حضرت قاضی ضیاء الدین
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت قاضی ضیاء الدین۔لقب: شیخ جیا۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت قاضی ضیاء الدین بن شیخ سلیمان بن شیخ سلونی عثمانی رحمۃ اللہ علیہم۔آپ علیہ الرحمہ سلسلہ عالیہ قادریہ کےاٹھائیسویں امام اور شیخ طریقت ہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 925ھ،مطابق 1519ءکو قصبہ"نیوتنی"ضلع لکھنؤ(ہند) میں ہوئی۔
تحصیل علم: آپ کی تعلیم و تربیت ابتداء میں گھر پر ہی ہوئی۔اس کے بعد آپ نے گجرات کا سفر اختیار فرمایا اور وہاں حضرت علامہ وجیہ الدین بن نصر اللہ علوی گجراتی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے علوم دینیہ حاصل فرمائےاور اسی دورانِ تعلیم حضرت علامہ وجیہ الدین علیہ الرحمہ نے اپنی لڑکی کا آپ سے عقد کردیا جس کا واقعہ اس طرح ہے:آپ حضرت علامہ وجیہ الدین قدس سرہ کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کرنے لگے استاذ محترم کی دختر نیک اختر شدید مرض میں گرفتار تھی اور تمام اطباء علاج کرنے سے عاجز آگئے تھے شیخ کی پریشانی دیکھ آپ کو ہنسی آگئی، طلبہ نے ہنسی کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ اگر استاد محترم میرا سبق تم لوگوں کےسبق سے پہلے معین کردیں، تو میں اس جن کو حضرت کی دختر اور جمیع اہل خانہ سے دورکردوں استاد نے آپ کی درخواست متطور کرلی، اور آپ نے دعاء فرمائی جس سے حضرت شیخ کی دختر نیک اختر تندرست و صحت یاب ہوگئی۔حضرت استاد نے خوش ہو کر اپنی دختر کا نکاح آپ سے فرمایا ، اس کے بعد ایک عرصے تک آپ کا قیام گجرات میں رہا۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ نظام الدین بھکاری رحمۃ اللہ علیہ کےدست حق پرست پر بیعت ہوئے،اور خلافتِ عظمیٰ سے شرف یاب ہوئے۔
سیرت وخصائص: شہنشاہ ولایت، تاجدار باب ولایت، اعاظم اصحاب ہدایت،امام الاتقیاء،سند الاصفیاء،رئیس المتوکلین حضرت قاضی ضیاء الدین عرف شیخ جیاء رضی اللہ عنہ ۔آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے اٹھائیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ احوال قویہ و عبادت و تصرف کثیرہ رکھتے تھے ۔آپ نے علوم ظاہری حضرت شیخ وجیہ الدین گجراتی اقدس سرہٗ سے حاصل فرمائےاور علوم باطنی حضرت شیخ محمد بن یوسف قرشی برہانپوری قدس سرہ سے حاصل فرمائے۔ آپ مشرب قادریہ رکھتے تھے۔ شاہ تراب علی قلندری قدس سرہٗ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "کشف المتواری" میں آپ کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ آپ صاحب تحقیق و صاحب باطن و صاحب کشف و کرامات تھے۔
حضرت خضر علیہ السلام سے اکتساب فیض: آپ کسب علم کی غرض سے اپنے وطن سے نکلے اور احمد آباد گجرات کے جنگل میں راہ بھول گئے۔ اس وقت حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور آپ سے ارشاد فرمایا کہ :"تمہیں چالیس دن تک میری خدمت میں رہنا ہوگا!چنانچہ آپ نے برضا و خوشی اس دعوت کو قبول فرمالیا اور چالیس دن تک حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں رہے اور اس چالیس دنوں میں حضرت خضر علیہ السلام نے آپ کو جمیع علوم ظاہری و باطن سے آراستہ فرمادیا۔
بارگاہ رسالت ﷺسے بشارت: آپ زیارتِ حرمین طیبین سےبھی شرف یاب ہوئے تھے۔ آپ طواف و زیارت خانۂ کعبہ کےبعد مدینہ طیبہ کا قصد فرمایا اور بارگاہ رسالت مآب میں حاضری کا شرف عظیم حاصل فرمایا۔ ایک رات جب آپ سرکار ابد قرارﷺکے روضۂ منورہ پر قیام پذیر تھے۔کہ اسی دوران نبی کریمﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے۔ تو سرکار دو جہاں علیہ السلام نے آپ کو اپنی نواز شات سے سرفراز فرمایا۔آپ زیارت حرمین طیبین کے بعد ہندوستان تشریف لائے اور اپنے شہر میں واپس آکر علوم و معارف کے دریائے بہادئے اور آپ کی ذات بابرکات سے تحصیل علوم اسلامیہ کے علاوہ کثیر افراد نے رشد و ہدایت حاصل کر کےدنیا میں آفتاب وماہتاب بن کر چمکے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 22/رجب المرجب 989ھ،مطابق ماہ اگست/1581ءکوقصبہ"نیوتنی" ضلع اناؤ یوپی(انڈیا) میں ہوا۔آپ کامزار شریف وہیں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ مشائخ قادری رضویہ۔
اعلیٰ حضرت فرماتےہیں:
التجا اےزندہ ٔ جاوید اے قاضی جیا
اے جمال اولیاءیوسف لقا امداد کن
شجرہ شریف میں اس طرح آپ کاذکر ہے:
خانۂ دل کو ضیا دے روئے ایماں کو جمال
شہِ ضیاء مولیٰ جمال الاولیاء کے واسطے