حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت یوسف علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں اور حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم‘‘
کریم ابن کریم ابن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹے:
یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے ہیں یعنی یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں یہودا، روبیل، شمعون، لادی، ریالون، یشجر، دینہ یہ تمام لڑکے آپ کی زوجہ لیا بنت لیان بن فاہر کے بطن سے ہیں، یہ زوجہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی خالہ کی لڑکی تھی۔
دان، یفتالی، جاد، آشریہ لڑکے زلقہ اور بلھتہ کے بطن سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین راحیل کے بطن سے تھے۔ راحیل کی وفات بنیامین کی پیدائش کے بعد جلد ہی ہوگئی تھی۔ لیا کی وفات کے بعد راحیل سے نکاح ہوا تھا۔ راحیل، لیا کی بہن تھی۔
خیال رہے کہ جو نام ذکر کیے گئے ہیں یوسف علیہ السلام کے علاوہ وہ بارہ ہیں، اور مشہور یہ ہے کہ حضرت یوسف کے گیارہ بھائی تھے اسی وجہ سے اکثر حضرات نے دینہ نام کو شامل نہیں کیا۔
کچھ حضرات نے شامل تو کیا ہے لیکن کہا ہے کہ یہ مونث کا نام ہے یعنی یوسف کی ایک بہن کا نام دینہ تھا۔
یوسف علیہ السلام کا خواب دیکھنا:
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے باپ کو بتایا کہ اے میرے باپ!
اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُھُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۴)
بےشک میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ یوسف نے جو تارے دیکھے تھے ان کے نام یہ ہیں:
’’جربان، طارق، ذیال، قابس ، عمودان، فیلق، فزع، وثاب، ذوالکفتین، ضروج، مصبح‘‘
ایک روایت مین مصبح کی جگہ نطح ذکر ہے، لیکن پہلی روایت پر کثیر اہل علم حضرات ہیں سنان نامی یہودی حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا آپ مجھے ان ستاروں کے متعلق بتائیں جو یوسف نے دیکھے تھے، آپ خاموش تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آگئے انہوں نے حضور کو ستاروں کے نام بتادیے آپ نے یہودی کو کہا اگر میں تمہیں ان تاروں کے نام بتادوں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے اسے نام بتادیے وہ کہنے لگا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی بے شک یہی ان کے نام ہیں۔
آپ کے خواب کی تعبیر:
گیارہ تاروں سے مراد آپ کے بھائی اور چاند سورج سے مراد آپ کے ماں باپ ہیں، لیکن خیال رہے کہ خواب دیکھنے سے پہلے ہی آپ کی والدہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ سجدہ سے مراد سجدہ تعظیمی ہے جو پہلی امتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں جائز نہیں۔
فائدہ: خواب میں سورج دیکھنے سے بادشاہت، سونا، خوبصورت عورت ملنے کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے چاند کو خواب میں دیکھنے سے بادشاہت، وزارت، بادشاہ کا قرب، ریاست، شرافت، غلام، منصب، حاکمیت بڑے آدمی کی زیارت، والد، والدہ،ز وجہ، خاوند، عظمت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی فساد اور باطل امور کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔ یہ سب دیکھنے والے پر منحصر ہے۔
خیال رہے خواب دیکھنے والا جب کوئی اچھا خواب دیکھے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے (القاء) ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء پڑھے اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہے تو بیان بھی کردے لیکن اگر برا خواب دیکے تو وہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے خواب دیکھنے پر بائیں طرف تین مرتبہ تھوکے اور.....
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَشَرِّ الرُّؤْیَا ..... پڑھے اور کسی کے سامنے وہ خواب بیان نہ کرے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ (ماخوذ از روح المعانی)
یعقوب علیہ السلام کا خواب بیان کرنے سے منع کرنا:
قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْ یَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًاط اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۲ سوۃ یوسف۵)
’’کہا اے میرے پیارے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں گے بے شک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب بارہ سال کی عمر میں دیکھا، حضرت یعقوب علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام منصب نبوت پر فائز ہوں گے تو بھائی ان سے حسد کریں گے۔
کیونکہ یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی آپ کے بھائی آپ سے اس پر حسد کرتے تھے۔ یہ بھی یعقوب علیہ السلام کے علم میں تھا؛ اسی لیے آپ نے منع فرمایا کہ یہ خواب بھائیوں سے نہ بیان کرنا۔ ورنہ ان کا حسد اور بڑھ جائے گا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں شیطان کے دامِ فریب میں آجائیں گے۔
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا حسد:
اِذْقَالُوْا لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۸)
جب انہوں نے کہا کہ ضرور یوسف علیہ السلام اور اس کابھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں بے شک ہمارے باپ صراحتاً ان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کے بعد حضرت بنیامین سے، تو دوسرے بھائیوں کو اس پر حسد آیا وہ کہنے لگے: ہم تو ایک جماعت ہیں باپ کی خدمت زیادہ کرسکتے ہیں اور ان کو زیادہ نفع پہنچاسکتے ہیں یہ دو ہیں اور چھوٹے بھی ہیں یہ اپنے باپ کی خدمت ہماری طرح نہیں کرسکتے پھر ان سے پیار و محبت ہم سے زیادہ کیوں؟ (روح المعانی)
اعتراض:
’’انھم نبسوا أباھم الی الضلال المبین وذالک مبالغۃ فی الذم ومن بالغ فی الطعن فی الرسول کفر لاسیما ان کان الطاعن ولدافان حق الأبوۃ یوجب التعظیم‘‘
سوال یہ ہوتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے لڑکوں نے اپنے باپ کو ’’ضلال مبین‘‘ کی طرف کیسے منسوب کیا؟ یہ تو مذہب اور طعنہ میں مبالغہ ہے اور جو شخص اللہ کے رسول پر طعنہ میں مبالغہ کرے وہ کافر ہے (حالانکہ وہ مومن تھے)۔ اولاد کس طرح طعنہ زن ہو سکتی ہے؟
جواب:
’’المراد منہ الضلال عن رعایۃ المصالح فی الدنیا لا البعد عن طریق الرشد والصواب‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ راہ راست اور حق سے دوری کو ضلال سے تعبیر نہیں کیا بلکہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے باپ دنیا کی مصلحت کو نہیں دیکھ رہے کہ ہم ایک جماعت ہیں ہم انہیں زیادہ نفع پہنچاسکتے ہیں اور ہم اُن کی خدمت زیادہ کرسکتے ہیں لیکن محبت وہ ان سے زیادہ کرتے ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
یعقوب علیہ السلام کی محبت دو بیٹوں سے زیادہ کیوں؟
’’محبت‘‘ دل کا کام ہے جس پر انسان قادر نہیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں انصاف کرنے میں بہت زیادہ احتیاط فرمانے کے باوجود دعا فرماتے تھے:
اے اللہ! جس کا میں مالک ہوں اس پر تو میں نے عمل کردیا لیکن جس پر میں مالک نہیں اس پر مجھے مواخذہ نہ کرنا،
یعنی دلی محبت کسی سے زیادہ ہونا انسان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔ یہ دونوں بھائی چھوٹے چھوٹے تھے چھوٹی اولاد سے محبت زیادہ ہونا بھی فطرۃً اور قدرتی عمل ہے۔
یوسف علیہ السلام سے محبت سب سے زیادہ ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ آپ کو معلوم ہوچکا تھا کہ آپ کی تمام اولاد میں سے اگر کسی کو منصب نبوت حاصل ہونا ہے تو وہ یہی آپ کا بیٹا ہے اسی لیے آپ ان سے زیادہ محبت کرتے تھے، ان کے بعد بنیامین سے کیونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔
یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت کرنے کی وجہ سے ہی ان کے بھائی زیادہ مخالف ان کے ہی تھے بنیامین کے اس طرح مخالف نہیں تھے کیونکہ خواب دیکھنے کا معاملہ ان تک بھی کسی طرح پہنچ چکا تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، روح المعانی)
بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو راہ سے ہٹانے کی ٹھان لی:
اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِاطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا مِن بَعْدِہ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ (پ۱۲ سوۃ یوسف ۹)
یوسف کو مار ڈالوایا کہیں زمین میں پھینک آؤ کہ تمہارے باپ کا منہ صرف تمہاری ہی طرف رہے اور اس کے بعد پھر نیک ہوجانا۔
یعنی انہوں نے مشورہ کیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ باپ صرف تمہارے ساتھ ہی خالص محبت کریں تو یوسف کو راستے سے ہٹانا ضروری ہے اس کے بغیر باپ کی کامل محب میسر نہیں ہوسکتی۔ وہ مسلمان تھے، کافر نہیں تھے۔ سمجھ رہے تھے کہ یہ عظیم جرم بھی ہوگا، لیکن حسد کی آگ نے انہیں اندھا کر رکھا تھا۔ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنچانے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے، البتہ یہ سوچ رہے تھے کہ بعد میں توبہ کرلیں گے اور نیک ہوجائیں گے۔
صرف ایک بھائی قتل کرنےسے منع کرتا تھا:
قَالَ قَآئِلٌ مِّنْھُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
ان میں سے ایک کہنے والا بولا: یوسف کو قتل نہ کرو اور اسے اندھے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی چلتا آکر اسے لے جائے اگر تمہیں کرنا ہے تو۔
یہ روکنے والا آپ کا سب سے بڑا بھائی تھا جس کا نام ’’یہودا‘‘ تھا اس نے کہا قتل ایک عظیم جرم ہے تمہارا یہ ارادہ درست نہیں البتہ جنگل میں کسی کنوئیں میں ڈال دو، شاید وہاں سے کوئی گذرے تو اسے نکال کر ساتھ لے جائے، اس طرح تمہارا مطلب بھی پورا ہوگا اور یوسف بھی قتل سے بچ جائے گا، اگر تم نے اپنے ارادے پر عمل کرنا ہی ہے تو یہی کرو۔ (ماخوذ از روح المعانی)
یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے جانے کے لیے بھائیوں کا حیلہ:
قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ، اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ، قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْھَبُوْا بِہ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ ،قَالُوْا لَئِنْ اَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۱۱، ۱۴)
انہوں نے کہا اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے معاملہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے ہو ہم تو اس کے خیرخواہ ہیں کل اس کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے کہ میوے کھائے اور کھیلے اور بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں آپ نے کہا بے شک تمہارا اس کو ساتھ لے جانا مجھے رنج پہنچائے گا اور ڈرتا ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے گا اور تم اس سے بے خبر رہو۔ انہوں نے کہا اگر اسے بھیڑیا کھا جائے اور ہم ایک جماعت ہیں جب تو ہم کسی مصرف کے نہیں۔
ان کا شہر سے باہر جانے اور کھیل کی اجازت طلب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم دشمن سے جنگ کرنے کے لیے تیاری کریں گے دوڑ میں مقابلہ کریں گے تیر اندازی میں مہارت حاصل کریں گے۔
اگر وہ صرف لہوولعب کے لیے کھیل کود کی اجازت طلب کرتے تو یعقوب علیہ السلام انہیں کبھی اجازت نہ دیتے۔ یوسف علیہ السلام چونکہ چھوٹے تھے اس لیے انہوں نے کہا اے ہمارے ابا نجان ہمارے چھوٹے بھائی کو بھی ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دو، یہ ہماری جنگی تدابیر دیکھ کر خوش ہوگا اور جنگلی میوے پھل ہم اسے توڑ کردیں گے، یہ کھائے گا، کیونکہ ہم اونٹوں کو چرانے اور انہیں چارہ کھلانے کی مشقیں بھی کریں گے ان میں جنگلی درختوں سے پھل بھی حاصل کریں گے۔
یعقوب علیہ السلام چونکہ پہلے ہی خواب دیکھ چکے تھے کہ یوسف علیہ السلام پر بھیڑیے نے حملہ کردیا ہے اور وہ زمین بھی بھیڑیوں والی تھی اس لیے آپ نے کہا مجھے ڈر ہے کہ اسے کوئی بھیڑیا نہ کھا جائے اور تم بے خبر ہی رہو۔ شاید یعقوب علیہ السلام نے خواب کو اسی طرح سمجھا ہو اور اشارہ دشمن کی طرف ہو یعنی بھیڑیے سے مراد دشمن ہو۔ آپ علیہ السلام کے بیٹوں کو واپس آکر یہی عذر پیش کرنا ہے اپنے باپ کے قول سے ہی سمجھ آیا ورنہ پہلے ان کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کے سامنے ایسا کلام نہ کرو جس سے اسے جھوٹ کی راہنمائی ملے، جیسے یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کو معلوم نہیں تھا کہ انسانوں کو بھیڑیا بھی کھاجاتا ہے، جب ان کے باپ نے یہ کہا تو انہیں بھی جھوٹ بولنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بھائیوں کی ایک جماعت ..... وہ جو بہت طاقتور ہو..... کے سامنے ایک بھائی کو بھیڑیا کھا جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہم کسی کام کے نہیں ہوں گے، ہمارے ہوتے ہوئے بھیڑیے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے بھائی کو کھا جائے۔؟ (روح المعانی)
بھائیوں کا یوسف علیہ السلام کو تیار کرنا:
جب حضرت یعقوب علیہ السلام کسی طرح بھی ان کے ساتھ یوسف علیہ السلام کو بھیجنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کو کہا: کیا تم ہمارے ساتھ باہر جنگل میں چلو گے؟ جہاں ہم دوڑ میں مقابلہ کریں گے اور اونٹ وغیرہ دوڑانے اور دوسری جنگی تدابیر میں مقابلہ کریں گے؟ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا: ہاں ضرور جاؤں گا، انہوں نے کہا کہ تم باپ کو کہو۔ آپ نے سب بھائیوں کو ساتھ لیااور ب اپ کے پاس آگئے۔ بھائیوں نے ان کی موجودگی میں اپنے باپ کی خدمت میں عرض کی یوسف ہمارے ساتھ جانا پسند کرتا ہے۔ آپ اسے اجازت دیں۔ آپ نے یوسف علیہ السلام کی طرف توجہ کرتے ہوئے پوچھا، تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا بھائی مجھے پیار و محبت سے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں اس لیے میں ان کی ساتھ ضرور جاؤں گا، اس طرح یعقوب علیہ السلام باوجود اس کے کہ نہیں چاہتے تھے کہ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجا جائے لیکن تقدیر کے سامنے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی یوسف علیہ السلام کی مرضی اور کہنے پر بھائیوں کے ساتھ بھیجنے پر آمادگی ظاہر فرمادی۔ (ماخوذ از روح المعانی)
بھائیوں کے مظالم:
جب وہ یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلے تو جب تک یعقوب علیہ السلام سامنے تھے اس وقت تک تو وہ کندھے پر اٹھاکر چلے۔ یعقوب علیہ السلام اس وقت تک کھڑے دیکھتے رہے، جب تک وہ سامنے رہے۔ جب وہ جنگل میں پہنچ گئے اور اپنے باپ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تو یوسف علیہ السلام کو زمین پر پھینک دیا اور اپنی عداوت ظاہر کرنے ل گے، کبھی بدکلامی کرتے اور کبھی مارتے۔ آپ ایک بھائی سے بھاگ کر دوسرے کے پاس آتے کہ شاید وہ میرے ساتھ ہمدردی کرے گا اور میری فریاد سنے گا، لیکن وہی آپ کو مارنا شروع کردیتا، آپ نے ان کے ارادوں کو جب سمجھا لیا کہ یہ کیا چاہتے ہیں تو وہاں سے پکار کر کہا:
اے میرے ابا جان! کاش آپ یوسف کو دیکھتے کہ بھائی اس پر کتنا ظلم کر رہے ہیں؟ تو آپ کتنے غمزہ ہوتے اور میرے بھائیوں کے مجھ پر مظالم کو اگر آپ دیکھتے تو یقیناً روتے۔
اے میرے ابا جان! یہ کتنی جلدی آپ کے وعدہ کو بھول گئے، کتنی جلدی آپ کی نصیحتوں کو بھول گئے۔
یہ کہتے ہوئے یوسف علیہ السلام شدید رروئے اسی حال میں روبیل نے آپ کو زمین پر گرادیا اور سینے پر بیٹھ گیا آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا اے میرے بھائی ٹھہر جا مجھے قتل نہ کر، قتل کرنا عظیم جرم ہے۔
سبحان اللہ! نبی کا مقام کتنا بلند ہے؟ نبوت کے اعلان سے پہلے ہی اپنے بھائیوں کو نصیحت کرکے قتل جیسے عظیم جرم سے بچا رہے ہیں۔ روبیل کہنے لگا تجھے تو بڑے خواب آتے تھے اب تو اپنے خوابوں کو بلا جو تجھے میرے ہاتھوں سے چھڑائیں۔ اس نے آپ کی گردن کو مروڑا، آپ کو قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ نے بڑے بھائی ’’یہودا‘‘ کو کہا اے میرے بھائی! خدا سے ڈر، میرے اور مجھے قتل کرنے والے کے درمیان حائل ہوجا! آپ کے کہنے پر اسے کچھ بھائی ہونے کا خیال آیا اور دل نرم ہوا اس نے کہا اے میرے بھائیو! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا کہ قتل نہیں کرو گے؟ اب بھی آسان کام کرو، قتل نہ کرو! وہ غصہ میں پہلے کیے ہوئے وعدہ کو بھول چکے ت ھے، پوچھنے لگے کیا کریں؟
یہودا نے کہا یہ قریب ہی کنواں ہے اس میں پھینک دو، یا تو خود ہی مرجائے گا یا کوئی قافلے والے گذرے تو اسے نکال کر ساتھ لے جائیں گے، وہاں ایک کنواں تھا جو نیچے سے کھلا اور اوپر سے تنگ تھا اس میں جب ا نہوں نے آپ کو پھینکنا چاہا تو آپ کنوئیں کے کنارے سے لپٹ گئے، ان ہوں نے آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے، قمیص کو اتار لیا کیونکہ وہ قمیص کو خون سے رنگ کر اپنے باپ کے سامنے عذر پیش کرنا چاہتے تھے، یوسف علیہ السلام ان کو کہہ رہے تھے میررے بھائیو! میری قمیص واپس کردو تاکہ میں کنوئیں میں ننگا نہ رہوں، لیکن بھائیوں نے آپ کی بات کو تسلیم نہ کیا۔ آپ کو کنوئیں میں ڈالنے لگے تو آپ نے انہیں کہا اے میرے بھائیو! مجھے اکیلے چھوڑ جاؤ گے؟ انہوں نے کہا: اب تم چاند سورج اور تاروں کو بلاؤ وہی تمہاری امداد کریں گے۔
آپ کو ایک ڈول میں ڈال کر کنویں میں لٹکا دیا گیا جب نصف فاصلہ تک ڈول پہنچا تو اوپر سے چھوڑ دیا گیا اس خیال سے کہ زور سے گرنے پر مرجائے گا، لیکن آپ علیہ السلام پانی میں گرے اور ایک طرف پتھر تھا اس پر بیٹھ گئے۔ (روح المعانی)
یوسف علیہ السلام کا کنویں میں حال:
جب آپ کو کنویں میں ڈالا گیا تو آپ رو رہے تھے انہوں نے آپ کو اوپر سے آواز دی آپ نے خیال کیا شاید بھائیوں کو میرے حال پر رحم آگیا آپ نے ان کو جواب دیا انہوں نے آپ کو زندہ سمجھ کر پتھر گراکر قتل کرنا چاہا لیکن ’’یہودا‘‘ نے پھر منع کردیا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس وہ قمیص تھی جو آپ کے دادا جان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو جنت سے لاکر پہنائی گئی تھی جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تھا۔
یعقوب علیہ السلام نے جب یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ روانہ کیا تو وہ قمیص آپ نے ان کے گلے میں بطور تعویذ ڈال دی، بھائیوں نے جب یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا تو ان کی قمیص اتار لی تھی لیکن فرشتے نے آکر ان کے گلے سے وہ تعویذ اتار کر اس سے قمیص نکال کر ان کو پہنادی جس سے کنواں جگمگانے لگا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ کو کنوئیں میں ڈالا گیا تو کنوئیں کا پانی میٹھا ہوگیا (حالانکہ پہلے نمکین تھا) اس میں غذائیت کی تاثیر آگئی، یعنی کھانے اور پینے کا کام دینے لگا۔ جبرائیل ان کے پاس کنوئیں میں آگئے تاکہ وہ ان سے انس پکڑ سکیں، جب شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام جانے کے لیے اٹھے تو آپ نے کہا کہ اب مجھے اکیلا رہنے سے وحشت ہوگی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا اگر تمہیں ایسی کوئی حاجت درپیش آئے تو تم یہ دعا پڑھنا:
’’یَا صَرِیْخَ الْمُسْتَصْرِخِیْنَ وَیَا غَوْثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ وَیَا مُفَرِّجَ کُرْبَ الْمَکْرُوْبِیْنَ‘‘
اس کے پڑھنے پر تم مجھے اپنی جگہ دیکھ لو گے میرے حال کو جان لو گے میرا معاملہ تم پر کچھ مخفی نہیں رہے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ دعا پڑھی تو فرشتے آپ کے پاس آگئے، آپ ان سے انس پکڑنے لگے، اکیلا ہونے کا آپ کو کوئی احساس نہ ہوا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عن ہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا گیا آپ کے پاس جبرائیل آئے اور کہنے لگے اے لڑکے آپ کو کنوئیں میں کس نے ڈالا ہے؟ آپ نے کہا میرے بھائیوں نے، انہوں نے پوچھا بھائیوں نے کیوں ڈالا؟ آپ نے کہا میرے باپ مجھ سے محبت کرتے ہیں، انہوں نے مجھ پر حسد کیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: کیا تم یہاں سے نکلنا چاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: یہ التجا صرف یعقوب علیہ السلام کے خدا کی طرف ہے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا پھر تم خدا سے یہ دعا کرو:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الْمَکْنُوْنِ الْمَخْزُوْنِ یَا بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ وَاَنْ تَجْعَلَ مِنْ اَمْرِیْ فَرْجًا وَّمَخْرَجًا وَّاَنْ تَرْزُقَنِیْ مِنْ حَیْثُ اَحْتَسِبُ وَمِنْ حَیْثُ لَا اَحْتَسِبُ‘‘
آپ نے جب یہ دعا پڑھی تو اللہ نے آپ کے معاملات آسان کردیے، کنوئیں سے نکال کر مصر کی بادشاہی عطا فرمادی جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا کرتے رہا کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نیک برگزیدہ بندوں کی دعا ہے۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹے روتے ہوئے واپس لوٹے:
وَ جَآءُ وْٓ اَبَاھُمْ عِشَآءً یَّبْکُوْنَ قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صٰدِقِیْنَ وَجَآءُ وْ عَلٰی قَمِیْصِہ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللہ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ (پ۱۲، سورۃ یوسف ۱۶، ۱۸)
اور رات ہوئے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے اے ہمارے باپ ہم دوڑتے ہوئے آگے نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑا تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ کسی طرح ہمارا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہوں اور ان کی قمیص پر جھوٹا خون لگا لائے، (یعقوب علیہ السلام نے کہا): بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بات تمہارے لیے بنالی ہے تو صبر اچھا اور اللہ ہی سے مدد چاہتا ہوں ان باتوں پر جو تم بتا رہے ہو۔
انہوں نے ایک ہرن کو ذبح کیا اس کے خون سے حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کو رنگ کر باپ کے پاس لائے اور ظاہر یہ کیا کہ بھیڑیے کے کھانے کی وجہ سے یہ خون آلودہ ہوگئی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے قمیص کو لے کر اپنے چہرہ پر ڈالا اور رونے لگے یہاں تک کہ قمیص کے خون سے آپ کا چہرہ خون آلودہ ہوگیا آپ کہہ رہے تھے کہ میں نے آج تک اتنا حکیم بھیڑیا کوئی نہیں دیکھا جس نے میرے بیٹے کو کھالیا ہو لیکن قمیص کو نہ پھاڑا ہو! یہ کہتے کہتے اپ نے پھر رونا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ آپ کے بیٹوں نے آپ پر پانی چھڑکا، لیکن آپ کو ہوش نہ آیا اور نہ ہی آپ کے جسم میں کوئی حرکت پیدا ہوئی، وہ آپ کو پکار رہے تھے لیکن آپ کوئی جواب نہیں دے رہے تھے ’’یہودا‘‘ نے اپنا ہاتھ آپ کے ناک اور منہ پر رکھا لیکن اسے سانس کا چلنا محسوس نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی آپ کی کوئی نبض چل رہی تھی۔
’’یہودا‘‘ نے کہا: ہمیں قیامت کے دن جزا دینےو الے مالک الملک سے عذاب ہی حاصل ہوگا ہم نے اپنے بھائی کو بھی ضائع کردیا اور باپ کو بھی قتل کردیا۔ غرض یہ کہ وہ تمام رات آپ علیہ السلام نے بیہوشی میں گزاردی سحری کے وقت ہوش آیا۔ (روح المعانی)
