ہے ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں

ہُوا نورِ نبوّت جلوہ گر ایسے زمانے میں
کہ ظلمت کُفر کی چھائی ہوئی تھی ہر گھرانے میں


موحّد کوئی بھی اللہ اکبر کہہ نہ سکتا تھا
ہر اِک مشرک فنا تھا، لات و عِزّیٰ کے منانے میں


ہوئی شمعِ رسالت جب منور نورِ وحدت سے
ضیاء ایمان کی جا پہنچی  ہر اِک کفر خانے میں


جہاں کا ذرّہ ذرّہ گونج اُُٹھا اللہ اکبر سے
وہ پھیلی روشنی توحید کی سارے زمانے میں


نہ بھٹکو در بدر اس سایۂ رحمت  میں آجاؤ
ہے  ایسی کون سی نعمت جو نہیں اس آستانے میں


انہی کے پرتوِ انوار وحدت اور رحمت سے
تامّل کیا؟ تجلّی گاہ، دل اپنا بنانے میں


ثبات و استقامت ہی ہے سرمایہ سعادت کا
یہی ہے بے بہا گوہر، محبت کے خزانے میں


شریعت پر استقامت، مقصد اپنی زندگی کا ہو
یہی بُرہانؔ ہے اِک مرحلہ آنے میں، جانے میں


متعلقہ

تجویزوآراء