حضرت عمر بن عبدالعزیز
حضرت عمر بن عبدالعزیز (تذکرہ / سوانح)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: آپ کا اسمِ گرامی:عمر ۔کنیت:ابو حفص۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم۔آپ کی والدہ کااسمِ گرامی:امِ عاصم بنت ِ سیدنا عاصم بن فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔گویا آپ حضرت فاروقِ اعظم کی پوتی ہوئیں۔اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں خونِ فاروقی کی آمیزش تھی۔
تاریخِ ولادت: آپ 61یا 63 ہجری میں مدینۃ المنورہ میں پیدا ہوئے۔
بشارتِ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ :
امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک دن خواب دیکھا اور بیدار ہونے کے بعد فرمایا:میری اولاد میں سے ایک شخص جس کے چہرے پر زَخم کا نشان ہوگا ،زمین کو عَدل واِنصاف سے بھر دے گا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہمااکثر کہا کرتے : کاش! مجھے معلوم ہوجائے کہ میرے ابوجان کی اولاد میں سے کون ہوگا جس کے چہرے پر نشان ہوگا اوروہ زمین کو عدل واِنصاف سے بھر دے گا ؟وَقت گزرتا رہا، اور "فاروقی خاندان" حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے خواب کی تعبیر دیکھنے کا منتظر رہا ،یہاں تک کہ حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہماکے نواسے حضرت عمر بن عبدالعزیز وِلادت ہوئی ۔ (سیرت ابن جوزی ص۱۰،۱۱)
تحصیلِ ِ علم: آپ کے والدِ گرامی عبدالعزیز علیہ الرحمہ مصر کے گورنر تھے اور بہت ہی نیک سیرت انسان تھے ۔انہوں نے حضرت صالح بن کیسان علیہ الرحمہ کو آپ کا اتالیق(معلم)مقررفرمایا ۔حضرت صالح نے آپ کی تعلیم وتربیت کا خوب حق اداکیا۔چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بچپن ہی میں قرآن پاک حِفظ کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔اس کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃاللہ تعالی علیہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حضرتِ سیِّدنا اَنَس بن مالک ، سائب بن یزید اور سعید بن مسیب وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابِعین کے حلقۂ دَرس میں بھی شریک ہوئے۔ اسطرح ان بزرگانِ دین کی صحبتِ بابرکت میں قرآن و حدیث اور فِقہ ، عربی ادب ولغت کی تعلیم مکمل کرکے حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیزنے وہ مَقام حاصل کیا کہ آپ کے ہم عَصربڑے بڑے محدثین کو بھی آپ رحمۃاللہ تعالی علیہ کے فَضل وکمال کا اِعتراف رہا۔چُنانچِہ علامہ ذہبی نے آپ رحمۃاللہ تعالی علیہ کا تَذکِرہ اِن الفاظ میں لکھا ہے:وہ بہت بڑے اِمام، فقیہ،مجتہد،حدیث کے بہت ماہر تھے۔اس وقت کے جید علماء ومشائخ اہم مسائل کے حل کے لئے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف رجوع کرتے تھے۔
سیرت وخصائص: خلفاء راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے بعد جس مسلمان فرماں روا کا نام تاریخ کے افق پر آفتاب کی طرح روشن اور تابناک ہے وہ ابو حفص عمر بن عبد العزیز ہیں ۔جس وقت وہ سریر آرائے خلافت ہوئے اسلامی سلطنت بے انتہاوسعت اختیار کر چکی تھی،لیکن اس کے ساتھ ہی نظام حکومت میں کئی خرابیاں پیدا ہوچکی تھی۔اور خلفاء راشدین کا عہدِ زریں قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔عمر بن عبدالعزیز نے اپنے مختصر دورِ خلافت میں ان خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور مجددانہ کارناموں سے جسدِ ملت میں اسلام کی حقیقی روح پھونک کر ایک بار پھر خلفاء راشدین کابا برکت دور واپس لے آئے۔اسی لئے علماء فقہ و تاریخ نے آپ کو پہلی صدی ہجری کا مجدد اور ارباب سیر نے خلیفہ راشد ٹھہرایا،جیسا کہ ابو داؤد شریف میں ہے کہ حضرت سفیان ثوری نے فرمایا: کہ خلفاء راشدین پانچ ہیں،حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان اور حضرت علی المرتضی اورحضرت عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
آپ کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ وہ ایک نفیس طبع خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے۔ عہد شباب میں اچھے سے اچھا لباس پہنتے ۔ دن میں کئی پوشاک تبدیل کرتے ، خوشبو کو بے حد پسند کرتے ، جس راہ سے گزر جاتے فضا مہک جاتی۔
خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی ، جن کا لباس فاخرانہ تھا۔ اب سراپا عجز و نیاز تھے۔
سلیمان کی تجہیز و تکفین کے بعد پلٹے تو سواری کے لیے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کیے گئے مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا "میرے لیے میر خچر کافی ہے" اور انہیں واپس بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور کہا کہ" میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں"پھر جب سلیمان کے اثاثہ کو ورثا میں تقسیم کرنے کی تجویز کی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ واپسی کے وقت دستور کے مطابق خیال تھا کہ وہ قصر خلافت میں ضرور داخل ہوں گے لیکن عمر اس کے بجائے یہ کہہ کر کہ " میرے لیے میرا خیمہ کافی ہے" اندر داخل ہوگئے۔ آپ کی ملازمہ نے چہرہ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ پریشان ہیں۔ پوچھا تو کہا:"یہ تشویشناک ناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو"۔
ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ہمیشہ چہرے پر پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے ۔ اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زروجواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ اس پاکیزہ زندگی اور کارہائے نمایاں کی بدولت ہی پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔
وصال: آپ کا وصال بروز بدھ 25 رجب المرجب 101ھ میں ہوا۔آپ کو حلب کے قریب "دیرِ سمعان" میں سپردِ خاک کیا گیا۔