فائدہ: یوسف علیہ السلام کی قمیص میں تین نشانیاں پائی گئیں: پہلی یہ کہ یعقوب علیہ السلام نے قمیص کو دیکھ کر کہا کہ یوسف کو بھیڑیے نے نہیں کھایا۔ پھر یعقوب علیہ السلام کی گئی ہوئی نظر قمیص سے ہی واپس لوٹی، جب مصر سے یوسف علیہ السلام نے قمیص بھیجی۔ اسی طرح زلیخا کے الزام سے قمیص کو دیکھ کر ہی بری کیا گیا۔ (روح المعانی)
اعتراض:
’’انہ علیہ الصلوۃ والسلام کان عالما بانہ حی سلیم لانہ قال لہ (وکذالک یجتبیک ربک ویعلمک من تاویل الاحادیث) والظاھر انہ انما قال ھذا الکلام من الوحی واذا کان عالما بانہ حی سلیم فکان من الواجب ان یسعی فی طلبہ‘‘
حضرت یعقوب علیہ السلام کو معلوم تھا کہ آپ زندہ صحیح سلامت ہیں کیونکہ آپ نے یوسف علیہ السلام کو بتایا تھا کہ تمہارا رب تمہیں برگزیدہ پیغمبر بنائے گا اور تمہیں باتوں کا انجام نکالنا سکھائےگا۔ اور ظاہر بات یہی ہے کہ آپ نے یہ کام وحی سے فرمایااور جب آپ کو معلوم تھا کہ آپ زندہ صحیح سلامت ہیں تو آپ پر واجب تھا کہ یوسف علیہ السلام کو تلاش کرتے۔
یعنی یہ آپ کو بذریعہ وحی معلوم تھاکہ یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ باقی لوگوں سے چن کر مقام نبوت عطا کرے گا۔ آپ اعلان نبوت فرمائیں گے اس سے پہلے آپ پر موت نہیں آئے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنےو عدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، تو اتنا معلوم ہونے کے باوجود آپ نے تلاش نہیں کیا؟ اور ۔۔۔ وقت روتے ہوئے گزار دیا اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
’’انہ سبحانہ وتعالٰی منعنہ عن الطلب تشدیدا للمحنۃ علیہ وتغلیظا للامر علیہ‘‘
اور وجہ یہ تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر صابر و شاکر تھے، لیکن بیٹوں کے فعل پر پریشان تھے کہ نبی کی اولاد ہوکر یہ کتنے حاسد نکلے اس پر آپ کو رونا ہی تھا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
تنبیہ:
حضرت اعمش رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے جھوٹا رونے کے بعد کسی کے رونے سے اسے سچا نہیں سمجھا جاسکتا۔ ابن منذر نے شعبی سے روایت کی ہے کہ قاضی شریح کے پاس ایک عورت اپنا مقدمہ لے کر آئی اور رو رہی تھی لوگوں نے قاضی شریح کو کہا: اے ابوامیہ کیا آپ اسے روتا ہوا نہیں دیکھ رہے، آپ نے فرمایا: یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی رات کے وقت روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے تھے حالانکہ وہ ظالم اور جھوٹے تھے اس لیے کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بغیر تحقیق کے ناحق فیصلہ کردے۔ (از تفسیر کبیر روح المعانی)
یوسف علیہ السلام کا کنوئیں سے باہر آنا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک قافلہ مدین سے مصر کی جانب روانہ ہوا وہ قافلہ والے راستہ بھٹک گئے وہ ادھر ادھر پھرنے لگے کہ راستہ مل جائے اسی دوران انہیں وہ کنواں نظر آیا جس میں حضرت یوسف علیہ السلام تھے، حالانکہ وہ کنواں ایسے بیابان جنگل میں تھا جہاں چرواہوں کے بغیر کوئی شخص نہ آتا، قافلہ والوں نے کنواں دیکھ کر اپنے ایک شخص مالک بن زعر خزاعی کو بھیجا تاکہ وہاں سے پانی لے آئے اس نے جب کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام اس سے لپٹ گئے اس طرح آپ باہر تشریف لائے، مالک بن زعر خزاع نے آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوشی سے کہا:
یَا بُشْرٰی ھٰذَا غُلَام کتنی خوشی کی بات ہے یہ تو لڑکا ہے۔
یعنی کتنا خوبصورت لڑکا ہمارے ہاتھ میں آگیا جو ہمارے لیے بہت بڑا سرمایہ بنے گا۔
حسن یوسف:
یوسف علیہ السلام کا چہرا بہت حسین تھا، بال گھنگریالے، آنکھیں موٹی و خوبصورت، تمام اعضاء میں عجیب قسم کا اعتدال پایا جاتا تھا، رنگ سفید گندم گوں سرخی مائل، کلائیاں اور پنڈلیاں موٹی، پیٹ چھوٹا، ناف چھوٹی تھی اور جب آپ مسکراتے تھے تو آپ کے دانتوں سے نور کی شعاعیں نکلتی تھیں۔ جب کلام فرماتے تو آپ کے سامنے والے دانتوں سے نور کی شعاعیں نظر آتیں اور کسی شخص میں اس وقت یہ اوصاف نہیں پائے جاتے تھے۔ آپ کا حسن ایسے جلوہ گر تھا جیسے دن کی روشنی۔
اتنے حسین لڑکے کو دیکھ کر نکالنے والے کو تعجب کیوں نہ ہوتا کہ آپ کے حسن اور خیر و برکت سے محرومی پر تو کنوئیں کی دیواریں اور پتھر بھی روئے۔ (روح المعانی، کبیر)
بھائیوں کا یوسف علیہ السلام کو کھوٹے سکوں سے بیچنا:
اگرچہ آپ کو کنوئیں سے نکالنے والوں نے قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا کر رکھا تھا کہ مصر میں جاکر اسے فروخت کرکے بہت بڑا مال حاصل کریں گے لیکن آپ کے بھائی تین دنوں کے بعد آپ کے حال کا پتہ چلانے کے لیے آئے کہ یوسف زندہ ہے یا مرچکا ہے؟ کنوئیں پر آئے تو دیکھا کہ یوسف کنوئیں میں تو نہیں ادھر ادھر دیکھا تو ایک قافلہ نظر آیا ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ انہوں نے ایک لڑکے کو نکالا ہے، آپ کے بھائیوں نے کہا: یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ کر آگیا ہے، اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں سستا بیچ دیتے ہیں اور تم اسے کسی دور علاقہ میں لے جاؤ تاکہ اسے بھاگنے کا مزہ آئے۔
یوسف علیہ السلام بھی بھائیوں کے ڈر سے خاموش تھے آپ نے بھی نہ بتایا کہ میں ان کا بھائی ہوں غلام نہیں، آخر کار آپ کو بیس یا بائیس کھوٹے درہموں سے بیچ دیا گیا اللہ نے فرمایا:
وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاھِمَ مَعْدُوْدَۃً
اور بھائیوں نےا سے کھوٹے داموں گنتی کے روپوں پر بیچ ڈالا۔
یوسف علیہ السلام کا بھائیوں کو الوداعی سلام:
جب آپ کے بھائیوں نے آپ کو کھوٹے درہموں سے بیچ دیا تو تاجر کو کہا کہ یہ چور ہے اور بھاگ بھی جاتا ہے تو اس تاجر نے آپ کو قید کرلیا اور آپ کی نگہبانی کے لیے ایک حبشی غلام کو آپ پر مقرر کردیا جب وہاں سے کوچ کرنے لگے تو آپ رونے لگ ے، تاجر نے آپ علیہ السلام سے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا جن لوگوں نے مجھے بیچا ہے میں ان کو الوداعی سلام کرنا چاہتاہوں یعنی ایسا سلام کرنا چاہتا ہوں جو کبھی نہ لوٹنے والا کرتا ہے۔
تاجر نے اپنے غلام کو کہا اس کو اپنے مالکوں کے پاس لے جاؤ تاکہ یہ انہیں الوداعی سلام کر آئے پھر قافلہ سے مل جانا میں نے آج تک اتنا فرمانبردار غلام نہیں دیکھا جو اپنے مالکوں سے اتنی محبت رکھتا ہو اور اتنے ظالم کوئی مالک نہیں دیکھے جتنے ظالم اس کے مالک ہیں۔
وہ غلام آپ کو آپ کے بھائیوں کے پاس لے آیا اور سب سوئے ہوئے تھے ایک ان میں سے بھیڑ بکریوں کی حفاظت کر رہا تھا جو جاگ رہا تھا۔ یوسف علیہ السلام اپنے محافظ غلام کے ساتھ پاؤں میں بیڑیاں لگے لڑکھڑاتے اس کے پاس پہنچے، رونے لگے اس نے پوچھا تم کیوں آئے ہو؟ آپ علیہ السلام نے کہا میں تمہیں الوداعی سلام کرنے آیا ہوں جسے تم کبھی نہ دیکھ سکو گے، ہائے افسوس ہائے بربادی! یہ کیسا الوداع ہے (ممکن ہے یہ یہودا ہو وہ کچھ آپ علیہ السلام سے نرم گوشہ رکھتا تھا) سب جاگ پڑے یوسف علیہ السلام ایک ایک بھائی پر محبت سے سرجھکا کر بوسے لیتے ہوئے گلے مل رہے تھے۔
سبحان اللہ ان کے ظلم کو دیکھیے اور یوسف علیہ السلام کی محبت کو دیکھیے! آپ چلتے ہوئے کہہ رہے تھے:
اللہ تمہاری حفاظت کرے اگرچہ تم نے مجھے ضائع کردیا، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے گھروں میں قائم و دائم رکھے اگرچہ تم نے مجھے گھرسے نکال دیا، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اگرچہ تم نے مجھ پر رحم نہیں کیا۔
آپ کے الوداعی سلام، رقت آمیز کلمات، دکھ بھری فریاد کا اثر بھیڑ بکریوں پر اتنا شدید ہوا کہ ان کے اس ہولناک منظر سے حمل گرگئے۔ (روح المعانی ج۲ ص۲۰۶)
یوسف علیہ السلام کا والدہ کی قبر پر رونا:
بھائیوں کو آپ نے الوداع کردیا تو آپ کو غلام نے پکڑ کر اپنے ساتھ چلالیا تاکہ قافلہ سے مل جائیں آپ کو بیڑیاں لگاکر ایک سواری پر سوار کرکے ساتھ لے جایا جا رہا تھا، کنعان کے قبرستان سے جب آپ کو گذر ہوا تو اپنی والدہ راحیل کی قبر کو دیکھ کر آپ اپنے جذبات پر قابو نہ رہ سکے، سواری سے اتر کر قبر سے لپٹ کر روتے ہوئے عرض کرنے لگے:
اے میری اماں! قبر سے سر اٹھا کر ذرا اپنے بیٹے کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تو دیکھو! اے میری ماں بھائیوں نے مجھے کنوئیں میں پھینک دیا، باپ سے مجھے جدا کردیا، کھوٹے سکوں سے مجھے بیچ ڈالا، میری چھوٹی عمر پر بھی ان کا دل نہ پسیجا، انہیں مجھ پر کچھ رحم نہ آیا، اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اور میرے والد کو مقام رحمت میں جمع کرے، وہی ارحم الراحمین ہے۔ (از روح المعانی ج۲ ص۲۰۶)
غلام کے یوسف علیہ السلام کو تھپڑ مارنے پر قہر خداوندی:
غلام نے پیچھے دیکھا تو یوسف کو نہ پایا واپس آیاتو دیکھا کہ آپ ایک قبر کے پاس رو رہے ہیں اس نے کہا تمہیں بیچنے والوں نے سچ کہا تھاکہ تم ایک بھگ وڑے ہو، یہ کہتے ہوئے اس نے آپ کو ایک زور دار تھپڑ مار دیا جس سے آپ بے ہوش ہوکر گر گئے، پھر جب آپ کو ہوش آیا تو آپ نے کہا مجھے کچھ نہ کہیے یہ تو میری ماں کی قبر ہے، میں اپنی ماں کو الوداعی سلام کرنے کے لیے سواری سے اتر گیا تھا۔ آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جو تمہیں ناپسند ہو۔ آپ کا چہرا خون آلودہ تھا اور گرنے کی وجہ سے مٹی لگی ہوئی تھی۔ کانپتے ہوئے رب کے حضور عرض کرنے لگے:
اے اللہ اگر میری کوئی خطا ہے تو مجھے میرے آباء ابراہیم و اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کی حرمت کے وسیلہ سے معاف کردے۔
آپ کی اس حالت کو دیکھ کر آسمانوں کے فرشتے بھی چلا اٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کے لیے فریاد کرنے لگے رب نے فرمایا: اے میرے فرشتو! یہ میرا نبی ہے اور میرے انبیاء کا بیٹا ہے جو مجھ سے فریاد کر رہا ہے اور مجھ سے ہی امداد کا طالب ہے میں ہی اس کا فریاد رس ہوں سب فریاد کرنے والوں کی فریاد کو میں ہی پہنچتا ہوں۔
رب تعالیٰ نے کہا: اے جبرائیل جاؤ میرے بندے کی امداد کرو! جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا اے اللہ تعالیٰ کے دوست تمہارا رب تمہیں سلام کہتا ہے اور تمہیں یہ کہتا ہے، رونے سے رک جاؤ! تم نے سات آسمانوں کے فرشتوں کو رلا دیا ہے، کیا تم یہ چاہتے ہو زمین و آسمان ایک ہوجائیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں نہیں، مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت حلم (بردباری) عطا کی ہے وہ جلد بازی نہیں کرتا تو میں بھی جلدی سے کام نہیں لیتا جبرائیل نے اپنا پر مارا زمین سے سرخ رنگ کی ہوا چلنے لگی، سورج کی روشنی ختم ہوگئی، سرخ آندھی سے تاریکی چھاگئی قافلے والے ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔
تاجر نے کہا: اے قافلے والو! اپنی اپنی سواریوں سے اتر کر اپنے آپ کو ہلاکت سے بچاؤ! مجھے کئی سال ہوچکے ہیں اس راستہ سے گزرتے ہوئے میں نے آج کے دن کی طرح کوئی دن نہیں دیکھا، سب اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ آج کی مصیبت یقیناً ہمارے کسی گناہ کا نتیجہ ہے۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے محافظ حبشی غلام نے بتایا کہ میں نے یوسف (علیہ السلام) کو مارا تھا جب مارا تو اس نے اپنا سر آسمانوں کی طرف اٹھایا تھا اور اپنے ہونٹوں کو بھی حرکت دی تھی۔
تاجر نے کہا: افسوس تمہاری بربادی! تم نے ہمیں بھی اور اپنے آپ کو ہلاک کردیا، تاجر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے لڑکے ہم نے تمہیں مار کر تم پر ظلم کیا ہے، اے لڑکے اگر تم بدلہ لینا چاہتے ہو تو بدلہ لے لو ہم حاضر ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
ہم ظالموں سے بدلہ نہیں لیا کرتے، میں تو اس گھرانہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ظلم کرنے والوں کو معاف کردیتے ہیں، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، میں تمہیں معاف کر رہا ہوں، اللہ بھی تمہیں معاف کرے۔
آپ کے معاف کرنے کے ساتھ ہی تاریکی ختم ہوگئی، آندھی رک گئی، سورج روشن ہوگیا مشرق و مغرب تک روشنی پھیل گئی، اس طرح قافلہ مصر میں امن سے آگیا۔
سبحان اللہ! نبی کی کیا شان ہے؟ نبی پر ظلم کرنے والے کیسے گرفت میں آئے؟ اور نبی کتنا صابر؟ کہ ظالموں کے لیے دعا کررہا ہے۔ (ماخوذ از روح المعانی ج۲ ص۲۰۶)
یوسف علیہ السلام کا بازار مصر میں سودا:
یوسف علیہ السلام کو مصر میں لایا گیا تو آپ کو بازار میں بحیثیت غلام بیچا جانے لگا تو آپ کے حسن و جمال کی وجہ سے قیمت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ آپ کی قیمت یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ کے وزن کے برابر کستوری، چاندی اور ریشم دیا جائے۔ اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کی عام لوگوں میں طاقت نہ تھی۔ اس لیے آپ کو مصر کے وزیر خزانہ نے اتنی قیمت ادا کرکے خرید لیا۔ اس کا نام قطفیر یا اطفیر تھا اور لقب ’’عزیز مصر‘‘ تھا اس وقت مصر کا بادشاہ الریان بن الولید تھا جو عمالقہ قبیلہ کا تھا۔ وہ یوسف علیہ السلام پر ایمان لایا تھا اور اسی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وزیر خزا نہ بنایا تھا۔ اس کے بعد قابوس بن مصعب بادشاہ بنا تھا جس کو آپ نے دعوت ایمان دی لیکن اس نے انکار کردیا تھا۔
خیال رہے کہ مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا، یوسف علیہ السلام کے زمانہ کے بادشاہ کو بھی فرعون کہا جاتا لیکن مشہور فرعون جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھا یہ بہت بعد کا ہے۔
عزیز مصر نے جب آپ کو خریدا تھا اس وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی، تیرہ سال آپ اس کے گھر رہے۔ ریان بن ولید نے جب آپ کو وزیر بنایا آپ کی عمر تیس سال تھی، آپ کو تینتیس سال کی عمر میں اللہ نے ملک و حکمت سے نوازا اور آپ ایک سو بیس برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ (ماخوذ از کبیر)
یوسف علیہ السلام ناز و نعمت میں:
وَقَالَ الَّذِی اشْتٰرہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٓ اَکْرِمِیْ مَثْوٰہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْنَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۲۱)
اور کہا اس شخص نے جس نے یوسف کو خریدا تھا اہل مصر سے اپنی بیوی کو، عزت و اکرام سے اسے ٹھہرؤ، شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یابنالیں ہم اسے اپنا فرزند۔ اور یوں (اپنی حکمت کاملہ سے) ہم نے قرار بخشا یوسف (علیہ السلام) کو (مصر کی) سرزمین میں۔ اور تاکہ ہم سکھادیں اسے خوابوں کی تعبیر۔ اللہ غالب ہے اپنے ہر کام پر لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
عزیز مصر نے آپ کی لوح جبیں پر سعادت و نجات کے نقوش دیکھ لیے تھے بڑی محبت سے گھر لایا اور ا پنی بیوی سے کہا کہ بڑا پیارا بچہ مل گیا ہے اس کے آرام و آسائش کا ہر وقت خیال رکھنا اس کی کسی طرح دل آزاری نہ ہو۔ اس کی شکل و صورت کسی شاندار مستقبل کی غمازی کر رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کسی دن ہمارے لیے یہ مفید ثابت ہو، یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ اس عورت کا نام راعیل تھا یا زلیخا۔ یہی دوسرا نام زیادہ مشہور ہے۔
ایسے ملک میں جہاں کسی کو یوسف علیہ السلام کے عظیم خانوادے کا علم تک نہ تھا، جسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر مصر لایا گیا تھا، جسے بیچنے والے بھی ایک بھگوڑا غلام تصور کرتے تھے، پھر وہ عام غلاموں کی طرح منڈی میں لایا گیا اور فروخت ہوا اس کے لیے اتنی عزت و آسائش کے سامان مہیا فرمادینا مصری مملکت کے ایک عظیم رئیس کے دل میں اس کے لیے پدرانہ شفقت بلکہ فدویانہ جذبہ پیدا کردینا، اللہ کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ (ضیاء القرآن)
تین شخصیات کی فراست:
تین محترم شخصیات نے عظیم فراست سے کام لیا:
٭ ’’عزیز مصر‘‘ جب اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اپنی زوجہ کو کہا کہ اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ۔
٭ دوسری حضرت شعیب علیہ السلام کی لڑکی جس نے اپنی فراست سے موسیٰ علیہ السلام کو طاقتور امین سمجھتے ہوئے اپنے باپ کو مشورہ دیا کہ اے میرے باپ ان کو نوکر رکھ لو بے شک بہتر نوکر وہ جو طاقتور اور امانت دار ہو۔
٭ تیسرے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنی فراست سے اپنا خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا۔ (از روح المعانی)
یوسف علیہ السلام ایک مرتبہ پھر امتحان میں:
وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ھُوَفِیْ بَیْتِھَا عَنْ نَّفْسِہ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَاللہ اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰبُرْھَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ (۱۲ سورۃ یوسف ۲۳، ۲۴)
بہلانے پھسلانے لگی انہیں وہ عورت جس کے گھر میں آپ تھے کہ ان سے مطلب براری کرے اور (ایک دن) اس نے تمام دروازے بند کروائے اور (بصد ناز) کہنے لگی: بس آبھی جا۔ یوسف (پاکباز) علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی پناہ (یوں نہیں ہوسکتا) وہ (تیرا خاوند) میرا محسن ہے، اس نے مجھے بڑی عزت سے ٹھہرلیا ہے بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے اور اس نے تو قصد کرلیا تھا ان کا اور وہ بھی قصر کرتے اس کا اگر نہ دیکھ لیتے اپنے رب کی روشن دلیل، یوں ہوا تاکہ ہم دور کردیں یو سف سے برائی اور بے حیائی کو، بے شک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جو چن لیے گئے ہیں۔
زلیخا نے اگرچہ چاہا کہ آپ کو گناہوں میں مبتلا کردے لیکن اللہ کے نبی قبل از نبوت و بعد از نبوت چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو واضح اور روشن دلیل دکھاکر پاک و صاف رکھا۔
آپ علیہ السلام نے دلیل کیا دیکھی تھی؟ ایک تو یہ دیکھا کہ وہ عورت دروازے بند کرکے اپنے ایک بت کو ڈھانپ رہی ہے، وہ جو اس نے اپنا معبود بنا رکھا تھا او رموتی اور یاقوت سے اسے سجا رکھا تھا۔
آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا: تم اسے کیوں ڈھانپ رہی ہو؟ اس نے کہا مجھے اپنے معبود سے شرم آتی ہے کہ وہ مجھے برائی میں مبتلا دیکھے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: تیر امعبود تو کچھ طاقت بھی نہیں رکھتا، تجھے اس سے شرم آ رہی ہے، کیا مجھے اس معبود حقیقی سے شرم نہیں آتی جو ہر انسان کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے؟ مجھ سے تو اپنی امید وابستہ نہ کر، تو ک بھی بیھ م جھ سے اپنی حاجت میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
سب سے بڑی روشن دلیل یہ تھی
’’عن ابن عباس انہ علیہ السلام مثل لہ یعقوب علیہ السلام فضرب یدہ علی صدرہ‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بے شک حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دکھائی گئی جنہوں نے آپ کے سینہ پر ہاتھ مارا۔
’’وعن قتادہ انہ قال ذکر لنا انہ مثل لہ یعقوب عاضا علی اصبعیہ وھو یقول یا یوسف انہ یعمل السفاء وانت مکتوب من الانبیاء‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضرت یوسف کو حضرت یعقوب دکھائی دیے کہ آپ اپنی ان گلیوں کو دانتوں سے کاٹ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اے یوسف! خیال رکھنا ایسا کام تو بے وقوف کرتے ہیں تمہارا نام تو انبیاء کرام میں لکھا جاچکا ہے۔ (روح المعانی)
سبحان اللہ! کیسی طاقت اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو عطا فرمائی کس طرح وہ اپنے اقرباء اور متوصلین یعنی اپنی امت کے افراد کی امداد کرتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کی برات اور یعقوب علیہ السلام کی امداد کے علم کے بعد بھی اگر کوئی شخص ضد و عناد کی وجہ سے انبیائے کرام کی امداد کا انکار کرتا پھرے تو اس کی اپنی بدقسمتی۔
خدارا اپنی عاقبت برباد نہ کیجیے!
اس مقام پر بعض تراجم کو دیکھ کر انسان گمراہ نہ ہو اور شان نبی میں گستاخی کا مرتکب نہ ہو کسی نے لکھا: ’’آپ نے قصد کیا‘‘ کسی نے لکھا: ’’ان کو بھی اس عورت کا کچھ خیال ہوچلا تھا‘‘ کسی نے لکھا ’’اور انہیں بھی اس (عورت) کا خیال ہوچلا تھا۔‘‘
ایسے تراجم سے سوائے گمراہی کے کچھ حصول نہیں، ایسے تراجم دیکھیں جن سے ایمان حاصل ہو میں نے جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ ’’ضیاء القرآن‘‘ سے پیر کرم شاہ صاحب کا ترجمہ ہے۔
اور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ یہ ہے :
’’بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا‘‘۔
یہی تراجم صحیح ہیں، میں نے اس کی تفصیل اپنی کتاب تسکین الجنان فی محاسن کنزالایمان میں بیان کی ہے جس میں تفاسیر کی عربی عبارات بھی مندرج ہیں، یہاں تفسیر کبیر سے مختصر خلاصہ اردو میں تحریر کیا جا رہا ہے۔
علامہ رازی فرماتے ہیں ایسی معصیت (یعنی زنا کا ارادہ کرنا) کو اگر اللہ کی مخلوق میں کسی بہت بڑے فاسق کی طرف منسوب کیا جائے اور اسی طرح ایسے شخص کی طرف منسوب کیا جائے جو ہر قسم کے نیک کام سے دور رہے تو وہ بھی شرم محسوس کرے تو ایک جلیل القدر رسول جن کو عظیم الشان معجزات عطا کیے گئے ہوں ان کی طرف اس قسم کے گناہ کو کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے؟
اس کے بعد اور تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جن کا اس واقعہ سے تعلق ہے وہ یہ حضرات ہیں، یوسف علیہ السلام عزیز مصر کی زوجہ، خود عزیز مصر، مصر کی عورتیں، گواہی دینے والا اور اللہ رب العالمین جل مجدہ۔ ان تمام نے آپ کے متعلق شہادت دی ہے کہ آپ گناہوں سے بری ہیں یہاں تک کہ شیطان نے بھی آپ کی برأت کی شہادت دی ہے۔ جب آپ کی برأ ت پر اتنی گواہیاں موجود ہیں تو مسلمان کو اس میں توقف کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں؟ یوسف علیہ السلام نے اپنی پاکدامنی گناہوں سے بری ہونے کا ذکر فرمایا:
قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَفْسِیْ
اس (عورت) نے خواہش کی کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں؟ اسی طرح آپ نے کہا:
رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ
اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام (برائی) سے جس کی طرف مجھے یہ بلاتی ہیں۔
یوسف علیہ السلام کے یہ ارشادات آپ کی پاک دامنی کو واضح کر رہے ہیں۔
عورت کی گواہی:
تہمت لگانے والی عورت (زلیخا) نے خود بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بری ہونے کا اعتراف کیا، مصر کی عورتوں کے سامنے اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا:
وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمْ
میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن اس نے اپنے آپ کو بچالیا۔
اسی طرح اس نے اور یہ کہا:
اَلٓانَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ
اب بات کھل گئی کہ میں نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن بے شک وہ سچے ہیں۔
عورت کی اس گواہی کے بعد واضح ہوا کہ اس نے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کو بری الذمہ قرار دیا۔
اس عورت کے خاوند یعنی عزیز مصر نے کہا:
اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ.
