حضرت مولانا حامد علی خان رامپوری

حضرت مولانا حامد علی خان رامپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ غالباً ۱۹۰۶ء میں مصطفیٰ آباد (عرف رامپور، یوپی ہند)کے محلہ حلقہ والی زیارت کے مقام پر پیدا ہوئے۔ والد کا نام زشہید علی خان اور دادا کا نام مہدی علی خان تھا۔ آپ کے اجداد پشاور کے قبیلہ کمال زئی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے دادامہدی علی خان ہجرت کر کے رامپور آئے اور سرکاری ملازمت اختیار کر لی آپ ریاست رامپور کے کتب خانہ میں (جو ہندوستان کا منفرد کتب خانہ ہے) تحویل دار تھے، خوش قسمتی سے آپ کا مکان مشہور صوفی بزرگ مولانا حافظ شاہ عنایت اللہ کے محلہ میں تھا آپ کو ان کی صحبت اور ان کی قتداءمیں نمازیں پڑھنے کا شرف حاصل رہتا تھا، مولانا حامد علی خان خود اپنی نصنیف ‘‘تذکرہ لمشائخ’’ میں لکھتے ہیں کہ حضرت حافظ عنایت اللہ صاحب بچپن ہی سے مجھ پر وہ نظر کرم فرماتے تھے جو اوروں کو نصیب نہ تھی میں ان کی خدمت میں بییت کے لیے حاضر ہوا تو فرمایا کہ ابھی حاصل کرو پھر بیعت کرنا، میں نے عرض کی کہ حضوربیعت کر لیجیے فرمایا شام کو میرے شیخ مولانا ارشاد حسین مجددی کے حلقہ میں آنا، چناں چہ وہاں حاضر ہوکر میں شاہ عنایت صاحب سے حسین مجددی کے حلقہ میں آنا ،چنانچہ وہاں حاضر ہوکر میں شاہ عنایت صاحب سے بیعت ہوا، شاہ صاحب نے مجھے علوم دینیہ حاصل کرنے کے لیے اپنے فاضل صاحبزادے حافظ حمایت اللہ خان صاحب کے سپرد کردیا، شرح جامی اور اور قطبی تک تمام اسباق انہی سے پڑھے ، پھر مدرسہ عالیہ رامپور جو ہندوستان کی منفرد علمی درس گاہ ہے، میں نےداخلہ لیا اوروہاں کے کورس کے مطابق تعلیم حاصل کی آپ کے مشہور اساتذہ یہ ہیں۔

۱۔ المخدوم مولانا حافظ حمایت اللہ خان صاحب

۲۔ العلامہ مولانا فضل حق صاحب پرنسپل مدرسہ عالیہ رامپور

۳۔ حضرت مولانا معزاللہ خان صاحب

۴۔ حضرت مولانا نذیر الدین صاحب

۵۔ حضرت مولانا وجیہہ الدین مدظلہ العالی

حضرت نے ۱۹۳۰ء میں مدرسہ عالیہ رامپور سے سند فراغت حاصل کی اور تمام مدرسہ میں اول آئے۔ زمانہ طالب علمی سے اور اد و وظائف کے پابند تھے، دونوں وقت خانقاہ عنایت میں ختم خواجگان اور حلقہ ذکر میں حاضری دیتے۔ بیعت کے بعد ۵ سال مرشد کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک طے کیں اور کارسلوک، ‘‘حقیقت ابراہیمی’’تک پہنچا ، شیخ کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حمایت اللہ سجادہ نشین ہوئے تو ان کے فیض حاصل کیا ، انہی دنوں روہتک سے قاری خورشید صاحب رام پور آئے اور عرض کی کہ ہمیں ایک مدرس چاہیے چناں چہ مفتی حمایت اللہ صاحب نے آپ کو ان کے سپرد کر دیا، چناں چہ آپ نے ۱۹۳۲ء میں خیر لمعادروہتک کا انتظام سنبھالا، آپ کی آمد سے اس مدرسہ کو چار چاند لگ گئے۔

شروع میں اپ بیعت فرمانے سے انکار کرتے تھے مگر بعد میں حضرت مولانا محمد اللہ خان صاحب سجادہ نشین خانقاہ عنایتتہ کے حکم پر بیعت کرنا شروع کردیا۔ حضرت نے ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۷ء تک روہتک میں قیام فرمایا ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک زمانہ روہتک کے مسلمانوں کے لیے بڑا صبر آزما تھا، کاروبار پر ہندو چھائے ہوئے تھے وہ غلہ کی دکانیں بند کردیتے تھے ، اور مسلمانوں کو فاقوں کی نوبت آتی تھی، حضرت نے یہ صورت حال دیکھ کر مدرسہ خیرالمعاد میں عمائدین شہر کا ایک اجلاس طلب کیا اور غذا کی قلت کو دور کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں، چناں چہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلم ٹریڈرز کے نام سے ایک کمپنی کا اجراء کیا جائے، آپ کی کوششوں سے ۵ لاکھ کے سرمایہ سے کمپنی نے کام شروع کیا یہ کمپنی مسلمانوں کو غلہ سپلائی کرتی تھی ۔ اس طرح مسلمان بھوک کی مصیبت سے محفوظ ہوئے۔

حضرت نے شروع ہی میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا ایک مرتبہ روہتک میں فیروز خان نون تشریف لائے تو حضرت نے روہتک کی مساجد اور اہم مقامات دکھائے اور ۵ ہزار روپیہ مسلم لیگ کے فنڈ میں عطا کیا جب روہتک میں فسادات زائد ہونے لگے تو آپ رام پور تشریف لائے یہاں مدرسہ عالیہ رام پور میں شیخ التفسیر بنادیئے گئے، مگر حضرت کے روہتکی مریدین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کر کے ملتان آگئی تھی اس کا اصرار تھا کہ آپ پاکستان تشریف لائیں چناں چہ ۱۶ نومبر ۱۹۵۹ء کو آپ ملتان تشریف لائے اور یہاں مدرسہ خیر المعاد کا نظام سنبھالا، یہاں کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف جس ہمت مردانہ اور شجاعت قلندرانہ کا مظاہرہ کیا اس سے نہ تو کوئی پاکستانی بے خبر ہوگا اور نہ ہی اس کا منکر ہوگا، جب مسٹر بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان کے مقابلہ میں مسلمانوں نے کسی نمائندہ کو انتخابات کے لیے کھڑا کرنے کی ضرورت محسوس کی تو صرف آپ ہی کی ذات ایسی نظر آئی جس پر تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بیک زبان متفق ہوگئیں۔ پھر حضرت نے پورے وقار اور متانت کے ساتھ ملکی سیاست میں تادم زیست بھر پور حصہ لیا ۔

آپ ۷ جنوری ۱۷ صفر ۱۴۰۰ھ بروز پیر دوپہر کے وقت اس دار فانی سے کوچ کر گئے حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی آپ کو قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں حضرت پیر دربردھلوی کے پہلو دفن کیا گیا۔آپ کے مزار پر عظیم الشان قبہ ہے اور متصل عربی کا مدرسہ اور مسجد ہے، فقیر کوبارہا حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ، بلا شبہ ہمارے اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔

جسے بھی دیکھیے نالہ بلب ہے
کہ تھے پیر زماں حامد علیخاں
کہوں کیسے اسد تاریخ رحلت
اٹھے قطب جہاں حامد علیخاں

(تذکرہ اولیاءِ سندھ )

تجویزوآراء