنے اِک خدا کا نور تھا اور کن کے فرمانے کے بعد پرتوِ نورِ خدا تھا بس خدا کے سامنے نور اگلوں کے جو چمکے وہ چمک کر رہ گئے مطلعِ انوارِ حق، شمس الضحیٰ کے سامنے طُور پر موسیٰ گِرے لائے تجلّی کی نہ تاب اور محبوبِ خدا ہیں خُود خدا کے سامنے نوح و ابراہیم و عیسیٰ دے چکے سب کو جواب اب چلے ہیں شافعِ روزِ جزا کے سامنے حشر کے دن نفسی نفسی کہہ رہا ہے ہر نبی رحمۃ للعالمیں ہیں کبری...

تیری گلی کا منگتا بے نان رہ نہ جائے

آقا تمہاری ذات کا دھیان رہ نہ جائے مدّت کا ایک دل میں ارماں رہ نہ جائے ہوکر تِرے بھکاری کیوں جائیں غیر کے دَر اَوروں کا ہم پہ کوئی احسان نہ جائے ہے دعوتِ شفاعت محشر میں عاصیوں کو محروم اس سے کوئی مہمان رہ نہ جائے بحرِ کرم سے آقا سارے گناہ دھو دو ہم عاصیوں پہ داغِ عصیاں نہ جائے سرکار محشر میں جب بخشائیں عاصیوں کو رکھنا خیال اتنا بُرہان نہ جائے بُرہانؔ کھڑا ہے در پر دامن رضا کا تھامے تیری گلی کا منگتا بے نان نہ جائے...

عید ولادت

وہ سرکار عالی مقام آرہا ہے شہنشاہِ ذی اقتدار آرہا ہے جو باعث ہے تخلیقِ اَرض و سما کا وہ محبوبِ پروردِگار آرہا ہے ہے جس کی اطاعت خدا کی اطاعت وہ آقائے بااختیار آرہا ہے لباسِ بشر میں وہ نُورِ مجسّم بصد شانِ عزّو وقار آرہا ہے بشیر و نذیر و امینِ دو عالم شہِ دین بصد افتخار آرہا ہے زمین و فلک جس کے زیرِ نگیں ہیں خدائی کا وہ تاجدار آرہا ہے غریبی مسرّت سے اِترا رہی ہے غریبی کا والی و یار آرہا ہے چمکنے لگے ہیں یتیموں کے چہرے یتیمی کا اِک ...