یہ تم عورتوں کا مکر ہے بے شک عورتوں کا مکر بہت بڑا ہوتا ہے، اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ۔
یہ یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی پر اس عورت کے خاوند کی گواہی ہے۔
گواہ کی گواہی:
حضرت یوسف علیہ السلام کے باطل عمل اور حرام کام کے ارادہ سے بری ہونے پر گواہ کی گواہی ثابت ہے، کیونکہ شیر خوار بچے کی یہ شہادت ہے:
وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّمِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۲۶، ۲۷)
اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچی ہے اور وہ غلطی پر ہیں اور اگر آپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو آپ سچے ہیں اور عورت جھوٹی ہے۔
آپ کی قمیص تو پیچھے سے پھٹی تھی لہٰذا آپ کی برأت پر گواہی ثابت ہوگئی گواہ بھی وہ جو اس عورت کے خاندان سے ہے۔ اور ابھی شیر خوار بھی ہے اسی وجہ سے اس عورت کے خاوند نے عورت کو مکار کہا۔
اللہ کی گواہی:
یوسف علیہ السلام کے بری ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ نے دی ارشاد فرمایا:
کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ
ہم اس طرح پھیرتے ہیں ان سے برائی اور بے حیائی کو، بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کے پاک ہونے کی جو شہادت اس آیت میں دی ہے وہ چار مرتبہ ہے۔
پہلی وجہ:
ان میں سے یہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے فرمایا لنصرف عنہ السوء یہاں لام تاکید اور مبالغہ کے لیے آیا ہوا ہے آپ سے برائی کا دور رہنا یقینی ہوگیا۔
دوسری وجہ:
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’والفحشاء‘‘ ذکر کیا ہے یعنی کذلک لنصرف عنہ السوء والفحشا جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے بے حیائی کو دور رکھنا اپنے ذمہ کرم پر لگالیا ہے توو اب برائی کا ارتکاب یا اس کا خیال ناممکن ہوگیا۔
تیسری وجہ:
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انہ من عبادنا کہ وہ میرے مخلص بندوں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی تعریف اس طرح فرمائی:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا (پ۱۹ سورۃ الفرقان ۶۳)
اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آرام سے چلتے ہیں جب ان سے کوئی جاہل بات کرتے ہیں تو وہ کہت ےہیں پس سلام اس سے پتہ چلا جس کو رب نے اپنا مخلص بندہ کہا ہے وہ برائیوں کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔
چوتھی وجہ:
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: المخلصین اس میں دو قراتیں ہیں اسم فاعل یا اسم مفعول اگر اسم فاعل ہو تو معنی یہ ہوگا کہ آپ طاعات و قربات پر خلوص سے عمل کرنے والے ہیں اور اگر اسم مفعول ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے خالص بنایا اور اپنے حضور پسندیدہ کیا دونوں وجہ سے آپ کا گناہوں یا گناہ کے ارادے سے پاک ہونا واضح ہے۔
ابلیس کا اقرار:
حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکبازی کا اقرار ابلیس نے بھی کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے جب اس نے مہلت مانگی اس کو قیامت تک کے لیے مہلت دے دی گئی اس نے کہا:
فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ
اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم، میں سوائے تیرے مخلص بندوں کے تمام کو گمراہ کرتا رہوں گا۔
اس کا یہ اقرار اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ کے مخلص بندوں کو راہ راست سے بھٹکانا شیطان کے لیے ممکن نہیں اور یوسف علیہ السلام کا مخلصین سے ہونا بھی یقینی طور پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مخلص بندوں سے ہونے کی شہادت دی ہے۔ رب کی شہادت پر یقین نہ آئے تو اور کس پر آئے گا؟
علامہ رازی کی فیصلہ کن بات:
’’وعند ھذا نقول ھؤلاء الجھال الذین نسبوا الی یوسف علیہ السلام ھذہ الفضیحۃ ان کانوا من اتباع دین اللہ فلیقبلوا شھادۃ اللہ تعالیٰ علی طھارتہ وان کانوا من اتباع ابلیس وجندہ فلیقبلو شھادۃ ابلیس علی طھارتہ‘‘
جو جہلاء یوسف علیہ السلام کو برائی (یا ارادۂ برائی) کی طرف منسوب کرتے ہیں اگر وہ اللہ کے دین کے متبع ہیں تو وہ اللہ کی شہادت قبول کرلیں، جو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی پاک دامنی پر دی ہے اور اگر وہ شیطان یا اس کے لشکر کے تابعدار ہیں تو وہ شیطان کی شہادت قبول کرلیں جو اس نے آپ علیہ السلام کی پاک دامنی پر دی ہے۔
یوسف علیہ السلام پر عورت کا الزام:
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَیَا سَیِّدَ ھَا لَدَا الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَھْلِکَ سُوْٓءً اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۲۵)
اور دونوں دروازے کے طرف دوڑے اور عورت نے ان کی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی اور دونوں کو عورت کا خاوند دروازے کے پاس ملا، بولی: کیا اس کی سزا جس نے تیری گھر والی سے بدی چاہی؟ مگر یہ کہ قید کیا جائے یا دکھ کی مار۔
جب عورت نے آپ کو اندر بند کرلیا تو آپ علیہ السلام نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کے لیے دروازہ کی طرف بھاگنا شروع کیا تاکہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں عورت نے پیچھے بھاگنا شروع کیا تاکہ آپ کو پکڑلے آپ کو پکڑنے میں تو کامیاب نہ ہوسکی البتہ آپ کی قمیص پیچھے سے اس نے پکڑ لی چونکہ آپ دوڑ رہے تھے دوڑتے ہوئے قمیص پکڑنے کی وجہ سے پیچھے سے پھٹ گئی۔
اسی دوران اس عورت کا خاوند دروازے پر پہنچ گیا وہ تہمت کے ڈر سے جلدی سے اپنے عیب کو یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے لگی کہ یہ تمہاری زوجہ سے برائی کا ارادہ رکھتا تھا اس لیے قید خانہ میں بھیج دو یا سخت سزا دو۔
عورت کو یوسف علیہ السلام سے چونکہ شدید محبت تھی اگرچہ اس نے خود بچنے کی لیے عیب یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا لیکن پھر بھی آپ کی رعایت رکھی قید خانہ پہلے ذکر کیا سخت سزاکا ذکر بعد میں، اس لیے کہ محب اپنے محبوب کو درد پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس لیے یہ بھی ذکر نہیں کیا کہ ان دونوں میں سے جس پر چاہو عمل کرو بلکہ اس نے مکمل طور پر آپ کو بچانے کی فکر کی، کہ قید خانہ بھیج دو، ہاں اگر کوئی چارہ کار نہ ہو سوائے سزا دینے کے تو سزا دو۔
پھر کوئی ایسے الفاظ نہیں ذکر کیے جن سے پتہ چلے کہ اس نے کہا ہو کہ ان کو عمر بھر قید رکھو یا بہت لمبا عرصہ قید میں رکھو، بلکہ صرف یہ کہا کہ قید خانہ میں بھیج دو، یعنی مطلب یہ تھا کہ ایک دو دنوں کے بعد نکال لینا۔ (تفسیر کبیر)
عورت نے ظاہر طور پر برائی کو آپ کی طرف منسوب نہیں کیا:
عورت نے یہ تو کہا ہے کہ جو شخص تمہاری زوجہ سے برائی کا ارادہ کرے یہ نہیں کہا اس ن ے میری طرف برائی کا ارادہ کیا ہے اور یہ بھی نہیں کہا اس نے میرے ساتھ دست درازی کی یا برائی کا مرتکب ہوا ہے اس لیے کہ اس نے جان لیا تھا کہ جو شخص جوانی کی عمر میں طاقت و شہوت کا غلبہ رکھنے کے باوجود پاکدامن ہے اس کیسے برا بھلا کہا جائے اس عورت کے دل میں آپ کی پاکدامنی راسخ ہوچکی تھی وہ آپ کو ظاہری طور پر برائی کا مرتکب قرار دینے میں حیا محسوس کر رہی تھی۔
علامہ رازی فرماتے ہیں اس عورت کو تو حیا محسوس ہوئی کہ آپ کو برائی کا مررتکب کیسے قرار دیا جائے لیکن ہزاروں سال بعد میں آنے والوں کو حیا نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ آپ نے برائی کا رادہ کیا یا آپ کے دل میں تھوڑا تھوڑا قصد ہوچلا تھا یوسف علیہ السلام نے ابتدائی طور پر خاموشی اختیار کی لیکن جب یہ دیکھا کہ برائی کو میری طرف منسوب کیا جا رہا ہے تو پھر آپ نے فرمایا:
ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَفْسِیْ
اس نے مجھے خود اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ (تفسیر کبیر)
یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی پر دلالت کرنے والی علامات:
۱۔ آپ ظاہر طور پر ان کے غلام تھے غلام کبھی اس قسم کی جرات نہیں کرسکتا کہ اپنے مالک کی زوجہ سے زبردستی برائی کا مرتکب ہو۔
۲۔ عزیز مصر اور اس کے گھر کے دوسرے لوگوں نے جب یہ دیکھ لیا تھا کہ یوسف علیہ السلام دروازے سے نکلنے کے لیے شدید طور پر دوڑ رہے ہیں تو انہوں نے بھی سمجھ لیا تھا کہ برائی کو چاہنے والا خود دوڑ کر کبھی نہیں نکلا کرتا۔
۳۔ ان لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ اس عورت نے اپنے آپ کو خوب آراستہ کیا ہوا ہے لیکن یوسف علیہ السلام عام لباس میں ہیں انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ کون کسے اپنی طرف مائل کر رہاتھا۔
۴۔ وہ لوگ یوسف علیہ السلام کے حالات کا ایک طویل مدت سے مشاہدہ کر رہے تھے آپ کی عادات آپ کے اطواران سے پوشیدہ نہیں تھے وہ خود ہی سمجھ رہے تھے کہ یوسف (علیہ السلام) کبھی برائی کا ارادہ نہیں کرسکتا۔
۵۔ عورت نے آپ کی طرف ظاہر طور پر برائی کو منسوب نہیں کیا بلکہ کہا اگر کوئی ایسا کرے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے واضح طور پر اس کی طرف منسوب کیا اس سے واضح ہوا کہ آپ سچے تھے کیونکہ جھوٹا شخص کسی دوسرے کی طرف اس قسم کی تہمت منسوب کرنے میں خائف رہتا ہے۔
۶۔ عزیز مصر نامرد تھا عورت کی جنسی خواہشات اس سے پوری ہونا تو درکنار حاصل ہی نہیں ہو رہی تھی ان حالت کے پیش نظر بھی واضح ہو رہا تھا کہ میلان اسی کی جانب سے تھا۔ (تفسیر کبیر جلد۱۸ ص۱۲۳)
یوسف علیہ السلام کے بری ہونے پر گواہی:
قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَّفْسِی وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّمِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۲۵، ۲۹)
آپ نے کہا اس نے مجھے اپنی طرف میلان کرنا چاہا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر ان کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچی اور انہوں نے غلط کیا اور اگر ان کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی اور یہ سچے ہیں پھر جب عزیز نے آپ کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی دیکھی تو اس نے کہا بے شک یہ تم عورتوں کا مکر ہے بے شک تمہارا مکر بڑا ہے اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو (غم نہ کرو)، اور اے عورت تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ بے شک تو خطاواروں میں سے ہے۔
گواہی دینے والا اس عورت کا رشتہ دار لڑکا تھا جو ابھی شیر خوار بچہ تھا اس کی عمر تین ماہ تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بولنے کی طاقت دی اس سے گواہی دلا کر حضرت یوسف علیہ السلام کو الزام سے بری قرار دیا اگرچہ اتنی عمر میں بچہ کا بولنا ہی آپ کی پاکدامنی کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا لیکن اللہ نے اس سے ایسا حکیمانہ جواب دلایا جو بہت بڑی قوی دلیل بھی بن گیا۔
آگے سے قمیص کے پھٹنے کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ نے اس کا ارادہ کیا اس نے مزاحمت کی گریبان پکڑ کر پیچھے کیا تو قمیص آگے سے پھٹ گئی اگر ایسی صورت ہوتی تو عورت کا سچا ہونا ثابت ہوتا لیکن پیچھے سے قمیص پھتنے سے واضح ہو رہا تھا کہ آپ کو زبردستی کمرہ میں بند کیا گیا آپ جان چھڑانے کے لیے بھاگے آپ کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی گئی تو قمیص پیچھے سے پھٹ گئی اسی جواب اور دلیل پر ہی عزیز مصر نے آپ کو کہا آپ سچے ہیں کچھ غم دل میں نہ لائیں اور اپنی زوجہ کو کہا یہ تمہارا مکر ہے تم اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ (ماخوذ از روح المعانی)
عزیز مصر کی عورت پر مصر کی عورتوں کی طعنہ زنی:
وَقَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰھَا عَنْ نَّفْسِہ قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا اِنَّا لَنَرٰھَا فِی ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۳۰)
اور شہر میں کچھ عورتیں بولیں کہ عزیز کی بیوی اپنے نوجوان کو اپنی طرف مائل کرتی ہے بے شک اس کی محبت اس کے دل میں سرایت کرگئی ہم تو اسے واضح طور پر محبت میں گم اور غلطی پر پاتی ہیں۔
یہ واقعہ پورے شہر میں مشہور ہوگیا تھا، کئی عورتیں کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی کتنی غلطی پر ہے جو اپنے گھر رکھے ہوئے نوجوان سے اتنی شدید محبت کرتی ہے کہ اسے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔
قَدْ شَغَفَھَا حُبا کا مطلب ہے کہ اس کے دل پر محبت نے اس طرح گھیرا ڈال لیا ہے جس طرح کسی چیز کا غلاف اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ محبت اس کے دل اور باقی چیزوں میں حجاب اختیار کرچکی ہے کہ سوائے اس نوجوان کے اور کسی چیز کا پتہ ہی نہیں۔ ہم تو اسے اس نوجوان سے شدید محبت کرنے میں راہ راست سے بھٹکا ہوا پاتی ہیں۔
عزیز کی زوجہ کا عذر عجیب انداز میں:
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِھِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْھِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَھُنَّ مُتَّکَاً وَّاٰتَتْ کُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْھُنَّ سِکِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْھِنَّ فَلَمَّا رَاَیْنَہٗ اَکْبَرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ قَالَتْ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْہِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ(پ۱۲ سورۂ یوسف ۳۱، ۳۲)
تو جب اس (زلیخا) نے اس کا چرچا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کو ایک چھری دی اور یوسف (علیہ السلام) سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دی کھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کی پاکی ہے یہ تو جنس بشر سے نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ ہے اس نے کہا تو یہ ہیں وہ جن پر مجھے طعنہ دیتی تھیں اور بے شک میں نے ان کو ا پنی طرف مائل کرنا چاہا تو انہوں نے اپنے آپ کو بچایا اور بے شک اگر وہ یہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں پڑیں گے اور وہ ضرور ذلت اٹھائیں گے۔
جب عزیز کی زوجہ نے مصر کی عورتوں کے مکر کو سنا اس کے کلام کو مکر سے تعبیر کرنے کی تین وجہ ہیں۔ عورتوں نے جب یہ واقعہ سنا تو وہ بھی دل میں خواہش رکھنے لگیں کہ یوسف علیہ السلام کو دیکھیں اور وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ جب وہ زلیخا کا تذکرہ کریں گے تو یقیناً وہ یوسف علیہ السلام کو ہم پر پیش کرکے بڑا عذر پیش کرے گے تو انہوں نے اس لیے اس کے خلاف کام کرکے یوسف علیہ السلام کو دیکھنے کا ایک فیصلہ کیا جسے مکر سے تعبیر کیا گیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عزیز کی زوجہ نے ان عورتوں سے اپنی محبت کا ذکر کیا تھا اور ساتھ ساتھ انہیں اس بھید کے چھپانے کے لیے کہا تھا لیکن جب عورتوں نے ظاہر کردیا تو ان کی دھوکہ بازی کو مکر کہہ دیا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کی غیبت کی، غیبت بھی حقیقت میں مکر کے مشابہ ہے۔ (تفسیرکبیر)
یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے:
عزیز کی زوجہ نے ان عورتوں کی دعوت کی جو اس کے متعلق کلام کرتی تھیں وہ بڑے بڑے سرداروں وڈیروں کی بیویاں تھیں جن کی تعداد چالیس تھی، ان میں پانچ عورتیں یہ بھی تھیں جو بہت باتیں کرتی تھیں۔
۱۔ عزیز کو پانی پلانے والے کی زوجہ،
۲۔ روٹیاں پکانےو الی عورت، جس نے اتنے عرصہ میں یوسف علیہ السلام کو نہیں دیکھا تھا۔
۳۔ وزیر جیل کی زوجہ،
۴۔ عزیز کے جانوروں کے محافظ کی زوجہ
۵۔ اور دربان کی زوجہ۔
دعوت کی مجلس میں ہر ایک کے لیے نشست مقرر تھی، تکیے لگا دیے گئے دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے چن دیے گئے پھل بھی رکھ دیے گئے پھلوں یا گوشت یا خصوصاً لیموں کاٹنے کے لیے چھریاں بھی رکھ دی گئیں ہر نشست کے سامنے ایک ایک چھری رکھی گئی تھی۔
جب عورتیں آگئیں اپنی اپنی نشست پر براجمان ہوگئیں تو عزیز کی زوجہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنے کمرہ سے باہر نکلو اور ان عورتوں کی محفل کے سامنے سے گزر جاؤ تاکہ یہ آپ کی ایک جھلک دیکھ لیں۔
یوسف علیہ السلام پہلے ہی اس عورت کی ایک سازش کا شکار ہوچکے تھے اللہ تعالیی نے آپ کو بری کردیا تھا اب یہی خوف دل میں آ رہا تھا کہ اس کا حکم نہ ماننے پر کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی ہوجائے۔ آپ کو مجبوراً نکل کر عورتوں کے سامنے سے گزرنا پڑا۔ (تفسیر کبیر، خزائن العرفان)
جب یوسف علیہ السلام ان کے سامنے سے گذرے.......
’’انھا لما دھشت فکانت تظن انھا تقطع الفاکھۃ وکانت تقطع ید نفسہا‘‘
تو وہ آپ کو دیکھ کر اتنی دہشت میں آئیں کہ پھل لے کر ان کو چھریوں سے کاٹنے لگی تھیں لیکن انھیں یہاں تک معلوم نہ ہوسکا کہ ہم پھل کاٹ رہی ہیں یا اپنے ہاتھوں پر ہی چھریاں چلا رہی ہیں انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر زخمی کرلیے۔
یا انہوں نے اپنے ہاتھ اس وجہ سے کاٹ لیے کہ آپ کو دیکھ کر اس طرح مدہوش ہوئیں کہ انہیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ چھریاں سیدھی پکڑ رہی ہیں یا الٹی، سیدھی جانب اپنے ہاتھوں کی طرف کردی اور الٹی جانب پھلوں کی طرف کرکے پھلوں کو کاٹنے کی غرض سے چھریوں کو جیسے چلایا تو ہاتھ کٹ گئے۔
یہ بھی ممکن ہے کچھ عورتوں نے چھریاں الٹی چلاکر اپنے ہاتھ کاٹ لیے ہوں اور کچھ نے پھل کاٹ کر ہاتھوں تک چھریاں چلا دی ہوں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
ہاتھ کاٹنے کی وجہ جمال یوسف پر فریفتہ ہونا:
اس میں اکثر اہل علم کا اتفاق ہے:
’’انما اکبرنہ بحسب الجمال الفائق والحسن الکامل‘‘
کہ ان عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو عمدہ ج مال اور کامل حسن کی وجہ سے عظیم سمجھا تھا یہی وجہ تھی ان کے ہاتھ کاٹنے کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو حسن و جمال میں باقی لوگوں پر اس طرح فضیلت حاصل تھی جس طرح چودھویں کے چاند کو ستاروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب معراج کی رات مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا تو میرا گزر یوسف علیہ السلام کے قریب سے ہوا تو میں نے پوچھا یہ کون ہیں جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ یوسف علیہ السلام ہیں۔
’’فقیل یا رسول اللہ کیف رایتہ قال کالقمر لیلۃ البدر‘‘
آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے انہیں کیسے پایا تو آپ نے فرمایا ایسے ہی جیسے چودھویں کا چاند۔
یوسف علیہ السلام جب مصر کی گلیوں میں چلتے تو آپ کے چہرہ کی نورانیت کی وجہ سے دیواریں اس طرح روشن ہوجاتیں جس طرح سورج کی شعاعوں سے روشنی پھیل جاتی ہے۔
آدم علیہ السلام کو جس دن قبضہ قدرت سے تخلیق کیا گیا اس دن آپ کو جو جمال عطا کیا گیا تھا اسی کے مشابہ یوسف علیہ السلام کو بھی حسن و جمال عطا کیا گیا۔
سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان عورتوں نے آپ کے نور نبوت و رسالت اور خضوع و خشوع کے آثار کو دیکھا اور نبوت کے رعب و جلال کا مشاہدہ کیا اور جب یہ دیکھا کہ یہ شخص تو فرشتہ سیرت ہے اس نے طعام کو نہیں دیکھا ہم نوجوان عورتوں کو نہیں دیکھا اسے ہماری ذرا پرواہ تک نہیں ہوئی۔
ظاہری صورت بھی عظیم اور سیرت بھی عظیم بس یہی دیکھ کر انہوں نے تعجب کیا فریفتہ ہوگئیں اپنے ہوش و حواس قائم نہ رکھ سکیں اور اتنا سمجھ لیا کہ یہ کوئی عام انسان نہیں یہ تو کوئی مقرب فرشتہ ہے ہاں یہ کیوں نہ ہوتا جب کہ نبی کا مقام فرشتوں سے بلند ترین ہوتا ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
ہمارے نبی کریمﷺ چاند سے بھی زیاہ حسین:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے چاندنی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا:
’’فجعلت انظر الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی القمر وعلیہ حلۃ حمراء فاذا ھو احسن عندی من القمر‘‘ (ترمذی، دارمی مشکوٰۃ، باب اسماءالنبیﷺ وصفاتہ ص۵۱۷)
تو میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسسلم کو دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف جب کہ آپ نے سرخ دھاریوں والا لباس زیب تن کر رکھا تھا آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔
یوسف علیہ السلام کا قید خانہ کی دعا کرنا اور اس کا قبول ہونا:
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجٰھِلِیْنَ، فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَھُنَّ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، ثُمَّ بَدَالَھُمْ مِّنْ بَعْدِ مَارَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیْنٍ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۳۳، ۳۵)
یوسف علیہ السلام نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا بے شک وہی سنتا جانتا ہے پھر تمام پہلی نشانیاں دیکھنے کے بعد ان پر یہی ظاہر ہوا کہ ضرور ایک مدت تک اسے قید خانہ میں رکھا جائے۔
جب عزیز مصر کی زوجہ نے مصر کی عورتوں کے سامنے کہا کہ اگر اس نے میری بات کو نہ مانا تو اسے قید خانہ میں جانا پڑے گا اور ذلیل ہونا پڑے گا تو دعوت پر بلائی ہوئی تمام عورتوں نے اجتماعی طور پر یوسف علیہ السلام کو سمجھانا شروع کیا کہنےلگیں تمہارے لیے یہ بہتر نہیں کہ تم اس کے حکم کی مخالفت کرو کیونکہ مخالفت کی صورت میں تمہیں قید خانہ میں جانا پڑے گا اور ذلت اٹھانا پڑے گی۔
اب یوسف علیہ السلام کو چند مشکلات کا سامنا تھا۔
٭ ایک عزیز کی زوجہ کا بہت زیادہ حسین و جمیل ہونا۔
٭ دوسرا اس کا مال و دولت کا مالک ہونا اور یہ عزم کرنا کہ یوسف (علیہ السلام) سے اپنا مطلوب حاصل کرنے میں تمام مال و دولت قربان کرنا پڑا تو قربان کردوں گی۔
٭ تیسرا تمام عورتیں اجتماعی طور پر آپ کو رغبت بھی دلا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ خوف بھی دلا رہی تھیں۔ ایسے حالات میں عورتوں کا مکر بھی بہت بڑا مکر ہوتا ہے۔
٭ چوتھا آپ کو یہ بھی ڈر تھا کہ اس کی مخالفت کرنے میں اس کے شر سے بچنا بہت مشکل ہے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو قتل ہی کرادے۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے یہی بہتر سمجھا کہ مجھے قید خانہ میں بھیج دیں تو میرے لیے بہتر ہوگا۔
انسان اپنی بشری قوت اور انسانی طاقت کے پیش نظر ایسے حالات میں اپنے آپ کو بچا سکے، یہ بہت مشکل معاملہ ہے اسی لیے آپ نے دعا کی اے اللہ تو ہی مجھے ان عورتوں کے مکر سے بچاسکتا ہے اگر تیرا فضل ن ہ ہو تو انسان ایسے گناہوں میں مبتلا ہوکر جاہل بن جاتا ہے۔
اے اللہ مجھے جس کام کی یہ عورت دے رہی ہیں اس سے بہتر میرے لیے قید خانہ ہی ہے۔ (کبیر)
خیال رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے لیے مشکل راہ کا انتخاب کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی
’’یا یوسف انت جنیت علی نفسک ولو قلت العافیۃ احب الی عوفیت‘‘
اے یوسف تم نے اپنے لیے مشکل راستہ اختیار کیا اگر تم یہ کہتے مجھے عافیت زیادہ پسند ہے (اس سے جس کی طرف مجھے یہ بلاتی ہیں) تو تمہیں ان سے عافیت دلادی جاتی۔
اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا رد کیا جو مصائب پر صبر کی دعا کر رہا تھا۔ ترمذی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصَّبَر‘‘ اے اللہ میں تجھ سے صبر کا سوال کرتا ہوں۔ یعنی مجھے مصائب و آلام پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرما تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سالت اللہ تعالیٰ البلاء فاسئالہ العافیۃ‘‘
تم نے اللہ تعالیٰ سے مصیبت کا سوال کیا ہے، تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔ (روح المعانی ج۷ ص۲۳۵)
عزیز مصر اور دوسرے تمام سرکردہ لوگ یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا یقین کرچکے تھے:
’’ھی الشواھد الدالۃ علی برائتہ علیہ السلام وطھارتہ‘‘
آپ کےعیوب سے بری ہونے اور پاک دامنی پر دلالت کرنے والے شواہد وہ لوگ دیکھ چکے تھے۔
لیکن آپ کو صرف ظاہری مصلحت کے پیش نظر انہوں نے قید خانہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ عزیز مصر کی زوجہ کے علاوہ اب دوسری عورتیں بھی آپ پر عاشق ہوچکی تھیں گھر گھر یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کا چرچا ہو رہا تھا وہ لوگ اپنی عورتوں کو روکنے میں ناکام ہوگئے البتہ آپ کو قید خانہ میں بھیجنے کا انہوں نے حل سمجھا تھا اصل میں آپ کی اپنی دعا کا اثر ہی تھا۔
’’وعن علی بن الحسین رضی اللہ تعالی ان کل واحدۃ منھن ارسلت الیہ سرا تسالہ الزیارۃ‘‘
حضرت علی بن حسین یعنی حضرت زید العابدین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بے شک ہر عورت نے ان عورتوں میں سے جو دعوت پر مدعو تھیں آپ کی طرف پوشیدگی میں یہ پیغام بھیجے تھے جو آپ سے زیادہ کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
