حضرت مولانا حامد علی خان رامپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اسمِ گرامی: آپ رحمۃ اللہ علیہ کااسمِ گرامی حامد علی خان تھااورآپ کے والدماجد کا اسمِ گرامی شہید علی خان بن مہدی علی خان تھا۔(رحمۃ اللہ علیہم)
تاریخ ومقامِ ولادت: آپ غالباً 1906ء میں مصطفیٰ آباد (عرف رامپور، یوپی، ہند)کے محلہ حلقہ والی زیارت کے مقام پر پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ حمایت اللہ خان صاحب سے شرح جامی اور اور قطبی تک تمام اسباق انہی سے پڑھے ، پھر مدرسہ عالیہ رامپور جو ہندوستان کی منفرد علمی درس گاہ ہے، میں داخلہ لیا اوروہاں کے کورس کے مطابق تعلیم حاصل کی۔حضرت نے 1930ء میں مدرسہ عالیہ رامپور سے سند فراغت حاصل کی اور تمام مدرسہ میں اول آئے۔
بیعت: مولانا حامد علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ عنایت رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی۔
سیرت وخصائص: حضرت مولانا حامد علی خان رامپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مایہ ناز عالم، بلند پایہ مفتی اور کامل شیخ طریقت تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ زمانہ طالب علمی سے اور اد و وظائف کے پابند تھے، دونوں وقت خانقاہ عنایت میں ختم خواجگان اور حلقہ ذکر میں حاضری دیتے۔ بیعت کے بعد 5 سال مرشد کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک طے کیں اور کارسلوک، ‘‘حقیقت ابراہیمی’’تک پہنچا ، شیخ کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حمایت اللہ سجادہ نشین ہوئے تو ان کے فیض حاصل کیا ، انہی دنوں روہتک سے قاری خورشید صاحب رام پور آئے اور عرض کی کہ ہمیں ایک مدرس چاہیے چناں چہ مفتی حمایت اللہ صاحب نے آپ کو ان کے سپرد کر دیا، چناں چہ آپ نے1932ء میں خیر لمعادروہتک کا انتظام سنبھالا، آپ کی آمد سے اس مدرسہ کو چار چاند لگ گئے۔ شروع میں اپ بیعت فرمانے سے انکار کرتے تھے مگر بعد میں حضرت مولانا محمد اللہ خان صاحب سجادہ نشین خانقاہ عنایتہ کے حکم پر بیعت کرنا شروع کردیا۔ حضرت نے 1932ء سے 1947ء تک روہتک میں قیام فرمایا 1940ء سے 1947ء تک زمانہ روہتک کے مسلمانوں کے لیے بڑا صبر آزما تھا، کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے تھے وہ غلہ کی دکانیں بند کردیتے تھے ، اور مسلمانوں کو فاقوں کی نوبت آتی تھی، حضرت نے یہ صورت حال دیکھ کر مدرسہ خیرالمعاد میں عمائدین شہر کا ایک اجلاس طلب کیا اور غذا کی قلت کو دور کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں، چناں چہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلم ٹریڈرز کے نام سے ایک کمپنی کا اجراء کیا جائے، آپ کی کوششوں سے 5 لاکھ کے سرمایہ سے کمپنی نے کام شروع کیا یہ کمپنی مسلمانوں کو غلہ سپلائی کرتی تھی ۔ اس طرح مسلمان بھوک کی مصیبت سے محفوظ ہوئے۔ حضرت نے شروع ہی میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا ایک مرتبہ روہتک میں فیروز خان نون تشریف لائے تو حضرت نے روہتک کی مساجد اور اہم مقامات دکھائے اور ۵ ہزار روپیہ مسلم لیگ کے فنڈ میں عطا کیا جب روہتک میں فسادات زائد ہونے لگے تو آپ رام پور تشریف لائے یہاں مدرسہ عالیہ رام پور میں شیخ التفسیر بنادیئے گئے، مگر حضرت کے روہتکی مریدین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کر کے ملتان آگئی تھی اس کا اصرار تھا کہ آپ پاکستان تشریف لائیں چناں چہ آپ ملتان تشریف لائے اور یہاں مدرسہ خیر المعاد کا نظام سنبھالا، یہاں کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف جس ہمت مردانہ اور شجاعت قلندرانہ کا مظاہرہ کیا اس سے نہ تو کوئی پاکستانی بے خبر ہوگا اور نہ ہی اس کا منکر ہوگا، جب مسٹر بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان کے مقابلہ میں مسلمانوں نے کسی نمائندہ کو انتخابات کے لیے کھڑا کرنے کی ضرورت محسوس کی تو صرف آپ ہی کی ذات ایسی نظر آئی جس پر تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بیک زبان متفق ہوگئیں۔ پھر حضرت نے پورے وقار اور متانت کے ساتھ ملکی سیاست میں تادم زیست بھر پور حصہ لیا ۔
تاریخِ وصال: آپ 17 صفر 1400ھ بروز پیر دوپہر کے وقت اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی آپ کو قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں حضرت پیر دربردھلوی کے پہلو دفن کیا گیا۔آپ کے مزار پر عظیم الشان قبہ ہے اور متصل عربی کا مدرسہ اور مسجد ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اولیاءِ سندھ
//php } ?>