اسی طرح عزیز کی زوجہ نے اپن ے خاوند کو کہا کہ یہ عبرانی غلام مجھے بدنام کر رہا ہے کہ میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن وہ بچ گیا وہ چونکہ باہر نکل سکتا ہے اور میں گھر میں محبوس ہوں یا مجھے بھی باہربازاروں میں جاکر اس کا جواب دینے کی اجازت دی جائے یا اسے بھی قید کرلیا جائے تو اس طرح عزیز اور دوسرے وڈیروں نے آپ کو قید میں بھجوادیا۔ (از روح المعانی ج۲ ص۲۳۵ تا۲۳۷)
دو قیدیوں کا یوسف علیہ السلام سے خواب کی تعبیر پوچھنا:
وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ قَالَ اَحَدُھُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۳۶)
ان کے ساتھ قید خانہ میں دو جوان داخل ہوئے ان میں ایک بولا: میں نے خواب دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں۔ اور دوسرا بولا: میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرندے کھاتے ہیں۔ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے بے شک ہم آپ کو نیکوکار دیکھتے ہیں۔
خواب دیکھنے والے دو نوجوان بادشاہ ریان بن ولید کے غلام تھے ایک اس کو مشروبات پلانے پر مقرر تھا اور دوسرا روٹیاں پکانے پر ان دونوں پر الزام یہ تھا کہ یہ بادشاہ کو زہر کھلانا چاہتے ہیں مشروبات پلانے والے کا نام ابروھا یا یونا تھا اور روٹیاں پکانے والے کا نام غالب یا مخلب تھا ان دونوں کو بھی اس الزام کی وجہ سے قیدخانہ میں بھیج دیا گیا تھا۔ (حاشیہ جلالین، روح البیان)
ایک نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں انگور کی ایک بہت خوبصورت بیل دیکھی جس کی تین شاخیں ہیں اور ان پر انگور کے گچھے لگے ہوئے ہیں میں انہیں نچوڑ کر بادشاہ کو پلا رہا ہوں۔
خیال رہے کہ شراب (خمر) بھی انگور کے نچوڑ سے ہی بنتا ہے اس لیے اس شخص نے انگور نچوڑنے کو شراب نچوڑ نے سے تعبیر کردیا۔
دوسرے نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ میں بادشاہ کے باورچی خانہ سے نکل رہا ہوں اور میرے سر پر تین ٹوکریاں روٹیوں کی ہیں جن کے اوپر سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (از روح المعانی ج۷ ص۲۳۹)
حضرت یوسف علیہ السلام جب قید خانہ میں آئے تھے آپ نے بتایا کہ میں خوابوں کی تعبیر بیان کرتا ہوں کئی لوگوں کو آپ پہلے بھی خوابوں کی تعبیریں بتاچکے تھے جو سچی ثابت ہوئی تھیں اس لیے ان دو شخصوں نے بھی آپ سے تعبیر پوچھی کہ آپ سچی تعبیر بتاتے ہیں آپ صاحب علم ہیں آپ بہت اچھے شخص ہیں تمام قیدی حضرت یوسف علیہ السلام کے اچھے افعال پر مطلع تھے آپ نماز، روزہ کے پابند تھے ہر قسم کے نیکی کے کام کرنا آپ کی عادت شریفہ تھی آپ کے اچھے اخلاق کسی پر مخفی نہ تھے آپ مریضوں کی عیادت کرتے غمناک لوگوں کے دلوں کی ڈھارس باندھتے۔
جب یوسف علیہ السلام قید خانہ میں گئے تو وہاں قیدیوں کو دیکھا کہ وہ اپنی امیدیں منقطع کیے ہوئے ہیں شدید مصائب اور طویل غموں میں مبتلا ہیں آپ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا خوش ہوجاؤ صبر کرو اللہ تعالیٰ صبر کا اجر ضرور عطا فرماتا قوم نے کہا اے جوان آپ کا چہرا کتنا حسین ہے؟ آپ کی صورت کتنی ہی خوبصورت ہے؟ آپ کے کتنے ہی اچھے اخلاق ہیں؟ جب سے تم نے ہمیں بتایا صبر پر اجر مصیبت گناہوں کا کفارہ ہے اور مصائب و آلام گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہیں تو ہمیں تمہارے قرب اور نصائح سے برکت حاصل ہوگئی ہے۔
انہوں نے پوچھا: اے جوان تم کون ہو؟ آپ نے بتایا میں یوسف ابن یعقوب ابن ابراہیم ہوں قید خانہ کے ناظم اعلیٰ نے کہا: اے نوجوان اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں آزاد کردیتا یہ تو میرے اختیار میں نہیں البتہ تمہارے پڑوس میں رہنے والے قیدیوں پر اچھاسلوک کروں گا۔
آپ کے ان فضائل و کمالات کو دیکھ کر ان دونوں قیدیوں نے آپ سے حقیقتاً دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر پوچھی یا صرف حضرت یوسف علیہ السلام کو آزمانے کے لیے من گھڑت خواب بیان کیے۔
ایک قول یہ ہے کہ قید خانہ میں جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا کہ میں خواب کی تعبیریں جانتا ہوں تو ان دونوں جوانوں نے ایک دوسرے کو کہا کہ اس عبرانی غلام وک آزمائش کرنی چاہیے ہم اپنی طرف سے خود ہی خواب بناکر اس پر پیش کریں انہوں نے ایسا ہی کیا اگرچہ انہوں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا خود ہی خواب وضع کرکے سوال کیا:
’’قال ابن مسعود ما کانا رایا شیئا وانما تحالما یختبرا علمہ‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہوں نے کوئی خواب نہیں دیکھے تھے بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے علم کو آزمانے کے لیے خود ہی خواب گھڑے تھے۔ (تفسیر کبیر ج۱۸ ص۱۳۴، روح المعانی ج۷ ص۲۳۸)
یوسف علیہ السلام کا تعبیر بیان کرنا:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُکُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًا وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِہ قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْہِ تَسْتَفْتِیٰنِ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۴۱)
اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا رہا دوسرا سولی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے۔ حکم ہوچکا ہے اس بات کو جس کا تم سوال کرتے تھے۔
آپ نے جب یہ تعبیر بیان کی تو وہ کہنے لگے ’’ما رأینا شیئا‘‘ ہم نے تو کوئی خواب نہ دیکھا تھا آپ نے فرمایا: حکم ہوچکا اس بات کو جو تم سوال کرتے تھے۔
’’ان الذی ذکرہ واقع لا محالۃ‘‘
بے شک جو تعبیر آپ نے بیان فرمائی اس نے یقینا واقع ہونا ہی تھا۔
کیونکہ آپ نے تعبیر بیان کرنے سے پہلے ہی فرمادیا تھا (ذالکما مما علمنی ربی) میں تمہیں تمہارا کھانا آنے سے پہلے خواب کی تعبیر بتادوں گا کیونکہ میرے رب نے مجھے علم دیا ہے یعنی آپ نے بہت واضح طور پر بتادیا کہ میں خوابوں کی تعبیر کوئی ظن یا تخمینہ سے بیان نہیں کرتا یہ تو میرے رب کا دیا ہوا علم ہے جس کی وجہ سے میں بیان کرتا ہوں۔
’’ولقد دلھما بذالک علی ان لہ علوما جمۃ ما سمعاہ قطرۃ من تبارھا وزھرۃ من ازھارھا‘‘
آپ نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کثیر علوم عطا فرمائے ہیں یہ جو تم نے سنا ہے یہ تو بارش کا ایک قطرہ ہے باغ کے پھولوں میں سے ایک کلی ہے۔(کبیر ج ۱۸ ص۱۴۳، روح المعانی ج۷ ص۲۴۱)
حضرت یوسف علیہ السلام کا بادشاہ کے پاس ذکر کرنے کے متعلق کہنا:
وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ (۱۲ سورۃ یوسف۴۲)
اور یوسف (علیہ السلام) نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا اس سے کہا اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے بھلادیا کہ اپ نے بادشاہ کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کا ذکر کرے تو یوسف علیہ السلام کئی برس اور قید خانہ میں رہے۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر لفظ ’’ظن‘‘ کا معنی ’’سمجھا‘‘ کیا ہے ’’گمان کیا‘‘ ترجمہ نہیں؛ کیونکہ اہل علم کا اس میں ایک قول یہی ہے کہ اس کے فاعل یوسف علیہ السلام ہیں۔ نبی کا علم ظنی نہیں ہوتا بلکہ یقینی ہوتا ہے۔ علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کا ایک قول یہ ہے:
’’ان تحمل ھذا الظن علی العلم والیقین وھذا اذا قلنا بانہ علیہ السلام انما ذکر ھذا التعبیر بناء علی الوحی قال ھذا القائل ورود لفظ الظن بمعنی الیقین کثیر فی القران قال اللہ تعالیٰ (اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُلٰقُوْا رَبِّھِمْ) وقال (اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلَاقٍ حِسَابِیَہ)‘‘
کہ یہاں لفظ ظن کو علم اور یقین کے معنی میں لیا جائے کیونکہ یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر وحی سے بیان فرمائی اور قرآن پاک میں بہت مقامات پر ظن بمعنی یقین استعمال ہے جس طرح ذکر کردہ آیتوں میں یظنون اور ظننت یقین کے معنی میں استعمال ہیں۔ (تفسیر کبیر ج۱۸ ص۱۴۳)
مقربین کے لیے قوانین ہی اور ہیں:
اہل علم نے یہ ضابطہ بیان کیا ہے:
’’حسنات الابرار سیئات المقربین‘‘
عام نیک لوگوں کی نیکیاں بھی بعض اوقات خاص مقرب لوگوں کے لیے ان پر عمل کرنا اچھا نہیں ہوتا بلکہ ان کے لیے اس مرتبہ سے بلند مرتبہ ہوتا ہے لہٰذا ان کے اعمال بھی بلند مرتبہ کے ہونے چاہییں۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کوئی اشکال نہیں
’’ان الاستعانۃ بالعباد فی کشف الشدائد مما لا باس بہ‘‘
کہ اللہ کے بندوں سے مشکلات میں امداد طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود رب قدوس نے بیان فرمایا:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (پ۶ سورۃ مائدہ ۳)
نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔
عام لوگوں کے لیے یہ بھی نیکی کا کام ہے کہ وہ اللہ کے بندوں سے اپنی مشکلات میں امداد طلب کریں، لیکن انبیائے کرام کا مقام ہی کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ سے بھی سوال نہیں کیا کہ جب وہ میرے حال سے باخبر ہے تو مجھے سوال کرنے کیا کیا ضرورت ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب قید سے نجات پانے والے کو کہا کہ میرا ذکر بادشاہ کے سامنے کرنا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر پیار و محبت سے آپ کو تنبیہ فرمائی اے میرے پیارے ذرا غور تو کرو تمہیں بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے کس نے بچایا تمہیں کنوئیں سے کس نے نکالا تمہیں عورت کے بہتان سے کس نے بچایا عرض کیا مولائے کائنات یہ تیرے ہی فیضان تھے رب تعالیٰ نے فرمایاپھر انسان کے سامنے ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ یوسف علیہ السلام نے عذر پیش کرتے ہوئے عرض کیا: اے میرے مولا! بس ایسے ہی زبان پر آگیا تھا۔
یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے دو غلاموں کو خواب کی تعبیر بیان کرنے سے پہلے پانچ سال قید خانہ میں گزر لیے تھے اور مزید سات سال آپ نے اور گزارے یعنی بارہ سال اللہ کے نبی نے اپنی پاک دامنی کے لیے قید خانہ میں گزار دیے۔ انبیائے کرام سے بہت مشکل امتحان لیے گئے۔ (ماخوذ از روح المعانی ج۲ ص۲۴۸)
بادشاہ کو خواب آنا:
وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْکُلُھُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُئْیَایَ اِنْ کُنْتُمْ لِلرُّءْ یَا تَعْبُرُوْنَ قَالُوْآ اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۴۳، ۴۴)
اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھیں سات موٹی گائیں کہ انہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات بالیاں (سٹے) ہری اور دوسری سات سوکھی۔ اے درباریو! میرے خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو، بولے: پریشان خوابیں ہیں اور ہم خواب کی تعبیر نہیں جانتے۔
رب تعالیٰ کا قانون قدرت یہ ہے کہ جب کسی چیز کا اردہ فرماتا ہے تو اس کے لیے اسباب پیدا فرماتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو بھی جب قید سے نکلانے کا ارادہ فرمایا تو اس کا سبب یہ پیدا فرمایا کہ مصرکے بادشاہ ’’ریان‘‘ نے خواب دیکھا کہ:
’’سات موٹی تازی گائے ایک خشک نہر سے نکلیں اور ساتت ہی لاغر گائے، لاغر گائے موٹی گائے کو کھاگئیں۔ اور اس نے دیکھا کہ سات بالیاں جو دانوں سے بھرپور اور سبز ہیں اور سات دوسری خشک کو دیکھا جو سبز پر لپٹ کر ان پر غالب آگئیں۔‘‘
بادشاہ نے اپنے درباری کاہنوں، نجوممیوں کو جمع کرکے ان سے خواب کی تعبیر پوچھی، انہوں نے کہا: اگر خواب میں کوئی ترتیب ہوتی جو واقعات کی نشاندہی کرتی تو ہم تعبیر بتاتے۔یہ خواب تو بلاترتیب ہیں، ان میں اختلاط و اضطراب پایا گیا ہے، اس لیے یہ پراگندہ خیالات ہیں۔ ان کی تعبیر کچھ بھی بیان نہیں ہوسکتی۔ لیکن بادشاہ بہت زیادہ پریشان تھا کہ کمزور کا طاقتور پر غالب آجانا اور خشک کا سبز پر غالب آجانا، یقیناً کسی خطرہ کی علامت ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
بادشاہ کی پریشانی کو دیکھ کر اس سابق قیدی شخص کو یاد آیا جسے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’’تو نجات پائے گا‘‘۔ اس نے کہا: مجھے قید خانہ میں بھیجو! وہاں ایک عالم شخص ہے وہ اس خواب کی تعبیر بیان کرے گا تو میں واپس آکر تمہیں بتادوں گا۔ وہ شخص آپ علیہ السلام کے پاس قید خانہ میں آکر بادشاہ کے خواب کی تعبیر پوچھنے لگا۔
ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ایک اور شخص تھا جس نے یوسف علیہ السلام کا چرچا سن رکھا تھا، بادشاہ کے خواب بیان کرنے اور پریشانی کو دیکھ کر کچھ وقت کے بعد اسے یاد آیا کہ میں قید خانہ میں اس شخص کے پاس جاکر پوچھوں جس کے متعلق مشہور ہے کہ ’’وہ خوابوں کی تعبیر صحیح بیان کرتا ہے۔‘‘
سبحان اللہ! مقام نبی کتنا بلند ہے؟ جب سائل نے تعبیر پوچھی تو اسے یہ نہ کہا: کہ ’’سات سال بعد میری کیسے یاد آگئی؟‘‘ اور یہ بھی نہ کہا کہ ’’پہلے بادشاہ کو کہو کہ مجھے بے گناہ قید میں ڈالا ہوا ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ مجھے پہلے قید خانہ سے نکالو تو تعبیر بتاؤں گا‘‘۔
نہیں، نہیں! صابر و شاکر نبی نے کوئی شرط نہ لگائی اور نہ ہی اس شخص کو طعنہ دیا۔
بادشاہ کے خواب کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام بیان کرتے ہیں:
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًا فَمَا حَصَدْ تُّمْ فَذَرُوْہُ فِیْ سُنْبُلِہٓ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْکُلُوْنَ ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَھُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیْہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْہِ یَعْصِرُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۴۷، ۴۹)
آپ نے فرمایا کہ تم کاشت کرو گے سات سال تک لگاتار تو جو تم کاٹو گے اسے رہنے دو خوشوں(بالیوں) میں، مگر تھوڑا سا (ضرورت کے لیے نکال لو) جسے تم کھالو۔ پھر آئیں گے اس (خوشحالی) کے بعد سات سال بہت سخت، کھاجائیں گے جو ذخیرہ تم نے پہلے جمع کر رکھا ہوگا ان کے لیے تھوڑا سا جو تم محفوظ کرلو گے۔ پھر آئے گا اس عرصہ کے بعد ایک سال جس میں بارش برسائی جائے گی لوگوں کے لیے اور اس سال وہ (پھلوں کا) رس نکالیں گے۔
یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بھی بیان کی کہ سات سال غلہ تمہیں عام دستور کے مطابق حاصل ہوگا پھر سات سال قحط ہوگا بارشیں نہیں ہوں گی یہ قحط والے سال پہلے سالوں کے جمع شدہ غلہ کو ختم کردیں گے اس کے بعد پھر ایک سال خوشحالی کا دور دورہ ہوگا بارشیں کثیر ہوں گی جن کی وجہ سے انگور زیتون گنے اور تل وغیرہ کی کثیر پیداوار ہوگی جن سے تم رس نکالو گے اور بعض سے تیل نکالو گے۔
یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بیان کی اور ساتھ ساتھ اس کے لیے احتیاطی تدابیر بھی بیان کیں کہ پہلے سات سالوں کے پیدا ہونے والے غلہ کو بے دریغ استعمال نہ کرنا صرف اتنا غلہ صاف کرنا یعنی بھوسا اور دانوں کو اتنی مقدار میں علیحدہ کرنا جس سے تمہاری ضروریات پوری ہوسکیں، باقی غلہ بالیوں(خوشوں) میں ہی رہنے دینا، اس سے خرچ میں احتیاط ہوگی اور دانے کیڑے مکوڑوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔
بادشاہ کا یوسف علیہ السلام کو بلانا اور آپ کا انکار:
وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَمَّا جَآءَ ہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْئَلْہُ مَابَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ، قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْٓئٍ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَاَنَّ اللہ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَآئِنِیْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۵۰، ۵۲)
اور بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لے آؤتو جب قاصد ان کے پاس آیا آپ نے کہا اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا پھر اس سے پوچھ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بے شک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے۔ بادشاہ نے کہا: اے عورتو! تمہارا کیا معاملہ ہوا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہیں پائی۔ عزیز کی بیوی بولی: اب اصلی بات کھل گئی۔ میں نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بے شک وہ سچے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کہ اللہ دغابازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا صبر دیکھیے! کہ بارہ سال قید میں رہنے کے باوجود جب قیدخانہ سے نکلنے کا پیغام ملتا ہے تو آپ خوشی سے جلدی نکلنے کے بجائے انکار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ پہلے معاملہ کی چھان بین کرلیں پھر میں قید خانہ سے باہر آؤں گا۔ اگر آپ جلدی سے باہر آجاتے تو عین ممکن تھا کہ بادشاہ کےد ل میں اس تہمت کے حق ہونے کا وسوسہ باقی رہتا۔ واقعہ کی تحقیق کے بعد بادشاہ کو یقین ہوگیا عورتوں نے آپ کی پاک دامنی کا واضح اعلان فرمادیا۔ عزیز کی زوجہ جس نے ابھی تک اقبال جرم نہیں کیا اب وہ بھی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو پاک دامن اور سچا کہنے لگی۔ اس طرح بادشاہ پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ آپ سچے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ولو لبثت فی السجن طول ما لبث یوسف لا جبت الداعی‘‘ (مسلم ج۱ کتاب الایمان باب زیادۃ طمانینۃ القلب)
اگر میں یوسف علیہ السلام کی طرح زیادہ دیر قید خانہ میں رہتا تو دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرلیتا۔
یاد رہے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّد الانبیاء ہونے کی باوجود عاجزانہ کلام فرماتے ہوئے یوسف علیہ السلام کے صبر کی تعریف کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تعریف فرمائی لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوسکتا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر ہوتے تو معاذاللہ صبر نہ کرتے بلکہ فوراً باہر آجاتے۔ یہ ایک بامحاورہ کلام ہے۔ عاجزانہ کلام میں حقیقت کا بیان نہیں ہوتا۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں تحریر فرمایا:
’’وقال ابن الملک اعلم ان ھذا لیس اخبار اعن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم بتصجر صبرہ بل فیہ دلالۃ علی مدح یوسف علیہ السلام وترکہ الاستعجال بالخروج لیزول عن قلب الملک ما اتھم بہ من الفاحشۃ ولا ینظر الیہ بعین مشکوک‘‘
ابن ملک نے کہا جان لو بے شک اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پریشانی اور صبر کی کمی کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مدح کی گئی ہے کہ آپ نے جلدی نکلنا پسند نہ فرمایا تاکہ بادشاہ کے دل سے یہ بات نکل جائے جو آپ پر برائی کی تہمت لگائی گئی تھی یعنی بادشاہ کو پتہ چل جائے کہ آپ پر غلط تہمت لگائی گئی تھی اور وہ آپ کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے۔
فائدہ:
’’وقال الملک ائتونی بہ ھذا یدل علی فضیلۃ العلم فانہ سبحانہ جعل علمہ سببا لخلاصہ من المحنۃ الدنیویۃ فکیف لا یکون العلم سیبا للخلاص من المحن الاخرویۃ‘‘ (تفسیر کبیر ج۱۸ ص۱۵۱)
بادشاہ نے کہا ان کو میرے پاس لے آؤ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے جب معلوم ہوا کہ آپ بڑے صاحب علم ہیں تو اس نے کہا ایسا صاحب علم قید میں رہے یہ کیسے ہوسکتا ہے اس سے علم کی فضیلت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے علم کو دنیا میں مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کہ دینی علوم آخرت کی مشکلات سے چھٹکارا دلانے کا ذریعہ نہ بن سکیں؟۔
قید خانہ سے نکل کر وزیر خزانہ اور وزیراعظم:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآءُ نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَلَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۵۴، ۵۷)
اور بادشاہ نے کہا انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں خاص اپنے لیے چن لوں پھر جب ان سے بات کی کہا بے شک آج آپ ہمارے ہاں معزز معتمد ہیں یوسف علیہ السلام نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے، بے شک میں حفاظت والا علم والا ہوں۔ اور یونہی ہم نے یوسف علیہ السلام کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کی نیکیاں ضائع نہیں کرتے اور بے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔
بادشاہ نے معززین کی ایک جماعت بہترین سواریاں اور شاہانہ ساز و سامان اور نفیس لباس دے کر قید خانہ بھیجی تاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ ایوان شاہی میں لائیں ان لوگوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر بادشاہ کا پیغام عرض کیا آپ نے قبول فرمایا اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں کے لیے دعا فرمائی۔ جب قید خانہ سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازے پر لکھا:
’’ھذہ منازل البلوی وقبور الأحیاء وشماتۃ الاعداء وتجربۃ الاصدقاء‘‘
یہ مصیبتوں کا گھر ہے زندہ لوگوں کے لیے قبر ہے اور دشمنوں کی بد گوئی بلکہ ان کے لیے خوش ہونے کا مقام ہے اور سچوں کے امتحان کی جگہ ہے۔
پھر غسل کیا، اعلیٰ لباس پہنا اور شاہی محلات کی طرف روانہ ہوئے۔ جب قلعہ کے پاس پہنچے تو فرمایا:
’’میرا رب ہی کافی ہے اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثناء برتر اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘
پھر قلعہ میں داخل ہوئے، بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی:
’’اے میرے رب تیرے فضل سے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور اس کی اور دوسروں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
جب بادشاہ سے نظر ملی تو آپ نے عربی میں سلام فرمایا: بادشاہ نے پوچھا یہ کون سی زبان ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ میرے چچا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان ہے۔ پھر آپ نے عبرانی زبان میں دعا کی اس نے پھر پوچھا: یہ کون سی زبان ہے؟ آپ نے فرمایا یہ میرے ابا جان حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان ہے۔ بادشاہ دونوں زبانیں نہیں سمجھ سکاباوجودیکہ وہ ستر زبانیں جانتا تھا۔ پھر اس نے جس زبان میں حضرت سے گفتگو کی آپ نے اسی زبان میں اسے جواب دیا۔ اس وقت آپ کی عمر تیس سال تھی اس عمر میں یہ وسعت علوم دیکھ کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور اس نے آپ کو اپنے برابر جگہ دی۔
بادشاہ نے درخواست کی کہ حضرت اس کے خواب کی تعبیر اپنی زبان مبارک سے سنادیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس کے خواب کی پوری تفصیل بھی سنادی جس شان سے اس نے خواب دیکھا تھا حالانکہ پہلے اجمالی طور پر وہ خواب بیان کیا گیا تھا۔ اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا کہنے لگا آپ نے میرا خواب ہوبہو بیان فرمادیا، خواب تو عجیب تھا ہی مگر آپ کا اس طرح بیان فرمادینا زیادہ عجیب ہے۔ اب آپ تعبیر بھی بیان فرمادیں۔
آپ نے تعبیر بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ اب لازم یہ ہے کہ غلے جمع کیے جائیں اور ان فراخی کے سالوں میں کثرت سے کاشت کرائی جائے اور غلے ان کے خوشوں میں جمع کرلیے جائیں اور رعایا کی پیداوار سے خمس (پانچواں حصہ) لیا جائے اس سے جو جمع ہوگا وہ مصر اور مصر کی اطراف کے لوگوں کے لیے کافی ہوگا۔ اور پھر اللہ کی مخلوق ہر طرف سے تیرے پاس غلہ خریدنے آئے گی اور تیرے ہاں اتنے خزائن و اموال جمع ہوں گے جو تجھ سے پہلوں کے لیے جمع نہ ہوئے۔ بادشاہ نے کہا اس کا انتظام کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا: زمین کے خزانے میرے حوالے کردے میں ان کی حفاظت بھی کروں گا اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم سے ان کا بہتر انتظام کروں گا۔
بادشاہ نے سمجھ لیا تھا کہ آپ سے زیادہ اس منصب کے لائق اور کوئی نہیں ہوسکتا اس لیے اس نے آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کو تمام خزائن کا وزیر مقرر کردیا۔
مسائل:
احادیث میں ’’طلب امارۃ‘‘ کی ممانعت آئی ہے لیکن اس کا مطلب ہے کہ جب ملک میں اس منصب کے اہل کئی لوگ موجود ہوں اور احکام الٰہی کو قائم کرنا کسی ایک شخص کے ساتھ قائم نہ ہو اس وقت حکومت طلب کرنا مکروہ ہے، لیکن جب ایک ہی شخص اہل ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام قائم کرنے کے لیے حکومت طلب کرنا جائز ہے بلکہ واجب ہے، حضرت یوسف علیہ السلام اسی حال میں تھے آپ رسول تھے قوم کی مصلحتوں کو جانتے تھے۔ آپ کو معلوم تھا کہ شدید قحط ہونے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو آرام اور آسائش پہنچانے کا یہی طریقہ ہے کہ حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے، اس لیے آپ نے حکومت طلب کی۔
مسئلہ: ظالم بادشاہ کی طرف سے اگر اس لیے عہدے طلب کیے جائیں تاکہ انصاف کیا جائے گا تو یہ جائز ہے اگر قومی خزانہ لوٹنے کے لیے عہدہ قبول کیا یا کسی پر ظلم کرنے کے لیے یا انتقامی کارروائی کرنے کے لیے تو یہ حرام ہے اس کو رحمان کا فضل نہ سمجھا جائے بلکہ شیطان کا جال سمجھا جائے۔ (ریان بن ولید اس وقت کافر تھا)
مسئلہ: اگر کافر یا فاسق بادشاہ کے حکومت میں شریک کرنے کے بغیر دین کے احکام کو جاری نہ کیا جاسکےتو کافر و فاسق کی حکومت میں شریک ہونا جائز ہےا ور اس سے صرف دینی احکام کی ترویج کے لیے امداد لینا جائز ہے ظالموں کے ساتھ شریک ہوکر ظالم بن جانا دین اسلام سے بغاوت ہے۔
مسئلہ: اپنی خوبیاں فخر اور تکبر کی وجہ سے بیان کرنا جائز نہیں البتہ دوسروں کو نفع پہنچانے اور مخلوق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے اگر ضرورت درپیش آئے تو اپنی خوبیاں اور اپنے علمی کمالات بیان کرنا جائز ہے اسی وجہ سے یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں صاحب علم اور حفاظت کرنے والا ہوں۔ (ماخوذ از کبیر وخزائن العرفان)
یوسف علیہ السلام کی تاجپوشی:
ایک سال کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بلاکر آپ کی تاج پوشی کی اور تلوار اور سر آپ کے سامنے پیش کی اور آپ کو طلائی تخت پر تخت نشین کیا جو جواہرات سے مرصع تھا اور اپنا ملک آپ کےسپرد کردیا، لیکن تاج آپ نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ یہ میرا اور میرے آباء کا لباس نہیں، البتہ انگوٹھی جو بطور مہر استعمال ہوتی تھی اسے اور تخت کو آپ نے قبول کرلیا کہ تخت کے ذریعے تمہاری سلطنت کو مضبوط کروں گا اور مہر کے ذریعے تمہارے امور کی تدبیریں سر انجام دوں گا۔
قطنیر (عزیز مصر) کو معزول کرکے آپ کو اس کی جگہ والی بنایا اور تمام خزائن آپ کے سپرد کردیے اور سلطنت کے تمام امور آپ کے ہاتھ میں دے دیے اور خود ایک تابع کی حیثیت میں ہوگیا۔ آپ کی رائے میں دخل نہیں دیتا تھا اور آپ کے حکم کو مانتا تھا اس طرح آپ وزیر اعظم بن گئے تمام اختیارات کے مالک بن گئے۔ (ماخوذ از کبیر و خزائن العرفان)
آپ کی حکومت کے اثرات:
آپ نے عدل و انصاف کی بنیادوں پر اپنی حکومت کو قائم کیا، اسی لیے آپ کی حکومت دن بدن مضبوط تر ہوتی چلی گئی تمام مردوں اور عورتوں کے دلوں میں آپ کی محبت پیدا ہوئی اور آپ نے قحط سالی کے آنے والے دنوں کے لیے غلوں کے ذخیرے جمع کرنے کی تعبیر فرمائی اس کے لیے بہت وسیع اور عالیشان انبار خانے (سٹور) تعمیر کرائے اور بہت کثیر ذخائر جمع کیے۔
جب فراخی کے سال گذر گئے اور قحط کا زمانہ آیا تو آپ نے بادشاہ اور اس کے خدام کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا مقرر فرمایا ایک روز دوپہر کے وقت بادشاہ نے حضرت سے بھوک کی شکایت کی آپ نے فرمایا یہ قحط سالی کی ابتداء کا وقت ہے کیونکہ پہلے سال میں لوگوں کے پاس ذخیرے تھے سب ختم ہوگئے بازار خالی ہوگئے، چو نکہ قحط کے سارے زمانہ میں آپ نے خود بھی کبھی سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا تھا۔ واقف حال لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اتنے کثیر خزانوں کے مالک ہوکر بھی آپ بھوکے رہتے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا اس اندیشہ سے کہ سیر ہوجاؤں تو کہیں بھوک کو نہ بھول جاؤں۔ سبحان اللہ کیا پاکیزہ اخلاق ہیں آپ کے ! ان پاکیزہ اخلاق کی وجہ سے ہی بادشاہ بھی ایک وقت کے کھانےپر کفایت کر رہا تھا۔ اس نے بھی آپ کے جواب پر کوئی مزاحمت نہیں کی۔
تمام اہل مصر حضرت یوسف علیہ السلام سے غلہ خریدنے لگے تمام دراہم و دنانیر یعنی ان کا نقدی مال و دولت حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس جمع ہوگیا۔ دوسرے سال انہوں نے اپنے زیورات اور جواہر سے غلہ خریدا۔ اس طرح ان لوگوں کے تمام زیورات و جواہر آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ تیسرے سال اپنے جانور دے کر غلہ خریدا یہاں تک کہ مصر میں کوئی شخص کسی جانور کا ملک نہ رہا۔ تمام جانور بھی آپ کی ملکیت میں آگئے۔ چوتھے سال اپ نے غلام اور لونڈیاں دے کر غلہ حاصل ہوا۔ پانچویں سال تمام جاگیریں اور اراضی دے کر آپ سے غلہ خریدا۔ اس سال مصر کے لوگوں کے پاس سوائے اپنی جان اور اولاد کے کچھ بھی باقی نہ رہا تھا تمام ملکیت حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آچکی تھی۔ چھٹے سال جب ان کے پاس اور کچھ نہ بچا تو انہوں نے اپنی اولاد آپ کے پاس غلام کے طور پر دے کر غلہ حاصل کیا۔ اور ساتویں سال وہ لوگ خود غلہ حاصل کرنے کے لیے آپ کی غلامیت میں آگئے۔ مصر میں مردوں اور عورتتوں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو آپ کی غلامیت میں نہ آیا ہو تمام لوگوں کی زبان پر تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جیسی عظمت و جلالت کسی بادشاہ کو میسر نہیں آسکی۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کو کہا کہ تم نے دیکھ لیا ہے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر کیسا کرم ہے؟ اس نے مجھ پر ایسا احسان عظیم فرمایا: اب ان کے حق میں تیری کیا رائے ہے؟ بادشاہ نے کہا جو آپ کی رائے ہے ہم تو آپ کے تابع ہیں۔ آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر اور تمہیں گواہ بناکر یہ اعلان کرتاہوں کہ میں تمام اہل مصر کو آزاد کرر ررہا ہوں اور ان کی تمام ملکیت اور جاگیریں انہیں واپس کر رہا ہوں۔
تمام لوگوں کو آپ کے غلام اورکنیزیں بنانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلام کی شان میں آئے تھے اور مصر کے ایک شخص کے خریدے ہوئے تھے۔ کیونکہ اب تو مصر کے تمام مصری آپ کے خریدے ہوئے اور آزاد کیے ہوئے تھے ان پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ آزاد شخص کسی مجبوری سے غلامیت میں آنے سے درحقیقت غلام نہیں بنتا جیسے وہ لوگ حقیقت میں غلام نہیں بنے تھے صرف ان پر غلام ہونے کی ایک حیثیت قائم کی گئی تھی کہ آپ کی شان میں کوئی حرف نہ کہہ سکیں۔ (ماخوذ از کبیر و خزائن العرفان)
عزیز مصر کی زوجہ کی مراد کا پورا ہونا:
بادشاہ نے پہلے وزیر اعظم یعنی عزیز مصر (جس کا نام قطفیر تھا) کو معزول کر دیا تھا، بعد میں وہ جلد ی فوت ہوگیا تھا اس کی زوجہ جس نے آپ علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہی اور آپ پاکدامن رہے، پہلے بچہ کی گواہی سے آپ بری الذمہ ہوچکے تھے، لیکن اب قید خانہ سے نکلنے پر اس نے بھی کھلے دل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تھا آپ کو سچا کہنے لگی تھی۔ عزیز مصر کی موت کی بعد۔
’’زوجۃ الملک امراتہ فلما دخل علیھا قال الیس ھذا خیرا مما طلبت فوجدھا عذرا فولدت لہ ولدین افرائیم ومیشا‘‘ (کبیر جلد۱۸ ص۱۶۲)
بادشاہ نے اس عورت کا نکاح حضرت یوسف علیہ السلام سے کردیا آپ نے ملاقات پر اسے یہ کہا کیا یہ بہتر نہیں اس سے جو تو مطالبہ کر رہی تھی؟
یاد رہے عزیز مصر چونکہ نامرد تھا اس لیے وہ ابھی تک باکرہ تھی۔ محبت اسے صرف یوسف علیہ السلام سے تھی وہ کوئی بدکار نہیں تھی۔ اس عورت سے حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بیٹے پیدا ہوئےایک کا نام ’’افرایم‘‘ اور دوسرے کا نام ’’میشا‘‘ تھا۔
تنبیہ:
’’ھی زلیخا ولم یشرح استھجانا لہ وسترا وتعلیما للادب کان اللہ یقول من الآداب لا یذکر احد زوجتہ باسمھا بل یکنی عنھا ولم یذکر فی القران اسم امراۃ الا مریم علیہا السلام‘‘ (صاوی علی الجلالین: ۱۹۱)
عزیز کی زوجہ کا نام ’’زلیخا‘‘ تھا۔ نام کو صراحتا نہیں ذکر کیا گیا کیونکہ عورت کا نام عام طور پر بلا مقصد نام لینا بہتر نہیں۔ پردہ زیادہ مناسب ہوتا ہے اور اس میں ادب کی تعلیم بھی دی گئی ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ادب کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زوجہ کو نام لے کر نہ پکارے بلکہ ایسے الفاظ سے پکارے جن میں واضح طور پر نام کا ذکر نہ کرو۔ قرآن پاک میں کسی عورت کا نام ذکر نہیں کیا گیا سوائے حضرت مریم کے ان کا نام بھی صرف اس وجہ سے ذکر ہوا کہ لوگ انہیں (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کی زوجہ کہتے تھے تو ان کا نام رب تعالیٰ نے ذکر کرکے ان کا رد کیا کہ اگر میری زوجہ ہوتی تو میں اس کا نام ذکر نہ کرتا۔
پہلے ہم نے اپنے علاقہ میں یہ دیکھا کہ کوئی شخص بھی اپنی زوجہ کا نام نہیں لیا کرتا تھا بچے کا نام لے کر اس کی والدہ یا بھائی کا نام لے کر اس کی بہن کہتا وغیرہ۔ لیکن آج کل زوجہ کا نام لینا بھی فیشن کا حصہ بن گیا عورت کا کتنا ادب کتنا احترام شریعت نے بتایا؟ میں نے عورتوں کے حقوق پر تفصیلی بحث اپنی کتاب ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ میں بیان کیے ہیں۔ ماڈرن عورت کسی اور مذہب میں ان حقوق کا تصور بھی نہیں کرسکتی جو شریعت مطہرہ نے دیے ہیں۔
غلہ لینے کے لیے آپ کے بھائیوں کا جانا:
وَجَآءَ اِخْوَةُ یُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَیْہِ فَعَرَفَھُمْ وَھُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ وَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ قَالَ ائْتُوْنِیْ بِاَخٍ لَّکُمْ مِّنْ اَبِیْکُمْ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْٓ اُوْفِی الْکَیْلَ وَاَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِیْ بِہ فَلَا کَیْلَ لَکُمْ عِنْدِیْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ قَالُوْا سَنُرَاوِدُعَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۵۸، ۶۱)
اور ایک روز آنکلے برادران یوسف (علیہ السلام) اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے سو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے سو جب مہیا کردیا ان کے لیے ان کی (رسد و خوراک) کا سامان تو فرمایا (دوبارہ آؤ) تو لے آنا میرے پاس ا پنے پدری بھائی کو کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں کس طرح پیمانہ پورا بھر کردیتا ہوں اور میں کتنا بہتر مہمان نواز ہوں اور اگر تم اسے نہ لے آئے میرے پاس تو (سن لو) کوئی پیمانہ تمہارے لیے میرے پاس نہیں ہوگا اور نہ تم میرے قریب آسکو گے وہ بولے ہم ضرور مطالبہ کریں گے اس کے بھیجنے کے متعلق اس کے باپ سے اور ہم ضرور ایسا کریں گے۔
’’کنعان‘‘ کا علاقہ بھی اس قحط کی زد میں تھا اور لوگوں کی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزندوں نے بھی باربرداری کے مویشی لیے اور مصر کا رخ کیا کیونکہ غلہ کی تقسیم کا سب کام حضرت یوسف علیہ السلام کی نگرانی میں ہو رہا تھا اس لیے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مجبوریوں کا اظہار کرکے غلہ کے لیے درخواست کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی ملاقات اگرچہ عرصہ دراز بعد ہوئی تھی لیکن آپ نے دیکھتے ہی اپنے بھائیوں کو پہچان لیا مگر وہ آپ کو نہ پہچان سکے اور بے چارے پہچانتے بھی تو آخر کیونکر؟ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ شاہانہ لباس میں ملبوس زرنگار کرسی پر بیٹھا ہوا جس کے حکم کی تعمیل کے لیے سینکڑوں ہزاروں ملازم دست بستہ کھڑے ہیں یہ وہ ’’یوسف‘‘ ہے جس کو عرصہ ہوا انہوں نے ایک تاریک کنوئیں میں پھینکا تھا۔ اور پھر صرف بیس کھوٹے درہموں کے بدلے میں قافلہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے جذبات کو بے قابو نہ ہونے دیا، ایک اجنبی کی حیثیت سے ان کے گھر کے حالات دریافت کیے اور انہیں کی زبانی یہ بھی پتہ چل گیا کہ ان کا ایک اور بھائی ہے جسے وہ گھر چھوڑ آئے ہیں، (اگرچہ آپ خود بھی اپ ن ے بھائی کو جانتے تھے)۔ (ضیاء ا لقرآن)
آپ نے خود تو ا پنے آپ کو ابھی ظاہر نہیں کرنا تھا، جب اللہ تعالیٰ نے حکم دینا تھا اسی وقت ظاہر کرنا تھا اس لیے ابھی اجنبی کی صورت میں تمام کلام ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنےو الد اور بھائی کا حصہ بھی طلب کیا تھا کیو نکہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک شخص کو ایک اونٹ کا بوجھ غلہ ہی دیتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے والد اور بھائی کے نہ آنے کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے باپ بوڑھے ہیں وہ تو آنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے البتہ ہمارا چھوٹا بھائی باپ کی خدمت گذاری کے لیے ہی گھر رہ گیا ہے۔
آپ نے فرمایا: اس مرتبہ تو میں ان کا غلہ بھی تمہیں دے رہا ہوں لیکن آئندہ تم اپنے بھائی کو بھی ساتھ لانا، کیا تم دیکھتے نہیں ہو میں کتنا شفیق اور مہربان عادل ہوں؟ کہ پیمانے بھر بھر کر دیتا ہوں اور کتنا بڑا مہمان نواز ہوں، لیکن یہ بھی خیال رکھنا کہ اگر آئندہ تم اپنے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو تمہیں بھی غلہ نہیں ملے گا۔ (تفسیر کبیر ج ۱۸ ص۱۶۶، ۱۶۸)
یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی رقم واپس کردی:
وَقَالَ لِفِتْیٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَھُمْ فِیْ رِحَالِھِمْ لَعَلَّہُمْ یَعْرِفُوْنَھَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓی اَھْلِھِمْ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف۶۲)
اور آپ نے فرمایا اپنے غلاموں کو کہ چپکے سے رکھ دو ان کی پونجی ان کی خورجیوں میں شائد کہ وہ اسے پہچانیں جب اپنے گھر کی طرف لوٹ کر جائیں شاید وہ واپس آجائیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی پونجی لوٹادی تھی اس کی ایک وجہ یہ تھی۔
لعلھم یعرفونھا ای یعرفون حق ردھا
کہ جب سامان کھولیں گے تو پونجی اس میں دیکھ کر واپس آئیں گے، کیونکہ وہ نبی کے بیٹے ہیں ایمان والے ہیں اور وہ واپس لوٹانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پھر آئیں گے۔
’’قال الفرا انھم متی شاھدوا بضاعتھم فی رحالھم وقع فی قلوبھم انھم وضعوا تلک البضاعۃ فی رحالھم علی سبیل السھو وھم اولاد الانبیاء فرجعوا لیعرفوا السبب فیہ او رجعوا لیردوا المال الی مالکہ‘‘ (کبیر ج۱۸ ص۱۶۹)
فراء نے کہا کہ پونجی واپس کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی پونجی کو اپنے سامان میں مشاہدہ کریں گے تو ان کے دل میں یہ آئے گا کہ شاید انہوں نے بھول کر نہ رکھ دیا ہو وہ حقیقت حال کا پتہ لگانے کے لیے واپس آئیں گے یا وہ مال واپس لوٹانے کے لیے آئیں گے کیونکہ وہ انبیاء کی اولاد ہیں۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ کو گھر کے حالات کا پتہ چل گیا تھا تو آپ کی شان کے لائق نہیں تھا کہ آپ اپنے بھائیوں اور والد مکرم سے رقم لے کر غلہ دیں۔
’’لانہ وجب علیہ السلام صلنھم وجبرھم فی تلک الشدۃ اذ ھو ملک عادل وھم اھل ایمان ونبوۃ‘‘
اس لیے کہ آپ عادل بادشاہ تھے اور آپ کے بھائی ایمان والے تھے اور خاندان نبوت تھے۔آپ پر واجب ہوچکا تھا کہ آپ اپنے اقرباء سے صلہ رحم کریں اور مشکل حالات میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ (ماخوذ از روح المعانی ج۷ حصہ دوم ص۹۰)
چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جانے کی باپ کے حضور درخواست:
وَ لَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَھُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَھُمْ رُدَّتْ اِلَیْھِمْ قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِیْ ھٰذِہِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَیْنَا وَنَمِیْرُ اَھْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیْرٍ ذٰلِکَ کَیْلٌ یَّسِیْرٌ قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَکُمْ حَتّٰی تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللہ لَتَاْتُنَّنِیْ بِہٓ اِلَّآ اَنْ یُّحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَھُمْ قَالَ اللہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۶۵، ۶۶)
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا اپنی پونجی پائی کہ ان کو لوٹا دی گئی ہے بولے اے ہمارے باپ اب ہم اور کیا چاہیں یہ ہے ہماری پونجی کہ ہمیں واپس کردی گئی اور ہم اپنے گھر کے لیے غلہ لائیں اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ پائیں یہ دینا بادشاہ کے سامنے کچھ نہیں۔ کہا: میں ہرگز اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک تم مجھے اللہ کا یہ عہد نہ دے دو کہ ضرور اسے لے کر آؤ گے مگر یہ کہ تم گھیرے میں آجاؤ پھر جب انہوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو عہد دیا اللہ کا ذمہ ہے ان باتوں پر جو ہم کہہ رہے ہیں۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ مصر کے بادشاہ نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ہماری پونجی بھی واپس کردی گئی ہے امید ہے کہ واپس نہیں لے گا اگرچہ ہمیں جاکر پتہ کرنا ہے کہ واپس کرنے کا سبب کیا ہے؟ لیکن اگر ہم چھوٹے بھائی بنیامین کو ساتھ نہ لے گئے تو ہمیں غلہ نہیں ملے گا اس لیے ہمارے ساتھ بھائی کو بھیج دو ہم اس کی حفاظت کریں گے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے تو پہلے یوسف کی ذمہ داری بھی اٹھائی تھی، توجہ طلب مقام یہ ہے کہ آپ نے اپنے بیٹوں کا حال دیکھا ہوا تھا پھر بنیامین کو ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب وہ بڑی عمروں کے ہوچکے تھے نیکی کی طرف مائل ہوچکے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح بنیامین سے حسد کینہ بھی نہیں رکھتے تھے قحط کی وجہ سے غلہ لانے کی محتاجی بھی تھی اور یوسف علیہ السلام نے بنیامین کے بغیر غلہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا اس لیے آپ نے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا لیکن سب سے بڑی وجہ یہ تھی۔
’’لعلہ تعالی او حی الیہ وضمن حفظہ وایصالہ الیہ‘‘
کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو بتادیا تھا کہ آپ ساتھ بھیج دیں میں اس کی حفاظت کروں گا اور آپ تک اسے واپس پہنچا دوں گا۔ اسی وجہ سے آپ نے فرمایا:
فَاللہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ
تو اللہ سب سے بہتر نگہبان اور وہ ہر مہربان سے بڑھ کر نگہبان ہے۔
بعض حضرات نے کہا کہ آپ کے اس میں ارشاد کا مطلب یہ تھا:
’’وثقت بکم فی حفظ یوسف علیہ السلام فکان ما کان فالآن اتوکل علی اللہ فی حفظ بنیامین‘‘
کہ میں نے پہلے تمہارے قول پر بھروسہ کرلیا تھا کہ تم یوسف (علیہ السلام) کی حفاظت کرو گے اس میں جو ہوا سو ہوا اب میں تمہاری باتوں کا تو کوئی اعتبار نہیں کرتا کہ تم بنیامین کی حفاظت کرو گے البتہ میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دے کر تمہارے ساتھ بھیج دیتا ہوں۔
مقصد یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ علیہ السلام کو وثوق دلایا گیا تھا کہ میں اس کا محافظ ہوں۔ (کبیر ج۱۸ ص۱۶۹، ۱۷۰)
بیٹوں کو بھیجتے وقت یعقوب علیہ السلام کی احتیاطی تدابیر:
وَقَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللہ مِنْ شَیْء اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ مِّنَ اللہ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِیْ نَفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰھَا وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۶۷، ۶۸)
اور کہا اے میرے بیٹو! ایک دروازے سے نہ داخل ہونا اور جدا جدا دروازوں سے جانا اور میں تمہیں اللہ کی تقدیر سے نہیں بچاسکتا، حکم تو سب اللہ ہی کا ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا تھا اور وہ کچھ انہیں اللہ کی تقدیر سے نہ بچاسکے ہاں یعقوب کے نفس میں یہ ایک خواہش تھی جو اس نے پوری کرلی اور بے شک وہ صاحب علم ہے ہمارے سکھائے سے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے نظر بد سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر انہیں فرمایا کہ ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونا تاکہ تمہیں نظر نہ لگ جائے کیونکہ تمام بڑے قد آور بہادر اور خوبصورت تھے اور تعداد بھی خاصی یعنی گیارہ بھائی تھے۔ تمام متقدمین مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت کریمہ سے مراد یہی ہے۔
فائدہ: نظر کے اثرات کا حق ہونا اور ان سے بچاؤ کے لیے دعائیہ کلمات احادیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ مبارکہ سے دم فرمایا کرتے تھے۔
’’اُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانِ وَّھَامَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لامَّۃٍ‘‘
ان کلمات سے ہی حضرت ابراہیم حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام بھی دم کیا کرتے تھے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح حاضر ہوا آپ کو شدید تکلیف تھی پھر میں پچھلے پہر حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ کو آرام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل آئے تھے انہوں نے ان الفاظ طیبہ سے مجھے دم کیا۔
’’بِسْمِ اللہَ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیْکَ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ وَّحَاسِدٍ اللہُ یَشْفِیْکَ ‘‘
تو مجھے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمادی۔
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بچے خوبصورت سفید رنگ کے تھے، حضرت اسماءرضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ان بچوں کو جلدی نظر لگ جاتی ہے اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں انہیں نظر کا دم کردیا کروں؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں یعنی ٹھیک ہے تم ان کو دم کردیا کرو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک بچے کو بہت تکلیف ہے انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ اسے نظر لگ گئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے دم کیوں نہیں کراتے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’العین حق ولو کان شئی یسبق القدر لسبقت العین القدر‘‘
نظر حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جاسکتی تو نظر کا اثر سبقت لے جاتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو وضو کرنے کا حکم فرماتے جس کی نظر لگی ہو پھر وہ پانی جو اس کے اندام سے گرتا اسے اس شخص پر ڈالنے کا حکم دیتے جس کو نظر لگی ہوتی۔
جس شخص کو اپنے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کی نظر لگتی ہو تو وہ کسی چیز کو دیکھے اور وہ اسے اچھے لگے تو یہ پڑھے:
’’تَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ‘‘
نظر کا لگنا یا اس سے بچاؤ کی تدابیر، یہ سب ظاہری اسباب ہیں۔ حقیقی مؤثراللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام ن ے بیٹوں کو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونے کا حکم دیا، اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وجہ یہ تھی یہ بنیامین کی یوسف علیہ السلام سے علیحدگی میں ملاقات ہوجائے، کیونکہ:
’’انہ علیہ السلام کان عالما بان ملک مصر ھو ولدہ یوسف الا ان اللہ تعالی ما اذن لہ فی اظھار ذالک‘‘
حضرت یعقوب علیہ السلام جانتے تھے کہ مصر کا بادشاہ آپ کا بیٹا یوسف ہے لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس کے اظہار کی اجازت نہیں فرمائی تھی۔ (کبیر ج۱۸ ص۱۷۲۔ ۱۷۴)
تنبیہ:
’’فاعلم ان الانسان مامور بان یراعی الاسباب المعتبرۃ فی ھذا العالم ومامور ایضا بان یعتقدہ ویجزم بانہ لا یصل الیہ الا ما قدرہ اللہ تعالی‘‘
بے شک انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عالم میں ظاہری اسباب کو حاصل کرے لیکن انسان کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ یہی عقیدہ رکھے کہ اسباب بھی اسی وقت موثر ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو۔
’’وان الحذر لا ینجی من القدر فان الانسان مامور بان یحذر عن الاشیاء المھلکۃ والاغزیۃ الضارۃ ویسعی فی تحصیل المنافع ودفع المضار بقدر الامکان‘‘
انسان یہ بھی عقیدہ رکھے کہ کسی نقصان دہ چیز سے بچنا اور دور رہنا تقدیر سے نجات نہیں دے سکتا لیکن پھر بھی انسان کے لیے حکم یہی ہے کہ وہ ہلاک کرنے والی چیزوں اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچے منافع حاصل کرنے میں جتنا ممکن ہوسکے کوشش کرے اور نقصان دہ اشیاء سے دور رہے۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ جاننے کے باوجود کہ تمام چیزوں میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ظاہری اسباب پر عمل کیا۔
’’والحق ان العبد یجب علیہ ان یسعی باقصی الجھد والقدرۃ وبعد ذالک السعی البلیغ والجد الجھید فانہ یعلم ان کل ما یدخل فی الوجود فلا بد وان یکون یبقضاء اللہ تعالٰی ومشیتہ وسابق حکمہ وحکمتہ‘‘
حق و مذہب یہی ہے کہ انسان منافع و مقاصد کے حاصل کرنے میں اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچنے کی تدابیر میں بہت زیادہ کوشش کرے جتنی اسے طاقت حاصل ہے اس میں کوتاہی نہ کرے، لیکن اپنی طرف سے بہت بڑی کوشش کرنے کے بعد یقین یہی رکھے کہ منافع کا حاصل ہونا یا نہ ہونا ضرر انداز چیزوں کا موثر ہونا یا نہ ہونا سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی مشیت پر موقوف ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کے مطابق ہیں۔ (کبیر ج۱۸ ص۱۷۵)
بنیامین کی یوسف علیہ السلام سے ملاقات:
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (پ۱۲ سورۃ یوسف ۶۹)
اور جب پہنچے یوسف علیہ السلام کے پاس تو یوسف علیہ السلام نے جگہ دی اپنے پاس اپنے بھائی کو اسے فرمایا میں تمہارا بھائی ہوں نہ غمزدہ ہو جو یہ کیا کرتے تھے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ تمام بھائی پھر مصر میں آئے ہیں اب اپنے ساتھ بنیامین کو بھی لائے ہیں۔ تو.....
(اکرمھم وانزلھم واحسن نزلھم ثم اضافھم)
..... آپ نے ان کی بڑی عزت و تکریم کی، ان کو شاہی مہمان خانوں میں رہنے کی جگہ کا حکم دیا اور ان کی مہمان نوازی بہت اچھی طرح سے کی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ سے ملاقات کے دوران بتایا یہ وہ ہمارا بھائی ہے جسے آپ نے لانے کا حکم دیا تھا ہم ساتھ لیے آئے ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا تم نے اچھا کیا ہے۔ اب میرے پاس بھی جو غلہ ہے وہ دینے میں کوئی کسر نہیں ہوگی۔ بھائیوں نے آپ کو اپنے باپ کا پیغام بھی دیا کیونکہ یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو الوداع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بادشاہ کو میرا سلام کہنا اور یہ کہنا
ان ابانا یصلی علیک ویدعوک ویشکر صنیعک معنا
کہ ہمارے باپ آپ کے لیے دعا کر رہے تھے آپ پر رحمتیں نچھاور کر رہے تھے اور آپ نے جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
اور ساتھ ہی اسی مضمون کا ایک خط بھی دیا خط کو پڑھتے ہوئے یوسف علیہ السلام آبدیدہ ہوگئے، لیکن اپنے جذبات کو قابو میں رکھا تاکہ بھائیوں پر کچھ بات ظاہر نہ ہو۔ رب تعالیٰ کی طرف سے ابھی ظاہر کرنے کا حکم نہیں تھا۔ آپ نے ا پنے بھائیوں کی دعوت کی، غلاموں کو حکم دیا کہ دستر خوان کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ دو دو بھائی ایک ساتھ بیٹھیں۔ اس ترتیب سے بٹھانے پر بنیامین اکیلے رہ گئے، رونے لگے اور کہنے لگے کہ کاش! آج میرا یوسف زندہ ہوتا تو مجھے ساتھ بٹھاتا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا: تمہارا یہ بھائی اکیلا رہ گیا ہے، انہوں نے کہ اس کا (سگا) بھائی ہلاک ہو گیا ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا اچھا میں ہی اسے اپنے ساتھ بٹھالیتا ہوں، آپ نے بنیامین کو دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلایا۔
پھر آپ علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ رات کو سونے کے لیے دو دو بھائیوں کو ایک ایک کمرہ دے دو، آرام کے وقت آپ علیہ السلام نے فرمایا آپ کا یہ بھائی اکیلا ہے اسے میرے پاس ہی چھوڑ جاؤ میں اسے اپنے کمرہ میں سلالیتا ہوں ۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ اپنے بھائی پر بہت افسوس کرتا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’الا تحب ان اکون اخاک بدل اخیک الھالک‘‘
کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے فوت شدہ بھائی کے بدلے میں ہی تمہارا بھائی بن جاؤں۔
بنیامین نے روتے ہوئے کہا:
’’من یجد اخا مثلک ولکنک لم بلدک یعقوب ولا راحیل‘‘
تمہارے جیسا بھائی کسے ملے گا؟ یعنی اتنے شفیق اور مہربان ہو، وہ شخص کتنا ہی خوش بخت ہوگا جسے تمہارے جیسا بھائی مل جائے، لیکن تم راحیل اور یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تو نہیں ہو۔میں تو اس کے لیے رو رہا ہوں جو میرے باپ اور میری ماں کا بیٹا تھا۔ آپ علیہ السلام کے رقت آمیز مناظر کو دیکھ کر یوسف علیہ السلام بھی رونے لگے۔ اٹھے اور بھائی کو گلے لگالیا۔ اب پہچان کرانے کا وقت آچکا تھا اس لیے اپنے بھائی کو بتایا:
اِنِّیْ اَنَا اَخُوْکَ
بے شک میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں۔
دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو اپنے حالات سے مطلع کیا۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
نہ غمزدہ ہو جو یہ کیا کرتے تھے۔
اصل میں یوسف علیہ السلام چاہتے تھے کہ بھائی کے دل میں دوسرے بھائیوں کے خلاف ذہن میں کوئی بات نہ رہے، کیونکہ:
’’ما بقی فی قلبہ شئی من العداوۃ وصار صافیا مع اخوتہ‘‘
آپ کے دل میں بھائیوں کے خلاف کوئی عداوت باقی نہیں تھی، آپ علیہ السلام کا دل بھائیوں کے حق میں مکمل صاف ہوچکا تھا، دراصل اب بھائی بھی وہ جوانی کی عمر والے حاسد یا ظالم نہیں تھے، بلکہ وہ بھی کافی حد تک نیک ہوچکے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام تو شروع سے ہی بھائیوں کے حق میں دعا گو تھے۔ (روح المعانی ج۷ حصہ دوم ص۲۳، کبیر ج۱۸ ص۱۷۷، ۱۷۸)
بنیامین کو پاس رکھنے کا حیلہ:
فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَیَّتُھَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسٰرِقُوْنَ، قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَیْھِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ، قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَآءَ بِہ حِمْلُ بَعِیْرٍ وَّاَنَا بِہ زَعِیْمٌ، قَالُوْا تَاللہ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّاجِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کُنَّا سٰرِقِیْنَ، قَالُوْ فَمَا جَزَآؤُہٗ اِنْ کُنْتُمْ کٰذِبِیْنَ، قَالُوْا جَزَآؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِیْ رَحْلِہٖ فَھُوَ جَزَآؤُہٗ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ، فَبَدَاَبِاَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْہِ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللہ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (پ۱۳ یوسف ۷۰، ۷۶)
پھر جب ان کو سامان مہیا کردیا پیالہ اپنے بھائی کی خورجی میں رکھد یا پھر ایک ندا دینے والے نے ندا دی اے قافلہ والو بے شک تم چور ہو ان کی طرف توجہ کرکے انہوں نے کہا تمہاری کون سی چیز گم ہوئی ہے بولے بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا اور جو اسے لادے گا اس کے لیے ایک اونٹ کا بوجھ ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔ انہوں نے کہا: خدا کی قسم تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں، بولے پھر کیا سزا ہے اس کی اگر تم جھوٹے ہو؟ انہوں نے کہا اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ملے وہی اس کے بدلے غلام بنے، ہمارے ہاں ظالموں کی یہی سزا ہے۔ پس تلاشی لینی شورع کی ان کے سامانوں کی یوسف علیہ السلام کے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اسے اپنے بھائی کی خورجی سے نکال لیا۔ ہم نے یوسف علیہ السلام کو یہی تدبیر بتائی، بادشاہی قانون کے مطابق انہیں کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے۔
جو پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھا گیا تھا وہ بادشاہ کے یا جانوروں کے پانی پینے میں استعمال ہوتا تھا اور اس سے غلہ ناپنے کا کام بھی لیا جاتا تھا، اتنا قیمتی تھا جس سے چوری کی خصوصی حد نافذ ہوسکتی تھی۔ (کبیر)
وہ پیالہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے رکھا گیا آپ ہی اس وقت حکمران تھے وہ پیالہ آپ کے زیر تصرف ہی تھا:
’’انہ علیہ السلام لم یباشر الجعل بنفسہ بل امر احدا فجعلہ‘‘ (روح المعانی)
بے شک حضرت یوسف علیہ السلام نے وہ پیالہ خود نہیں رکھا تھا بلکہ آپ نے کسی خادم کو حکم دیا تھا جس نے وہ رکھا تھا۔
آپ کے حکم دینے کی وجہ سے آپ کی طرف منسوب ہوا، یہ پیالہ بنیامین کو بتاکر ان کی مرضی سے رکھا گیا تھا اس لیے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں کہا بھی کہ والد مکرم پہلے میری جدائی سے پریشان ہیں تو اب تمہاری جدائی سے اور زیادہ پریشان ہوں گے لیکن وہ پھر بھی وہاں رہنے پر بضد تھے حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو بتایا کہ اگر تم یہاں رہنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی حیلہ ہے کہ تمہارے سامان میں پیالہ رکھ کر اس کے بدلے تمہیں یہاں رکھا جائے۔
فرضی بان یقال فی حقہ ذالک (کبیر)
تو بنیامین نے رضا مندی کا اظہار کیا کہ میرے متعلق جو بھی کہا جائے مجھے منظور ہے لیکن میں یہاں ہی رہوں گا۔
جس طرح ہماری شریعت میں چوری کی حد ہاتھ کاٹنا ہے اس طرح یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں اس شخص کو مال کے بدلے غلام رکھا جاتا۔ مصر کے بادشاہی قانون میں چور کو مارا جاتا تھا اور مال کے بدلے دوگنا مال وصول کیا جاتا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ حیلہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق کیا او روہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کیونکہ رب نے خود فرمایا:
کَذَالِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ
یہ حیلہ ہم نے یوسف علیہ السلام کو سکھایا۔
اور جس شخص نے آواز دے کر یہ کہا تھا کہ اگر کوئی شخص وہ پیالہ ڈھونڈ کر لائے گا تو اسے بطور انعام ایک اونٹ کا بوجھ دیا جائے گا اس نے بھی آپ کے حکم سے ہی یہ اعلان کیا تھا:
’’وندائہ بامر یوسف علیہ السلام‘‘
اس کا یہ آواز دینا حضرت یوسف علیہ السلام کے حکم سے تھا۔
اہل مصر جانتے تھے کہ یہ قانون مصر کا نہیں، حضرت یوسف علیہ السلام کا منشا بھی یہ نہیں تھا کہ بھائیوں کو چوری کے الزام میں متھم کیا جائے، اس لیے آپ نے اپنے خادم کو سب کچھ بتایا ہوا تھا، تمام کام آپ کے حکم سے ہو رہا تھا۔
جب یوسف علیہ السلام کے بھائی غلہ لے کر نکلے تو پیچھے سے ان کو پکار کر کہا گیا اے قافلہ والو!
اِنَّکُمْ لَسَارِفُوْنَ بےشک تم چور ہو اس کلام کا مطلب بھی ظاہر پر مبنی نہیں۔
’’ان ذالک المؤذن ربما ذکر ذالک النداء علی سبیل الاستفھام‘‘
آواز دینے والے نے یہ کلام بطور استفہام کیا؟ (کبیر)
قرآن پاک میں کئی مقام پر ایسا کلام مذکور ہے جہاں صرف استفہام پوشیدہ ہوتا ہے کہنے والے کا مطلب یہ تھا اے قافلہ والو کیا تم چور تو نہیں ہو؟ یہ کوئی الزام نہیں تھا بلکہ سوال تھا۔ اگر قافلہ والوں پر وہ اپنی طرف سے ہی آکر ان پر الزام عائد کرتے تو ان سے پوچھنے کا انہیں کیا اختیار تھا؟ کہ اگر تم چور نکلے تو تمہاری سزا کیا ہے؟ سزا تو ان کو مصری قانون کے مطابق دینی چاہیے تھی۔
بنیامین کے سامان سے پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کو کھولنا بھی اتفاقی نہیں تھا بلکہ ارادتا تھا علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’والمفنش حقیقۃ اصحابہ بامرہ بذالک قبل تفتیش وعاء اخیہ بنیامین لنفی التھمۃ‘‘ (روح المعانی)
تفتیش کرنے والے درحقیقت حضرت یوسف علیہ السلام کے اصحاب یعنی خدام تھے جو آپ کے حکم سے ہی سب کام کر رہے تھے دوسرے بھائیوں کے سماان کی تفتیش پہلے ہی کی گئی تھی کہ اگر سب سے پہلے بنیامین کا سامان کھولا گیا تو تہمت پر پر آئے گی اور تمام حیلہ ہی بے کار چلا جائے گا۔
جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں سے پوچھا گیا کیا تم چور تو نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا
تَاللہ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّاجِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کُنَّا سٰرِقِیْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف۷۳)
خدا کی قسم تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم زمین میں فساد کرنے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں۔
آپ کے بھائی قسم اٹھاکر کیوں یہ نہ کہتے جبکہ اب وہ نیک تھے یوسف علیہ السلام کو کنوئیں مین پھینکنے والے زمانہ کی طرف نہیں تھے ..... وہ بھی حسد کی وجہ سے ہوا، ورنہ اس وقت بھی وہ کسی کا مال نہیں کھاتے تھے۔ اور تمام اعمال ان کے اچھے تھے، صرف یوسف علیہ السلام کو حسد کی وجہ سے کنوئیں میں پھینکنے والا جرم سرزد ہوا تھا ..... اب تو ان کے احوال سے واضح تھا کہ یہ کسی کے مال میں تصرف نہیں کرتے نہ کسی کا مال کھاتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر ان کو کسی کاشت شدہ کھیتی سے گزر ہوتا تو اپنے جانوروں کے منہ باندھ دیتے تھے تاکہ وہ کسی کی کھیتی کو برباد نہ کریں اور ہمیشہ نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے جن لوگوں کی یہ صفات ہوں وہ کیسے زمین میں فساد پھیلاسکتے ہیں خاص کر دوسرے ملک میں، جہاں انہیں اپنی عزت کے پاس کرنے کی زیادہ ضرورت تھی جبکہ وہ یہ بتا بھی چکے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ پہلی دفعہجب ان کی پونجی ان کے سامان میں رکھ کر واپس لوٹادی گئی تھی تو وہ اسے واپس لے آئے تھے بھلا چور بھی ایسے کام کرسکتا ہے۔ (کبیر)
پریشانی میں بھائیوں کا کلام:
قَالُوْٓا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ فَاَسَرَّ ھَا یُوْسُفُ فِیْ نَفْسِہ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُمْ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّمَّکَانًا وَاللہ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۷۴)
بھائی بولے: اگر یہ چوری کرے تو بے شک اس سے پہلے اس کا بھائی چوری کرچکا ہے تو یوسف علیہ السلام نے یہ بات اپنے دل میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی، جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو اور اللہ خوب جانتا ہے جو باتیں بناتے ہو۔
بھائیوں کو پورے معاملہ کا کوئی علم نہ تھا کہ یوسف علیہ السلام یہی ہیں جو مصر کے بادشاہ ہیں اور بنیامین کو بتاچکے ہیں اور ان کو اپنے پاس رکھنے کا صرف یہ حیلہ اور بہانہ ہے۔
بنیامین کے سامان سے جب پیالہ نکلا تو نبی کے بیٹوں پر دوسرے ملک میں اس قسم کی بدنامی کا کتنا گہرا اثر ہوا ہوگا؟ یہ محتاج بیان نہیں۔ ہر انسان کی عقل کام کرسکتی ہے کہ ایسے وقت کتنی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ انسان کو زمین و آسمان ایک نظر آتے ہیں۔ متقی انسان کا صرف تہمت کی زد میں آنا ہی پریشان کن ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ دیار غیر میں جہاں لوگ انہیں فرشتہ سیرت سمجھتے ہوں وہاں ایسی مصیبت آجائے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان بہت خوشی میں اور بہت پریشانی میں جو کلام کرتا ہے اس میں اعتدال نہیں ہوتا، صرف نبی کا یہ مقام ہے کہ اس کا کلام ہر وقت ’’اعتدال‘‘ پر رہتا ہے۔
بھائیوں نے یہ سمجھا کہ شاید بنیامین نے واقعی چوری کرلی ہے اس پر پریشان ہوکر اعتدال سے دور کلام کرتے ہوئے کہا کہ اس نے چوری کرلی ہے تو اس کے بھائی نے بھی ایک مرتبہ چوری کرلی تھی۔
یوسف علیہ السلام پر چوری کا الزام کیسے؟
یوسف علیہ السلام کا نانا بت پرست تھا آپ ایک مرتبہ اپنے نانا کا ایک سونے کا بنا ہوا بت جو لعل و جواہر سے مزین تھا اٹھالائے اور اسے توڑ دیا نانا کے بت کو لانے میں آپ کی والدہ کا مشورہ کارگر تھا کہ وہ بت پرستی چھوڑ دیں۔ آپ کا بت کو چپکے سے لانا اور اسے توڑ دینا عبادت تھا، کوئی چوری کا کام نہیں تھا، لیکن بظاہر آپ کی طرف چوری کو منسوب کردیا گیا تھا۔
دوسری وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پھوپھی کے زیر کفالت تھے جو حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سب سے بڑی تھیں، وہ آپ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں اتنی محبت انہیں خاندان میں کسی اور سے نہیں تھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب ان سے مطالبہ کیا کہ اب یوسف علیہ السلام میرے حوالے کردو تو انہوں نے کہا قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، میں اسے اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتی، میرے پاس کچھ دن رہنے دو میں آہستہ آہستہ کوشش کروں گی کہ مجھے اس کے بغیر تسلی حاصل ہوجائے۔ پھر میں ان کو تمہارے حوالے کردوں گی۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام چلے گئے تو انہوں نے ایک کمر بند حضرت یوسف علیہ السلام کے کپڑوں کے نیچے آپ سے باندھ دیا وہ کمربند حضرت اسحاق علیہ السلام کا تھا جو آپ کو بڑی ہونے کی وجہ سے بطور وراثت ملا تھا۔
آپ نے فرمایا میرے باپ کا کمر بند گم ہوگیا ہے ذرا تلاش کرو کون لے گیا پھر آپ نے کہا گھر میں ہی تلاش کرو ممکن ہے گھر کے کسی فرد نے ہی نہ لے لیا ہو دوران تفتیش وہ حضرت یوسف علیہ السلام سے مل گیا جو آپ کے کپڑوں کے نیچے آپ سے باندھ دیا گیا تھا۔
پھر انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو کہا کہ یوسف نے میرے باپ کا کمر بند لے لیا تھا اس لیے اب اسے میرے پاس ہی رہنا ہوگااس طرح وہ اپنی پوری زندگی حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہوگئی تھیں عین ممکن ہے کہ یعقوب علیہ السلام بھی جانتے ہوں کہ میری بڑی بہن نے یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھنے کا حیلہ کیا ہے لہٰذا ان کے پاس ہی رہنے دیا جائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اس بات کو پردے میں ہی رکھا کسی کے سامنے ظ اہر نہ کیا اسی طرح بھائیوں کے اس کہنے کو کہ اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی ابھی کسی کو نہ بتایا دل میں ہی بات کو رکھا ابھی تک یہ واضح نہ کیا کہ میں یوسف ہوں اور بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کا ایک حیلہ کر رہا ہوں تمام باتوں کو آپ نے دل میں ہی رکھ کر بھائیوں کو عزت و تکریم سے بمع سامان لوٹانےکا حکم فرمایا۔ (ماخوذ از روح المعانی، تفسیر کبیر)
بنیامین کو بازیابی کی درخواست مسترد:
قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ اِنَّ لَہٗ اَبًا شَیْخًا کَبِیْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ، قَالَ مَعَاذَاللہ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗ اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف۷۸، ۷۹)
انہوں نے کہا: اے عزیز اس کے باپ بہت بوڑھے ہیں تو ہم میں سے کسی کو اس کی جگہ لے لو بے شک ہم تمہارے احسان دیکھ رہے ہیں یوسف علیہ السلام نے کہا اللہ کی پناہ ہم تو صرف اسی کو لیں گے جس کے پاس ہمارا سامان ملا۔ (اگر ہم کسی اور کولیں) تو ہم ظالم ہوں گے۔
اگرچہ بھائی پہلے بتاچکے تھے اگر کسی سے پیالہ برآمد ہوجائے تو وہ غلام بن جائے گا لیکن ان کی شریعت میں معاف کرنا اور فدیہ دینا بھی جائز تھا، اس لیے انہوں نے کہا: کہ اس کے باپ بڑی عمر کے اور عظیم مرتبہ کے مالک ہیں، اس لیے یہ معاف کرنے کے قابل ہے یا اس کا فدیہ لے لیا جائے اور ہم میں سے کسی ایک کو اپنے پاس بطور رہن ررکھ لیا جائے، جب ہم فدیہ دے دیں گے تو اپنے پاس رہن رکھے ہوئے بھائی کو چھڑالیں گے۔ یا اسے معاف کردیا جائے اور ہم میں سے کسی ایک کو غلام بنالیا جائے۔ آپ کا معاف فرمادینا ہم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ ہم آپ کے پہلے بھی احسان دیکھ چکے ہیں؛ کیونکہ آپ نے پہلے ہماری پونجی بھی واپس لوٹادی، غلہ بھی دیا، عزت و تکریم سے اپنے پاس بلایا، مہمان نوازی کی، شاہانہ مکانوں میں رہنے کی جگہ دی، کتنے ہی احسان آپ کے ہمارے سامنے ہیں۔
آپ علیہ السلام نے دو ٹوک الفاظ میں مختصر جواب دیا: ہم تو صرف اسے اپنے پاس رکھیں گے جس سے ہمارا سامان ملا ہے، دوسرے کو اپنے پاس رکھ کر ظالم نہیں بن سکتے۔
اور حقیقتاً سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے چل رہا تھا، ابھی یعقوب علیہ السلام کو اور امتحان میں مبتلا کرنا مقصود تھا اس لیے معاف نہیں کیا۔ معاف تو تب کیا جاتا جب کوئی جرم ہوتا، جب جرم ہی نہیں تھا تو معاف کرنے کا مقصد ہی کچھ نہیں تھا۔
’’لعلہ تعالی امرہ بذالک تشدیدا للمحنۃ علی یعقوب علیہ السلام ولھاہ عن العفو والصفح واخذ البدل‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ ابھی معاف نہیں کرنا درگزر نہیں کرنا اور کوئی بدلہ نہیں لینا کیونکہ یعقوب علیہ السلام کو ابھی اور شدید محنت میں مبتلا کرنا ہے۔ (کبیر ج۱۸ ص۱۸۶)
بڑے بھائی کا مصر میں رہنا اور دوسروں کو واپس بھیجنا:
فَلَمَّا اسْتَایْئَسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِیًّا قَالَ کَبِیْرُھُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاکُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَیْکُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللہ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِیْ یُوْسُفَ فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰی یَاْذَنَ لِیْٓ اَبِیْٓ اَوْیَحْکُمَ اللہ لِیْ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓی اَبِیْکُمْ فَقُوْلُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَھِدْنَآ اِلَّابِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حٰفِظِیْنَ وَسْئَلِ الْقَرْیَةَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْھَا وَالْعِیْرَالَّتِیْٓ اَقْبَلْنَا فِیْھَا وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۸۰، ۸۲)
پھر جب اس سے ناامید ہوئے، الگ جاکر سرگوشیاں کرنے لگے۔ ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا عہد لے لیا تھا؟ اور اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) کے حق میں ہم نے کیسی تقصیر کی؟ تو میں یہاں سے نہ ہٹوں گا یہاں تک کہ میرے باپ اجازت دیں، یا اللہ مجھے حکم فرمائے۔ اور اس کا حکم سب سے بہتر ہے۔ اپنے باپ کے پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو: اے ہمارے باپ بے شک آپ کے بیٹے نے چوری کی۔ اور ہم تو اتنی ہی بات کے گواہ ہوتے تھے جتنی ہمارے علم میں تھی اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے اور اس سے پوچھ دیکھیے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے جس میں ہم آئےاور ہم بے شک سچے ہیں۔
ابتدائی طور پر جب بھائیوں کی اپیل یوسف علیہ السلام نے رد فرمادی تو یہودا غصہ میں آگیا اور یہ جب غصہ میں آتا تھا تو اس کے جسم کے بال کھڑے ہوجاتے تھے، اگر غصہ کے حال میں یہ چیخ مارتا تو حاملہ عورتوں کے حمل گرجاتے۔ اس وقت تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا جب تک حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہی کوئی شخص اس کے جسم کو ہاتھ نہ لگاتا۔ اس نے اپنے دوسرے بھائیوں کو کہا تم بازار کے لوگوں سے مقابلہ کرو، انہیں میرے قریب نہ آنے دو میں عزیز مصر سے مقابلہ کرتا ہوں میں اسے آپ کے قریب نہیں آنے دوں گا۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے چھوٹے بیٹے کو کہا کہ جاکر اس کے جسم کو چھودو جب اس نے یہودا کے جسم کو ہاتھ لگایا تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔
جب یہ لوگ بنیامین کو چھڑانے میں ناکام ہوگئے تو لوگوں سے علیحدہ ہوکر ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؛ کیونکہ اپنے والد مکرم سے بہت پختہ وعدہ کرکے اور بڑا وثوق دلاکر بنیامین کو لے گئے تھے اور پہلے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں ان پر تہمت عائد ہوچکی تھی کہ تم جھوٹے ہو، اب بہت پریشان تھے کہ اگر اب اسی طرح واپس جاتے ہیں تو باپ بہت زیادہ پریشان ہوں گے اور یہ بات بھی مدنظر تھی کہ گھر والے غلہ کے لیے محتاج ہیں، واپس جانا بھی ضروری ہے اور اگر سب نہیں جاتے تو باپ خیال کریں گے کہ کہیں سب فوت تو نہیں ہوگئے اور اگر بنیامین کے بغیر سب واپس لوٹتے ہیں تو اپنے باپ کو کیسے منہ دکھائیں گے؟ آخر کار سب سے بڑے نے کہا تم چلے جاؤ میں نہیں جاتا یا تو مجھے باپ اجازت دیں تو واپس جاؤں گا یا اللہ کوئی فیصلہ فرمادے۔ سب سے بڑے سے مراد یا تو ’’شمعون‘‘ ہے کہ سب کا رئیس تھا اور یا مراد ’’روہیل‘‘ ہے کہ یہ عمر میں سب سے بڑا تھا اور یا اس سے مراد ’’یہودا‘‘ ہے جو عقل و دانش میں سب سے بڑا تھا۔
زیادہ مشہور یہی ہے کہ یہ ’’یہودا‘‘ ہی تھا جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے سے بھی بچایا تھا، اس نے کہا تم جاکر باپ کو بتاؤ تمہارے بیٹے نے چوری کرلی ہے یعنی اس کی طرف چوری کو منسوب کردیا گیا ہے، آپ بستی سے پوچھ لیں یا قافلہ والوں سے پوچھ لو ہم سچے ہیں۔ ہمارے سامنے تو جو بات آئی ہے وہی بیان کر رہے ہی ں، بستی سے پوچھنے کا مقصد یا تو یہ ہے کہ لفظ ’’اھل‘‘ محذوف ہے۔ یعنی بستی والوں سے پوچھ لو۔ اور یا مقصد یہ ہوسکتا ہے:
’’واسئل القریۃ والعیر والجدار والحیطان فانھا یجیبک وتذکر لک صحۃ ما ذکرناہ لانک من اکابر انبیاء اللہ فلا یبعد ان ینطق اللہ ھذہ الجمادات معجزۃ حتی تخبر بصحۃ ماذکرنا‘‘ (کبیر ج۱۸ ص۲۹۰)
آپ (علیہ السلام) جانوروں دیواروں وغیرہ سے پوچھیے یقیناً وہ آپ کو جواب دیں گے اور بتائیں گے کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں بے شک آپ تو اکابر انبیائے کرام سے ہیں جمادات کو اللہ آپ سے کلام کرنے کی توفیق عطا فرمادے کوئی بعیدنہیں اور آپ کا یہ معجزہ ہوگا یقیناً یہ جمادات بھی ہمارے سچے ہونے کے متعلق آپ کو بتائیں گے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ عَسَی اللہ اَنْ یَّاْتِیَنِیْ بِھِمْ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَقَالَ یٰٓاَسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَھُوَ کَظِیْمٌ
(یعقوب علیہ السلام نے) کہا تمہارے نفس نے تمہیں کچھ حیلہ بتادیا، پس صبر اچھا ہے، قریب ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے ملائے بے شک وہی علم و حکمت والا ہے، اور (آپ نے) ان سے منہ پھیرا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف کی جدائی پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں اور وہ غصہ کھاتے رہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کے کلام کو رد کردیا اور فرمایا کہ تم یہ حیلہ بنا رہے ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے مصر کا بادشاہ میرے بیٹے کو چوری کے الزام میں اپنے پاس غلام بنالے؟ جبکہ اس کے قانون میں یہ ہے ہی نہیں کہ کسی کو چوری کے الزام میں غلام بنایا جائے۔
آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی پر غم کھا رہے ہیں، حالانکہ تازہ غم بنیامین کا ہے۔ اس کی ایک وجہ پہلے ذکر ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم عطا فرمادیا تھا کہ مصر کا عزیز یوسف علیہ السلام ہے، لیکن ابھی ظاہر کرنے کا وقت نہیں تھا۔
دوسری وجہ علامہ آلوسی نے بیان فرمائی کہ اصل مصیبت و غم یوسف علیہ السلام کا ہی تھا، باقی غم اس کے اوپر مرتب ہو رہے تھے، مطلب یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کی جدائی کا غم ہی کافی تھا ابھی تو وہی تازہ ہے یہ اور غم اس پر مرتب ہوگیا۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ بنیامین اور یہودا کے متعلق تو ظاہر طور پر معلوم ت ھا کہ وہ زندہ و سلامت مصر میں ہیں، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے مصر کے بادشاہ ہونے کو ظاہر نہیں کرنا تھا، لیکن معلوم تھا اس لیے کہا یوسف پر افسوس ہے۔ خود بھی جدا ہے اور بنیامین اور یہودا کو بھی جدا کرنے کا سبب بن گیا۔
آپ علیہ السلام اسی غم میں بالکل خاموش رہنے لگے جس طرح غصہ سے بھرا ہوا شخص اپنے منہ پر خاموشی کی مہر لگا لیتا ہے کسی سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا۔
یعقوب علیہ السلام کے رونے کی عجیب حکمت:
بظاہر حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے جلیل المرتبت پیغمبر کا اپنے فرزند کی محبت میں اتنا وارفتہ ہوجانا اور اس کے ہجر و فراق میں رو رو کر آنکھیں سفید کردینا آپ کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اہل معرفت نے اس خلش کو یہ کہہ کر دور کیا ہے کہ حسن یوسف کو آپ کے لیے جمال الٰہی کا آئینہ بنادیا گیا تھا وہ اس طلعت زیبا کے آئینہ میں تجلیات الٰہیہ کا مشاہدہ فرمایا کرتے تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے تو انوار خداوندی کی لذت دید سے محروم ہوجانے کے باعث آپ بے چین اور بے قرار ہوگئے۔
’’واختار بعض العارفین ان ذالک الاسف والبکاء لیسا الابفوات ما انکشف لہ علیہ السلام من تجلی اللہ فی مرأۃ وجہ یوسف علیہ السلام‘‘ (روح المعانی)
اس کے بعد علامہ مذکور تحریر فرماتے ہیں:
’’ولعمری انہ لو کان شاھد تجلیہ تعالی فی اول التعینات وعین اعیان الموجودات صلی اللہ علیہ وسلم ما رای ولما عراہ ما عرا‘‘ (روح المعانی)
یعنی مجھے اپنی زندگی کی قسم! اگر حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی اس تجلی کا مشاہدہ کرتے جو فخر موجودات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں درخشاں ہے تو انہیں حسن یوسف یاد ہی نہ رہتا اور ان کے ہجر و فراق میں آپ کا یہ حال نہ ہوتا۔
حضرت مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے یہ شبہ اور اس کا جواب بڑی شرح وبسط کے ساتھ لکھا اور بڑے اور عارفانہ انداز میں اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن انوار الٰہیہ کی جلوہ گاہ تھا اس کے بعد مجدد الف ثانی کے کلام کا ایک طویل اقتباس نقل کیا ہے جس میں حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس مربی اور مبداء تعین، اللہ تعالیٰ کی صفت علم ہے، جو تمام صفات سے قریب تر اور محبوب تر ہے اور علم کا حسن و جمال اتنا لطیف اور بلند مرتبت ہوتا ہے کہ اسے نگاہیں پا نہیں سکتیں اسی لیے حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال حسن کو ہماری نظریں صحیح طور پر نہیں دیکھ سکتیں حضور کا حسن و جمال قیامت کو بے نقاب ہوگا اس دن دنیا کو پتہ چلے گا کہ حسن ’’حسن محمدی‘‘ ہی ہے اور جمال ’’جمال احمدی‘‘ ہی ہے۔
وللعلم حسن و جمال لا کیفیۃ لہ فلا جل کمال لطافتہ وعلو درجتہ تجلی فی (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم من الحسن والجمال ما لا تدرکہ الابصار وسیظھر حسنہ وجمالہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الآخرۃ فیوسف علیہ السلام وان سلم لہ فی الدنیا ثلثی الحسن لکن فی الآخرۃ الحسن حسن محمدی والجمال جمالہ صلی اللہ علیہ وسلم.
اس کے بعد حضرت مجدد رحمہ اللہ تعالیٰ رقمطراز ہیں کہ یوسف علیہ السلام کے حسن پر تو صرف حضرت یعقوب علیہ السلام اور دوسرے لوگ فریفتہ تھے لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال سے خالق کائنات محبت فرماتا ہے:
فرماتا ہے:
’’کان حسن یوسف بحیث احبہ یعقوب والخلائق وکان حسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم بحیث احبہ رب یعقوب والخلائق جل جلالہ‘‘
حضرت مجدد رحمہ اللہ تعالیٰ نے تصوف کی مخصوص زبان میں اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے جو عام لوگوں کے علم و فہم سے بالاتر ہے۔ میں نے عام فہم انداز میں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مدعا اور خلاصہ پیش کیا ہے تاکہ عوام بھی لطف اندوز ہوسکیں۔ (ضیاء القرآن)
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے آپ کی پریشانی کو دیکھ کر کہا:
قَالُوْا تَاللہ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھٰلِکِیْنَ قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللہ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۸۵، ۸۶)
کہا: اللہ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف علیہ السلام کی یاد کرتے ہیں یہاں تک کہ گور کنارے جالگیں یا جان سے گزر جائیں۔ آپ (علیہ السلام) نے کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اس اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
بیٹوں نے آپ سے کہا کہ آپ یوسف علیہ السلام کی یاد میں اتنا غم کرتے ہیں اور روتے ہیں آپ تو اس سے مریض ہوجائیں گے یا اسی غم میں فوت ہوجائیں گے پہلے ہی آپ اتنی مشقت اور پریشانی میں مبتلا ہیں ہمیں ڈر ہے کہ آپ کی تکلیف بڑھ جائے گی اس لیے آپ بہت غم نہ کریں اور نہ روئیں آپ نے فرمایا میں اس کا ذکر تمہارے سامنے تو نہیں کر رہا میں نے تو جس سے ذکر کرنا ہے اس سے کر رہا ہوں یعنی میری فریاد اللہ تعالیٰ سے ہے انسان جب اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے تو وہ محققین کے زمرہ میں آتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رب کے حضور عرض کرتے۔
’’اَعُوْذُ بِرَضَاکَ مِنْ سُخْطِکَ وَاَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ ‘‘
اے اللہ تیری رضا کی پناہ تیری ناراضگی سے ہو اور تیری معافی کی پناہ تیرے غضب سے اور تیری ہی پناہ تجھ سے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے احسانات کو جو میں جانتا تم نہیں جانتے۔
وھو انہ تعالی یاتی بالفرج من حیث لا احتسب فھو اشارۃ الی انہ کان یتوقع وصولہ علیہ السلام.
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی خوشی عطا فرمانی ہے، اسی نے غموں کو دور کرنا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ اس سے واضح اشارہ اس طرف تھا کہ یوسف علیہ السلام کے ملنے کی بڑی قوی امید ہے۔ رب نے جو علم مجھے دیا ہے وہ تمہیں نہیں دیا۔ (کبیر ج۱۸ ص۱۹۷، ۱۹۸)
یوسف اور بنیامین کی تلاش کے لیے بیٹوں کا بھیجنا:
یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَاَخِیْہِ وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ، فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ قَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَ اَھْلَنَاالضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا اِنَّ اللہ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف۸۷، ۸۸)
اے بیٹو! جاؤ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے سوائے کافروں کے۔ پھر جب وہ یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے بولے: اے عزیز! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت پہنچی اور ہم بے قدر پونجی لے کر آئے ہیں، تو آپ ہمیں پورا ناپ دیجیے اور ہم پر خیرات کیجیے بے شک اللہ خیرات کرنے والوں کو صلہ دیتا ہے۔
جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو تو اس کے بعد بیٹوں سے فرمایا جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو تیسرے کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہودا بھی رہ گیا تھا اس لیے کہ اس کا وہاں رہنا اختیاری تھا اس کے واپس لانے میں کوئی مشکل نہیں تھی لیکن یوسف علیہ السلام کا وہاں رہنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اس میں رب کی مرضی کا انتظار تھا۔
اس سے پہلے آج تک یوسف علیہ السلام کو تلاش کرنے کے متعلق باپ نے بیٹوں کو نہیں کہا آج کیوں کہا؟ بنیامین کے متعلق معلوم ہے کہ وہ عزیز مصر کے پاس چوری کے الزام میں غلام ہونے کی حیثیت سے پابند ہے، پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے؟ کہ یوسف علیہ السلام کو اور اس کے بھائی کو تلاش کررو، ان کا سراغ لگاؤ۔ بس بات ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو یعقوب علیہ السلام جانتے تھے وہ اور کوئی نہیں جانتا تھا، اب آپ کو معلوم تھا کہ اس مرتبہ بنیامین کے ساتھ یوسف علیہ السلام کا پتہ بھی چل جائے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا وقت ختم ہونے والا ہی ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘‘ اس سے بھی واضح ہو رہا تھا کہ اب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وقت آچکا تھا، اب یوسف علیہ السلام کی ملاقات سے راحت ہوگی۔
خیال رہے ’’روح‘‘ کا اصل معنی ہے ایسی راحت جو سانس لینے سے ہوتی ہے یا صبح کی ہوا سے جو سکون حاصل ہوتا ہے۔ بعد میں ہر قسم کی راحت و رحمت پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے صرف کافر ہی ناامید ہوتے ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید انسان اس وقت ہوتا ہے جب اس کا عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کمال پر قادر نہیں یا وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام چیزوں کا علم نہیں، یا وہ یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ کریم نہیں بلکہ بخیل ہے۔ یہ تمام وجوہ کافروں میں ہی پائی جاتی ہیں۔
بھائیوں نے کہا: ہم بے قدر یعنی تھوڑی مقدار میں اور جو زیادہ کھری بھی نہیں، پونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہماری پونجی کو نہ دکھیں بلکہ اپنی مہربانی کو دیکھیں، ہمیں پورا پورا ناپ کر غلہ دیں؛ کیونکہ ہمارا خاندان بہت مصیبت میں ہے۔
یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی زبانی گھر کے حالات سنے تو آپ پر رقت طاری ہوگئی، آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ خیال رہے یہاں بھائیوں نے جو یہ کہا ’’وتصدق علینا‘‘ اس کا مطلب صدقہ کا مطالبہ نہیں؛ کیونکہ جمیع انبیائے کرام اور ان کی اولاد پر صدقہ حرام تھا، تاکہ ان کی نظر مخلوق کی طرف نہ اٹھے اور ان سے کم تر نظر نہ آئیں، اس لیے یہاں اس کا معنی ہے ’’ہم پر بھلائی کرو‘‘۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب تو وہ غلہ لینے نہیں گئے تھے بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کو تلاش کرنے گئے تھے، لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ وتصدق علینا ہم پرمہربانی کرو ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ واپس بھیج دو، البتہ پہلے انہوں نے بات غلہ سے چھیڑی تاکہ عزیز مصر کو معلوم ہجائے کہ اس کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکے باوجود یکہ ہمارے بھائی کو اپنے پاس رکھ لیا ہے، لیکن پھر بھی ہمارے باپ نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے۔ (از کبیر، روح المعانی)
یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو ظاہر کردیا:
قَالَ ھَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰھِلُوْنَ، قَالُوْٓا ءَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَھٰذَآاَخِیْز قَدْ مَنَّ اللہ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف۸۹۔۹۰)
یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ کچھ خبر ہے تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا؟ جب تم نادان تھے، انہوں نے کہا: کیا سچ مچ آپ ہی یوسف (علیہ السلام) ہیں؟ آپ علیہ السلام نے کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا۔ بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
’’یجوز ان یقف علیہ السلام بطریق الوحی والالھام علی وصیۃ ابیہ وارسالہ ایاھم للتحسس منہ ومن اخیہ فلما رآھم قد اشتغلوا عن ذالک قال ما قال‘‘ (تفسیر ابی السعود ج۴ ص۳۰۳)
جب بھائیوں نے آکر غلہ کا مطالبہ کیا اور اشارہ سے کہا ہم پر رحم کریں، مقصد کچھ یہ بھی تھا کہ بنیامین کو چھوڑ دو۔ لیکن ظاہر طور پر نہیں کہہ رہے تھے۔ تو اللہ نے یوسف علیہ السلام کو وحی یا الہام کے ذریعے مطلع کردیا کہ ان کو ان کے باپ نے اس لیے بھیجا ہے کہ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو ،تو آپ نے جب یہ دیکھا کہ یہ اپنے ماجرا کو ظاہر نہیں کر رہے تو آپ نے خود ہی کلام کا آغاز کردیا۔ آپ علیہ السلام نے خود بھائیوں سے کہا وہ خط جو تمہیں باپ نے میرے لیے دیا ہے وہ مجھے دے دو۔ انہوں نے جب خط دیا جس میں تحریر تھا کہ:
’’ہمارا خاندان شروع سے ہی مصائب و آلام کی آزمائشوں سے گزر رہا ہے، میں اس دادا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا پوتا ہوں جس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر آگ میں ڈال دیا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات دی میرا ایک پیارا بیٹا یوسف تھا جسے اس کے بھائی ساتھ لے گئے لیکن واپس آکر اس کی خون آلودہ قمیص پیش کردی کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہے۔ رو رو کر میری آنکھوں کی بینائی ضائع ہوگئی۔ پھر اس کے دوسرے بھائی بنیامین کو غلہ لینے کے لیے یہ ساتھ لے گئے۔ چوری کے الزام میں تم نے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ ہمارے خاندان کا شیوہ چوری کرنا نہیں اور نہ ہی ہمارا خاندان چوری کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم میرے بیتے کو واپس کردو ورنہ میں تمہارے خلاف رب کے حضور دعا کروں گا‘‘۔ یہ خط پڑھنے ہی یوسف علیہ السلام پر زیادہ رقت طاری ہوگئی۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، کشاف روح المعانی، ابوالسعود)
جب یوسف علیہ السلام کو بھائی کنوئیں میں پھینک رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کے دل میں القاء کیا تھا: ( لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا) تم ضرور بر ضرور ان کو ان معاملات کی خبر دو گے۔ اس وقت تو یوسف علیہ السلام کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کیسے اور کس وقت اور کس حال میں بھائیوں کو بتاؤں گا؟ کہ تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔
جب یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالا جا رہا تھا اس وقت آپ بچپن کی وجہ سے عاجز و ناتواں تھے اور بھائی بڑے قدآور جسیم اور طاقتور تھے، لیکن آج یوسف شاہی تخت پر جلوہ گر تھے اور آپ کے بھائی بڑے ادب و احترام سے آپ سے غلہ کا مطالبہ کا رہے تھے۔ یوں کہیں کہ کل کے طاقت ور آج سراپائے عجز بن کر بیٹھے ہیں اور کل کا عاجز و ناتواں آج شاہی تخت کا مالک، عظیم طاقتور ہے۔
یوسف علیہ السلام اپنے خاندان کے رقت آمیز مناظر کو دیکھ کر، اپنے باپ کی پریشان حالی اور رقت آمیز خط دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کہ ’’ایک دن تم نے اپنے بھائیوں کو ان کے کارناموں کی خبر دینی ہے‘‘ آج یوسف علیہ السلام ان الفاظ میں بھائیوں کے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے لیے کلام شروع فرما رہے ہیں: ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جب تم جاہل تھے‘‘ کلام کی ابتداء ہی ایسے انداز سے کی کہ بھائیوں کو جب پتہ چلے کہ میں یوسف ہوں، تو وہ ڈریں نہیں، لہٰذا کہا: ’’یہ سب کچھ تم نے نادانی اور جہالت کی وجہ سے کیا تھا‘‘ اور نبی کبھی ان لوگوں کی کاروائیوں کا انتقام نہیں لیا کرتا جو انہوں نے بے علمی کی وجہ سے کی ہوں۔
جب آپ علیہ السلام نے بھائیوں سے پوچھا تو انہوں نے آپ کے انداز کلام سے یا آپ کے مسکرانے کی وجہ سے دانتوں کی چمک سے پہچانتے ہوئے پوچھا: کیا آپ یوسف تو نہیں؟ آپ نے کہا: ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ یعنی میری ماں کا بیٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ہے، یعنی امتحان لینے کے بعد ہمیں یہ منصب عطا کیا ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ ساتھ ساتھ بھائیوں کو کہا کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اور صبر کرنے والے نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اشارہ تھا کہ اگر تم نے بھی تقویٰ حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ کا کرم تم پر ہوجائے گا۔ (ماخوذ از کبیر و روح المعانی)
بھائیوں کی معذرت اور آپ کا معاف کرنا:
قَالُوْا تَاللہ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللہ عَلَیْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِئِیْنَ قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ
یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا اور بے شک اللہ نے ہم پر آپ کو فضیلت دی اور بے شک ہم خطاوار تھے۔ آپ علیہ السلام نے کہا: آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
جونہی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر کیا کہ ’’میں یوسف ہوں اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور جو شخص بھی گناہوں سے بچتا ہے اور لوگوں کی اذیت پر صبر کرتا ہے اللہ تعالیی اسے ضائع نہیں کرتا‘‘ تو یہ سن آپ کے بھائیوں نے آپ کے کمالات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:
’’لقد اثرک اللہ علینا والمعنی لقد فضلک اللہ علینا بالعلم والحلم والعقل والفضل والحسن والملک‘‘
اللہ نے آپ کو ہم پر علم، حوصلہ مندی، عقل، فضل و کمال، حسن اور بادشاہت میں فضیلت عطاء کی۔
اور بھائیوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: ’’وان کنا لخاطئین‘‘ اور بے شک ہم خطاوار تھے۔
اکثر مفسرین اس پر متفق ہیں کہ انہوں نے عذر پیش کیا کہ ہم نے آپ کو جو کنوئیں میں ڈالا اور آپ کو بیچا، گھر سے نکالا اور آپ کو والد سے دور کیا، یہ سب ہماری خطائیں ہیں۔ بھائیوں کی معذرت پر یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۹۲)
آج تم پر کچھ ملامت نہیں (یعنی نہ تم پر کوئی عار ہے اور نہ کچھ تویخ ہے یعنی یہ اعلان آج سے میں ہمیشہ کے لیے کر رہا ہوں کبھی بھی تمہیں ماضی کے واقعات پر عار نہیں دلائی جائے گی) اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
بھائیوں کے لیے دعاء کرکے ان کے دل کو مزید تسلی دی کہ میں نے تو مکمل دل سے معاف کردیا ہے اور دعا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
یوسف علیہ السلام کے بھائی جب بہت زیادہ نادم ہو رہے تھے اور عرض کر رہے تھے کہ تم تو ہمیں صبح و شام اپنے دستر خوان پر بٹھاکر کھانا کھلاتے رہے لیکن ہم نے آپ سے جو کار گزاریاں کیں ہمیں تو ان سے بہت بڑی ندامت ہو رہی ہے، تو آپ نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: میرے بھائیو! تم نادم کیوں ہوتے ہو؟ مجھے تو تمہارے آنے سے بہت بڑی خوشی ہوئی ہے؛ کیونکہ میں مصر کا حکمران بھی بن گیا ہوں اور مصری لوگ میرے غلام بن کر آزاد ہوئے، لیکن پھر بھی ان کے ذہنوں میں یہ بات ضرور ہوگی کہ بیس درہم کا خریدا ہوا غلام مصر کا حاکم بن گیا ہے، لیکن آج ان کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ تم میرے بھائی ہو، میں ابراہیم علیہ السلام کا پرپوتا ہوں، کوئی غلام نہیں تھا۔ تقدیر اور رب کی طرف سے آزمائش کی وجہ سے غلامیت سے متصرف ہوا، آج تمہارے آنے اور میرے ظاہر کرنے سے سب لوگوں کی نظر میں مجھے عظمت ملی ہے اور میری شرافت اور خاندان نبوت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے میرا بول بالا ہوا۔ (ماخوذ از کبیر)
فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن کعبہ شریف کے دروازہ پر کھڑے ہوکر ان قریش کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا جنہوں نے صحابہ کرام پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے تھے بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء رسانیوں میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی۔
’’ماترونی فاعلابکم‘‘ تمہارا میرے تعلق کیا خیال ہے؟ کہ میں آج تمہارے ساتھ کیسا سلوک کروں گا؟
تو سب قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:
یَظُنُّ خَیْرًا اَخّ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ
’’ہم آپ کے متعلق بھللائی کا گمان ہی کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں‘‘۔
یعنی ہمارے خاندان میں آپ کی رحمت اور آپ کا کرم مشہور و معروف ہے آپ تو موروثی طور پر ہی کریم چلے آ رہے ہیں ہمیں امید ہے کہ آپ کبھی بھی ہم سے انتقام نہیں لیں گے۔
’’قریش‘‘ کی یہ بات سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج میں تمہارے لیے وہی اعلان کر رہا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے کیا تھا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم
آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ابو سفیان رضی اللہ عنہ ایمان لانے کی غرض سے آئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا تو یہ تلاوت کرنا:
لا تثریب علیکم الیوم تو انہوں نے ایسا ہی کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غَفَرَ اللہ لَکَ وَلِمَنْ عَلَّمَکَ‘‘
اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے اور اس کی بھی جس نے تمہیں سکھائے۔ (کبیر ج۱۸ ص۲۰۶)
مصر سے قمیص کی روانگی اور یعقوب علیہ السلام کو خوشبو آنا:
اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ ھٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا وَاْتُوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْمَعِیْنَ، وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْھُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَا اَنْ تُفَنِّدُوْنِ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۹۳، ۹۴)
(یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ میری قمیص لے جاؤ اسے میرے باپ کے منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ۔ جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو پاتا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سیدھی سوچ سے ہٹ گیا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو کیسے پتہ چلا؟ کہ قمیص کو آنکھوں پر ڈالنے سے باپ کی بینائی واپس آجائے گی؟ ’’بوحی من اللہ تعالی ولولا الوحی لما عرف ذالک‘‘ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے معلوم ہوا اگر وحی نہ ہوتی تو آپ کو اس کا پتہ نہ چلتا؛ کیونکہ عقل میں آنی والی بات ہی نہیں۔
وہ قمیص کون سی تھی؟ یہ عام قمیص تھی جو آپ نے زیب تن کر رکھی تھی یا کہ وہ قمیص تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پہنائی گئی تھی اور جنت سے لائی گئی تھی، بعد میں وہ حضرت اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچ گئی، یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجتے وقت آپ کے گلے میں بطور تعویذ ڈالی تھی ، اب جبرائیل امین نے آکر آپ کو فرمایا کہ یہ قمیص اپنےو الد کی طرف بھیج دو تاکہ انہیں اس کے ذریعے نظر واپس مل جائے۔ (تفسیر ابی السعود ج۴ ص۳۰۵)
یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو کہا کہ تم گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ! اس وقت یعقوب علیہ السلام کے گھر کے افراد جن میں مرد عورتیں بچے یعنی آپ کی اولاد یا اولاد کی اولاد وغیرہ بہتر (۷۲) سے چھیانوے (۹۶) تک تھے۔ (مختلف اقوال ملتے ہیں) یہ تعداد بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ جب یہ بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نکلے تو صرف جوان مردوں کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ بوڑھے مرد عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔ (روح المعانی)
جب مصر سے قمیص کو یعقوب علیہ السلام کے گھر لانے کے لیے نکالا گیا تو یعقوب علیہ السلام نے اس کی خوشبو سونگھ لی۔ آپ نے بیٹوں کے بغیر دوسرے اہل خانہ کو کہا مجھے یوسف علیہ السلام کی خوشبو آ رہی ہے اگر تم میری رائے کو ضعیف نہ سمجھو۔
’’ولم یکن ھذا القول مع اولاد لانھم کانو غائبین‘‘ (کبیر ج۱۸، ص۲۰۷)
حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ گفتگو بیٹوں کے ساتھ نہ تھی کیونکہ وہ موجود نہ تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اتنی دور سے خوشبو کو کیسے سونگھ لیا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعید نہیں۔ اور خصوصاً جب آپ کو قمیص سے اٹھنے والی جنت کی خوشبو آئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خوشبو اس جنتی قمیص کے بغیر کسی اور کی نہیں ہوسکتی۔ (ماخوذ از روح المعانی ج۶ حصہ دوم ص۵۳)
تو اہل خانہ نے کہا:
قَالُوْا تَاللہ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ، فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰہُ عَلٰی وَجْھِہ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہ مَالَا تَعْلَمُوْنَ
انہوں نے کہا: خدا کی قسم آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی میں ہیں، پھر جب خوشی سنانے والا آیا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالی تو آپ علیہ السلام کی آنکھیں پھر آئیں، تو آپ علیہ السلام نے کہا: میں نہیں کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی طرف سے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حاضرین نے جو یہ کہا تھا:
(اِنَّکَ لَفِیْ ضَلَالِکَ الْقَدِیْم ) اس کا معنی یہ ہے:
’’انک لفی حبک القدیم لا تنساہ ولا تذھل عنہ‘‘
تم تو ابھی یوسف کی پرانی محبت میں ہی وارفتہ ہو، آپ ان کو بھی بھول نہیں سکتے اور نہ ہی آپ کے دل سے نکل سکتے ہیں، (حالانکہ وہ کب کے مرچکے ہیں۔)
قمیص لانے والا اور خوشخبری دینے والا آپ کا بیٹا یہودا تھا۔ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہودا نے اپنے بھائیوں کو کہا:
’’قد علمتم انی اذھبت الی ابی بقمیص الترحۃ قد عونی اذھب الیہ بقمیص الفرحۃ فترکوہ‘‘ (روح المعانی)
تمہیں معلوم ہے کہ بے شک میں ہی اپنے باپ کے پاس غم دلانے والی قمیص لے کر گ یا تھا (یعنی آپ کو کنوئیں میں ڈال کر خون آلودہ قمیص میں نے ہی پیش کی تھی) اس لیے اب تم تمام مجھے اجازت دو کہ خوش کرنے والی قمیص بھی میں ہی لےکر جاؤں، سب بھائیوں نے ان کو اجازت دے دی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس قمیص لانے والے نے آپ کی آنکھوں پر قمیص کو ڈال دیا یا آپ علیہ السلام کو قمیص دے دی گئی اور آپ نے خود ہی قمیص کو اپنی آنکھوں پر لگایا:
’’قد جرت العادۃ انہ متی وجد الانسان شیا یعتقد فیہ البرکۃ مسح بہ وجھہ‘‘
انسانی فطرت کی یہ عادت جاری ہے کہ جب کسی چیز میں اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اس میں برکت پائی جاتی ہے تو وہ اسے اپنے چہرے پر ملتا ہے۔ (روح المعانی ج۷ حصہ دوم ص۵۴)
قمیص کو آنکھوں پر لگانے سے بینائی واپس اپنی اصلی حالت پر آگئی آپ نے خوشخبری لانے والے شخص سے پوچھا تم نے یوسف (علیہ السلام) کو کیسے حال میں چھوڑا ہے؟ تو اس نے کہا وہ تو مصر کے بادشاہ ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’ما اصنع بالملک؟ علی ای دین ترکتہ؟ قال علی الاسلام قال الان تمت النعمۃ‘‘ (روح المعانی)
مجھے بادشاہت سے کیا غرض؟ یہ بتاؤ تم نے اسے کس دین پر چھوڑا؟ تو اس نے کہا اسلام پر تو آپ نے فرمایا کہ اب نعمت کی تکمیل ہوئی کہ خوشخبری کا مل حاصل ہوگئی۔
اب آپ نے تمام اہل خانہ کو اور آنے والے تمام بیٹوں کو کہا:
’’الم اقل لکم حین ارسلتکم الی مصر وامرتکم بالتحسس ونھیتکم عن الیاس من روح اللہ انی اعلم من اللہ مالا تعلمون من حیاۃ یوسف علیہ السلام‘‘ (روح المعانی ج۷ حصہ دوم ص۵۵)
جب میں نے تمہیں مصر میں بھیجا تھا اور تمہیں حکم دیا تھا کہ یوسف کو تلاش کرو، اور میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونے سے منع کیا تھا، تو میں نے اس وقت تمہیں کیا نہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ یعنی مجھے یہ معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہے۔
یہ بھی خیال کریں کہ بنیامین کے متعلق معلوم تھا کہ وہ مصر میں ہے تو پھر یہ کہنا کہ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اس میں بہت واضح اشارہ تھا کہ دونوں ایک جگہ ہی ہیں۔
یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کا آپ سے معافی طلب کرنا:
قَالُوْا یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیْنَ قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
(آپ کے بیٹوں نے) کہا اے ہمارے باپ ہمارے گناہوں کی معافی مانگیے! بے شک ہم خطاوار ہیں، آپ علیہ السلام نے کہا: جلدی میں تمہاری بخشش اپنے رب سے چاہوں گا، بے شک وہی بخشنے والا ہے۔
بیٹوں نے ’’اے ہمارے باپ‘‘ کہہ کر آپ علیہ السلام سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کی درخواست کی کہ آپ ہمارے باپ ہیں، شفیق ہیں، ہم خطاوار ہیں آپ درگزر کرتے ہوئے ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے ہماری غلطیوں کی معافی طلب کریں۔ اگر آپ نے ہمارے لیے دعا نہ کی تو ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آکر ہلاک ہوجائیں گے۔ آپ اگر رحم نہیں کریں گے تو ہم پر اور کون رحم کرے گا؟ آپ علیہ السلام نے وعدہ فرمایا کہ میں جلدی ہی تمہاری بخشش اپنے رب سے طلب کروں گا اور ہمیشہ طلب کرتا رہوں گا اسی وقت بخشش طلب نہیں فرمائی کہ آپ سحر کے وقت کے منتظر تھے کہ اس وقت دعا جلدی قبول ہوتی ہے یا اس کی وجہ یہ تھی:
انہ اخر الی لیلۃ الجمعۃ
بے شک آپ نے جمعہ کی رات تک مؤخر کیا تھا کہ وہ وقت زیادہ قبولیت کا ہوتا ہے۔
اس سے ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو جمعرات کی شام یعنی جمعہ کی رات اپنے فوت شدہ حضرات کے لیے دعا مغفرت کرنے والوں کو ’’بدعت کا مرتکب‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کاش ان جہلاء کو یہ پتہ چل جاتا کہ جمعہ کی رات دعا کی قبولیت کا زیادہ یقین ہونا پہلے انبیائے کرام سے آ رہا ہے۔ (از روح المعانی بزیادۃ)
یعقوب علیہ السلام اور آپ کے خاندان کی مصر میں آمد:
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللہ اٰمِنِیْنَ وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا وَقَالَ یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا وَقَدْ اَحْسَنَ بِیْٓ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَجَآءَ بِکُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِاَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اِخْوَتِیْ اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُ اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (پ۱۳ سورۃ یوسف۹۹، ۱۰۰)
پھر جب وہ سب یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ۔ اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب اس کے لیے سجدے میں گرے۔ اور یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے، بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی۔ بے شک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے۔ بے شک وہی علم و حکمت والا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنےو الد ماجد کو ان کے اہل و اولاد کے بلانے کے لیے اپنے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا، حضرت یعقوب علیہ السلام نے مصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہل کو جمع کیا، مشہور قول کے مطابق بہتر یا تہتر مرد اور عورتوں کی تعداد تھی۔
حضرت یعقوب علیہ السلام مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکری اور بہت سے مصری سواروں کو ہمراہ لے کر آپ اپنے والد مکرم کے استقبال کے لیے صدہا ریشمی پھریرے اڑاتے ہوئے قطاریں باندھے ہوئے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے یہودا کا سہارا لیے تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ کی نظر لشکر پر پڑی اور آپ نے دیکھا کہ بڑے زرق برق سواروں سے صحرا پُر ہو رہا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے یہودا کیا یہ فرعون مصر ہے (مصر کے بادشاہ کا لقب فرعون تھا) جس کا لشکر اس شان و شوکت سے آرہا ہے؟ عرض کیا نہیں یہ تو آپ کے فرزند یوسف علیہ السلام آپ کے استقبال کے لیے آ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یوسف علیہ السلام اس وقت ’’عزیز مصر‘‘ یعنی وزیر اعظم تھے۔ مفسرین کرام نے آپ کے لیے لفظ ’’ملک‘‘ استعمال کیا ہے جس کا معنی بادشاہ ہے، لیکن فرق اس طرح کرلیا جائے آپ بادشاہ تھے اور ولید بن ریان بادشاہ اعظم تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یعقوب علیہ ا لسلام کو متعجب دیکھ کر عرض کیا: ہوا کی طرف نظر فرمائیے! آپ کے سرور میں شوکت لیے ملائکہ حاضر ہوئے ہیں، جو مدتوں آپ کے غم کے سبب روتے رہے ہیں۔ ملائکہ کی تسبیح سے اور گھوڑوں کی ہنہنانے سے عجیب کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ یہ محرم کی دسویں تاریخ تھی۔ جب دونوں حضرات علیہم السلام ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا آپ توقف کیجیے! والد مکرم کو پہلے سلام کرنے کا موقع دیں؛ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
’’السلام علیک یا مذھب الاحزان‘‘
اے غم و اندوہ کے دور کرنے والے تم پر سلام۔
یعقوب علیہ السلام کے پہلے سلام کرنے میں حکمت یہ تھی کہ واضح ہوجائے:
’’ان یعقوب اکرم علی اللہ تعالٰی منہ‘‘
کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور بنسبت حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ مکرم ہیں۔
ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تو خوشی کا یہ عالم تھا’’فاعتقہ وقبلہ‘‘کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو گلے سے لگایا اور ان کا بوسہ لیا۔ (کبیر، روح المعانی، خزائن العرفان)
فائدہ:
’’معانقہ‘‘ خوشی کے موقع پر گلے لگاکر ملنا اور اپنے عزیز کا بوسلہ لینا سنت انبیاء ہے، عید کے موقع پر گلے لگاکر ملنے کو ’’بدعت و گمراہی‘‘ سے تعبیر کرنے والے دین سے بے خبر ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں ضوابط بیان ہیں، جب کسی ایک موقع پر خوشی کی حالت میں معانقہ جائز ہونا ثابت ہوجائے تو تمام خوشی کے مواقع میں جواز خود ثابت ہوجائے گا۔
حضرت اسید بن خضیر سے مروی ہے کہ ایک شخص انصار سے تھے جو لوگوں سے کلام کر رہے تھے، وہ مزاح کرتے تھے اور لوگوں کو ہنسا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھڑی سے ان کے پہلو پر ضرب لگائی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی از روئے مزاح ہی انہیں چھڑی ماری) انہوں نے عرض کیا آپ مجھے قصاص لینے کے قدرت دیں تاکہ میں آپ سے قصاص لے سکوں حضورﷺ نے اجازت فرمادی تو انہوں نے عرض کیا، آپ کے جسم پر قمیص ہے اور میرے جسم پرقمیص نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص کو اٹھا دیا:
’’فاحتضنہ وجعل یقبل کشحہ فقال انما اردت ھذا یا رسول اللہ‘‘
انہوں نے معانقہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بغلوں میں لے لیا اور آپ کے پہلو کو چومنے لگے اور عرض کرنے لگے میرا مقصد یہی تھا یا رسول اللہ۔ (ابوداؤد، مشکوٰۃ باب المعانقۃ والمصافحۃ)
انصاری صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح سے مارنے پر خوش ہوکر آپ کو گلے لگایا، بغلوں میں لیا اور آپ کے پہلو کو چوما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی وک م نع نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے ناجائز کیا ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ ضرور صحابی کو منع فرماتے۔ آپ کے منع نہ کرنے سے خود بخود جواز ثابت ہوگیا۔
’’عن الشعبی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تلقی جعفر بن ابی طالب فالتزمہ وقبل ما بین عینیہ‘‘ (ابوداؤد، بیہقی، مشکوٰۃ باب المعانقۃ)
حضرت شعبی سے مروی ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعفر بن ابی طالب کو ملے تو انہیں گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا۔
جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے انہیں گلے لگایا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل امت کے حق میں استحباب سے خالی نہیں خیال رہے کہ دوسری حدیث میں راوی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ خود ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ما ادری انا بفتح خیبر افرح ام بقدوم جعفر‘‘
مجھے یہ نہیں معلوم کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبر کے فتح ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوش تھے یا جعفر کے آنے کی وجہ سے؟
اس پر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’فکان کل واحد لاستقلال کونہ سببا للفرح لا یجتمع مع غیرہ من اسباب الفرح‘‘
ایک مستقل طور پر خوشی کا سبب تھا خوشی کا ایک سبب دوسرے سبب سے جمع نہیں ہوتا۔
اس سے واضح ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے ملاقات پر معانقہ اور چومنا اور ان کی آمد پر خوشی تھی۔
حضرت زارع رضی اللہ عنہ وفد عبدالقیس میں تھے، یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ (طیبہ) میں آئے تو ہم جلدی جلدی اپنی سواریوں سے اترنے لگے۔
’’فنقبل ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ‘‘ (ابوداؤد، مشکوٰۃ باب المصافحۃ والمعانقۃ)
پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو چومنے لگے۔
اس حدیث پاک سے بھی واضح ہورہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا لہٰذا بزرگ ہستی کے ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہیں اگر جائز نہ ہوتا تو آپ پر روکنا واجب ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل کے مشابہ ہو، اہل خیر کی طریقہ میں، یعنی سکینۃ و وقار سے چلنے میں آپ سب سے بڑھ کر حضور صلی ا للہ علیہ وسلم کے مشابہ تھیں، اور تمام امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حسن سیرت آپ کو حاصل تھی اور آپ کو حسن و اخلاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ حاصل تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کلام کرنے اور بات چیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھیں۔ حضرت فاطمہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور علیہ السلام ان کے لیے کھڑے ہوجاتے ’’فاخذ بیدھا فقبلھا‘‘ اور ان کے ہاتھ کو پکڑ کر ان کو چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے لیے کھڑی ہوجاتیں۔ ’’فاخذت بیدہ فقبلتہ‘‘ اور آپ کے ہاتھ کو پکر کر آپ کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (ابوداؤد، مشکوۃ باب المصافحۃ والمعانقۃ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ عزیزہ کے طور پر ہوتا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لینا بزرگ سمجھ کر ہوتا۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ میں تحریر فرمایا:
’’فقبلھا ای بین عینھما او رأسھا‘‘
اس حدیث پاک سے واضح ہوا کہ کسی عزیز یا عزیزہ کا بوسہ لینا جائز ہے، اسی طرح اپنے بزرگ باپ کا بوسہ لینا بھی جائز ہے۔
حضرات براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ داخل ہوا، (جب وہ غزوہ سے لوٹ کر) پہلے پہلے مدینہ طیبہ میں پہنچے آپ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوئی تھیں، ان کو بخار تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا:
’’کیف انت یا بنیۃ وقبل خدھا‘‘
اے میری پیاری بیٹی تمہارا کیا حال ہے اور آپ نے اپنی بیٹی کے رخسار کو چوما۔
آپ رضی اللہ عنہ کا بیٹی کے رخساروں کو چومنا اس وجہ سے تھا۔
’’للمرحمۃ والمودۃ او مراعاۃ للسنۃ‘‘ (مرقاۃ ج۹ ص۸۰)
کہ آپ نے بطور رحمت اور محبت کے چوما یا سنت سمجھ کر چوما تاکہ سنت پر عمل ہوجائے۔
حضرت ایوب بن بشیر غنزہ قبیلہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تھے تو آپ تمہارے ساتھ مصافحہ کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! میں نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ مصافحہ ضرور کیا ہے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف پیغام بھیجا، میں گھر نہیں تھا جب میں گھر آیا تو مجھے خبر دی گئی تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے۔
’’فالترمنی فکانت تلک اجوہ واجود‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے گلے لگایا، (ابوذر کہتے ہیں) یہ گلے لگانا زیادہ اچھا ہے۔
یعنی مصافحہ یا ہر چیز سے زیادہ اچھا ہے کیونکہ اس میں اظہار محبت راحت و سکون زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے:
’’قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحسن بن علی‘‘
رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو چوما، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس موجود تھے۔ اقرع نے کہا: میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:
من لا یرحم لا یرحم (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ باب المعانقۃ والمصافحۃ)
جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
یعنی جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتا یعنی لوگوں پر رحم کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اپنے آپ کو مستحق بنانا ہے۔
اسی حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا:
’’قال النووی تقبیلا لرجل کد ولدہ الصغیر واجب وکذا غیر خدہ من اطرافہ ونحوھاعلی وجہ الشفقۃ والرحمۃ واللطف ومحبۃ القرابۃ سنۃ سواء کان الولد ذکرا او انثی وکذا قبلۃ ولد صدیقۃ وغیرہ من صغار الاطفال علی ھذا الوجہ واما التقبیل بالشھوۃ فحرام بالاتفاق وسواء کان فی ذالک الوالد وغیرہ‘‘
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اپنے چھوٹے بچے کے رخساروں کو چومنا ’’واجب‘‘ ہے اسی طرح رخساروں کے علاوہ جسم کے اور حصوں یعنی ہاتھ سر پیشانی کو بھی چومنا شفقت رحمت مہربانی اور قرابت کی محبت کی وجہ سے ’’سنت‘‘ ہے۔ خواہ اولاد مذکر ہو یا مونث۔ اسی طرح اپنے دوست اور تعلق دار کے چھوٹے بچوں کے رخساروں یا دوسرے اعضاء کو بھی چومنے کا یہی حکم ہے۔ البتہ شہوت کے طور پر چومنا حرام ہے۔ اس میں والد اور دوسرے لوگوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس میں اہل علم کا اتفاق ہے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے ’’وجوب‘‘ کے قول پر اعتراض کیا گیا ہے کہ وجوب صرف اس وقت ثابت ہوسکتا ہے جب حدیث صریح یا قیاس صحیح سے ثابت ہو۔ (مرقاۃ ج۹ ص۷۵)
تاہم وجوب نہ بھی ثابت ہو تو سنت و استحباب تو یقیناً ثابت ہے؛ کیونکہ رخساروں کے بغیر اطراف کو شفقت کے طور پر چومنا سنت ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
’’قال الننوی تقبیل ید الغیر ان کان لعلمہ وصیانتہ وزھدہ ودیانتہ ونحو ذالک من الامور الدینیۃ لم یکرہ بل تستحب وان کان لغناہ او جاھہ فی دنیاہ کرہ وقیل حرام وقیل الحرام ما کان علی وجہ التملق والتعظیم واما المأذون فیہ فعند التودیع والقدوم من السفر وطول العھد بالصاحب وشدۃ الحب فی اللہ مع امن النفس‘‘ (مرقاۃ المفاتیح ج۹ ص۷۶)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کسی کے ہاتھوں کو اس کے علم زہد و تقویٰ دین داری اور ہر طرح کے دینی کاموں پر عمل کی وجہ سے چوما جائے تو یہ مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، اگر کسی کے ہاتھوں کو اس لیے چوما جاتا ہو کہ یہ غنی ہے یا دنیاوی طور پر اس کو جاہ و جلال حاصل ہے تو یہ مکروہ ہے بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے حرام کہا ہے۔ البتہ بعض حضرات نے دنیا دار کے ہاتھ چومنا حرام اس وقت کہا ہے جب چاپلوسی کے ارادہ سے چومے یا اس کی تعظیم کے لیے چومے، اگر ایسی صورت نہ ہو تو جائز ہے۔ کسی کو الوداع کرتے وقت یا سفر سے واپس آتے وقت یا کسی دوست سے دیر سے ملاقات ہوتے وقت یا کسی شخص سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت ہو تو اس کے ہاتھ چومنے کی اجازت ہے ان تمام صورتوں میں شرط یہ ہے کہ نفس امن میں ہو شہوت کا ارادہ نہ ہو۔
’’قال النووی وینبغی ان یحترز عن مصافحۃ الامرد الحسن الوجہ فان النظر الیہ حرام وقال اصحابنا کل من حرم النظر الیہ حرم مسہ بل مسہ اشد فانہ یحل النظر الی الاجنبیۃ اذا اراد ان یتزوج ولا یجوز مسھا‘‘ (از مقاۃ ج۹ ص۷۴)
علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شہوت کی غرض سے ایسے لڑکے جس کی داڑھی نہ ہو اور خوبصورت چہرہ والا ہو اس سے مصافحہ کرنے سے اجتناب کیا جائے، شہوت کی غرض سے اسے دیکھنا بھی حرام ہے، ہمارے اصحاب نے کہا ہے: جسے دیکھنا حرام ہے اسے چھونا بھی حرام ہے، بلکہ چھونا اور زیادہ جرم ہے؛ کیونکہ کسی اجنبی عورت سے اگر نکاح کا ارادہ ہو تو اسے دیکھنا جائز ہے لیکن ہاتھ لگانا حرام ہے۔
یوسف علیہ السلام کے خواب کا پورا ہونا:
آپ نے بچپن میں جو خواب دیکھا کہ مجھے چاند سورج اور گیارہ ستارے سجدہ کر رہے ہیں وہ خواب آپ کا پورا ہوگیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام جب اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر میں آئے تو یوسف علیہ السلام نے انہیں اپنے تخت پر جلوہ گر کیا تو یوسف علیہ السلام کو آپ کے ماں باپ اور گیارہ بھائیوں نے سجدہ کیا اسی وجہ سے یوسف علیہ السلام نے کہا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے۔ خیال رہے کہ بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے:
’’ان اللہ تعالی احیاھا وانشرھا من قبرھا حتی سجدت لہ تحقیقا لرؤیۃ یوسف علیہ السلام‘‘
بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کرکے قبر سے نکالا تاکہ یہ بھی یوسف کو سجدہ کرلیں کہ ان کا خواب سچا ہوجائے۔(کبیر ج۱۸، ص۲۱)
اعتراض:
٭ حضرت یوسف علیہ السلام اگرچہ نبی ہیں لیکن یعقوب علیہ السلام ان سے زیادہ جلیل القدر ہیں۔
٭ اور یوسف علیہ السلام کے دادا حضرت اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام کے دادا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام زیادہ شان والے ہیں۔
٭ اور یعقوب علیہ السلام باپ ہیں جبکہ یوسف علیہ السلام بیٹے ہیں۔
ان وجوہ کے پیش نظر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بیٹا باپ کو سجدہ کرے، باپ کا بیٹے کو سجدہ کرنے کا کیا مطلب؟
جواب:
حضرت عطاء کی روایت سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول بیان کیا گیا ہے کہ آیت کریمہ کا معنی یہ ہے:
’’خر والہ ای لا جل وجدانہ سبحانہ تعالی‘‘
یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو سب نے سجدہ کیا،
یعنی یہ سجدہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کو تھا، رب کا شکریہ ادا کیا گیا کہ یوسف علیہ السلام مل گئے ہیں کیونکہ یہ سجدہ تخت پر بیٹھنے کے بعد کیا گیا۔ اگر یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا جاتا تو تخت پر بیٹھنے سے پہلے سجدہ کیا جاتا، یا یہ کہا جائے گا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے سجدہ تو یوسف علیہ السلام کو ہی کیا ہو لیکن اس لیے کہ ہوسکتا ہے بھائی سجدہ نہ کریں، آپ کے سجدہ کرنے پر سب بھائیوں نے سجدہ کرلیا۔ یا یہ ہے کہ سجدہ کرنے میں یوسف علیہ السلام تو رضا مند نہیں تھے کہ مجھے میرے باپ سجدہ کریں لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اس کے حکم میں جو حکمتیں ہوتی ہیں وہ خود ہی انہیں جانتا ہے، جیسے اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو اس میں جو حکمتیں پائی جاتی ہیں حقیقت میں وہ خود ہی جانتا ہے۔ (تفسیر کبیر)
یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کا کتنا خیال رکھا:
یوسف علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ بھائیوں نے مجھ پر ظلم کیا تھا، زیادتیاں کی تھیں، بلکہ یہ کہا میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان جو ناچاقی ہوئی وہ شیطان کی طرف سے پیدا کردہ اختلافات تھے، دل میں ذرا بھر کدورت نہیں رکھی، بھائیوں سے کوئی اختلاف نہ رکھا بلکہ بھائیوں سے ملاقات محبت و الفت کو اللہ تعالیٰ کا احسان قرار دیا۔
سبحان اللہ یہ عظمت کسی نبی کو ہی حاصل ہوسکتی ہے، ہمارے جیسا گناہگار انسان اس قسم کی فراخدلی اور درگزر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
یوسف علیہ السلام نے اپنے والد مکرم کو شاہی مقامات دکھائے:
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد مکرم کا ہاتھ پکڑا اور تمام خزانوں کے مقامات دکھائے سونے کے خزانے چاندی کے خزانے، زیورات کے خزانے، کپڑوں کے خزانے اور ہتھیاروں کے مقامات دکھائے۔ آخر میں جب آپ نے اپنے باپ کو کاغذات والا مقام دکھایا تو یعقوب علیہ السلام نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! اتنے کاغذات تمہارے پاس موجود تھے تم نے اتنے فاصلہ سے مجھے خط بھی نہیں لکھا: آپ علیہ السلام نے عرض کیا: مجھے جبرائیل علیہ السلام نے منع کیا تھا۔ یعقوب علیہ السلام نے کہا اس سے پوچھیے کہ اس نے تمہیں کیوں منع کیا تھا؟ یوسف علیہ السلام نے کہا: آپ کا تعلق جبرائیل سے زیادہ ہے آپ خود ہی پوچھ لیجیے! جب آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم نے کیوں منع کیا تھا؟ تو جبرائیل نے عرض کیا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا:
فَاَخَافُ اَنْ یَّاکُلَہُ الذِّئْبُ
مجھے خوف ہے اسے بھیڑیا کھاجائے گا۔(تفسیر کبیر)
یعنی آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ہی آپ کے بیٹوں نے استعمال کیا اور سب سے بڑی وجہ تو امتحان تھا، چونکہ انبیائے کرام کی شان بہت بلند و بالا ہوتی ہے اس لیے ان پر امتحان بھی اسی طرح کے بہت بڑے آتے ہیں جیسے ان کی شان ہوتی ہے۔
یعقوب علیہ السلام کی وفات اور قبر:
مصر میں جاکر یعقوب علیہ السلام چوبیس سال مقیم رہے، جب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ مجھے شام میں اپنے باپ حضرت اسحاق علیہ السلام کے پہلو میں دفن کرنا، آپ پر جب وفات طاری ہوئی تو حضرت یوسف علیہ السلام کود اپنے والد مکرم کا جسم ا طہر لے کر شام میں گئے اور اپنے دادا اسحاق علیہ السلام کے پہلو میں اپنے باپ یعقوب علیہ السلام کو دفن کرکے واپس مصر میں آگئے۔ (تفسیر کبیر)
خیال رہے کہ یعقوب علیہ السلام کے ایک بھائی کا نام عیص تھا یہ دونوں بھائی ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے اور اسی دن ان کی بھی وفات ہوئی، دونوں بھائیوں کی عمریں ایک سو پینتالیس سال تھیں۔ دونوں ہی اپنے باپ اسحاق علیہ السلام کے پہلو میں ایک ساتھ دفن کیے گئے، یعقوب علیہ السلام کا تابوت خاص قسم کی لکڑی کا بنوایا گیا تھا جس میں مصر سے شام آپ کو لے کر گئے تھے۔ (خزائن العرفان)
یوسف علیہ السلام کی وفات:
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد تئیس سال آپ ظاہری حیات میں رہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ آخرت کی طرف زیادہ متوجہ رہنے لگے دائمی ملک کی طرف جانے کا اشتیاق زیادہ ہونے لگا رب کے حضور عرض کیا:
رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ
اے میرے رب تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا؟اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو تیرے قرب خاص کے لائق ہیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے موت کی تمنا کی حالانکہ موت کی تمنا جائز نہیں تو اس کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ جب آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا کہ اب آپ کے جانے کا وقت قریب آچکا ہے تو آپ علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ ’’اے اللہ مجھے اپنے خاص قرب والے لوگوں کے ساتھ ملا‘‘ اس دعا کا تعلق موت کے بعد اللہ تعالیٰ کے مقربین سے لاحق ہونے کے ساتھ ہے، در حقیقت موت کی دعا نہیں۔ (صاوی علی الجلالین)
یوسف علیہ السلام کی قبر:
آپ کی وفات کے بعد مصری لوگوں میں تنازع ہوگیا ہر ایک کی خواہش تھی کہ آپ ہمارے محلہ میں دفن کیے جائیں تاکہ وہ آپ سے برکت حاصل کرسکیں۔
’’فطلب اھل کل محلۃ ان یدفن فی محلتھم رجاء برکتہ‘‘
قریب تھا کہ ان کے درمیان لڑائی بھڑک اٹھے، آخر کار کچھ لوگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ آپ کو سنگ مرمر کے صندوق میں بند کرکے دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ اس پانی سے تمام شہر والے ایک جیسے برکت حاصل کریں۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں پہلے آپ کو دریائے نیل کی دائیں جانب دفن کیا گیا تو اس طرف کا علاقہ سرسبز و شاداب رہنے لگا اور دوسری جانب خشک، پھر آپ کے صندوق کو نکال کر نیل کی بائیں جانب دفن کردیا گیا اب اس طرف خوشحالی کا دور آگیا اور دوسری جانب خشکی رہنے لگی۔ پھر آپ کو دریائے نیل کے درمیان دفن کیا گیا یہاں تک کہ دونوں جانبیں سرسبز و شاداب ہوگئیں۔ آپ کا جسم اطہر اسی طرح دریائے نیل کے درمیان میں رہا، چار سو سال بعد جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے روانگی اختیار کی تو آپ کے جسم اطہر کو بھی ساتھ لے گئے یہاں تک کہ شام میں اپنے آباء کے ساتھ دفن کردیا گیا۔ (از خطیب و مدارک)
سبحان اللہ ان لوگوں کے کیسے پاکیزہ عقیدے تھے؟ کہ انہیں معلوم تھا کہ نبی کی ظاہری حیات میں جس طرح نبی سے برکت حاصل کی جاتی ہے اسی طرح دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی اس سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کی قبر سے خوشحالی حاصل ہوتی رہی۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد:
آپ کی وفات کے وقت آپ کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ایک بیٹے کا نام’’افرائیم‘‘ اور دوسرے کا نام ’’میشا‘‘ تھا۔ افرائیم کے بیٹے کا نام ’’نون‘‘ اور نون کے بیٹے کا نام ’’یوشع‘‘ تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک زندہ رہے اور دریائی سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ یعنی خضر علیہ السلام کی ملاقات کے لیے جاتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ یوشع بن نون کو رکھا تھا۔ آپ علیہ السلام کی بیٹی کا نام ’’رحمۃ‘‘ تھا جو حضرت ایوب کے نکاح میں آئی تھیں۔
یوسف علیہ السلام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مصر کی حکومت بنی عمالقہ کے ہاتھ میں آگئی، موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک بنی اسرائیل ان کے زیر تسلط رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آکر انہیں نجات دلائی۔
یہ وہ غیبی خبریں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاء کیں اور ارشاد فرمایا:
ذَالِکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ (پ۱۳ سورۃ یوسف ۱۰۲)
یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔
ضد اور عناد نے لوگوں کو سمجھنے سے یکسر عاری کردیا ہے اللہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ یہ غیبی خبریں ہیں، جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں لیکن یار لوگوں نے کہا نہیں جو اللہ وحی کے ذریعے بتادے وہ غیب نہیں رہتا خدارا انصاف کریں کہ بات رب تعالیٰ کی مانیں یا اس کی مخلوق میں سے ضدی جہلاء کی مانیں۔ کسی ایک بڑے نے کہہ دیا کہ جب وحی آجائے تو وہ غیب نہیں رہتا تو اس کے چیلے بھی یہی راگ الاپنے لگے خود سوچنے اور سمجھنے کی تکلیف برداشت نہ کی کہ یہاں ہمارے بڑے صاحب سے غلطی ہوگئی ہے۔
(تذکرۃ الانبیاء)